بلوچستان میں مائننگ کمپنیاں بغیر ادائیگی معدنیات نکالنے لگیں، پبلک اکاؤنٹس کمیٹی نے انکشاف کر دیا۔
پبلک اکاؤنٹس کمیٹی (پی اے سی) بلوچستان کا اجلاس کمیٹی روم میں بلوچستان صوبائی اسمبلی میں چیئرمین اصغر علی ترین کی صدارت میں منعقد ہوا۔
اجلاس میں کمیٹی کے اراکین کے علاوہ سیکرٹری اسمبلی طاہر شاہ کاکڑ، اے جی بلوچستان نصراللہ جان، ڈی جی آڈٹ بلوچستان شجاع علی، ایڈیشنل سیکرٹری پی اے سی سراج لہڑی، چیف اکاؤنٹس آفیسر پی اے سی سید ادریس آغا، محکمہ قانون کے ایڈیشنل سیکرٹری مزمل زہری، محکمہ مائنز اینڈ منرلز اور محکمہ خزانہ کے افسران نے شرکت کی۔
پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کا بلوچستان کے بقایا منافع اور مائننگ کمپنیوں سے رائلٹی کی عدم وصولی پر سخت موقف اختیار کرتے ہوئے محکمہ معدنیات اور کان کنی میں مالی بے ضابطگیوں پر شدید تشویش کا اظہار کیا، بلوچستان کے جائز منافع اور رائلٹی کی عدم وصولی کے معاملے پر تشویش کا اظہار کیا گیا۔
اجلاس محکمہ معدنیات اور کان کنی کے آڈٹ پیراز اور کمپلائنس رپورٹس پر غور کے لیے منعقد کیا گیا تھا، جس میں مالی بے ضابطگیوں اور بلوچستان کے مالی حقوق کی عدم ادائیگی کے معاملات زیر بحث آئے۔
آئین کی 18ویں ترمیم (آرٹیکل 38 جی) کے تحت بلوچستان سینڈک میٹلز لمیٹڈ کے خالص منافع کا 30 فیصد حصہ بلوچستان حاصل کرنے کا حق رکھتا ہے۔ تاہم محکمہ معدنیات کے ڈائریکٹر جنرل 2020-21 کے مالی سال میں 669.

432 ملین روپے کی وصولی میں ناکام رہے۔
2020 سے پیٹرولیم ڈویژن نے ایس ایم ایل کو بلوچستان حکومت کو ادائیگی روکنے کی ہدایت کی ہے۔ جس پر زابد علی ریکی نے تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یہ آغاز حقوق بلوچستان فیصلہ اور آئین کی خلاف ورزی ہے۔
چیئرمین پی اے سی نے اس اقدام کی مذمت کرتے ہوئے اعلان کیا کہ وہ اعلیٰ سطح پر احتجاج کریں گے اور بلوچستان کے حقوق کے لیے لڑیں گے۔
کمیٹی ممبران نے معاملے پر خصوصی اجلاس بلانے کا فیصلہ کیا ہے اور چیف سیکرٹری و وزیر اعلیٰ کو باضابطہ شکایت بھیجی جائے گی۔
ممبران نے کہا کہ 2010 سے اب تک بلوچستان کو صرف 5.6 ارب روپے ملے ہیں، جبکہ وفاقی حکومت کو 8.5 ارب روپے ادا کرنے ہیں۔
بلوچستان منرلز کنسیشن رولز 2002 کے قاعدہ 104 کے تحت کان کنی کی کمپنیوں پر لازم ہے کہ وہ ہر چھ ماہ بعد رائلٹی اور کرایہ ادا کریں، مگر 2019 سے 2022 کے دوران محکمہ معدنیات 395.918 ملین روپے کی وصولی میں ناکام رہا۔
2019-2022 کے مسلسل آڈٹ رپورٹس میں اس مسئلے کو اجاگر کیا گیا، لیکن کوئی اصلاحی اقدام نہیں لیا گیا۔
محکمہ نے مؤقف اختیار کیا کہ سپریم کورٹ نے ان کے خلاف فیصلہ دیا تھا، لیکن ہی اے سی نے محکمے کی قانونی کمزوری پر سخت تنقید کی۔ کمیٹی نے ہدایت دی کہ یہ معاملہ دوبارہ کابینہ میں لے جایا جائے اور منظوری حاصل کی جائے۔
پبلک اکائونٹس کمیٹی نے معاملے پر فالو اپ اجلاس کا فیصلہ کیا اور اعلان کیا کہ ذمہ داران، چاہے وہ ریٹائرڈ ہی کیوں نہ ہوں، ان کے خلاف کارروائی کی جائے گی۔
کمیٹی کے رکن زابد علی ریکی نے کہا کہ مائننگ کمپنیاں اربوں روپے کمارہی ہیں، لیکن بلوچستان کے عوام آج بھی بنیادی سہولیات سے محروم ہیں۔
کمیٹی نے کہا کہ ڈی جی سیمنٹ سے 12 ملین روپے 15 دن کے اندر وصول کیے جائیں، ٹھیکیداروں سے 228.715 ملین روپے ایک ماہ کے اندر وصول کیے جائیں۔
کمیٹی نے محکمہ معدنیات کے مالی سال 2021-22 کے بجٹ کے انتظام میں سنگین غلطیوں کا انکشاف کیا ہے۔
نان ڈیویلپمنٹ بجٹ: اصل بجٹ 3,767.319 ملین روپے تھا، جس میں بعد میں 631.430 ملین روپے کا اضافہ کیا گیا، لیکن 915.527 ملین روپے واپس کر دیے گئے، جس کے بعد حتمی بجٹ 4,398.749 ملین روپے رہا۔ خرچ 3,118.969 ملین روپے ہوا، اور 1,279.780 ملین روپے (29.09%) غیر استعمال شدہ رہ گئے۔
ڈیویلپمنٹ بجٹ: اصل مختص شدہ بجٹ 1,496.368 ملین روپے تھا، لیکن کمی کر کے 166.291 ملین روپے کر دیا گیا۔ خرچ 164.109 ملین روپے ہوا، اور 2.182 ملین روپے غیر استعمال رہے (1.31%)۔
مجموعی بجٹ: 5,263.687 ملین روپے میں سے صرف 3,283.078 ملین روپے خرچ کیے گئے، جس کے نتیجے میں 28.08% بجٹ بچت ہوئی۔جبکہ محکمہ کے سیکرٹری اور ڈی جی اس بارے میں لاعلم تھے۔
پبلک اکاؤنٹس کمیٹی نے بار بار فنڈز واپس کیے جانے پر شدید تنقید کرتے ہوئے اسے آئین کی خلاف ورزی قرار دیا۔
پبلک اکاؤنٹس کمیٹی نے تمام مائننگ معاہدوں تک رسائی کا مطالبہ کیا۔ چیئرمین نے کہا کہ محکمہ معدنیات کے پاس انفارمیشن مینجمنٹ سسٹم نہ ہونا سنگین ناکامی ہے۔
پلاننگ اینڈ ڈیولپمنٹ ڈیپارٹمنٹ کو ہدایت دی گئی کہ محکمہ معدنیات کے لیے IT سسٹم کے قیام کے لیے بجٹ مختص کیا جائے۔
پبلک اکاونٹس کمیٹی نے کہا کہ بلوچستان کی ترقی اس محکمے کی درست کارکردگی سے جڑی ہوئی ہے۔
محکمہ خزانہ کی تاخیر سے جوابدہی پر سخت تنقید کی گئی اور آئندہ سخت کارروائی کا عندیہ دیا گیا۔ غیر مجاز بجٹ اجرا کو اسمبلی قوانین اور حکومتی نظام کی خلاف ورزی قرار دیا گیا۔
کمیٹی نے اعلان کیا کہ وہ مالیاتی نظم و ضبط یقینی بنانے، بلوچستان کے جائز حقوق واپس لینے اور بدانتظامی و غفلت کے ذمہ داران کو انصاف کے کٹہرے میں لانے کے لیے ہر ممکن قدم اٹھائے گی۔

ذریعہ: Daily Mumtaz

کلیدی لفظ: پبلک اکاو نٹس کمیٹی محکمہ معدنیات کے نٹس کمیٹی نے بلوچستان کے کرتے ہوئے ملین روپے نے کہا کہ پی اے سی کیا گیا کے لیے کیا کہ

پڑھیں:

پی ٹی اے نے 3 کمپنیوں کو وی پی این لائسنس جاری کر دیے

پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی (پی ٹی اے) نے 3 کمپنیوں کو وی پی این سروسز کے لیے کلاس لائسنس جاری کر دیے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: پاکستان میں وی پی این اور اے آئی صارفین ہیکرز کے نشان پر

ترجمان پی ٹی اے کے مطابق  3 کمپنیوں کو وی پی این سروسز کے لیے کلاس لائسنس جاری کیا گیا ہے، بغیر لائسنس وی پی این سروس فراہم کرنے والی کمپنیوں کو فوری طور پر لائسنس حاصل کرنا ہوگا۔

ترجمان پی ٹی اے نے کہا کہ وی پی این سروسز کے لائسنس کے اجرا کا مقصد موجودہ ریگولیٹری فریم ورک پر عملدرآمد کو یقینی بنانا ہے تاکہ سروسز کے استعمال میں شفافیت اور قانون کی پاسداری ممکن ہوسکے۔

یہ بھی پڑھیں: پاکستان میں وی پی اینز کے استعمال سے بڑا نقصان، رپورٹ جاری

پی ٹی اے کا کہنا ہے کہ بروقت لائسنس حاصل کرنے سے کمپنیوں کو سروس میں تعطل سے بچنے میں مدد ملے گی اور صارفین کو بغیر کسی رکاوٹ کے محفوظ اور مستحکم وی پی این خدمات کی فراہمی ممکن ہوسکے گی۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

we news پاکستان پی ٹی اے لائسنس وی پی این

متعلقہ مضامین

  • بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں کا صارفین کو بلوں میں اربوں روپے کاریلیف دینے کافیصلہ 
  • ماہ رنگ بلوچ کی گرفتاری میں مزید 30 دن کی توسیع کردی گئی
  • غیرقانونی مائننگ نہیں ہونے دوں گا،وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا  علی امین گنڈاپور
  • جے یو آئی بلوچستان کا فلسطین کے حق میں ملین مارچ نکالنے کا اعلان
  • محکمہ تعلیم کی امبریلہ اسکیموں کے تحت تخمینہ لاگت اور مختص کردہ وسائل میں ہم آہنگی پیدا کی جائے تاکہ وسائل کا ضیاع نہ ہو اور ہر اسکیم مثر انداز سے مکمل ہو، وزیر اعلی بلوچستان میر سرفراز بگٹی
  • سبی، نصیر آباد سمیت 10 اضلاع میں موسم شدید گرم رہنے کی پیشگوئی
  • پی ٹی آئی حکومت میں 6 ارب 23 کروڑ کہاں گئے؟ محکمہ صحت کا حیران کن انکشاف
  • پی ٹی آئی دورمیں محکمہ صحت پنجاب میں 6 ارب 23 کروڑ کی مبینہ خوردبرد
  • پی ٹی اے نے 3 کمپنیوں کو وی پی این لائسنس جاری کر دیے
  • پنجاب کا کوئی محکمہ ترقیاتی اہداف حاصل نہیں کر سکا، فنانشل رپورٹ نے قلعی کھول دی