کیا ٹرمپ کو حکومتی افسران برطرف کرنے کا لامحدود اختیار ہے؟ سپریم کورٹ میں اہم مقدمہ پہنچ گیا
اشاعت کی تاریخ: 17th, February 2025 GMT
واشنگٹن: امریکا کے سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو حکومتی افسران کو برطرف کرنے کے صدارتی اختیارات کے معاملے پر بڑے قانونی چیلنج کا سامنا ہے جس کا مقدمہ سپریم کورٹ میں پہنچ گیا ہے۔
ٹرمپ انتظامیہ نے ہیمپٹن ڈیلنگر کو ان کے عہدے سے 7 فروری کو ایک مختصر ای میل کے ذریعے فوری طور پر برطرف کر دیا، حالانکہ وہ آفس آف اسپیشل کونسل کے سربراہ تھے، جو سرکاری بدعنوانیوں، اخلاقیات کی خلاف ورزیوں اور سرکاری ملازمین کے تحفظ کا ذمہ دار ایک آزاد ادارہ ہے۔
ڈیلنگر نے اپنی برطرفی کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے عدالت سے رجوع کیا، جس پر ضلعی عدالت اور اپیلز کورٹ نے ٹرمپ کے اقدام کو مسترد کرتے ہوئے انہیں عارضی طور پر بحال کرنے کا حکم دیا۔ اب معاملہ سپریم کورٹ میں پہنچ چکا ہے۔
ٹرمپ انتظامیہ کا مؤقف ہے کہ صدر کو حکومتی افسران کو برطرف کرنے کا مکمل اختیار حاصل ہونا چاہیے اور کوئی بھی وفاقی جج صدر کی انتظامی طاقت میں مداخلت نہیں کر سکتا۔
ٹرمپ کے وکیل سارہ ایم ہیرس نے عدالت میں موقف اختیار کیا کہ کسی عدالت کو یہ اختیار نہیں دیا جا سکتا کہ وہ عارضی احکامات کے ذریعے صدر کے اختیارات محدود کرے اور کسی افسر کو زبردستی عہدے پر برقرار رکھے۔
ڈیلنگر اور ان کے وکلا نے مؤقف اپنایا کہ ان کی برطرفی امریکی قوانین کے خلاف ہے، کیونکہ 2024 میں جب انہیں سینیٹ کی منظوری سے تعینات کیا گیا تھا تو ان کے عہدے کی مدت پانچ سال مقرر کی گئی تھی۔
امریکی قانون کے مطابق، صدر کسی آزاد ادارے کے سربراہ کو صرف غفلت، نااہلی یا سنگین بدعنوانی کی بنیاد پر برطرف کر سکتے ہیں، لیکن ٹرمپ انتظامیہ نے ایسی کوئی قانونی وجہ فراہم نہیں کی۔
سپریم کورٹ میں قدامت پسند ججوں کی اکثریت پہلے بھی صدارتی اختیارات میں توسیع کے حق میں فیصلے دیتی رہی ہے۔ اگر ٹرمپ کے مؤقف کو تسلیم کر لیا گیا، تو اس کا مطلب ہوگا کہ مستقبل میں امریکی صدر کو کسی بھی آزاد حکومتی ادارے کے سربراہ کو برطرف کرنے کا لامحدود اختیار حاصل ہو جائے گا، جو کہ امریکی انتظامی نظام میں بڑی تبدیلی ہوگی۔
کچھ قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر عدالت نے 1935 کے تاریخی فیصلے Humphrey’s Executor v.
سپریم کورٹ آئندہ چند دنوں میں اس اہم مقدمے پر اپنا فیصلہ سنا سکتی ہے، جس کا امریکی سیاست پر گہرا اثر پڑ سکتا ہے۔
ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: سپریم کورٹ میں کرنے کا
پڑھیں:
جی ایچ کیو حملہ کیس میں شیخ رشید کی بریت اپیل؛ مہلت مانگنے پر سپریم کورٹ پراسیکیوٹر پر برہم
اسلام آباد:جی ایچ کیو حملہ کیس میں شیخ رشید کی بریت کی اپیل پر مہلت مانگنے پر سپریم کورٹ نے اسپیشل پراسیکیوٹر پنجاب پر برہمی کا اظہار کیا۔
جسٹس ہاشم کاکڑ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 3 رکنی بینچ نے جی ایچ کیو حملہ کیس میں شیخ رشید کی بریت کی اپیل پر سماعت کی، جس میں پنجاب حکومت نے شیخ رشید کی بریت کی اپیل پر شواہد پیش کرنے کے لیے وقت مانگ لیا۔
دورانِ سماعت جسٹس ہاشم کاکڑ نے ریمارکس دیے کہ التوا مانگنا ہو تو آئندہ اس عدالت میں نہ آنا۔ التوا صرف جج، وکیل یا ملزم کے انتقال پر ہی ملے گا۔
اسپیشل پراسیکیوٹر ذوالفقار نقوی نے عدالت کو بتایا کہ کچھ ملزمان کے اعترافی بیانات پیش کرنا چاہتے ہیں، جس پر جسٹس ہاشم کاکڑ نے کہا کہ شیخ رشید کےخلاف کیا شواہد ہیں؟
شیخ رشید کے وکیل نے کہا کہ جن اعترافی بیانات کا حوالہ دے رہے وہ فائل کا حصہ ہیں۔ حکومت مہلت خود مانگتی ہے اور الزام عدالتوں اور ملزمان پر لگاتی ہے۔
جسٹس ہاشم کاکڑ نے ریمارکس دیے کہ خدا کا خوف کریں شیخ رشید 50 مرتبہ ایم این اے بن چکے ہیں۔ شیخ رشید بزرگ آدمی ہے، کہاں بھاگ کر جائے گا۔ اس عدالت میں صرف قانون کے مطابق ہی فیصلہ ہوگا۔ زمین گرے یا آسمان پھٹے، عدالت میں قانون سے ہٹ کر کچھ نہیں ہوگا۔
اس موقع پر شیخ رشید کے وکیل سردار رازق نے سماعت اسی ہفتے مقرر کرنے کی استدعا کردی، جس پر جسٹس ہاشم کاکڑ نے ریمارکس دیے کہ آئندہ ہفتے مقدمہ لگ جائے اس کی پروا نہ کریں۔