سیاست میں حصہ لینے پر کسی پر پابندی نہیں، پشاور ہائیکورٹ
اشاعت کی تاریخ: 17th, February 2025 GMT
قائمقام چیف جسٹس نے کہا کہ سیاست میں حصہ لینے پر کسی کو پابندی نہیں ہے اور مولانا فضل الرحمن بھی تو سیاست کرتے ہیں، اس کیس میں حکومت سے جواب طلب کیا ہے۔ اسلام ٹائمز۔ پشاور میں قائمقام چیف جسٹس ایس ایم عتیق شاہ کی زیرِ صدارت چارسدہ سرڈھیری سے لاپتہ دو بھائیوں کی درخواستوں پر سماعت ہوئی۔ دورانِ سماعت عدالت نے فوکل پرسن سے متعلق پوچھا جس پر جواب دیا گیا کہ فوکل پرسن دوسری عدالت میں ہیں اور جلد آئیں گے۔ مدعی نے عدالت میں بیان دیا کہ اس کے دو بھائی 2023 سے لاپتہ ہیں اور وہ چھ بھائی ہیں، ہمارا تعلق چارسدہ سرڈھیری سے ہے۔ قائمقام چیف جسٹس نے سوال کیا کہ چھ بھائیوں میں سے انہیں کیوں اٹھایا گیا؟ جس پر مدعی نے کہا کہ ان کے دو بھائیوں کو اٹھایا گیا ہے، ایک کی عمر 16 سال ہے۔
قائم مقام چیف جسٹس نے کہا کہ گاؤں میں اور بھی ہزاروں لوگ ہیں، تو صرف ان دونوں کو کیوں اٹھایا گیا؟ جس پر مدعی نے کہا کہ ہم سیاست میں حصہ نہیں لیتے اور نہ کسی پارٹی سے تعلق رکھتے ہیں، میں نے ایم اے اسلامیات کی ڈگری حاصل کی ہے اور پیش امام ہوں۔ قائمقام چیف جسٹس نے کہا کہ سیاست میں حصہ لینے پر کسی کو پابندی نہیں ہے اور مولانا فضل الرحمن بھی تو سیاست کرتے ہیں، اس کیس میں حکومت سے جواب طلب کیا ہے۔ مدعی نے کہا کہ اگر ان کے بھائیوں کے خلاف کوئی گناہ ہے تو انہیں عدالت میں پیش کیا جائے، جہاں انہیں سزا دی جائے یا سزا کے طور پر ان کا معاملہ حل کیا جائے۔ اے اے جی محمد انعام نے عدالت کو بتایا کہ ایک لاپتہ شخص کے خلاف پہلے بھی ایف آئی آرز درج ہو چکی ہیں۔ وفاقی حکومت کی طرف سے ابھی تک کوئی جواب نہیں آیا۔
قائمقام چیف جسٹس نے کہا کہ وفاقی حکومت کا جواب آنے کے بعد اس کیس کو سنیں گے، انہوں نے مدعی کو ہدایت دی کہ وہ چارسدہ سے یہاں نہ آئیں وہاں عدالت میں پیش ہوں، ہم ویڈیو لنک کے ذریعے آپ کو سنیں گے۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: قائمقام چیف جسٹس نے چیف جسٹس نے کہا کہ سیاست میں حصہ عدالت میں
پڑھیں:
خلع لینے والی خاتون کو بھی حق مہر لینے کا حقدار قرار دے دیا گیا
لاہور (نیوزڈیسک) جن خواتین نے خلع لیا ہے وہ بھی حق مہر کی حقدار ہیں۔لاہور ہائی کورٹ نے خلع لینے والی خواتین کو حق مہر کا حقدار قرار دے دیا۔ عدالت نے فیصلہ دیا کہ صرف خلع لینے کی بنیاد پر عورت کو حق مہر کی رقم سے محروم نہیں کیا جا سکتا۔عدالت نے قرار دیا کہ حق مہر کی رقم عورت کے لیے تحفظ سمجھی جاتی ہے، اگر شوہر کا رویہ خاتون کو خلع لینے پر مجبور کرتا ہے تو وہ حق مہر لینے کی مکمل حقدار ہے۔
لاہور ہائیکورٹ کے جسٹس راحیل کامران شیخ نے شہری آصف محمود کی درخواست پر فیصلہ سنایا، جس میں خلع کی بنیاد پر حق مہر کی ڈگری اور رقم دینے کو چیلنج کیا گیا تھا۔عدالت نے قرار دیا ہے کہ بیٹی کو حق مہر دینا ہمارے معاشرے میں جڑ پکڑ چکا ہے اور والدین کو اپنی بیٹی کو اتنا ہی حق مہر دینا چاہیے جتنا وہ برداشت کر سکتے ہیں۔
عدالت نے ریمارکس دیئے کہ طلاق دینا بنیادی طور پر شوہر کا حق ہے اور طلاق کی صورت میں شوہر حق مہر اور تحائف کی واپسی کا مطالبہ کرنے کا حق کھو دیتا ہے۔عدالت نے مزید ریمارکس دیئے کہ طلاق کی صورت میں سورہ نساء شوہر کو بیوی کی طرف سے دی گئی جائیداد اور تحائف واپس مانگنے سے بھی منع کرتی ہے۔
سپریم کورٹ نے کہا کہ وفاقی شرعی عدالت کے فیصلے کے تحت عدالت شوہر کے تشدد، برے رویے وغیرہ کی بنیاد پر طلاق کے بعد مہر کی رقم واپس نہ کرنے کا حکم دے سکتی ہے۔عدالت نے قرار دیا کہ محض طلاق لینے کی بنیاد پر عورت کو مہر کی رقم سے محروم نہیں کیا جا سکتا، مہر کی رقم کو عورت کے لیے تحفظ تصور کیا جاتا ہے۔ اگر شوہر کا رویہ عورت کو طلاق دینے پر مجبور کرتا ہے تو وہ مہر کی رقم وصول کرنے کی مکمل حقدار ہے۔
مزید پڑھیں :اگر کسی نے اسرائیل سے دوستی بڑھانے کی کوشش کی تو انسانوں کو سمندر اسے لے ڈوبے گا، حافظ نعیم الرحمن