بھارتی فلم کے معروف اداکار اجے دیوگن اور انکی اہلیہ کاجول بالی ووڈ کی بہت زیادہ پسند کی جانے والی فلمی جوڑیوں میں شامل ہیں، تاہم اجے دیوگن اور کاجول کی مختلف پوسٹس دیکھ کر قیاس آرائیاں کی جا رہی ہیں کہ دونوں کے درمیان سب ٹھیک نہیں ہے۔

14 فروری کو ویلنٹائن ڈے کے موقع پر کاجول نے سماجی رابطوں کی سائٹ ایکس پر ایک پوسٹ کی جس میں انہوں نے خود کو ویلنٹائن ڈے کی مبارکباد دی اور لکھا کہ میں خود سے محبت کرتی ہوں۔

Happy Valentine’s Day to myself…I Love You! ????#selflove #the #greatest #love #of #all pic.

twitter.com/BBLdk8CrkY

— Kajol (@itsKajolD) February 14, 2025

دوسری جانب بالی ووڈ اداکاراجے دیوگن نے سوشل میڈیا پر پوسٹ کے ذریعے اپنی اہلیہ کاجول سے اظہار محبت کیا اور اپنی اور کاجول کی پرانی رومانوی تصویر شیئر کرتے ہوئے لکھا کہ شروع سے ہی فیصلہ کرلیا تھا کہ اپنا دل کس کے ساتھ بانٹوں گا اور آج تک یہ وہی ہے، میرا ویلنٹائن آج بھی اور ہر دن۔

Figured early on who to share my heart with… and till date, it remains the same! My #Valentine today & everyday ❤️ @itsKajolD pic.twitter.com/6NjIslxbBh

— Ajay Devgn (@ajaydevgn) February 14, 2025

ویلنٹائن ڈے پر دونوں کی شیئر کی گئی پوسٹس میں فرق نے سوشل میڈیا پر بہت ساری قیاس آرائیوں کو جنم دیا۔ ایک صارف نے لکھا کہ دونوں کے درمیان جھگڑا چل رہا ہے جبکہ ایک صارف نے لکھا کہ اجے نے کاجول کو ویلنٹائن ڈے کی مبارکباد دی جبکہ کاجول نے خود کو ویلنٹائن ڈے کی مبارکباد دی، ساتھ ہی انہوں نے لکھا کہ آج کل کی شادیاں واقعی خوفناک لگتی ہیں۔

ایک اور صارف نے تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ شاید اجے دیوگن ہمیشہ کاجول کو نظر انداز کر دیتے ہیں اور کبھی انہیں مبارکباد نہیں دیتے اس لیے وہ یہ پوسٹ کر رہی ہیں کیونکہ اداکارہ پریشان ہو چکی ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: بالی وڈ اداکارہ کاجول نے ’سوشل میڈیا سے بریک‘ کیوں لی؟

اجے دیوگن اور کاجول، جو پہلی بار 1995 میں اپنی فلم “ہلچل” کے سیٹ پر ایک دوسرے سے ملے تھے، 24 فروری 1999 کو شادی کے بندھن میں بندھ گئے تھے۔ ان کے دو بچے ہیں بیٹی نیسا (جو 2003 میں پیدا ہوئی) اور بیٹے یوگ (جو 2010 میں پیدا ہوئے)۔

واضح رہے کہ اجے دیوگن نے حال ہی میں 80 کروڑ بھارتی روپے کے بجٹ سے بننے والی فلم ’آزاد‘ میں کام کیا جو باکس آفس پر بری طرح ناکام ہوئی جبکہ کاجول نے نیٹ فلکس کی سنسنی خیز فلم ’دو پتی‘ میں  کام کیا تھا۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

اجے دیوگن کاجول

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: اجے دیوگن کاجول کو ویلنٹائن ڈے اجے دیوگن کاجول نے لکھا کہ

پڑھیں:

علامہ اقبال اور پاکستان پوسٹ

محمکہ ڈاک پاکستان نے پہلا ڈاک ٹکٹ 9 جولائی 1948 کو جاری کیا تھا، اس سے پہلے ڈاک کا نظام کیسے چلتا رہا وہ کہانی پھر سہی، چونکہ آج شاعر مشرق ڈاکٹر علامہ محمد اقبال کی 87ویں برسی ہے، اس لیے آج ’اقبال‘ پر جاری کیے گئے ڈاک ٹکٹوں تک محدود رہتے ہیں۔

علامہ اقبال کی 20ویں برسی پر 21 اپریل 1958 کو 3 یادگاری ڈاک ٹکٹ جاری کیے گئے

محمکہ ڈاک پاکستان نے علامہ اقبال کی 20ویں برسی کے موقع پر 21 اپریل 1958 کو 3 یادگاری ڈاک ٹکٹ جاری کیے۔ جو ڈیڑھ آنہ، 2 آنہ اور 14 آنہ مالیت کے تھے۔ تینوں کا ڈیزائن ایک سا تھا لیکن رنگ الگ الگ تھے۔ ان پر علامہ اقبال کا مشہور شعر ’معمارِ حرم، باز بہ تعمیر جہاں خیز‘ بھی درج تھا۔

ان پر علامہ اقبال کے دستخط کا عکس اور پس منظر میں ’پاکستان‘ اردو، بنگالی اور انگریزی میں لکھا گیا تھا۔ علامہ اقبال کی پیدائش کا سال 1873 لکھا گیا تھا۔( بعد میں حکومتی کمیٹی کی سفارشات کے بعد آئندہ ڈاک ٹکٹوں پر پیدائش کا سال 1877 ہی چھاپا گیا)۔ عبدالرحمان چغتائی کے ڈیزائین کردہ ٹکٹ انگلینڈ کی کمپنی ’ہیریسن لمیٹڈ لندن‘ نے چھاپے تھے۔

مزید پڑھیں: ’ایسا لگا کہ میں اقبال ہوں اور خود کو پینٹ کر رہا ہوں‘

علامہ اقبال کی 29ویں برسی پر 21 اپریل 1967 کو 2 یادگاری ڈاک ٹکٹ جاری کیے گئے

محکمہ ڈاک نے 21 اپریل 1967 کو علامہ اقبال کی 29ویں برسی پر 2 یادگاری ڈاک ٹکٹ جاری کیے۔ عبدالرؤف کے ڈیزائن کردہ 15 پیسے اور 1 روپیہ مالیت کے ٹکٹوں پر علامہ اقبال کے اردو اور فارسی اشعار بھی درج تھے۔ 15 پیسے والے ٹکٹ پر اردو میں یہ شعر درج تھا:

’ہزار چشمہ ترے سنگِ راہ سے پھوٹے
خودی میں ڈوب کے ضربِ کلیم پیدا کر‘

ٹکٹوں پر علامہ اقبال کا سن پیدائش 1877 اور سن وفات 1938 بھی درج تھا جبکہ اردو اور بنگالی میں ’پاکستان‘ بھی لکھا گیا تھا۔ ان کی طباعت پاکستان سیکیورٹی پرنٹنگ کارپوریشن کراچی میں ہوئی جبکہ ایک روپیہ والے ٹکٹ پر یہ فارسی شعر درج تھا:

’نغمہ کجا و من کجا، سازِ سخن بہانہ ایست
سوئے قطار می کشم، ناقۂ بے زمام را‘

علامہ اقبال کی سالگرہ کے موقع پر 9 نومبر 1974 کو یادگاری ٹکٹ جاری کیا گیا

9 نومبر 1974 کو علامہ اقبال کی سالگرہ کے موقع پر محکمہ ڈاک نے یادگاری ٹکٹ جاری کیا۔ منور احمد کے ڈیزائین کردہ ٹکٹ کی مالیت 20 پیسے تھی۔ ٹکٹ پر (Iqbal Centenary 1977) اور علامہ اقبال کی تاریخ پیدائش 9 نومبر 1877 اور تاریخ وفات 21 اپریل 1938 بھی درج تھی۔ اس کی طباعت پاکستان سیکیورٹی پرنٹنگ کارپوریشن کراچی میں ہوئی جبکہ اردو اور انگریزی میں ’پاکستان‘بھی لکھا گیا تھا۔

مزید پڑھیں: علامہ اقبال اور شاہ عبد العزیز: ایک فکری رشتہ جو تاریخ نے سنوارا

صد سالہ جشن پیدائش کے سلسلے میں 9 نومبر 1975 کو یادگاری ٹکٹ جاری کیا گیا

علامہ اقبال کی صد سالہ جشن پیدائش کی تیاری کے سلسلے میں ایک یادگاری ٹکٹ 9 نومبر 1975 کو ان کی سالگرہ کے موقع پر جاری کیا گیا۔ عادل صلاح الدین کے ڈیزائین کردہ ٹکٹ کی مالیت 20 پیسے تھی۔ ٹکٹ پر (Iqbal Centenary 1977) اور علامہ اقبال کا تاریخ پیدائش 9 نومبر 1877 اور سن وفات 21 اپریل 1938 بھی درج تھا۔

مفکر پاکستان گہری سوچ میں دکھائی دے رہے ہیں جبکہ پس منظر میں ان کی تصانیف (جاوید نامہ، ضرب کلیم، پیام مشرق، بانگ درا، بال جبریل، رموز بیخودی) کے نام بھی درج تھے۔ اس کی طباعت پاکستان سیکیورٹی پرنٹنگ کارپوریشن کراچی میں ہوئی جبکہ اردو اور انگریزی میں ’پاکستان‘ بھی لکھا گیا تھا۔

علامہ اقبال کی 99ویں سالگرہ کے موقع پر 9 نومبر 1976 کو یادگاری ٹکٹ جاری کیا گیا

صد سالہ جشن پیدائش کی تیاری کے سلسلے میں ایک یادگاری ٹکٹ 9 نومبر 1976 کو علامہ اقبال کی 99ویں سالگرہ کے موقع پر جاری کیا گیا۔ عارف جاوید کے ڈیزائین کردہ ٹکٹ کی مالیت 20 پیسے تھی۔

ٹکٹ پر (Iqbal Centenary 1977) اور علامہ اقبال کا تاریخ پیدائش 9 نومبر 1877 اور سن وفات 21 اپریل 1938 بھی درج تھا۔ اقبال کا مشہور شعر بھی درج تھا:
’فرد قائم ربطِ ملت سے ہے، تنہا کچھ نہیں
موج ہے دریا میں اور بیرونِ دریا کچھ نہیں‘

مزید پڑھیں: ’قوم علامہ اقبال کے افکار کی پیروی کرے‘ صدر اور وزیرِاعظم کا شاعر مشرق کی برسی پر پیغام

صد سالہ جشن پیدائش پر 9 نومبر 1977 کو 5 ٹکٹوں پر مشتمل یادگاری سیٹ جاری کیا گیا

پاکستان میں 1977 کو علامہ محمد اقبال کے صد سالہ جشن پیدائش کے طور پر منایا گیا۔ محکمہ ڈاک 9 نومبر 1977 کو 5 ٹکٹوں پر مشتمل یادگاری سیٹ جاری کیا۔ اخلاق احمد کے ڈیزائن کردہ 20 پیسہ اور 65 پیسہ مالیت کے ٹکٹوں پر اقبال کے فارسی اشعار اور ممتاز ایرانی مصور ’بہزاد‘ کی پینٹنگز شائع کی گئیں۔ ان پر یہ فارسی اشعار درج تھے:

’رفتم و دیدم دو مرد اندر قیام
مقتدی تاتار و افغانی امام‘

’روح رُومی پردہ ہا را بر درید
از پس کہ پارۂ آمد پدید‘

اسی ڈاک ٹکٹ سیٹ کی 1 روپیہ 25 پیسہ اور 2 روپے 25 پیسہ مالیت کی ٹکٹوں پر اقبال کے یہ اشعار درج تھے:

’کوئی اندازہ کرسکتا ہے اُس کے زورِ بازو کا؟
نگاہِ مردِ مومن سے بدل جاتی ہیں تقدیریں‘

’نہ افغانیم و نے ترک و تتاریم
چمن زادیم و از یک شاخساریم‘

پانچواں ٹکٹ جس کی مالیت 3 روپے تھی، اس پر علامہ اقبال کا پورٹریٹ شائع کیا گیا تھا۔ ان کی طباعت پاکستان سیکیورٹی پرنٹنگ کارپوریشن کراچی میں ہوئی جبکہ اردو اور انگریزی میں ’پاکستان‘ بھی لکھا گیا تھا۔

مزید پڑھیں: اسلام آباد میں یادگارِ اقبال

23 مارچ 1990 کو قراردادِ پاکستان کی گولڈن جوبلی کے موقع پر 3 یادگاری ٹکٹ جاری کیے گئے

23 مارچ 1990 کو قراردادِ پاکستان کی گولڈن جوبلی کے موقع پر 3 یادگاری ٹکٹ جاری کیے۔ ان میں سے ایک پر علامہ اقبال کی پورٹریٹ اور ایک ٹکٹ پر ان کا شعر شائع کیا گیا تھا۔ ایک ٹکٹ پر منٹو پارک لاہور کی منظر کشی ہے جہاں قراردادِ پاکستان منظور کی گئی تھی۔ اس تصویر میں اسٹیج پر لگے بینر پر اقبال کا شعر درج تھا:

’جہاں میں اہلِ ایماں صورتِ خورشید جیتے ہیں
اِدھر ڈوبے اُدھر نکلے، اُدھر ڈوبے اِدھر نکلے‘

ایک ٹکٹ پر علامہ اقبال کو 1930 میں الٰہ آباد جلسہ میں ان کی مشہور تقریر کرتے ہوئے دکھایا گیا ہے، جس میں انہوں نے برصغیر کے مسلمانوں کے لیے علیحدہ وطن کا تصور پیش کیا تھا۔ ایک، ایک روپے مالیت کے ان ٹکٹوں کو آفتاب ظفر نے ڈیزائن کیا تھا۔

14 اگست 1990 کو تحریک آزادی کے اکابرین پر 27 یادگاری ٹکٹوں کا سیٹ جاری کیا گیا

14 اگست 1990 کو محکمہ ڈاک نے تحریک آزادی کے اکابرین پر 27 یادگاری ٹکٹوں کا سیٹ جاری کیا۔ یہ سیٹ قائداعظم، علامہ اقبال، لیاقت علی خان، محترمہ فاطمہ جناح اور دیگر رہنماؤں پر مشتمل تھا۔ پروفیسر سعید اختر کے تیار کردہ پینسل اسکیچز سے بنے ہر ٹکٹ کی قیمت ایک روپے تھی۔

علامہ اقبال کی تصویر کے اوپر انگریزی میں ان کا نام اور پیدائش اور وفات کے سال درج تھے جبکہ سب سے اوپر (Pioneers of freedom) لکھا تھا۔

علامہ اقبال اور مولانا رومی کی یاد میں 2 یادگاری ٹکٹ جاری کیے گئے۔

21 اپریل 1997 کو پاکستان اور ایران کے باہمی ثقافتی تعلقات کے اظہار کے طور پر پاکستان اور ایران کے محکمہ ڈاک نے علامہ اقبال اور مولانا رومی کی یاد میں 3، تین روپے مالیت کے 2 یادگاری ٹکٹ بیک وقت جاری کیے تھے۔

ٹکٹوں پر دونوں عظیم شعرا کے فارسی اشعار درج تھے۔ عظیم صوفی شاعر اور روحانی پیشوا مولانا جلال الدین رومی (1252-1148) کے ٹکٹ پر یہ شعر درج تھا: ’بشنو ازنی چون حکایت می کند ۔۔۔ وز جدا ییہا شکایت می کند‘۔

جاوید الدین کے ڈیزائین کردہ ان ڈاک ٹکٹوں کی طباعت پاکستان سیکیورٹی پرنٹنگ کارپوریشن کراچی میں ہوئی، علامہ اقبال کے ٹکٹ پر فارسی کا یہ شعر درج تھا: ’ ای امین حکمتِ اُم الکتاب ۔۔۔ وحدت گم گشتہ خود بازیاب‘۔

مزید پڑھیں: اقبال کی شاعری خود شناسی کی لازوال دعوت ہے، یوم اقبال پر وزیراعظم کا پیغام

14 اگست 1997 کو آزادی کے 50 برس مکمل ہونے پر 4 ٹکٹوں کا یادگاری سیٹ جاری کیا گیا۔

14 اگست 1997 کو پاکستان کی آزادی کے 50 برس مکمل ہونے پر جشن (گولڈن جوبلی) منایا گیا۔ اس موقع پر محکمہ ڈاک نے تحریک آزادی کے اکابرین پر 4 یادگاری ٹکٹوں کا سیٹ جاری کیا۔ یہ سیٹ قائداعظم، علامہ اقبال، لیاقت علی خان، محترمہ فاطمہ جناح پر مشتمل تھا۔

پروفیسر سعید اختر کے تیار کردہ ہر ٹکٹ کی قیمت 3 روپے تھی۔ علامہ اقبال کی تصویر کے اوپر انگریزی میں Golden Jubilee Celebrations (1947–1997)) لکھا تھا۔

9 نومبر 2002 کو 2 یادگاری ٹکٹوں کا سیٹ جاری کیا گیا

محمکہ ڈاک پاکستان نے 2002 کو علامہ اقبال کا سال قرار دیا اور اسی سال 9 نومبر کو ان کے یوم پیدائش کی مناسبت سے 2 یادگاری ٹکٹوں کا سیٹ جاری کیا گیا۔ فیضی امیر کے ڈیزائین کردہ ٹکٹوں کی مالیت فی عدد 4 روپے تھی۔

ان ڈاک ٹکٹوں کی طباعت پاکستان سیکیورٹی پرنٹنگ کارپوریشن کراچی میں ہوئی تھی۔

14 جنوری 2005 کو علامہ اقبال اور میہائی ایمینیسکو کی اسلام آباد میں واقع یادگار پر 2 ڈاک ٹکٹ جاری کیے گئے

پاکستان پوسٹ نے 14 جنوری 2005 کو علامہ اقبال اور میہائی ایمینیسکو کی اسلام آباد میں واقع یادگار پر 2 ڈاک ٹکٹ جاری کیے تھے۔ ٹکٹوں کی فی عدد قیمت 5 روپے ہے جن پر دونوں شاعروں کی تصاویر کے ساتھ پاکستان اور رومانیہ کے جھنڈے بھی ہیں۔

ایک ٹکٹ پر تہذیبوں کے مابین مکالمے کی ضرورت کو اجاگر کیا گیا تھا۔ یہ ڈاک ٹکٹ عادل صلاح الدین نے ڈیزائن کیے تھے۔ ان کی طباعت پاکستان پوسٹ فاؤنڈیشن پریس نے کی تھی۔

علامہ اقبال کی 75ویں برسی 21 اپریل 2013 کو یادگاری ٹکٹ جاری کیا گیا

علامہ اقبال کی 75ویں برسی کے موقع پر 21 اپریل 2013 کو بھی ایک یادگاری ٹکٹ جاری کیا گیا تھا۔ عادل صلاح الدین کے ڈیزائین کردہ ٹکٹ کی مالیت 15 روپے تھی۔

یہ علامہ اقبال پر جاری کیا گیا پہلا ڈاک ٹکٹ تھا جس پر شاعر، فلاسفر اور سوشل ریفارمر بھی درج کیا گیا تھا۔

مزید پڑھیں: لاہور کی جاوید منزل جہاں سے آج بھی شاعر مشرق علامہ اقبالؒ کی خوشبو آتی ہے

پاک ترک سفارتی تعلقات کے 70 سال مکمل ہونے پر مشترکہ یادگاری ڈاک ٹکٹ کا اجرا

9 نومر 2017 کو پاکستان اور ترکی کے درمیان سفارتی تعلقات کے 70 سال مکمل ہونے کے موقع پر ترکی کی ڈاک اور ٹیلی گراف تنظیم (PTT) اور پاکستان پوسٹ نے 2 مشترکہ یادگاری ٹکٹ جاری کیے۔ 10 روپے فی عدد مالیت کی ٹکٹوں پر پاکستان کے قومی شاعر علامہ محمد اقبال (1938-1877) اور ترکی کے قومی شاعر مہمت عاکف ارسوی (1963-1873) کی تصاویر موجود تھیں، جنہیں دونوں ممالک کے عوام دل سے چاہتے ہیں۔

ترکی اب تک پاکستان کے حوالے سے 13 ڈاک ٹکٹ جاری کرچکا تھا، لیکن یہ پہلا موقع تھا جب دونوں ممالک نے مشترکہ ٹکٹ جاری کیا۔ ٹکٹ عادل صلاح الدین نے ڈیزائن کیے تھے جبکہ ان کی طباعت پاکستان سیکیورٹی پرنٹنگ کارپوریشن کراچی میں ہوئی۔

پاکستان اور ایران نے بنا رائیلٹی کے ڈاک ٹکٹس پر چھاپے؟

پاکستان پوسٹ نے 9 نومبر 2021 کو پاک جرمن تعلقات کے 70 برس مکمل ہونے پر ایک یادگاری ٹکٹ جاری کیا تھا، جس پر علامہ اقبال اور جرمن شاعر گوئٹے کے پورٹریٹ شائع کیے گئے تھے۔ پاکستان سیکیورٹی پرنٹنگ کمپنی، کراچی سے طباعت شدہ 20 روپے مالیت کے 4 لاکھ ٹکٹس جاری کیے گئے تھے۔

رائیلٹی کے لیے 3 دسمبر 2021 کو ڈائریکٹر جنرل پاکستان پوسٹ کو لکھے گئے خط کا عکس

پاکستان پوسٹ نے مصور اقبال ’عجب خان‘ کی اجازت کے بغیر ان کا بنایا ہوا اقبال کا پورٹریٹ شائع کیا تو انہوں نے رائیلٹی کے لیے 3 دسمبر 2021 کو ڈائریکٹر جنرل پاکستان پوسٹ سمیت دیگر ارباب اختیار کو خطوط لکھے جو تاحال جواب کے منتظر ہیں۔

فرزند اقبال کی 100ویں سالگرہ پر یادگاری سونیئر شیٹ بمعہ یادگاری ڈاک ٹکٹ جاری کیا گیا

ڈاکٹر جاوید اقبال (1924–2015) پاکستان کے عظیم مفکر، مصنف، ماہرِ قانون اور جج تھے۔ وہ علامہ محمد اقبال فرزند تھے، ان کی زندگی بھی فکری، علمی اور عدالتی خدمات سے بھرپور تھی۔ ان کی 100ویں سالگرہ کی مناسبت سے پاکستان پوسٹ کی جانب سے 100 روپے مالیت کی سونیئر شیٹ بمعہ یادگاری ڈاک ٹکٹ 9 نومبر 2024 کو جاری کیا۔

یوم اقبال (9 نومبر) کے موقع پر جاری کیے گئے ٹکٹ کو ابو عبیدہ ایاز اور حسنین محمود نے ڈیزائین کیا تھا۔ پاکستان سیکیورٹی پرنٹنگ کمپنی، کراچی سے طباعت شدہ 10 ہزار سونیئر شیٹز جاری کی گئی تھیں۔ یہ پاکستان کی ڈاک تاریخ میں پہلی بار QR کوڈ والا ٹکٹ بھی ہے۔QR کوڈ اسکین کرنے سے ڈاکٹر جاوید اقبال کی زندگی، خدمات اور تصانیف کے بارے میں معلومات حاصل کرسکتے ہیں جو جدید ٹیکنالوجی کے ذریعے علم کے فروغ کی جانب اہم قدم ہے۔

ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

مشکور علی

پاکستان پوسٹ ڈاکٹر محمد علامہ اقبال علامہ اقبال علامہ اقبال اور پاکستان پوسٹ علامہ اقبال پر جاری کیے گئے ڈاک ٹکٹ مشکورعلی

متعلقہ مضامین

  • ’بچے کو بچالیں‘، سڑک پر کھڑے گولڈن کڈ کو دیکھ کر گلوکار بلال مقصود کی سوشل میڈیا پر جذباتی پوسٹ
  • بیٹا مجرم ہو تو سزا دیں مگر غائب نہ کریں، وزارت داخلہ کے لاپتا ملازم کے والد کی استدعا
  • علامہ اقبال اور پاکستان پوسٹ
  • عماد عرفانی کی گلوکار علی عظمت کو دلچسپ انداز میں سالگرہ کی مبارکباد
  • مسیحی برادری نے ایسٹر منایا صدر کی مبارکباد
  •   عرفان صدیقی کی  شکیل ترابی کو جماعت اسلامی کا سیکرٹری اطلاعات مقرر ہونے پر مبارکباد
  • ایسٹر تجدید اور امید کی علامت ، صدرمملکت اور وزیراعظم  کی  مسیحی برادری کو مبارکباد
  • بابر سلیم سواتی کرپشن الزامات سے بری، احتساب کمیٹی کی رپورٹ سامنے آگئی
  • غیر قانونی بھرتیاں، اسپیکر کے پی اسمبلی کیخلاف احتساب کمیٹی کی تحقیقات مکمل، رپورٹ جاری
  • ظلم و جبر بھارت سے آزادی کا راستہ ہرگز نہیں روک سکتا