یوکرین پر یورپی رہنماؤں کا آج ہنگامی سربراہی اجلاس
اشاعت کی تاریخ: 17th, February 2025 GMT
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 17 فروری 2025ء) فرانسیسی ایوان صدر سے جاری ایک بیان کے مطابق اہم یورپی رہنما پیر کو پیرس میں ملاقات کریں گے، جس میں یوکرین کی صورتحال اور یورپ میں سلامتی جیسے موضوعات پر تبادلہ خیال کیا جائے گا۔
یوکرین پر روس کے حملے کی تیسری برسی سے قبل ہونے والے اس اجلاس میں جرمنی، برطانیہ، اٹلی، پولینڈ، اسپین، ہالینڈ اور ڈنمارک کے رہنماؤں کی شرکت متوقع ہے۔
روس اور امریکہ کے مابین یوکرین کے معاملے پر رسہ کشی
یورپی کونسل کے سربراہ انتونیو کوسٹا، یورپی کمیشن کی سربراہ ارزولا فان ڈئر لائن اور نیٹو کے سیکرٹری جنرل مارک رٹے بھی اس اجلاس میں شرکت کریں گے۔
فرانسیسی صدر ایمانوئل ماکروں کے دفتر کے ایک معاون نے بتایا، ''یوکرین کے معاملے میں تیزی آنے کی وجہ سے اور امریکی رہنما جو کچھ کہہ رہے ہیں، اس کے نتیجے میں، یورپ کو اجتماعی سلامتی کے لیے مزید، بہتر اور مربوط طریقے سے کام کرنے کی ضرورت ہے۔
(جاری ہے)
‘‘یوکرین، روس اور یورپی دفاع سے متعلق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ انتظامیہ کے اقدامات سے یورپی حکام کو حالیہ دنوں میں صدمہ پہنچا ہے۔
'مضحکہ خیز جنگ' ختم کی جائے، ٹرمپ کا پوٹن سے مطالبہ
یورپی یونین کے خدشات میں سب سے اہم یہ ہے کہ وہ اب امریکی فوجی تحفظ پر بھروسہ نہیں کر سکتے اور ٹرمپ پوٹن کے ساتھ امن معاہدہ کرنے کی کوشش کریں گے جس سے کییف اور یورپی براعظم کی وسیع تر سلامتی کو نقصان پہنچے گا۔
دریں اثنا برطانوی وزیر اعظم کیئر اسٹارمر نے کہا کہ وہ برطانیہ اور یورپ کی سلامتی کو یقینی بنانے کے لیے، فائر بندی کے بعد ضرورت پڑنے پر، یوکرین میں فوج بھیجنے کے لیے تیار ہیں۔
اسٹارمر نے ڈیلی ٹیلی گراف اخبار میں لکھا، ''یوکرین کی سلامتی کو یقینی بنانے میں مدد کرنے میں ہمارا کوئی بھی کردار ہمارے براعظم اور اس ملک کی سلامتی کی ضمانت دینے میں مدد کرنا ہے۔
‘‘ یوکرین پر امریکہ روس مذاکرات منگل کوایک امریکی قانون ساز اور اس منصوبے سے واقف ایک اعلیٰ افسر نے بتایا کہ یوکرین میں ماسکو کی تقریباً تین سال سے جاری جنگ کو ختم کرنے کے لیے امریکی اور روسی حکام سعودی عرب میں ملاقات کریں گے۔ روسی اخبار کومرسنٹ نے نامعلوم ذرائع کے حوالے سے کہا ہے کہ یہ مذاکرات منگل کو سعودی دارالحکومت ریاض میں ہونے کی توقع ہے۔
امریکی نمائندے مائیکل میکول نے خبررساں ایجنسی روئٹرز کو بتایا کہ امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو، قومی سلامتی کے مشیر مائیک والٹز اور وائٹ ہاؤس کے مشرق وسطیٰ کے ایلچی اسٹیو وٹکوف پیر کو سعودی عرب پہنچ رہے ہیں۔
یوکرین کے صدر وولودیمیر زیلنسکی، جنہوں نے جمعے کے روز جرمنی میں امریکی نائب صدر جے ڈی وینس سے ملاقات کی، کہا کہ یوکرین کو سعودی عرب میں ہونے والے مذاکرات میں مدعو نہیں کیا گیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ کییف اپنے اسٹریٹجک شراکت داروں سے مشاورت کے بغیر روس کے ساتھ بات چیت نہیں کرے گا۔زیلنسکی، اس دوران، اتوار کو دیر گئے متحدہ عرب امارات پہنچے۔ ان کا یہ دورہ روس کے پہلے نائب وزیر اعظم ڈینس مانتوروف کے امارات کے رہنما شیخ محمد بن زید النہیان سے ملاقات کے بعد ہوا ہے۔
'پوٹن سے ملاقات بہت جلد'، ٹرمپامریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا ہے کہ وہ روسی صدر ولادیمیر پوٹن سے "بہت جلد" ملاقات کر سکتے ہیں۔
اتوار کے روز ایئرفورس ون پر جب صحافیوں نے ٹرمپ سے پوچھا کہ سعودی عرب میں دونوں رہنماؤں کے درمیان ہونے والی ممکنہ ملاقات کے بارے میں کیا اپ ڈیٹ ہے، تو انہوں نے کہا، "کوئی وقت مقرر نہیں ہے، لیکن یہ بہت جلد ہو سکتی ہے۔"امریکی صدر نے کہا کہ ان کی ٹیم روسی حکام کے ساتھ رابطے میں ہے۔ اس عمل میں ان کے مشرق وسطیٰ کے ایلچی اسٹیو وٹکوف بھی شامل ہیں جنہوں نے حال ہی میں پوٹن سے تقریباً تین گھنٹے تک بات چیت کی۔
ٹرمپ نے پوٹن کے بارے میں کہا، "میرے خیال میں وہ لڑائی بند کرنا چاہتے ہیں۔" انہوں نے مزید کہا کہ یوکرین کے صدر زیلنسکی بھی "اسے ختم کرنا چاہتے ہیں۔"
ٹرمپ نے بدھ کے روز پوٹن اور زیلنسکی کو الگ الگ فون کالز کی تھیں۔ وہ یوکرین جنگ کو تیزی سے ختم کرنے کے عزم کا بارہا اظہار کرچکے ہیں۔
ج ا ⁄ (روئٹرز، اے پی، اے ایف پی)
.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے یوکرین کے پوٹن سے کریں گے کہا کہ کے لیے نے کہا
پڑھیں:
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے امریکی محکمہ خارجہ کی از سرِ نو تشکیل کی تجویز
ٹرمپ انتظامیہ کے ایک مجوزہ ایگزیکٹو آرڈر کے مسودے کے مطابق، محکمہ خارجہ (State Department) میں نمایاں کمی اور از سرِ نو تشکیل کی تجویز دی گئی ہے۔ بلومبرگ کے مطابق، اس 16 صفحات پر مشتمل مسودے کی کاپی امریکی سفارتکاروں میں گردش کر رہی ہے۔
اگر یہ تبدیلیاں نافذ کر دی گئیں تو 1789 میں قیام کے بعد سے محکمہ خارجہ کی یہ سب سے بڑی تنظیمِ نو ہوگی۔ حکام کے مطابق، یہ مسودہ دنیا بھر کے سفارتکاروں کو بھیجا گیا ہے۔ امریکی وزیرِ خارجہ مارکو روبیو نے اتوار کے روز ایک پوسٹ میں ان اطلاعات کو ’جھوٹی خبر‘ قرار دیا۔
مجوزہ حکمنامے کے تحت درجنوں شعبے اور محکمے ختم کر دیے جائیں گے، جن میں ماحولیاتی تبدیلی، پناہ گزینوں، جمہوریت، افریقی امور اور اقوامِ متحدہ سے رابطے کے لیے کام کرنے والا ’بیورو آف انٹرنیشنل آرگنائزیشنز‘ شامل ہیں۔ اس کے علاوہ کینیڈا میں سفارتی سرگرمیوں میں بھی نمایاں کٹوتی کی جائے گی۔
مزید پڑھیں: ڈونلڈ ٹرمپ کے خلاف امریکا میں 700 مقامات پر ہزاروں افراد کے مظاہرے
یہ تجاویز ٹرمپ انتظامیہ کی اُس پالیسی کا تسلسل ہیں جس کے تحت امریکا کے کثیرالملکی عالمی نظام میں کردار کو کمزور کیا جا رہا ہے، وہ نظام جس کی تعمیر میں امریکا نے خود کلیدی کردار ادا کیا تھا۔
تبدیلیوں کے تحت، محکمہ خارجہ کو 4 علاقائی بیوروز میں تقسیم کیا جائے گا، جو انڈو پیسیفک، لاطینی امریکا، مشرقِ وسطیٰ اور یوریشیا پر مشتمل ہوں گے۔ افریقہ کے صحرائے اعظم کے جنوب میں واقع کئی غیر ضروری سفارتخانوں اور قونصل خانوں کو بند کرنے کی تجاویز بھی شامل ہے۔ مجوزہ مسودے کے مطابق یہ تبدیلیاں یکم اکتوبر تک نافذ کی جائیں گی۔
نیویارک ٹائمز کے مطابق مسودے کی پہلی بار خبر سامنے آئی لیکن امریکی سفارتخانے نیروبی کے ترجمان نے اس پر تبصرہ کرنے سے انکار کر دیا۔ یہ واضح نہیں کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ اس حکمنامے کے تمام نکات پر دستخط کریں گے یا نہیں۔ افریقہ میں موجود ایک سینئر اہلکار کے مطابق، محکمہ خارجہ میں اصلاحات سے متعلق جو معلومات گردش کر رہی ہیں وہ ممکنہ طور پر اس مسودے میں تجویز کردہ حد تک وسیع نہیں ہوں گی۔
مزید پڑھیں: ٹرمپ ضمانت دیں وہ پہلے کی طرح جوہری معاہدے سے پیچھے نہیں ہٹیں گے، ایران
اسی دوران، محکمہ خارجہ کے ملازمین نے ریڈٹ کے ایک فورم پر اس حکم نامے کے نفاذ کے حوالے سے شکوک و شبہات کا اظہار کیا ہے۔ ایک صارف نے لکھا کہ مجھے شک ہے کہ یہ مسودہ دراصل ایک چال ہے تاکہ جب اس سے کم سخت اصلاحات متعارف کرائی جائیں تو ہم خوشی خوشی انہیں قبول کرلیں۔
افریقہ اور کینیڈا کے امور میں تبدیلیاںحکمنامے کے تحت بیورو آف افریقن افیئرز، کلائمٹ کے لیے خصوصی ایلچی، بیورو آف انٹرنیشنل آرگنائزیشنز، اور آفس آف گلوبل ویمنز ایشوز سمیت متعدد اہم شعبے ختم کر دیے جائیں گے۔ دستاویز کے مطابق، کینیڈا سے سفارتی تعلقات کی نگرانی ایک محدود ٹیم کرے گی جو ’نارتھ امریکن افیئرز آفس ‘ (NAAO) کے تحت کام کرے گی اور اوٹاوا میں امریکی سفارتخانے کا حجم نمایاں طور پر کم کیا جائے گا۔
مزید برآں، سفارتی عملے کو علاقائی بنیادوں پر تعینات کیا جائے گا، اور انہیں اپنی پیشہ ورانہ زندگی کے دوران اسی علاقے میں خدمات انجام دینا ہوں گی۔ جو سفارتکار اس نظام کا حصہ نہیں بننا چاہیں گے، ان کے لیے 30 ستمبر تک رضاکارانہ ریٹائرمنٹ کا موقع دیا جائے گا۔ نیا فارن سروس امتحان بھی متعارف کرایا جائے گا جس میں امیدواروں کی صدارتی خارجہ پالیسی سے ہم آہنگی کو مدِنظر رکھا جائے گا۔
مزید پڑھیں: صدر ٹرمپ نے سرکاری اداروں میں بھرتیوں پر پابندی مزید 3 ماہ کے لیے بڑھا دی
اس کے علاوہ، دنیا بھر کے ہونہار طلبہ کے لیے معروف فلبرائٹ اسکالرشپ پروگرام کو محدود کرکے صرف قومی سلامتی سے متعلق ماسٹرز ڈگری پروگراموں تک محدود کر دیا جائے گا، جہاں مینڈرین چینی، روسی، فارسی اور عربی جیسی زبانوں میں مہارت رکھنے والے کورسز کو ترجیح دی جائے گی۔ ہاورڈ یونیورسٹی (واشنگٹن) سے منسلک فیلوشپس بھی ختم کرنے کی تجویز دی گئی ہے، جو ٹرمپ انتظامیہ کی ڈائیورسٹی، ایکوئٹی اور انکلوژن (DEI) پالیسیوں کی واپسی کی علامت ہے۔
نئے منصوبے کے تحت ’بیورو آف ہیومینیٹیرین افیئرز‘ ان تمام اہم فرائض کو سنبھالے گا جو ماضی میں یو ایس ایڈ (USAID) ادا کرتا تھا، جسے حالیہ مہینوں میں بند کرکے محکمہ خارجہ کے ماتحت کر دیا گیا ہے۔ حکمنامے میں مزید کہا گیا ہے کہ تمام عہدوں اور ذمہ داریوں کے لیے صدرِ امریکا کی تحریری منظوری لازم ہوگی۔
محکمہ خارجہ کی ویب سائٹ کے مطابق اس وقت ادارے میں قریباً 13 ہزار فارن سروس آفیسرز، 11 ہزار سول سروس ملازمین، اور دنیا بھر میں 270 سے زائد سفارتی مشنز پر 45 ہزار مقامی عملہ خدمات انجام دے رہا ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
امریکا امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ امریکی محکمہ خارجہ بلومبرگ نیو یارک ٹائمز