پابندی کے باوجود کتوں کو بےرحمانہ طریقے سے ہلاک کرنے سے متعلق تفصیلی فیصلہ جاری
اشاعت کی تاریخ: 17th, February 2025 GMT
پنجاب میں پابندی کے باوجود کتوں کو بے رحمانہ طریقے سے ہلاکتوں کے خلاف دائر مقدمہ کا تفصیلی فیصلہ جاری کردیا گیا۔
لاہور ہائی کورٹ، راولپنڈی بینچ نے جسٹس جواد حسن کی سربراہی میں فیصلہ جاری کیا ہے، جس میں حکومت پنجاب اور مقامی حکام کو آوارہ کتوں کے ساتھ انسانی سلوک کے پروٹوکول پر سختی سے عمل کرنے کی ہدایت کی گئی ہے۔
یہ اینیمل برتھ کنٹرول پالیسی 2021 کے نفاذ کے لیے پہلا بڑا فیصلہ ہے، اس کیس میں انوائرمینٹل اینڈ اینیمل رائٹس کنسلٹنٹس کے بانی التمش سعید ایڈوکیٹ اور احمد شعیب عطا ایڈووکیٹ نے عدالت میں دلائل دیئے۔
آئین پاکستان 1973 کے آرٹیکل 199 کے تحت دائر کی گئی درخواست میں راولپنڈی میں آوارہ کتوں کے بے دریغ قتل کو چیلنج کیا گیا تھا، جو 1890 کے پریوینشن آف کروئلٹی ٹو اینیملز ایکٹ کی شق 5 اور پنجاب اینیمل ہیلتھ ایکٹ 2019 کی شق 16 کی خلاف ورزی تھی۔
عدالت نے آوارہ کتوں کے بے دریغ قتل پر سختی سے پابندی عائد کرتے ہوئے ہدایت دی ہے کہ حکام اینیمل برتھ کنٹرول (ڈاگز) پالیسی 2021 کی شق 8 اور 9 پر عمل کریں، اب صرف وہی کتے جو ناقابل علاج بیمار یا مہلک زخموں کا شکار ہوں، ویٹرنری ماہر کی نگرانی میں انسانی طریقوں کے ذریعے مارے جا سکیں گے۔
اس کے علاوہ، عدالت نے حکم دیا ہے کہ کسی بھی کتے کو دوسرے کتے کی موجودگی میں نہیں مارا جائے گا، اور تمام اقدامات انسانی سلوک کے معیارات کے مطابق ہونے چاہئیں۔ اس فیصلے کے نتیجے میں کتے مارنے پر مکمل پابندی عائد کر دی گئی ہے۔
مزید برآں، مردہ کتوں کی مناسب تدفین ضروری ہوگی، اور حکام کو اس بات کو یقینی بنانا ہوگا کہ مرنے سے پہلے کسی بھی جانور کو دفن نہ کیا جائے۔
عدالت نے یہ بھی برقرار رکھا کہ پاکستانی شہری جانوروں کے ساتھ ظلم و ستم کو بنیادی حقوق کی خلاف ورزی کے طور پر چیلنج کر سکتے ہیں، جس سے جانوروں کے تحفظ کے لیے قانونی منظرنامہ مزید مستحکم ہوا ہے۔
جسٹس جواد حسن نے اپنے فیصلے میں زور دیا کہ عدالت کسی بھی پالیسی معاملے میں مداخلت نہیں کر سکتی جب تک کہ وہ غیر آئینی، غیر معقول یا غیر قانونی نہ ہو۔ تاہم، انہوں نے اس بات کا اعادہ کیا کہ جانوروں کے حقوق کو قانونی فریم ورک کے اندر محفوظ بنایا جانا چاہیے اور حکام کو ہدایت دی کہ وہ اینیمل برتھ کنٹرول (ڈاگز) پالیسی 2021 کو اس کی اصل روح کے مطابق نافذ کریں۔
ایڈووکیٹ التمش سعید کاکہنا ہے کہ یہ فیصلہ پاکستان میں جانوروں کی فلاح و بہبود کی جدوجہد میں ایک سنگ میل ہے۔
انہوں نے زور دیا کہ یہ ایک قانونی اعتراف ہے کہ اجتماعی طور پر کتوں کا قتل غیر قانونی ہے اور اسے انسانی اور سائنسی متبادل کے ذریعے تبدیل کیا جانا چاہیے۔
پارٹنر احمد شعیب عطا نے مزید کہا کہ حکومت کو اب اخلاقی، طویل مدتی حل جیسے کہ نس بندی اور ویکسینیشن کو ترجیح دینی چاہیے بجائے اس کے کہ بڑے پیمانے پر قتل کو اپنایا جائے۔
انہوں نے حکام سے مطالبہ کیا کہ وہ عدالت کی ہدایات پر مکمل طور پر عمل کریں۔
انہوں نے بتایا یہ کیس اس وقت دائر کیا گیا جب راولپنڈی میں آوارہ کتوں کے اجتماعی قتل کی متعدد رپورٹس منظر عام پر آئیں، جہاں مقامی حکام نے کتوں کو گولی مارنے اور زہر دینے جیسے ظالمانہ اقدامات کیے۔
درخواست گزاروں نے مؤقف اختیار کیا کہ ظالمانہ پالیسیوں کی بجائے، ویکسینیشن، نس بندی اور کمیونٹی پر مبنی دیکھ بھال جیسے انسانی متبادل نافذ کیے جانے چاہئیں۔ اگرچہ حکومت نے ریبیز اور کتوں کے کاٹنے کے حوالے سے عوامی تحفظ کے خدشات کا حوالہ دیتے ہوئے اپنے اقدامات کا دفاع کیا، درخواست گزاروں نے کامیابی سے ثابت کیا کہ اجتماعی طور پر قتل نہ صرف غیر قانونی ہے بلکہ ایک غیر اسلامی عمل بھی ہے۔
جانوروں کے حقوق کے کارکن اب مطالبہ کر رہے ہیں کہ اینیمل برتھ کنٹرول (ڈاگز) پالیسی 2021 کا فوری نفاذ کیا جائے، جس کے لیے آزاد نگرانی کے طریقہ کار، تحصیل عملدرآمد کمیٹی کی تشکیل، بڑے پیمانے پر کتوں کی نس بندی اور ویکسینیشن کے قومی پروگراموں میں سرکاری سرمایہ کاری، اور عوام میں جانوروں کی ذمہ دارانہ دیکھ بھال اور آوارہ کتوں کے انسانی طریقے سے انتظام کے لیے آگاہی مہم چلائی جائے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: آوارہ کتوں کے جانوروں کے پالیسی 2021 کے لیے کیا کہ
پڑھیں:
پہلا سسٹین ایبل انویسٹمنٹ سکوک بانڈ جاری کرنے کا فیصلہ
اسلام آباد:حکومت نے صاف انرجی کے تین منصوبوں کی فنانسنگ کے لیے پاکستان کا پہلا سسٹین ایبل انویسٹمنٹ ایسٹیس بیکڈ سکوک بانڈز جاری کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے۔
اس سکوک بانڈ کے ذریعے حکومت صاف توانائی کے منصوبوں کے لیے مقامی مارکیٹ سے سرمایہ جمع کرے گی، صاف توانائی کے ان منصوبوں کی تکمیل کے لیے حکومت کو 52 ارب روپے کی ضرورت ہے۔
بانڈز نئے منظور شدہ سسٹین ایبل انویسٹمنٹ سکوک فریم ورک کے تحت جاری کیے جائیں گے، جس کی منظوری کابینہ نے رواں ماہ ہی دی ہے، وزارت خزانہ کے حکام کے مطابق ان پہلے سکوک کا حجم 30 ارب روپے تک ہوسکتا ہے۔
مزید پڑھیں: اجارہ سکوک بانڈز کی نیلامی سے 573 ملین روپے کی بچت
حکام کے مطابق ابتدائی طور پر وزارت خزانہ بلوچستان میں گروک اسٹوریج ڈیم، سندھ میں نائگاج ڈیم اور اسکردو میں شگرتھنگ ہائیڈرو پاور پراجیکٹ کی تعمیر کے لیے فنڈز فراہم کرنے کی منصوبہ بندی کر رہی ہے۔
یہ منصوبے پہلے ہی زیر تعمیر ہیں اور حکومت کو کام کی تکمیل کے لیے مزید 52 ارب روپے درکار ہوں گے۔
واضح رہے کہ بلوچستان کے ضلع خاران میں واقع گروک ڈیم کی لاگت 28 ارب روپے کے لگ بھگ ہو گئی ہے، جس کی وجہ کام کی تکمیل میں تاخیر اور کام کے دائرہ کار میں اضافہ ہے، حکومت کو کام مکمل کرنے کے لیے مزید 5 ارب روپے درکار ہیں۔
مزید پڑھیں: سکوک بانڈز کے ذریعے حکومتی توقعات سے 16گنا زیادہ سرمایہ فراہم
اسی طرح سندھ کے خیرپور ناتھن شاہ میں نائی گج ڈیم کے منصوبے کی لاگت میں بھی نمایاں اضافہ ہوا ہے اور اس کا افتتاح پہلی بار 2005 میں کیا گیا تھا، باقی کام کی تکمیل کے لیے حکومت کو 22 ارب روپے درکار ہیں۔
حکومت نے شگرتھنگ ہائیڈرو پاور پراجیکٹ کی بھی منظوری دے دی ہے اور اسکردو شہر اور اس کے ملحقہ علاقوں کو بجلی فراہم کرنے کے لیے 26 میگاواٹ بجلی پیدا کرنے کے لیے 25 ارب روپے کی فنڈنگ درکار ہے۔
وزارت خزانہ کے حکام نے کہا کہ گرین سکوک، سوشل سکوک اور سسٹین ایبل سکوک کا اجراء ایک منفرد اور قابل عمل فنانسنگ میکانزم پیش کرتا ہے جو اسلامی مالیاتی اصولوں کے مطابق ہے اور مؤثر منصوبوں کیلیے ضروری سرمایہ جمع کرتا ہے۔