حالات نے ایسا پلٹا کھایا، وہ شخص مکافات عمل کا شکار ہوکر میرے پاس اڈیالا جیل میں بند ہے، مریم نواز
اشاعت کی تاریخ: 17th, February 2025 GMT
وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز کا کہنا ہے کہ حالات نے ایسا پلٹا کھایا، وہ شخص مکافات عمل کا شکار ہو کر میرے پاس اڈیالا جیل میں بند ہے۔
لاہور میں آسان کاروبار پروگرام کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز نے بانی پی ٹی آئی کا نام لیے بغیر ان کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ
نہ اسے پکڑنے کا کہا تھا اور نہ چھوڑنے کا کہا، کبھی یہ نہیں کہا کہ اس کا اے سی بند کردو، کولر بند کرو، اچھا کھانا نہ دو۔
مریم نواز نے کہا کہ مخالفین کی سیاست ایک دوسرے کو تھپڑ مارنے تک آگئی ہے، باتیں کرنا، الزام لگانا، پگڑی اچھالنا بہت آسان ہوتا ہے، خالی تقریروں سے کسی کا پیٹ نہیں بھرتا، ملک جلاؤ گھیراؤ اور بدتمیزی کا متحمل نہیں ہوسکتا، عوام جلاؤ گھیراؤ سے تنگ آچکے وہ اپنا گھر چلانا چاہتے ہیں۔
وزیر اعلیٰ نے کہا کہ اسکیم بعد میں لانچ ہوتی ہے، ہم گراؤنڈ پر پہلے لاتے ہیں، کچھ لوگوں کو تین کروڑ، کچھ کو 50 لاکھ قرضہ ملا ہے، ایک مہینے کے اندر ہم پہلے قرضے دینے جا رہے ہیں، 10 لاکھ سے 3 کروڑ روپے قرض کی اسکیم ہے، قرض پر کوئی سود نہیں لے رہے ہیں، قرض کیلئے کوئی سفارش نہیں، میرٹ پر قرضے مل رہے ہیں، سو فیصد میرٹ پر یہ قرضے دیے جا رہے ہیں۔
مریم نواز نے دوسرے صوبوں کے طلبہ کیلئے بھی ہونہار اسکالرشپ اسکیم کی منظوری دے دیوزیر اعلیٰ پنجاب نے کہا کہ ہونہار اسکالر شپ کے لیے جو پنجاب کا معیار ہے وہی دیگر صوبوں کے طلبہ کے لیے مقرر کیا جائے گا۔
مریم نواز نے کہا کہ قرضے عوام کو مل رہے ہیں اور خوشی مجھے ہو رہی ہے، ہم نوجوانوں کو کاروبار کے لیے بلا سود قرض فراہم کر رہے ہیں، نوکریاں پیدا کرنا آسان کام نہیں۔
وزیراعلیٰ پنجاب نے مزید کہا کہ ایک سال میں پاکستان کی معیشت میں بہتری آئی ہے، لوگوں کا معیار زندگی بہتر ہو رہا ہے، جب حکومت میں آئے مہنگائی 38 فیصد تھی جو اب 4 فیصد پر ہے، ہر روز میری کوشش ہوتی ہے کہ آٹا مہنگا نہ ہو، پنجاب میں دیگر صوبوں کے مقابلے میں آٹا سستا ہے۔
انہوں نے کہا کہ لوگوں کی جو تنخواہیں ہیں اس میں گزارہ مشکل ہے، اگر ملک نے ترقی کرنی ہے تو ضروری ہے کہ لوگوں کو کاروبار کیلئے قرض دیا جائے۔
وزیر اعلیٰ نے مزید کہا کہ ایک لاکھ 85 ہزار درخواستیں 10 لاکھ قرض کیلئے آئی ہیں، 71 ہزار درخواستیں 3 کروڑ روپے قرض کیلئے آئی ہیں، جنھیں قرض دیا جا رہا ہے، ان کی تعداد روز معلوم کروں گی، جتنا کاروبار بڑھے گا لوگوں کو ملازمتیں ملیں گی۔
مریم نواز نے یہ بھی کہا کہ پنجاب میں 700 سڑکیں بنا رہے ہیں، کبھی کوئی کہتا تھا کہ سڑکیں بنانے سے قوم ترقی نہیں کرتی، سڑکیں بنانے سے ترقی نہیں کرتی تو کیا جلاؤ گھیراؤ سے کرتی ہے، یوتھ کو سمجھ آگئی ہے کہ کس نے مستقبل تباہ کیا، کے پی کے میں جو لوگ گھیراؤ جلاؤ کے لیے نکلے وہ سرکاری ملازم تھے۔
وزیر اعلیٰ پنجاب نے کہا کہ بیانیے وہ بناتے ہیں جنہوں نے کوئی کام نہ کیا ہو، کوئی ماں آپ کو یہ نہیں کہے گی کہ دلوں میں نفرت پالو۔
انہوں نے کہا کہ اس ماہ کے آخر تک 20 ہزار لوگوں کو گھر بنانے کیلئے قرض مل جائے گا، رمضان المبارک میں جن کے پاس پلاٹ نہیں انہیں پلاٹ دینے کی اسکیم لا رہے ہیں، رمضان المبارک میں 35 ہزار افراد کو 10 ہزار روپے ملیں گے، ہمارے ساتھی وزیر اعلیٰ نے کہا کہ ہم آپ کی اسکیم کاپی کر رہے ہیں، میں نے کہا اسکیم کاپی نہ کریں، جو بھی تفصیلات ہوں گی میں فراہم کروں گی۔
مریم نواز نے مزید کہا کہ جو کاروبار کرنا چاہتا ہے کاروبار کرے، این او سی آتے رہیں گے، کوئی اسکیم ایسی نہیں جو فائل میں ہو، 5 لاکھ افراد کو کسان کارڈ مل گیا ہے، ڈھائی لاکھ کو مل رہا ہے، کسان کارڈ سے کسانوں کی آڑھتیوں سے جان چھوٹ گئی ہے، کسان کارڈ سے کسان 50 ارب کی خریداری کر چکے ہیں۔
.ذریعہ: Jang News
کلیدی لفظ: مریم نواز نے وزیر اعلی نے کہا کہ لوگوں کو رہے ہیں قرض کی کے لیے
پڑھیں:
بلوچستان کا بحران اور نواز شریف
بلوچستان کے حالات میں بہتر تبدیلی لانے کے لیے غیر معمولی اقدامات درکار ہیں ۔ حکمت عملی کا تقاضا یہ ہونا چاہیے کہ طاقت کے ساتھ ساتھ سیاسی حکمت عملی کا بھی بھرپور استعمال کیا جائے۔ بلوچستان کے حالات اسی صورت میں بہتر ہوں گے جب ہم سیاسی حکمت عملی کو بالادستی دیں گے ، یہ ہی حکمت عملی ریاستی رٹ کو بھی مضبوط بنانے میں معاون ثابت ہوگی۔
پچھلے دنوں سابق وزیراعظم نواز شریف اور سابق وزیر اعلی بلوچستان ڈاکٹر عبدالمالک کی اس تناظرمیں ہونے والی ملاقات ایک اہم پیش رفت سمجھی جا سکتی ہے۔بہت سے سیاسی افراد اور اہل دانش نے یہ تجویز دی تھی کہ اگر نواز شریف آگے بڑھیں اور اپنا کردار ادا کریں تو حالات میں بہتری کی گنجائش پیدا ہو سکتی ہے۔خود نواز شریف نے بھی اس خواہش کا اظہار کیا تھا کہ وہ بلوچستان کے حالات کی بہتری میں اپنا کردار ادا کرنا چاہتے ہیں۔اس میں کوئی شک نہیں کہ نواز شریف ایک بڑی سیاسی شخصیت ہیں اور ان کو بلوچستان میں احترام کے طور پر دیکھا بھی جاتا ہے۔
بلوچستان کے حالات میں خرابیاں چند دنوں یا ہفتوں میں نہیں ہوئی ہیں بلکہ یہ برسوں کی کہانی ہے۔ بلوچستان کے حالات کی بہتری میں جو بڑا کردار بڑی سیاسی جماعتوں بالخصوص مسلم لیگ ن،پیپلز پارٹی اور پی ٹی آئی کو ادا کرنا چاہیے تھا ، اس کا فقدان دیکھنے کو ملا ہے۔اس وقت بھی بلوچستان میں دو بڑی سیاسی جماعتوں پیپلز پارٹی و مسلم لیگ ن کی مشترکہ حکومت ہے ۔اس مشترکہ حکومت کا بھی کوئی بڑا کردار ہمیں حالات کی بہتری میں دیکھنے کو نہیں مل رہا ہے۔
موجودہ حالات میں صوبائی حکومت کا کردار محدود نظر آتا ہے۔اصل میں بلوچستان میں موجود سیاسی جماعتیں اور ان کی قیادتیں موجودہ حالات میں پاکستان کی بڑی سیاسی جماعتوں سے بھی مایوس نظر آتی ہیں۔ان کے بقول بلوچستان کے حالات کی خرابی میں جہاں دیگر عوامل موجود ہیں وہیں بڑی سیاسی جماعتوں کا صوبے کے حوالے سے لاتعلقی کا پہلو بھی ہے۔
بلوچستان کی قوم پرست سیاسی جماعتیں یہ بھی سمجھتی ہیں کہ بلوچستان کے صوبے میں حقیقی سیاسی لوگوں کی بجائے نمائشی سیاسی لوگوں کی بالادستی ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ بڑی سیاسی جماعتوں نے بلوچستان کے حالات کی درستگی میں کب عملی اقدامات اٹھائے ہیں اور ان کوعملی اقدامات کرنے سے کب روکا گیا ہے۔اصل میں ہماری بڑی سیاسی جماعتوں نے خود سے بھی بلوچستان کے حالات میں کچھ بھی نہ کرنے کی پالیسی اختیار کر لی ہے اور اس کا عملی نتیجہ بلوچستان کے حالات کی خرابی کی صورت میں دیکھنے کو مل رہا ہے۔
پاکستان میں جو پاپولر سیاست ہو رہی ہے، اس میں نواز شریف سرگرم نظر نہیں آرہے۔ قومی سیاست ایک طرف وہ مسلم لیگ ن ہی نہیں بلکہ پارلیمانی سیاست میں بھی کوئی دلچسپی نہیں لے رہے اور نہ ہی وہ پارلیمنٹ کے اجلاسوں میں شرکت کرتے ہیں۔اسی طرح پارٹی کے اجلاس ہوں یا پارلیمانی میٹنگز میں بھی ان کی غیر حاضری واضح طور پر دیکھی جا سکتی ہے۔مسلم لیگ ن کی سیاست پر گہری نظر رکھنے والے اہم افراد اور دانش وروں و تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ نواز شریف موجودہ حالات سے مطمئین نظر نہیں آتے ہیں۔
اسی بنیاد پر جو لوگ یہ سمجھ رہے ہیں کہ نواز شریف بلوچستان میں کوئی بڑا مفاہمانہ کردار ادا کرسکیں گے اس پر بہت سے سوالیہ نشان موجود ہیں۔ نواز شریف 8فروری کے انتخابات کے بعد بڑے بہت زیادہ فعالیت یا متحرک ہونے کی بجائے بیک ڈور بیٹھ کرخاموشی کے کردار کو ہی اپنے لیے بہتر سمجھتے ہیں تاکہ وفاقی حکومت اور پنجاب حکومت کو کسی بڑی مشکل کا سامنا نہ کرنا پڑے۔
اس وقت وزیراعظم میاں شہباز شریف بھی بلوچستان کے حالات کی بہتری میں کوئی بڑا بریک تھرو نہیں کراسکے ہیں۔جس انداز سے قومی سیاست میں سیاست دانوں،سیاسی جماعتوں سمیت سیاست وجمہوریت کی جگہ محدود ہوئی ہے وہاں ایک بڑے مجموعی سیاسی کردار کی جنگ بھی محدود ہی نظر آتی ہے۔ماضی میں نواز شریف کئی بار بلوچستان کے حالات کی بہتری میں اپنا کردار ادا کرتے رہے ہیں اور اسی تناظر میں سابق وزیر اعلی ڈاکٹر عبدالمالک نے نواز شریف سے ملاقات بھی کی ہے۔
اگر ان تمام تر حالات کے باوجود نواز شریف خود سے آگے بڑھ کر بلوچستان کے حالات کی درستگی میں عملی طور پر کچھ کرنا چاہتے ہیں تو اس کی یقیناً سیاسی قدر کی جانی چاہیے۔اسی طرح یہ سوال بھی اپنی جگہ اہمیت رکھتا ہے کیا نواز شریف اسٹیبلشمنٹ کی مرضی اور منشا کے بغیر بلوچستان کے حالات میں کوئی کردار ادا کرنا چاہتے ہیں یا ان کو اس تناظر میں اسٹیبلشمنٹ کی مکمل حمایت حاصل ہوگی۔
کیونکہ مسلم لیگ ن اس پوزیشن میں نہیں ہے کہ وہ اسٹیبلشمنٹ کی مدد کے بغیر آگے بڑھ سکے ۔بلوچستان کی بیشتر قوم پرست سیاسی جماعتیں اور ان کی قیادت بلوچستان کے تناظر میں اسٹیبلشمنٹ کی سیاست پر تحفظات رکھتی ہیں۔ایسے میں نواز شریف کیا اسٹیبلشمنٹ اور بلوچستان کے قوم پرستوں کے درمیان غلط فہمیوں پر ایک بڑے پل کا کردار ادا کر سکیں گے۔ان حالات میںجب بلوچستان کی سنگینی کافی حساس نوعیت کی ہے تو نواز شریف نے بلوچستان جانے کی بجائے اپنے خاندان کے دیگر افراد کے ساتھ بیلا روس اور لندن کے دورے پر جانے کو ترجیح دی اور اب وہ اپنے علاج کے سلسلے میں لندن میں موجود ہیں۔اس دورے سے ان کی ترجیحات کو سمجھا جاسکتا ہے۔
بظاہر ایسا لگتا ہے کہ اس وقت بلوچستان میں شرپسندوں کے خلاف طاقت کی حکمت عملی اختیار کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے اور اگر یہ درست ہے تو پھر سیاسی آپشن واقعی محدود ہو جاتے ہیں۔یہ ہی وجہ ہے کہ نواز شریف کے بھی سیاسی آپشن محدود ہیں ۔ بلوچستان کے مسائل کے حل کے لیے تمام سیاسی جماعتوں ،سیاسی قیادت اور اسٹیبلیشمنٹ کو مل کر سیاسی اور انتظامی حکمت عملی اختیارکرنا ہوگی تاکہ اس بحران کا حقیقی اور پائیدار حل سامنے آسکے۔بلوچستان کے مسائل کا بہتر حل قومی سیاست اور ایک بڑے سیاسی،معاشی اور سیکیورٹی استحکام کے ساتھ ہی جڑا ہوا ہے ۔
اس لیے ایک ایسے موقع پر جب خارجی یا علاقائی ممالک بالخصوص بھارت اور افغانستان کی مداخلت موجود ہے توایسے میں ہمیں داخلی سطح کے مسائل کا حل تلاش کرکے ایک بڑے سیاسی اتفاق رائے کو پیدا کرنا ہوگا اور اسی حکمت عملی کی بنیاد پر سیاسی حل تلاش کرکے ہمیں بلوچستان کا حل تلاش کرنا ہے۔