عمران خان کی جیل سے ہیٹرک اور کھلے خطوط کی کھلی تاریخ
اشاعت کی تاریخ: 17th, February 2025 GMT
(آخری حصہ)
جب کسی ملک میں سوشل میڈیا یا آزاد میڈیا پر قدغن لگائی جاتی ہے تو کھلے خطوط عالمی سطح پر بیداری پیدا کرتے ہیں۔2021 میں افغانستان میں طالبان کی واپسی کے بعد،صحافیوں اور انسانی حقوق کے کارکنوں نے کھلے خطوط لکھے تاکہ میڈیا کی آزادی کو برقرار رکھا جا سکے۔۔۔چین میں اویغور مسلمانوں پر مظالم کے خلاف مختلف تنظیموں نے اقوامِ متحدہ اور دیگر عالمی اداروں کو کھلے خطوط لکھے۔۔۔مارٹن لوتھر کنگ جونیئر کو 1963 میں شہری حقوق کی تحریک کے دوران گرفتار کیا گیا تھا،انہوں نے برمنگھم جیل میں رہتے ہوئے ایک کھلا خط لکھا جس میں نسل پرستی اور امتیازی سلوک کے خلاف جدوجہد کا دفاع کیا۔۔۔اس خط نے امریکی شہری حقوق کی تحریک کو مزید مضبوط کیا اور عالمی سطح پر انسانی حقوق کے کارکنوں کو متاثر کیا۔۔۔آج بھی یہ خط انصاف اور برابری کے حامیوں کے لیے ایک ترغیب کا ذریعہ ہے۔۔برٹرینڈ رسل اور البرٹ آئن سٹائن نے 1955میں ایک کھلا خط لکھا جس میں ایٹمی جنگ کے خطرے سے خبردار کیا گیا،یہ خط دوسری عالمی جنگ کے بعد لکھا گیا جب امریکہ اور سوویت یونین کے درمیان جوہری ہتھیاروں کی دوڑ جاری تھی۔اس کھلے خط کے نتیجے میں پگ واش کانفرنس کا انعقاد ہوا، جو جوہری تخفیف اسلحہ کے لیے ایک اہم قدم تھا۔۔۔آج بھی یہ امن پسند تحریکوں کے لیے ایک رہنما اصول کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔۔۔یہ تمام کھلے خطوط تاریخ کے اہم موڑ پر لکھے گئے اور انہوں نے نہ صرف اپنے وقت پر اثر ڈالا بلکہ آج بھی ان کا حوالہ دیا جاتا ہے۔۔۔ان کے ذریعے انسانی حقوق، انصاف، آزادی اور امن کے پیغامات کو عام کیا گیا اور کئی بار حکومتوں کو اپنے فیصلے بدلنے پر مجبور کیا گیا۔۔۔ پاکستان میں کئی بڑے سیاست دانوں نے وقتاً فوقتاً کھلے خطوط لکھے ہیں،جن میں سیاسی،جمہوری اور انسانی حقوق سے متعلق موضوعات شامل رہے ہیں۔یہ خطوط اکثر اخبارات، سوشل میڈیا یا عالمی اداروں میں شائع کیے گئے تاکہ عوام اور عالمی برادری کو متوجہ کیا جا سکے۔۔۔محترمہ فاطمہ جناح نے 1965 میں جب ایوب خان کے خلاف صدارتی انتخاب لڑا تو انہوں نے ایک کھلا خط پاکستانی عوام کے نام لکھا۔اس میں انہوں نے فوجی آمریت کے خطرات اور جمہوریت کی بحالی کی ضرورت پر زور دیا،یہ خط پاکستان میں آمریت کے خلاف پہلا تحریری احتجاج سمجھا جاتا ہے،اس میں سیاسی بیداری، عوامی حق حاکمیت اور آزادی اظہار پر زور دیا گیا تھا۔1977 میں جب آرمی چیف جنرل ضیاء الحق نے مارشل لا لگا کر حکومت کا تختہ الٹ دیا تو ذوالفقار علی بھٹو کو گرفتار کر لیا گیا۔جیل میں رہتے ہوئے انہوں نے ملٹری قیادت کے خلاف سخت بیانات دیئے لیکن براہِ راست فوجی سربراہ کے نام کھلے خطوط نہیں لکھے۔۔۔ذوالفقار علی بھٹو نے جیل میں رہتے ہوئے عوام،عدلیہ،عالمی برادری اور اپنے اہل خانہ کو مخاطب کرتے ہوئے اپنی بے گناہی،ضیاء الحق کے آمرانہ اقدامات اور جمہوریت کی بحالی پر کتاب’’اگر مجھے قتل کر دیا گیا‘‘لکھی جسے اس دور میں پاکستان سے شائع کرنے کی اجازت بھی نہ ملی اور اگر کسی نے کتاب چھاپنے کی کوشش کی تو اسے گرفتار کر لیا گیا،بعد ازاں 1979میں دہلی سے یہ کتاب شائع ہوئی اوراس نے عالمگیر شہرت پائی۔۔۔ اس کتاب میں پاکستان میں جمہوریت کی جدوجہد اور ضیاء الحق کی آمریت پر کھلی تنقید کی گئی تھی۔۔۔سابق وزیر اعظم محترمہ بے نظیر بھٹو نے کئی مواقع پر عالمی اداروں کے نام کھلے خطوط لکھے،جن میں پاکستان میں جمہوریت،انسانی حقوق کی پامالی،عدلیہ کی آزادی اور خواتین کے حقوق پر بات کی گئی۔بے نظیر بھٹو نے1980 کی دہائی میں جنرل ضیاء الحق کی آمریت کے خلاف اقوام متحدہ اور عالمی رہنمائوں کو خطوط لکھے۔انہوں نے2007 میں اپنی شہادت سے پہلے پرویز مشرف کی حکومت کو ایک کھلا خط لکھا،جس میں ملک میں جمہوریت کی بحالی کا مطالبہ کیا۔ان کی جانب سے لکھے گئے خطوط نے عالمی سطح پر پاکستان میں جمہوری جدوجہد کو اجاگر کرنے کے ساتھ خواتین کی قیادت اور انسانی حقوق پر بینظیربھٹو کے نظریات کو واضح کیا۔۔۔سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف نے بھی مختلف ادوار میں ’’جمہوریت بچانے‘‘ کے لئے مارشل لا،عدلیہ اور جمہوری حقوق پر کھلے خطوط لکھے۔ 1999 میں آرمی چیف جنرل پرویز مشرف کے مارشل لا کے بعد نواز شریف نے عوام اور عالمی برادری کے نام کئی کھلے خطوط لکھے۔۔2018 میں پاناما کیس اور نااہلی کے بعد نواز شریف نے ملٹری قیادت کے خلاف سخت بیانات تو دیئے لیکن کسی آرمی چیف کے نام کھلا خط نہیں لکھا،لندن سے اپنی تقاریر اور بیانات میں اْنہوں نے عدلیہ، اسٹیبلشمنٹ اور میڈیا پر دبائو کی شکایت کی۔’’ووٹ کو عزت دو‘‘ تحریک بھی انہی نظریات پر مبنی تھی۔2018 کے بعد جمہوریت،عدلیہ اور آزادی اظہار پر ان کی تقاریر اور بیانات خاصے وائرل ہوئے۔۔۔۔ پاکستان کی تاریخ میں کھلے خطوط ہمیشہ سیاسی اور جمہوری جدوجہد کا اہم حصہ رہے ہیں۔۔۔ ذوالفقار علی بھٹو،بینظیر بھٹو،نواز شریف،عمران خان اور دیگر رہنمائوں کے خطوط نے نہ صرف عوام کو بیدار کیا بلکہ عالمی برادری کی توجہ بھی مبذول کرائی۔ بہرحال عمران خان کا آرمی چیف کے نام تین کھلے خطوط لکھنا ایک غیر معمولی سیاسی اقدام ہے کیونکہ پاکستان کی تاریخ میں کم ہی سیاسی رہنمائوں نے براہِ راست آرمی چیف کو اس انداز میں مخاطب کیا ہے۔۔۔عام طور پر سیاستدان اپنی شکایات اور مطالبات عوامی تقاریر،پریس کانفرنسز یا پارلیمنٹ کے ذریعے کرتے ہیں لیکن کھلے خطوط کے ذریعے براہِ راست آرمی چیف سے مخاطب ہونا ایک غیر روایتی اور جرأت مندانہ قدم سمجھا جا سکتا ہے۔۔۔عام طور پر سیاستدان ایسے معاملات پارلیمنٹ یا عدالت میں اٹھاتے ہیں لیکن عمران خان نے براہ راست فوجی قیادت کو خطوط لکھ کر اپنی بات عوامی سطح پر پہنچائی ہے۔۔۔یہ کھلے خطوط عالمی سطح پر بھی توجہ کا مرکز بنے ہوئے ہیں۔۔۔ان خطوط کی عالمی میڈیا میں شہ سرخیاں بنیں اور انسانی حقوق کے عالمی اداروں کو پاکستان میں سیاسی آزادیوں پر سوال اٹھانے پر مجبور کیا۔۔۔ ماضی میں زیادہ تر سیاستدان بند دروازوں کے پیچھے مذاکرات کو ترجیح دیتے رہے ہیں لیکن عمران خان نے اپنے حامیوں کو براہ راست اعتماد میں لینے کا طریقہ اختیار کیا۔۔۔یہ بات درست ہے کہ عمران خان کی جانب سے آرمی چیف کے نام ’’کھلے خطوط کی ہیٹرک‘‘ایک پریشر ٹیکنیک ہے۔۔۔عمران خان کے حامی اسے حقیقی آزادی کی جنگ قرار دیتے ہیں جبکہ مخالفین اسے دبائو ڈالنے کی کوشش سمجھتے ہیں تاکہ اسٹیبلشمنٹ کو پالیسی بدلنے پر مجبور کیا جا سکے۔۔۔ عمران خان شاید پہلے پاکستانی سیاستدان ہیں جنہوں نے آرمی چیف کو براہ راست تین کھلے خطوط لکھ کر ایک نئی سیاسی روایت قائم کی ہے۔یہ ایک غیر معمولی اقدام ہے کیونکہ اس سے پہلے کسی سیاستدان نے اس طرح تواتر کے ساتھ براہ راست فوجی قیادت کو چیلنج نہیں کیا۔۔۔سوشل میڈیا کے اس دور میں ان خطوط نے پاکستانی سیاست میں اسٹیبلشمنٹ کے کردار پر ایک نئی بحث چھیڑ دی ہے اور عمران خان کے حامیوں میں مزید جوش پیدا کیا ہے۔۔۔۔ حکومتی ترجمان سینیٹر عرفان صدیقی کا یہ کہنا کہ’’ان خطوط کا کوئی جواب آنا تو دور کی بات،رسید تک بھی نہیں آئے گی،عمران خان جنہیں خط لکھ رہے ہیں،وہ پڑھنا ہی نہیں چاہ رہے‘‘درست نہ ہے،کسی کے خطوط پڑھنے یا جواب نا دینے سے کچھ نہیں ہونا کیونکہ عمران خان نے جن کے لئے خطوط لکھے تھے،انہوں نے انہیں پڑھ بھی لیا ہے اور ان خطوط کے واضح پیغام کو سمجھ بھی لیا ہے۔۔۔یہ واضح ہے کہ عمران خان کے ان کھلے خطوط کا اثر مستقبل کی سیاست پر بھی پڑ سکتا ہے کیونکہ اب دیگر سیاستدان بھی اسی طرح عوام کے سامنے طاقتور اداروں کو چیلنج کرنے کی روایت اپنا سکتے ہیں، عمران خان کی جانب سے آرمی چیف کے نام ’’کھلے خطوط کی ہیٹرک‘‘ سے حکومتی بوکھلاہٹ اور مقتدرہ کی پریشانی واضح کرتی ہے کہ ’’ان خطوط ‘‘ نے اپنا کام دکھانا اور دبائو بڑھانا شروع کر دیا ہے۔۔۔
ذریعہ: Nai Baat
کلیدی لفظ: ا رمی چیف کے نام اور انسانی حقوق عالمی برادری عالمی اداروں عالمی سطح پر پاکستان میں اور جمہوری جمہوریت کی میں جمہوری نواز شریف براہ راست اور عالمی ضیاء الحق انہوں نے کیا گیا خطوط کی کے خلاف کھلے خط رہے ہیں خان کے ا مریت اور ان کے بعد
پڑھیں:
مغربی سامراجی قوتوں نے تاریخ کو کیسے مسخ کیا؟
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 20 اپریل 2025ء) اس کی ایک واضح مثال 1861ء سے 1865ء تک جاری رہنے والی امریکی خانہ جنگی ہے۔ مورخین اس کے اسباب پر منقسم ہیں۔ ایک گروہ کا ماننا ہے کہ یہ جنگ غلامی کے خاتمے کے لیے لڑی گئی، جبکہ دوسرا گروہ اسے یونین کے تحفظ سے جوڑتا ہے۔ تیسرے گروہ کی رائے ہے کہ شمالی ریاستیں، جو صنعتی ترقی کی راہ پر تھیں، جنوبی ریاستوں کے زرعی کلچر اور غلامی پر مبنی معیشت کو ختم کرنا چاہتی تھیں۔
جنوبی ریاستوں کے بڑے زمیندار، جن کی دولت غلاموں کی محنت سے حاصل شدہ زرعی پیداوار پر منحصر تھی، غلامی کو جائز قرار دیتے تھے۔ وہ دعویٰ کرتے تھے کہ افریقی غلاموں کو ان کے ''پسماندہ معاشروں‘‘ سے نکال کر امریکہ میں آباد کیا گیا، جہاں انہیں عیسائیت قبول کروا کر ''نجات اور معاشی استحکام‘‘ دیا گیا۔
(جاری ہے)
جب کوئی تاریخی واقعہ متنازع ہو جاتا ہے، تو ہر گروہ اپنے موقف کے دفاع کے لیے نئے تاریخی مآخذ تلاش کرتا ہے یا موجودہ مآخذ کی نئی تشریحات پیش کرتا ہے۔
اس عمل سے تاریخ کا دائرہ کار وسیع ہوتا ہے اور نئے خیالات اسے تازگی عطا کرتے ہیں۔ تاہم یہ عمل تاریخ کو مسخ کرنے کا باعث بھی بن سکتا ہے۔یورپی سامراجی ممالک نے اپنی نوآبادیاتی تاریخ کو بہت حد تک مسخ کیا ہے۔ انہوں نے مقامی باشندوں کا استحصال کیا، ان کا قتل عام کیا اور ان کی دولت لوٹ لی لیکن ان مظالم کا تذکرہ ان کی تاریخی کتابوں میں شاذ و نادر ہی ملتا ہے۔
اس کے برعکس، وہ اپنی نوآبادیاتی تاریخ کو فخر کے ساتھ پیش کرتے ہیں۔ یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ انہوں نے ایشیا اور افریقہ کی ''پسماندگی‘‘ کو ختم کر کے انہیں ''مہذب‘‘ بنایا۔اسی طرح، جن یورپی ممالک نے غلاموں کی تجارت کی، انہوں نے افریقہ سے غلاموں کو جہازوں میں بھر کر امریکہ کی منڈیوں میں فروخت کیا اور کریبین جزائر میں ان سے شکر اور کافی کی پیداوار کروائی۔
ان مظالم کی تفصیلات ان کی تاریخ سے غائب ہیں۔تاریخ کا ارتقاء کیسے ہوتا ہے؟
وہ فخر سے بتاتے ہیں کہ 1830ء کی دہائی میں برطانیہ اور دیگر یورپی ممالک نے غلامی کا خاتمہ کیا اور وہ اسے اپنی مذہبی و اخلاقی اقدار کا نتیجہ قرار دیتے ہیں۔ لیکن یہ دعویٰ حقیقت سے دور ہے۔ غلامی کا خاتمہ مذہبی یا اخلاقی وجوہات کی بجائے تکنیکی ترقی کی وجہ سے ہوا۔
جب مشینوں نے غلاموں کی محنت سے زیادہ پیداوار دینا شروع کی تو غلام معاشی بوجھ بن گئے۔ نتیجتاً، انہیں آزاد کیا گیا لیکن آزادی کی قیمت بھی غلاموں سے ہی وصول کی گئی۔ مالکان نے دعویٰ کیا کہ غلام ان کی ملکیت ہیں، اس لیے انہیں آزادی کے بدلے چار سے پانچ سال تک بغیر معاوضے کے کام کرنا پڑا۔ یورپی ممالک نے غلاموں کی نسلوں سے لی گئی محنت کا کوئی معاوضہ ادا کرنے پر غور نہیں کیا اور غلامی کے کاروبار کو جرم قرار دینے سے گریز کیا۔
یورپی سامراج نے اپنی غربت کم کرنے کے لیے افریقہ میں کالونیاں قائم کیں۔ سیسل روڈز (وفات: 1902ء) نے موجودہ زمبابوے اور جنوبی افریقہ میں مقامی لوگوں کی زمینوں پر قبضہ کر کے برطانوی غریبوں کو آباد کیا۔ جرمنی نے نمیبیا اور ہرارے میں نابا قبائل کو ختم کر کے جرمن آباد کاروں کو بسایا۔ اس طرح، یورپی ممالک نے ''اپنی غربت ختم کر کے افریقیوں کو غریب‘‘ بنا دیا لیکن ان کی تاریخ ان جرائم پر خاموش ہے۔
تاریخ کو مسخ کرنے کا عمل قوم پرستی اور وطن پرستی کے نام پر بھی کیا گیا۔ 1937ء میں جاپان نے چین پر حملہ کیا اور نانجِنگ سمیت کئی شہروں میں لوٹ مار اور قتل عام کیا۔ نانجِنگ میں شہریوں کا قتل، خواتین کے ساتھ جنسی زیادتی اور منچوریہ میں آبادی کا خاتمہ جاپانی بربریت کی واضح مثالیں ہیں۔
عالمگیر تاریخ
جاپان نے فلپائن اور کوریا میں بھی یہی مظالم دہرائے، جہاں کوریائی خواتین کو ''کمفرٹ ویمن‘‘ کے نام سے جنسی غلامی کا نشانہ بنایا گیا۔
لیکن دوسری عالمی جنگ کے بعد جاپانی مورخین نے قوم پرستی کے نام پر ان مظالم کو نظرانداز کیا۔ نانجنگ کے قتل عام کو تاریخی طور پر تسلیم نہیں کیا گیا، حالانکہ تصاویر اور شواہد موجود ہیں، جن میں شہریوں کی لاشیں سڑکوں پر بکھری نظر آتی ہیں۔کچھ جاپانی فوجیوں نے فخریہ طور پر اپنی ڈائریوں میں لکھا کہ انہوں نے شہریوں کو قطار میں کھڑا کر کے یہ دیکھا کہ ایک گولی سے کتنے لوگ ہلاک ہو سکتے ہیں۔
ایسی تفصیلات جاپانی تاریخ سے غائب ہیں۔جاپان نے اپنی نئی نسل کو تاریخی حقائق کے بجائے قومی عظمت کی داستانیں سنائیں اور مظالم کو قومی مفاد کے نام پر چھپایا۔ یورپی سامراجی ممالک نے بھی اپنی کالونیوں کی آزادی کے وقت تاریخی دستاویزات کو یا تو جلا دیا یا اپنے ممالک میں منتقل کر دیا۔ آزادی کے بعد لکھی گئی تاریخ میں ایشیا اور افریقہ کی سامراجی مزاحمت کو نظر انداز کیا گیا اور حقائق کو مسخ کر کے پیش کیا گیا۔
مسخ شدہ تاریخ کو درست کرنا اس لیے مشکل ہے کہ متعلقہ دستاویزات یا تو موجود نہیں یا یورپی ممالک کے قبضے میں ہیں، جہاں تک ایشیا اور افریقہ کے ممالک کی رسائی نہیں۔ بدقسمتی سے ایشیا اور افریقہ کے ان ممالک میں، جہاں آمرانہ حکومتیں رہی ہیں، وہاں بھی تاریخ کو مسخ کیا گیا۔ آمروں نے اپنے ظلم و ستم کو قوم پرستی کے نام پر چھپایا اور مورخین نے ان واقعات کو مکمل طور پر بیان کرنے سے گریز کیا۔
جب تاریخ کو مسخ کر کے نصابی کتب میں شامل کیا جاتا ہے، تو نوجوان نسل تاریخی شعور سے محروم ہو جاتی ہے۔ وہ ماضی سے سبق سیکھنے کے بجائے گمراہی کا شکار ہوتی ہے۔ تاریخ کو درست کرنے کی ذمہ داری مورخین اور معاشروں پر عائد ہوتی ہے تاکہ آنے والی نسلیں حقائق سے آگاہ ہو سکیں اور ماضی کے تجربات سے سیکھ سکیں۔
ادارت: امتیاز احمد