تین دہشت گرد وزرائے اعظم (حصہ اول)
اشاعت کی تاریخ: 18th, February 2025 GMT
فلسطین میں ’’دہشت گردی کے جدِ امجد‘‘ کے گزشتہ تین سلسلے وار مضامین میں یہ بتانا مقصود تھا کہ فلسطین میں منظم ہتھیار بند سیاست کا آغاز عربوں نے نہیں صیہونیوں نے کیا تھا۔
ہم نے گزشتہ مضامین میں ہگانہ ، ارگون اور لیخی نامی تین دہشت گرد تنظیموں کا تذکرہ کیا۔جنھیں بعد ازاں اسرائیلی فوج کی باضابطہ شکل میں ڈھال دیا گیا۔آج یہ فوج اگر اپنے عسکری اجداد کے ڈی این اے کا حق ادا کر رہی تو حیرت کیوں۔آپ تو جانتے ہیں کہ اولاد ہی والدین کی وراثت آگے بڑھاتی ہے۔
بن گوریان سے بنجمن نیتن یاہو تک اسرائیل میں اب تک چودہ وزراِ اعظم آئے ہیں۔ان میں سے تین وزرائے اعظم بذاتِ خود دہشت گرد تھے۔ تینوں کا نظریاتی شجرہ صیہونی ترمیم پسند رہنما زیو جیوبٹنسکی سے جا ملتا ہے جو عربوں کی نسل کشی کے ایک بڑے وکیل تھے۔
پہلے سکہ بند دہشت گرد وزیرِ اعظم مینہم بیگن ہیں۔اسرائیل کی تشکیل سے قبل انیس سو تینتالیس تا اڑتالیس تک وہ مسلح ملیشیا ارگون کے سربراہ رہے۔ وارسا یونیورسٹی سے انیس سو تیس کی دہائی میں قانون کی تعلیم حاصل کی۔دوسری عالمی جنگ کے دوران بیگن پولینڈ اور لتھوینیا میں جرمنوں کے خلاف مزاحتمی تحریک میں سرگرم رہے۔
ستمبر انیس سو چالیس میں وہ اسٹالن کی خفیہ این کے وی ڈی کے ہتھے چڑھ گئے اور انھیں برطانوی ایجنٹ ہونے کے الزام میں آٹھ برس قید کی سزا سنا کے سائبیریا کے ایک لیبر کیمپ میں بھیج دیا گیا۔جب جون انیس سو اکتالیس میں نازی جرمنی نے سوویت یونین پر چڑھائی کی تو سوویت یونین نے پولش مزاحتمی تحریک کی سرپرستی شروع کر دی اور مینہم بیگن سمیت پولش قیدیوں کو رہا کر دیا گیا۔
بیگن فری پولش آرمی میں شامل ہو گئے اور مئی انیس سو بیالیس میں ان کا فوجی یونٹ براستہ ایران و عراق فلسطین پہنچا۔یہاں انھوں نے آرمی سے طویل رخصت لے لی اور ارگون ملیشیا میں شمولیت اختیار کی۔بیگن نے بہت تیزی سے ارگون کی بالائی قیادت تک کا سفر طے کیا۔ان کے والد ، والدہ اور بھائی کی موت نازی کنسنٹریشن کیمپوں میں ہوئی۔اس پس منظر کے ساتھ مینہم بیگن کی شخصی سخت گیری سمجھ میں آ سکتی ہے۔
جب انیس سو چھتیس تا انتالیس برطانیہ کی کھلی یہود نواز پالیسی کے خلاف عام عربوں نے بغاوت کی تو برطانیہ نے مسلح صیہونی آبادکاروں کی مدد سے مزاحمت کو کچل ضرور دیا مگر آیندہ ایسے کسی شدید عرب ردِ عمل سے بچنے کے لیے برطانیہ نے اپنی پالیسی میں تبدیلی کی اور یہودیوں کی آمد کا کوٹہ انتہائی محدود کر دیا۔اس کے ردِ عمل میں مسلح صیہونیوں نے برطانیہ کو نشانے پر رکھ لیا۔
مینہم بیگن کا نظریہ یہ تھا کہ یہودیوں کو آئرلینڈ کی مزاحمتی تحریک کی طرح ایک ہتھیار بند چھاپہ مار جنگ شروع کرنی چاہیے۔جب برطانیہ تنگ آ کر یہودی مزاحمت سے سختی برتے گا تو ان یہودیوں کے حق میں ہمدردی کی عالمی لہر ابھرے گی جو یورپ میں موت و حیات کی کشمکش میں ہیں اور جان بچانے کے لیے فلسطین آنا چاہ رہے ہیں۔
ایک دن برطانیہ زچ ہوکر بوریا بستر لپیٹے گا تو اس کے بعد عربوں سے نمٹنا کچھ مشکل نہ ہو گا۔لہٰذا جو صیہونی اس وقت مسلح جدوجہد کے بجائے سیاسی جدوجہد کے زریعے کسی حل کی امید رکھتے ہیں وہ دراصل احمق ہیں۔اور پھر سب نے دیکھا کہ مینہم بیگن کا تجزیہ حالات و واقعات نے درست ثابت کیا۔
ارگون ملیشیا کی مینہم بیگن کی سربراہی کے دور میں یروشلم میں امیگریشن اور انکم ٹیکس دفاتر پر حملے ، قاہرہ میں برطانوی نائب سفیر لارڈ میون کا قتل ، ایکر کی جیل پر حملہ کر کے چھبیس دہشت گردوں کو چھڑوانا ، برطانوی انتظامیہ کے مرکز کنگ ڈیوڈ ہوٹل کو جولائی انیس سو چھیالیس میں بارود سے اڑانا نمایاں وارداتیں ہیں۔کنگ ڈیوڈ ہوٹل کی تباہی سے نہ صرف تب تک کی صیہونی دہشت گردی اور دہشت گردوں کا ریکارڈ تلف ہو گیا بلکہ اکیانوے ہلاکتیں بھی ہوئیں۔بیگن کا ایک اور بڑا کارنامہ ارگون سے بھی زیادہ متشدد گروہ لیخی کے اشتراک اور سوشلسٹ صیہونی رہنما بن گوریان کی خاموش حمایت سے نو اپریل انیس سو اڑتالیس کے دن دیر یاسین گاؤں کے ڈھائی سو کے لگ بھگ عرب زن و مرد کا قتلِ عام تھا۔( اس کا تذکرہ گزشتہ مضامین میں تفصیلاً ہو چکا ہے )۔
مفرور مینہم بیگن کے سر پر برطانوی انتظامیہ نے دس ہزار پاؤنڈ کا انعام مقرر کر رکھا تھا۔انھوں نے انیس سو چوالیس کے بعد اگلے چار برس نام ، مقام اور بھیس بدل بدل کے کام کیا۔اسرائیل کی تشکیل کے بعد بھی ارگون نے اپنا مسلح تشخص برقرار رکھنے کی کوشش کی اور بن گوریان کی حکومت کے خلاف ہتھیار اٹھائے۔مگر بدلے حالات نے ارگون کو اسرائیلی فوج میں ضم ہونے پر مجبور کر دیا۔
بیگن نے چھاپہ مار زندگی ترک کر کے ہیروت (آزادی ) کے نام سے سیاسی جماعت قائم کی۔اس جماعت کا منشور اردن سے بحیرہ روم کے ساحل تک عظیم تر اسرائیل کا قیام تھا۔ ان کے دہشت گرد ماضی کے سبب برطانیہ میں داخلے پر انیس سو بہتر تک پابندی رہی۔انیس سو تہتر میں ہیروت پارٹی نے دائیں بازو کے لیخود اتحاد کا روپ دھارا۔
بن گوریان اور بیگن ایک دوسرے کو سخت ناپسند کرتے تھے۔جب بن گوریان نے انیس سو پچپن میں ہالوکاسٹ میں مرنے والے یہودیوں کے لیے بطور زرِ تلافی پانچ ارب جرمن مارک کی رقم قبول کرنے کا معاہدہ کیا تو مینہم بیگن نے کہا کہ بن گوریان نے ساٹھ لاکھ یہودیوں کی لاشوں کا سودا کر کے جرمنی کے گناہ دھو ڈالے۔اس معاہدے کے خلاف بیگن نے یروشلم میں ایک بہت بڑے پرتشدد جلوس کی قیادت کی۔
جب انیس سو اناسی میں بیگن نے بطور وزیرِ اعظم جمی کارٹر کی ثالثی میں مصر کے صدر انور سادات کے ساتھ کیمپ ڈیوڈ سجھوتے پر دستخط کے بعد جزیرہ نما سینا مصر کو واپس کر دیا اور اس کے عوض سادات کے ہمراہ نوبیل امن انعام وصول کیا تو مخالفین نے طعنہ دیا کہ اردن سے بحیرہ روم تک عظیم تر اسرائیل کے وکیل نے اپنا نظریہ اپنے ہی ہاتھوں قتل کر دیا۔مگر بیگن حکومت نے مقبوضہ غربِ اردن میں یہودی آبادکار بستیوں کی تعداد دوگنی کر کے اور روس سے مزید دس لاکھ یہودیوں کو اسرائیل منتقل کر کے اور انیس سو سڑسٹھ میں شام سے چھینی گئی گولان کی پہاڑیوں کو اسرائیل میں ضم کر کے سینائی کی مصر کو واپسی کی تلافی کر لی۔
لیخود پارٹی نے عہد کیا کہ سینائی کے بعد کوئی علاقہ بشمول غربِ اردن واپس نہیں کیا جائے گا۔اس پالیسی پر بیگن کے بعد آنے والے تمام وزرائے اعظم نے عمل کیا۔
امریکی دباؤ پر انیس سو بانوے میں دو ریاستی حل بظاہر تسلیم کر لیا گیا مگر جب پی ایل او نے اس معاہدے کی قیمت کے طور پر اسرائیل کے وجود کو تسلیم کر کے ہتھیار رکھ دیے تو دو ریاستی حل بھی عملاً دفن ہوتا چلا گیا۔
بیگن نے وزیرِ دفاع ایریل شیرون کے ساتھ مل کر ستمبر انیس سو بیاسی میں بیروت کے صابرہ و شتیلا کیمپوں میں تین ہزار فلسطینی پناہ گزینوں کا قتلِ عام بھی کیا۔ایک عدالتی کمیشن نے بیگن کو بلاواسطہ اور شیرون کو براہ راست ذمے دار ٹھہرایا۔دونوں نے استعفی دے دیا۔بیگن نے سیاست سے ریٹائرمنٹ کے بعد گوشہ نشینی اختیار کر لی اور اسی حالت میں نو مارچ انیس سو بانوے کو انتقال ہوا۔
بیگن کو ان کی وصیت کے مطابق ماؤنٹ ہرزل کے بجائے کوہِ زیتون کے قبرستان میں دفن کیا گیا۔وہیں پر ارگون کے دہشت گرد مائر فینسٹائین اور موشے برزانی بھی دفن ہیں جنھیں اسرائیل کے قیام سے قبل ایک برطانوی عدالت نے دہشت گردی کی پاداش میں سزاِ موت سنائی تھی۔ دونوں نے تختہ دار پر جھولنے کے بجائے خود کو دستی بموں سے اڑا لیا۔
بیگن انیس سو انچاس کی پہلی کنیسٹ سے لے کر انیس سو تراسی تک مسلسل پارلیمنٹ کے ممبر رہے۔دس اکتوبر انیس سو تراسی کو وزارتِ عظمی سے بیگن کے استعفی کے بعد ایک اور اشتہاری دہشت گرد نے کرسی سنبھالی۔اگلے مضمون میں اس کا احوال پیش ہو گا۔
(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیے bbcurdu.
ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: مینہم بیگن بن گوریان کے خلاف بیگن نے کے لیے کر دیا کے بعد
پڑھیں:
اسحاق ڈار کا دورہ کابل
پاکستان کے نائب وزیر اعظم اور وزیر خارجہ اسحاق ڈار نے کابل کا دورہ کیا ہے۔ پاکستان اور افغانستان کے تعلقات گزشتہ ایک سال سے ٹھیک نہیں تھے۔
پاکستان افغانستان سے ناراض تھا۔ افغانستان نے دہشت گردوں کو پناہ دی ہوئی ہے، جو پاکستان میں دہشت گردی کر رہے ہیں۔ افغانستان میں دہشت گرد تنظیموں کے ٹھکانے ہیں جو پاکستان میں دہشت گردی کر رہے ہیں۔ افغانستان کی طالبان حکومت پاکستان میں دہشت گردی کے خاتمے کے لیے تعاون نہیں کر رہی ہے۔ اس لیے پاکستان افغانستان سے ناراض تھا۔ اسی لیے دونوں ممالک کے درمیان اعلیٰ سطح کے رابطے بھی ختم تھے۔
اسی ناراضگی میں پاکستان نے پاک افغان بارڈرز پر نقل و حرکت محدود کرنے کے لیے کئی اقدامات کیے۔ پہلے آمد و رفت عام تھی اب ویزہ کے بغیر کوئی نہیں آجا سکتا۔ بات یہیں ختم نہیں ہوئی پاکستان نے افغانستان سے تجارت محدود کرنے کے لیے بھی اقدامات کیے۔ پاکستان کا موقف تھا کہ دہشت گردی کے خاتمے میں جب تک تعاون نہیں کیا جائے گا تجارت اور معاشی تعلقات کیسے ہو سکتے ہیں۔اسی لیے دونوں ممالک کا تجارتی حجم بھی بہت کم ہوگیا۔
پاکستان نے اپنے ہاں مقیم افغانوں کو واپس بھیجنا شروع کیا۔کئی دہائیوں سے مقیم افغان مہاجرین کو واپس بھیجا جا رہا ہے۔ کہتے ہیں تالی دونوں ہاتھوں سے بجتی ہے۔ پاکستان بھی جو چیزیں افغانستان سے لیتا ہے طالبان حکومت نے اس پر ٹیرف لگا دیا تھا۔ اس میں کوئلہ سر فہرست ہے۔ پاکستان نے ٹرانزٹ ٹریڈ پر قدغن لگائی۔سادہ بات بارڈر بھی بند تجارت بھی بند۔ دونوں ممالک ایک دوسرے سے ناراض۔
کچھ غیر مصدقہ خبریں ایسی بھی ہیں کہ بڑھتی ہوئی دہشت گردی کے تناظر میں پاکستان نے افغانستان میں دہشت گردوں کے ٹھکانوں پر سرجیکل اسٹرائیکس بھی کی تھیں۔ افغانستان کے اندر جا کر بھی کارروائیوں کی خبریں بھی آئی ہیں۔ ان کی تصدیق پاکستان نے تو نہیں کی تھی لیکن افغان حکام کے رد عمل نے اس کی تصدیق کی تھی۔ اس لیے جب کشیدگی میں اضافہ ہوا بات چیت اور تعاون کے تمام دروازے بند ہوئے تو کارروائیاں بھی کی گئیں۔
لیکن گزشتہ دو ماہ میں افغانستان کی طرف سے پاکستان کو ایسے پیغامات موصول ہوئے کہ وہ معاملات ٹھیک کرنا چاہتے ہیں۔ افغانستان کے ان پیغامات کی روشنی میں پاکستان کے افغانستان کے لیے مستقل نمائندے دو دفعہ کابل بھی گئے وہاں بات چیت ہوئی۔ ان کے دوروں کے بعد اسحاق ڈار کابل گئے ہیں۔ یہ پاکستان کے کسی بھی اعلیٰ عہدیدار کا چار سال بعد افغانستان کا دورہ تھا۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا مثبت پیش رفت ہوئی ہے۔ سب کے ذہن میں یہی سوال ہے۔
جب پاکستان نے افغانستان کے ساتھ معاشی تعلقات محدود کرنے شروع کیے تو شروع میں افغانستان نے اس کا کوئی دباؤ نہیں لیا تھا۔ اب کیا ہوا۔ ایک بات تو سب کو پتہ ہے کہ ٹرمپ کے آنے کے بعد افغان طالبان کو جو مدد مل رہی تھی وہ بند کر دی گئی ہے۔ جس سے وہ معاشی طور پر مشکل میں ہیں۔ اب انھیں معاشی تکلیف ہوئی ہے۔ اس لیے جو باتیں ان کے لیے پہلے اہم نہیں تھیںِ اب اہم ہیں۔ وہ اب پاکستان سے تجارت کو اہم سمجھتے ہیں۔ امریکی ڈالر جو بند ہو گئے ہیں۔
اس کے علاوہ یہ بھی اطلاعات ہیں کہ گزشتہ ایک سال سے افغانستان میں حقانیوں اور قندھاریوں کے درمیان اقتدار کی رسہ کشی جاری ہے۔ طالبان کے قندھار گروپ اور حقانی گروپ کے درمیان لڑائی تھی۔ قندھار گروہ مضبوط ہے لیکن قندھار گروپ کا یہ خیال تھا کہ حقانی ہمیشہ سے پاکستان کے قریب رہے ہیں۔
ان کے تعلقات بھی پاکستان سے زیادہ رہے ہیں اس لیے پاکستان حقانیوں کا ساتھ دے گا، ان کی مدد کرے گا۔ لیکن ایسا نہیں ہوا ہے۔ پاکستان نے افغانستان کے اندرونی معاملات میں بالکل دخل نہیں دیا ہے۔ حقانیوں اور قندھاریوں کے تنازعہ میں پاکستان فریق نہیں بنا ہے۔ دونوں کو ان کے حال پر چھوڑ دیا گیا ہے۔ بہرحال اس وقت قندھار گروپ نے اقتدار پر اپنا کنٹرول زیادہ مضبوط کر لیا ہے۔ ملا ہیبت اللہ نے اقتدار پر گرفت مضبوط کی ہے۔ اس وجہ سے بھی قندھار گروپ کی سوچ میں تبدیلی آئی ہے اور انھوں نے پاکستان کی طرف دوبارہ دوستی کا ہاتھ بڑھایا ہے۔
پاکستان نے قندھار گروپ بالخصوص ملا ہیبت اللہ کے مثبت پیغامات کا مثبت جواب دیا ہے۔ ہم نے اس موقع کو ضایع نہ کرنے کا فیصلہ کیا۔ اسی لیے پہلے محمد صادق کو بھیجا گیا اور جب کافی معاملات حل کے قریب پہنچ گئے تو اسحاق ڈار گئے ہیں۔ اب سوال یہ ہوگا کہ دہشت گردی میں کیا ہوگا، تو اطلاعات یہی ہیں کہ تعاون ہوگا۔ ویسے تو اعداد و شمار بھی بتاتے ہیں کہ گزشتہ ایک ماہ سے دہشت گردی میں کمی ہوئی ہے۔ کچھ اعداد و شمار کے مطابق ستر فیصد کمی ہوئی ہے۔ لیکن تجزیہ نگاروں کی رائے میں دہشت گردی میں جب بہت تیزی آتی ہے تو پھر کمی بھی آتی ہے۔
اس لیے اگر تو یہ کمی مستقل ہوئی تو پھر ہی کچھ کہا جائے گا۔ بہر حال اطلاعات یہی ہیں کہ وہ دہشت گردی میں تعاون کرنے پر مان گئے ہیں۔ بالخصوص بلوچ دہشت گردوں پر زیادہ تعاون نظر آئے گا۔ ان کی افغانستان میں کوئی مدد نہیں ہوگی بلکہ پاکستان کی نشاندہی پر ان کے خلاف افغانستان میں آپریشن بھی کیے جائیں گے۔ حال ہی میں جعفر ایکسپریس کی ہائی جیکنگ میں بھی بلوچ دہشت گرد افغانستان سے ہدایات لے رہے تھے۔ اس لیے طالبان حکومت ان بلوچ دہشت گردوں کی مدد ختم کرنے پر آمادہ ہو گئی ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ یہ پہلی بڑی پیش رفت ہے۔ ٹی ٹی پی سے وہ بات کریں گے اور انھیں بھی کارروائیاں بند کرنے کے لیے کہا جائے گا۔
اسی بات پر پاکستان نے معاشی تعلقات بحال کرنے پر آمادگی ظاہر کی ہے۔ اور آپ نے دیکھا کہ اسحاق ڈار نے معاشی تعلقات کی بحالی کے لیے اعلانات بھی کیے۔ لیکن پاکستان نے افغان مہاجرین پر کوئی مفاہمت نہیں کی ہے۔ افغان طالبان کی یہ درخواست کہ ان کے رہنے کی مدت بڑھائی جائے، نہیں مانی گئی۔ یہ بتایا گیا کہ اس پر کوئی لچک نہیں ہو سکتی۔ اب افغان طالبان کو ان مہاجرین کو واپس لینا ہی ہوگا۔ یہ ایک مستقل پالیسی ہے۔ اس کا اچھے برے تعلقات سے کوئی واسطہ نہیں۔
لیکن یہ سمجھنا ہوگا کہ بلوچ دہشت گرد افغانستان میں اب ان علاقوں میں ہیں جو افغان ایران کے بارڈر کے ساتھ ہیں۔وہاں طالبان کا کنٹرول بھی محدود ہے۔ لیکن افغان طالبان وہاں آپریشن کرنے اور وہاں اپنا کنٹرول بڑھانے پر آمادہ ہو گئے ہیں۔ اس میں پاکستان ان کی مدد بھی کرے گا تا کہ ان علاقوں کو بلوچ دہشت گردوں سے پاک کیا جاسکے۔ بہرحال پاکستان اور افغانستان میں دہشت گردی میں تعاون پر اتفاق ہو گیا ہے۔امید یہی کی جا سکتی ہے اس کے مثبت نتائج نکلیں گے۔