ہم اپنی سرزمین پر کسی دراندازی کی اجازت نہیں دینگے، عراقی پارلیمنٹ کے سپیکر کا ھاکان فیدان سے خطاب
اشاعت کی تاریخ: 17th, February 2025 GMT
ترک وزیر خارجہ سے اپنی ایک ملاقات میں محمود المشهدانی کا کہنا تھا کہ عراق، ترکیہ کے ساتھ باہمی احترام کی بنیاد پر تعلقات بڑھانے کا خواہاں ہے۔ اسلام ٹائمز۔ آج عراقی پارلیمنٹ کے سپیکر "محمود المشهدانی" نے ترکیہ کے وزیر خارجہ "هاکان فیدان" سے ملاقات کی۔ اس موقع پر محمود المشهدانی نے کہا کہ بغداد اپنی سرزمین کو نشانہ بنانے والی کسی بھی سرگرمی کا مخالف ہے۔ اس ملاقات کے دوران انہوں نے دونوں ممالک کے درمیان دوطرفہ تعلقات اور اس میں وسعت کا جائزہ لیا۔ عراقی پارلیمنٹ کے سپیکر نے ھاکان فیدان کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ بغداد کی خودمختاری، سالمیت اور آزادی کا احترام کرنا چاہئے۔ انہوں نے تمام مشترکہ معاہدوں پر ترکیہ اور عراق کی پاسداری کی اہمیت پر زور دیا۔ انہوں نے کہا کہ عراق، ترکیہ کے ساتھ باہمی احترام کی بنیاد پر تعلقات بڑھانے کا خواہاں ہے۔ لہٰذا دونوں ممالک کے درمیان دستخط شدہ معاہدوں پر عملدرآمد ہونا چاہئے۔
شام میں ہونے والی پیش رفت پر محمود المشہدانی نے کہا کہ دمشق پر قابض باغی گروہ اس ملک کے دیگر مذہبی و قومی گروہوں کے حقوق کا خیال رکھے گا تا کہ وہاں کے تمام شعبہ ہائے زندگی میں امن و خوشحالی کی لہر آئے۔ انہوں نے کہا کہ امید ہے کہ شام کے سیاسی عمل میں تمام اقلیتوں کو تحفظ فراہم کیا جائے گا اور معاشرے کی سطح پر امن کو دوام ملے گا۔ دوسری جانب ترکیہ کے وزیر خارجہ نے کہا کہ ان کا ملک عراق میں استحکام کی حمایت کرتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم عراق کی سلامتی اور آزادی کو برقرار رکھنا چاہتے ہیں۔ ھاکان فیدان نے کہا کہ دونوں ممالک کے درمیان تعلقات بہتری کی طرف جا رہے ہیں۔ آخر میں انہوں نے اس امر کی وضاحت کی کہ امید ہے کہ اقتصادی شعبے میں دونوں ممالک کے درمیان تعلقات وسیع تر ہوں گے۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: دونوں ممالک کے درمیان نے کہا کہ انہوں نے ترکیہ کے
پڑھیں:
مغربی سامراجی قوتوں نے تاریخ کو کیسے مسخ کیا؟
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 20 اپریل 2025ء) اس کی ایک واضح مثال 1861ء سے 1865ء تک جاری رہنے والی امریکی خانہ جنگی ہے۔ مورخین اس کے اسباب پر منقسم ہیں۔ ایک گروہ کا ماننا ہے کہ یہ جنگ غلامی کے خاتمے کے لیے لڑی گئی، جبکہ دوسرا گروہ اسے یونین کے تحفظ سے جوڑتا ہے۔ تیسرے گروہ کی رائے ہے کہ شمالی ریاستیں، جو صنعتی ترقی کی راہ پر تھیں، جنوبی ریاستوں کے زرعی کلچر اور غلامی پر مبنی معیشت کو ختم کرنا چاہتی تھیں۔
جنوبی ریاستوں کے بڑے زمیندار، جن کی دولت غلاموں کی محنت سے حاصل شدہ زرعی پیداوار پر منحصر تھی، غلامی کو جائز قرار دیتے تھے۔ وہ دعویٰ کرتے تھے کہ افریقی غلاموں کو ان کے ''پسماندہ معاشروں‘‘ سے نکال کر امریکہ میں آباد کیا گیا، جہاں انہیں عیسائیت قبول کروا کر ''نجات اور معاشی استحکام‘‘ دیا گیا۔
(جاری ہے)
جب کوئی تاریخی واقعہ متنازع ہو جاتا ہے، تو ہر گروہ اپنے موقف کے دفاع کے لیے نئے تاریخی مآخذ تلاش کرتا ہے یا موجودہ مآخذ کی نئی تشریحات پیش کرتا ہے۔
اس عمل سے تاریخ کا دائرہ کار وسیع ہوتا ہے اور نئے خیالات اسے تازگی عطا کرتے ہیں۔ تاہم یہ عمل تاریخ کو مسخ کرنے کا باعث بھی بن سکتا ہے۔یورپی سامراجی ممالک نے اپنی نوآبادیاتی تاریخ کو بہت حد تک مسخ کیا ہے۔ انہوں نے مقامی باشندوں کا استحصال کیا، ان کا قتل عام کیا اور ان کی دولت لوٹ لی لیکن ان مظالم کا تذکرہ ان کی تاریخی کتابوں میں شاذ و نادر ہی ملتا ہے۔
اس کے برعکس، وہ اپنی نوآبادیاتی تاریخ کو فخر کے ساتھ پیش کرتے ہیں۔ یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ انہوں نے ایشیا اور افریقہ کی ''پسماندگی‘‘ کو ختم کر کے انہیں ''مہذب‘‘ بنایا۔اسی طرح، جن یورپی ممالک نے غلاموں کی تجارت کی، انہوں نے افریقہ سے غلاموں کو جہازوں میں بھر کر امریکہ کی منڈیوں میں فروخت کیا اور کریبین جزائر میں ان سے شکر اور کافی کی پیداوار کروائی۔
ان مظالم کی تفصیلات ان کی تاریخ سے غائب ہیں۔تاریخ کا ارتقاء کیسے ہوتا ہے؟
وہ فخر سے بتاتے ہیں کہ 1830ء کی دہائی میں برطانیہ اور دیگر یورپی ممالک نے غلامی کا خاتمہ کیا اور وہ اسے اپنی مذہبی و اخلاقی اقدار کا نتیجہ قرار دیتے ہیں۔ لیکن یہ دعویٰ حقیقت سے دور ہے۔ غلامی کا خاتمہ مذہبی یا اخلاقی وجوہات کی بجائے تکنیکی ترقی کی وجہ سے ہوا۔
جب مشینوں نے غلاموں کی محنت سے زیادہ پیداوار دینا شروع کی تو غلام معاشی بوجھ بن گئے۔ نتیجتاً، انہیں آزاد کیا گیا لیکن آزادی کی قیمت بھی غلاموں سے ہی وصول کی گئی۔ مالکان نے دعویٰ کیا کہ غلام ان کی ملکیت ہیں، اس لیے انہیں آزادی کے بدلے چار سے پانچ سال تک بغیر معاوضے کے کام کرنا پڑا۔ یورپی ممالک نے غلاموں کی نسلوں سے لی گئی محنت کا کوئی معاوضہ ادا کرنے پر غور نہیں کیا اور غلامی کے کاروبار کو جرم قرار دینے سے گریز کیا۔
یورپی سامراج نے اپنی غربت کم کرنے کے لیے افریقہ میں کالونیاں قائم کیں۔ سیسل روڈز (وفات: 1902ء) نے موجودہ زمبابوے اور جنوبی افریقہ میں مقامی لوگوں کی زمینوں پر قبضہ کر کے برطانوی غریبوں کو آباد کیا۔ جرمنی نے نمیبیا اور ہرارے میں نابا قبائل کو ختم کر کے جرمن آباد کاروں کو بسایا۔ اس طرح، یورپی ممالک نے ''اپنی غربت ختم کر کے افریقیوں کو غریب‘‘ بنا دیا لیکن ان کی تاریخ ان جرائم پر خاموش ہے۔
تاریخ کو مسخ کرنے کا عمل قوم پرستی اور وطن پرستی کے نام پر بھی کیا گیا۔ 1937ء میں جاپان نے چین پر حملہ کیا اور نانجِنگ سمیت کئی شہروں میں لوٹ مار اور قتل عام کیا۔ نانجِنگ میں شہریوں کا قتل، خواتین کے ساتھ جنسی زیادتی اور منچوریہ میں آبادی کا خاتمہ جاپانی بربریت کی واضح مثالیں ہیں۔
عالمگیر تاریخ
جاپان نے فلپائن اور کوریا میں بھی یہی مظالم دہرائے، جہاں کوریائی خواتین کو ''کمفرٹ ویمن‘‘ کے نام سے جنسی غلامی کا نشانہ بنایا گیا۔
لیکن دوسری عالمی جنگ کے بعد جاپانی مورخین نے قوم پرستی کے نام پر ان مظالم کو نظرانداز کیا۔ نانجنگ کے قتل عام کو تاریخی طور پر تسلیم نہیں کیا گیا، حالانکہ تصاویر اور شواہد موجود ہیں، جن میں شہریوں کی لاشیں سڑکوں پر بکھری نظر آتی ہیں۔کچھ جاپانی فوجیوں نے فخریہ طور پر اپنی ڈائریوں میں لکھا کہ انہوں نے شہریوں کو قطار میں کھڑا کر کے یہ دیکھا کہ ایک گولی سے کتنے لوگ ہلاک ہو سکتے ہیں۔
ایسی تفصیلات جاپانی تاریخ سے غائب ہیں۔جاپان نے اپنی نئی نسل کو تاریخی حقائق کے بجائے قومی عظمت کی داستانیں سنائیں اور مظالم کو قومی مفاد کے نام پر چھپایا۔ یورپی سامراجی ممالک نے بھی اپنی کالونیوں کی آزادی کے وقت تاریخی دستاویزات کو یا تو جلا دیا یا اپنے ممالک میں منتقل کر دیا۔ آزادی کے بعد لکھی گئی تاریخ میں ایشیا اور افریقہ کی سامراجی مزاحمت کو نظر انداز کیا گیا اور حقائق کو مسخ کر کے پیش کیا گیا۔
مسخ شدہ تاریخ کو درست کرنا اس لیے مشکل ہے کہ متعلقہ دستاویزات یا تو موجود نہیں یا یورپی ممالک کے قبضے میں ہیں، جہاں تک ایشیا اور افریقہ کے ممالک کی رسائی نہیں۔ بدقسمتی سے ایشیا اور افریقہ کے ان ممالک میں، جہاں آمرانہ حکومتیں رہی ہیں، وہاں بھی تاریخ کو مسخ کیا گیا۔ آمروں نے اپنے ظلم و ستم کو قوم پرستی کے نام پر چھپایا اور مورخین نے ان واقعات کو مکمل طور پر بیان کرنے سے گریز کیا۔
جب تاریخ کو مسخ کر کے نصابی کتب میں شامل کیا جاتا ہے، تو نوجوان نسل تاریخی شعور سے محروم ہو جاتی ہے۔ وہ ماضی سے سبق سیکھنے کے بجائے گمراہی کا شکار ہوتی ہے۔ تاریخ کو درست کرنے کی ذمہ داری مورخین اور معاشروں پر عائد ہوتی ہے تاکہ آنے والی نسلیں حقائق سے آگاہ ہو سکیں اور ماضی کے تجربات سے سیکھ سکیں۔
ادارت: امتیاز احمد