Nai Baat:
2025-04-23@00:25:17 GMT

سحر کا طلسم: وہم یا علم؟

اشاعت کی تاریخ: 17th, February 2025 GMT

سحر کا طلسم: وہم یا علم؟

دنیا میں دو قسم کے نظام بیک وقت چل رہے ہیں، ایک مادی نظام جسے ہم اپنی آنکھوں سے دیکھتے اور سائنسی بنیادوں پر پرکھتے ہیں جبکہ دوسرا روحانی یا مخفی نظام، جو نظر تو نہیں آتا لیکن اس کے اثرات محسوس کیے جا سکتے ہیں۔ انسانی تاریخ کے اوراق میں جادو ایک پُرکشش مگر پُراسرار حقیقت کے طور پر روزِ اول سے موجود رہا ہے۔ یہ محض کہانیوں اور دیو مالائی داستانوں کا حصہ نہیں بلکہ قدیم تہذیبوں، مذاہب اور سائنسی تحقیقات میں بھی اس کے اثرات کی بازگشت سنائی دیتی ہے۔ اولادِ آدم ہمیشہ سے ہی پراسرار قوتوں کی کشش میں مبتلا رہی ہے، اور سحر ان پراسرار رازوں میں سے ایک راز ہے جس نے صدیوں سے انسانی ذہن کو مسحور کیے رکھا ہے۔ کبھی یہ طاقت و اختیار کا ذریعہ سمجھا جاتا ہے اور کبھی خوف اور بربادی کی علامت۔ تقریباً تمام مذاہب ہی جادو کی حقیقت کو تسلیم کرتے ہیں مگر اس کے جواز پر اختلاف رکھتے ہیں۔ اسلامی تعلیمات میں جہاں جادو کے وجود کو تسلیم کیا گیا ہے وہیں اسے شیطانی عمل قرار دے کر اس سے باز رہنے کی سختی سے تلقین کی گئی ہے۔ جادو ایک ایسا علم ہے جس کے ذریعے لوگوں کے دلوں میں وسوسے پیدا کر کے انہیں سیدھے راستے سے بھٹکایا جاتا ہے۔ جس کی بنیاد اللہ تعالیٰ کی نافرمانی، شرک، کفر، برائی اور گناہ پر رکھی گئی۔ واقعات کو غیر فطری طور پر ظہور پذیر میں لانے کا فن ہی جادو کہلاتا ہے۔ سحر اور جادو برحق ہے اور قرآن و سنت کے دلائل کی رو سے جادو، ٹونہ انسانی زندگی میں اثر انداز ہوتا ہے۔ یہ وہ مکروہ عمل ہے جو کسی کو دنوں میں طاقتور بنا سکتا ہے، کسی کے خوابوں کو سراب میں بدل سکتا ہے، کسی کی زندگی برباد کر سکتا ہے۔ سحر الاسود یا کالے جادو کی تکمیل کے لیے مافوق الفطرت طاقتوں کا سہارا لیا جاتا ہے۔ قرآن و احادیث میں بار بار ہر قسم کے جادو کی مذمت کی گئی ہے۔ دینِ اسلام میں جادو سیکھنا اور اس کے ذریعے جنات کا تعاون حاصل کر کے انسانوں کو تکلیف سے دوچار کرنا نہ صرف حرام بلکہ کفریہ کام ہے جو شیاطین کے ذریعے سے شرک کے در وا کرتا ہے۔ فرمانِ باری تعالیٰ ہے: ’’اور انہوں نے اس چیز کی پیروی کی جو شیطان سلیمان ؑ کی بادشاہت کے وقت پڑھتے تھے، اور سلیمان ؑ نے کفر نہیں کیا تھا لیکن شیطانوں نے ہی کفر کیا تھا، جو لوگوں کو جادو سکھاتے تھے اور اس چیز کو بھی جو شہر بابل میں ہاروت اور ماروت دو فرشتوں پر اتارا گیا تھا، اور وہ کسی کو نہ سکھاتے تھے جب تک یہ نہ کہہ دیتے کہ ہم تو صرف آزمائش کے لیے ہیں، تو کافر نہ بن، پس ان سے وہ بات سیکھتے تھے جس سے خاوند اور بیوی میں جدائی ڈالیں، حالانکہ وہ اس سے کسی کو اللہ کے حکم کے سوا کچھ نقصان نہیں پہنچا سکتے تھے‘۔ (البقرہ: 102) قدیم مصر، بابل، ہندوستان اور یونان کی تہذیبوں میں جادو کو ایک مؤثر ہتھیار، مذہبی روایت اور روحانی علم کے طور پر جانا جاتا تھا۔ مصر کے پجاری مخصوص عملیات کے ذریعے دیوتائوں سے مدد لینے کے دعوے کرتے تھے، جبکہ بابلی جادوگر ستاروں کی چالوں اور تعویزات کے ذریعے مستقبل کی پیشن گوئیاں کرتے تھے۔ برصغیر میں تنتر و منتر کو جادوئی اثرات سے جوڑا جاتا ہے جبکہ یونانی اور رومی فلسفی جادو کو فطری قوتوں پر قابو پانے کا فن قرار دیتے تھے۔ عیسائیت میں جادو کو شیطان سے منسلک کیا جاتا ہے، جبکہ یہودیت میں کبالہ کی روایات میں جادوئی اثرات کا ایک منظم نظام موجود ہے۔ ہندو مت میں جادو کو روحانی توانائی کا ایک پہلو سمجھا جاتا ہے اور بدھ مت میں اسے مایا (وہم) یا ذہنی قوت سے منسلک کیا جاتا ہے۔ دینِ اسلام کی تعلیمات کے مطابق بھی جادو ایک اٹل حقیقت ہے، جس کے اثرات کسی حد تک انسان پر مرتب ہو تے ہیں۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا: تباہ کرنے والی چیز اللہ کے ساتھ شرک کرنا ہے اس سے بچو اور جادو کرنے کرانے سے بچو۔ اس صورت میں کے جادو حرام بھی ہے اور یہ رضائے الٰہی سے اختلاف رائے ہے، کا بین ثبوت بھی ہے اور اس سے ایمان متزلزل ہی نہیں باطل ہو جانے کے مترادف بھی ہے۔ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ انسانوں اور جنات میں  ایسے لوگ بڑی تعداد میں موجود ہیں جو سراپا شر ہیں جن کا مقصد سادہ انسانوں کو تکلیف اور اذیت سے دوچار کرنا ہے۔ بکثرت گناہوں کی وجہ سے انسان شیطانی اثرات کی زد میں آ جاتے ہیں۔ جادو دنیا کی سب سے مؤثر قوت ہے جو غائبانہ بلا تجدید زمان و مکان انسانی مزاج اور جسم بلکہ زندگی پر کامل دسترس رکھتی ہے۔ جادو دراصل کسی چیز کو اس کی حقیقت سے پھیر دینے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ کالا جادو ایک ایسا علم ہے جس میں شیطان سے رابطہ رکھنے کے ساتھ ساتھ اس کی غلامی کرتے ہیں اور اس کی خشنودی کے طلب گار ہوتے ہیں۔ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ شیطان ان اعمال سے خوش ہوتا ہے جن سے لوگ مصیبت اور پریشانی میں مبتلا ہوں بعض گناہوں کے ارتکاب کی صورت میں انسان پر شیطان اس قدر حاوی ہو جاتا ہے کہ انسان خبط یا پاگل پن کی کیفیت میں مبتلا ہو جاتا ہے۔ فرمانِ باری تعالیٰ ہے: ’’اور جو اللہ کی یاد سے غافل ہوتا ہے تو ہم اس پر ایک شیطان متعین کرتے ہیں پھر وہ اس کا ساتھی رہتا ہے۔‘‘ (سورۃ الزخرف) ہمارے ملک میں جہاں قتل و غارت گری، سماجی برائیوں اور معاشی ابتری نے لوگوں کا سکون چھین لیا ہے وہیں کالے جادو جیسی بہت بڑی لعنت بھی اندھیر نگری کی طرح مسلط دکھائی دیتی ہے۔ فرمانِ نبویﷺ ہے: ’ سات ہلاک کرنے والی چیزوں سے بچو، ان میں سے ایک جادو ہے‘۔ ہر دور اور ہر معاشرے میں جادو کے طریقے اور رسوم و رواج مختلف رہے ہیں۔ انسان کو اشرف المخلوقات اس لیے کہا گیا کہ وہ اچھائی اور برائی میں فرق کر سکتا ہے۔ جذبات رکھتا ہے، ماضی کے تجربات کی روشنی سے فائدہ حاصل کرتے ہوئے مستقبل کی منصوبہ بندی کر سکتا ہے۔ آج کی دنیا کا سب سے بڑا المیہ ہے کہ لوگ مایا کے موہ کی حسرت میں گرفتار ہو کر فطری صلاحیتوں اور رجحان کو بالائے طاق رکھ کر وہ کچھ کرنے لگتے ہیں جو ان کے مزاج سے مطابقت نہیں رکھتا اور پھر اس روش پر چلنے کے منفی اثرات نہ صرف انہیں بلکہ ان سے وابستہ تمام انسانوں کو بھگتنا پڑتے ہیں۔ یہ قدرت کا قانون ہے کہ وہ خود بھی ایک دن اسی آگ میں جلتے ہیں۔ جادو ٹونے کا نظام ایسا ہے کہ ایک دن شکاری کو ہی خود شکار کر لیتا ہے۔ کالا علم کرنے اور کرانے والوں کے ساتھ ساتھ ان کی اولادیں بھی برباد ہو جاتی ہیں، دنیا اتنی تنگ ہو جاتی ہے ان پر کہ وہ مر مر کر جیتے ہیں۔

.

ذریعہ: Nai Baat

کلیدی لفظ: جادو ایک کے ذریعے جاتا ہے جادو کو سکتا ہے ہے اور اور اس

پڑھیں:

تین سنہرے اصول

کیا آپ کو ایسا نہیں لگتا کہ دنیا میں، اس ہمارے ملک میں اور ہمارے اردگرد بہت کچھ اُلٹ پلٹ ہوچکا ہے، ہورہا ہے اور ہوتا چلا جا رہا ہے۔ صرف سورج ابھی مغرب کی طرف تو نہیں نکل رہا ہے۔لیکن باقی سب کچھ بدل چکا ہے، الٹ ہوچکا ہے۔ایک مستند دانا دانشور نے اس پر تبصرہ کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ کبھی بچے اپنے والدین سے بات کرتے تھے تو بہت جھجھکتے تھے، سوچتے تھے اور ڈرتے تھے کہ بات کی تو کیا نتیجہ نکلے گا لیکن زمانہ بدل گیا ہے، اب والدین اپنے بچوں سے بات کرتے ہوئے یہی کچھ کرتے ہیں۔

بیویاں اپنے شوہروں سے بات کرتے ہوئے ڈرا کرتی تھیں لیکن اب شوہر اپنی بیوی سے بات کرتے ہوئے بہت سوچتے، سمجھتے اور بہت تول تول کر منہ سے ’’بول‘‘ نکالتے ہیں کہ کہیں پارہ نہ چڑھ جائے، ماضی میں شوہر بیویوں سے حساب مانگتے تھے اور اب بیویاں شوہروں کا آڈٹ کرتی ہیں۔تنخواہ کا بھی اور وقت کا بھی؟ چھٹی تو دو بجے ہوتی ہے اور تم اب چار بجے گھر پہنچے ہو۔یہ دو گھنٹے کہاں تھے، کیا کرتے تھے اور کیوں کرتے تھے؟ پرانے زمانے میں ’’مجرم‘‘ پولیس سے ڈرتے تھے اور اب پولیس مجرموں سے ڈرتی ہے کہ کہیں’’کام چھوڑ‘‘ ہڑتال کرکے ہمیں اپنی تنخواہ کے ساتھ تنہا نہ چھوڑ دیں۔

پہلے انسان درندوں سے ڈرا کرتے تھے، اب درندے انسانوں سے ڈرکر نہ جانے کہاں غائب ہورہے ہیں؟ اس خیال سے کہ ہمارا سارا کام تو انسانوں نے سنبھال لیا ہے اور درندگی کا وہ کام شہروں میں کھلے عام کررہا ہے تو ہم کیا کریں گے اور کہاں رہیں گے کہ جنگل میں بھی انسانوں نے شہر اگا لیے ہیں۔

مسجد میں ہم نے ایک بزرگ کو دیکھا کہ ہر وقت مسجد میں بیٹھے یا لیٹے یا اونگتے رہتے تھے اور گھر بہت کم کم جاتے تھے۔پوچھا حضور کیا بات ہے گھر میں کوئی ناچاقی ہے، ناہمواری ہے اور پریشانی ہے کیا؟ بولے نہ ناچاقی ہے نہ پریشانی ہے نہ ناہمواری ہے ’’شرمندگی ہے‘‘۔کیسی شرمندگی؟ ہم نے پوچھا تو بولے بلکہ تقریباً روئے اور کہا، سارے گھر والے مجھ سے ناراض ہیں، شاکی ہیں، روٹھے ہوئے ہیں، احترام و عزت تو دور کی بات ہے سیدھے منہ بات ہی نہیں کرتے، گھر میں کہیں بیٹھا یا لیٹا ہوتا ہوں تو یوں دور دور رہتے ہیں جیسے مجھے چھوت کی کوئی خطرناک بیماری لاحق ہو۔

پوچھا کیوں ؟ آپ نے ایسا کیا کیا ہے ؟

 بولے، اس لیے کہ میں نے کچھ’’کیا‘‘ کیوں نہیں ہے۔

ساری زندگی جوتے اور انگلیاں گھسا گھسا کر انھیں دیا نہ دے پایا، وہ میرے بیٹوں نے چار پانچ سال میں دے دیا ہے،میں نے ان کو دس مرلے کے ٹوٹے پھوٹے اور کھنڈر نما گھر میں جس ہر ہر سہولت سے ترسایا تھا، بیٹوں نے آٹھ کنال کے لگژری بنگلے میں وہ سب کچھ مہیا کردیا ہے۔ میں نے عمر بھر انھیں مچھروں سے کٹوایا اور کھڑکھڑاتے ہوئے ایک پنکھے کے نیچے سلایا بلکہ جگائے رکھا تھا اور اب بیٹوں نے اے سی کمروں میں پہنچا دیا ہے۔

میں نے مانگے تانگے کا برف ڈال کر کولر کا پانی پلایا تھا اور اب ان کے پاس ہر کمرے میں ایک فریج ہے اور کچن میں دو بڑے ڈیپ فریزرز۔ میں نے ان کو ایک وقت کا پکا ہوا کھانا دو وقت کھلایا تھا۔اور اب ان کے کچن سے ہر وقت خوشبو دار کھانے نکلتے ہیں۔اب تم بتاؤ کہ ایک ناکام و نامراد انسان ان کامیاب اور بامراد انسانوں کے بیچ کیسے رہے؟ یہ تو ایک عام انسان ریٹائرڈ سرکاری ملازم کا المیہ تھا۔لیکن ہم ایک ایسے خاص انسان سے بھی واقف ہیں جس نے اپنی ساری زندگی ایک نظریاتی سیاسی پارٹی میں ’’ضایع‘‘ کی ہے اور اس کا کل اثاثہ جسم پر پرانے زخموں کے نشان، قیدوبند کی یادوں اور قربانیوں کی صورت میں اس کے پاس ہے باقی کچھ نہیں۔جس کی ساری عمر،پیوستہ رہ شجر سے امید بہار رکھ،میں گزری ہے اور آخر تھک ہار کر یہ کہتے گھر پہنچا کہ

ہم باغ تمنا میں دن اپنے گزار آئے

لیکن نہ بہار آئی شاید نہ بہار آئے

لیکن بہار ایک اور طرف سے ایک اور راستے سے آئی بلکہ اس کا ایک بیٹا اس’’بہار‘‘ کو کان سے پکڑ کر سیدھا اپنے گھر لے آٰیا۔’’باغ تمنا‘‘ میں ایک لمحہ گزارے بغیر وہ آج کل اپنے بلکہ بیٹے کی عظیم الشان حویلی کے مردانہ حصے کی ایک بیٹھک میں مقیم ہے، بیٹے اور گھروالوں نے اسے ہر طرح سے جتن کرکے گھر کے اندر لانے کی کوشش کی لیکن وہ نہیں مانا۔اور خود اپنے اوپر نافذ کی ہوئی سزائے قید میں پڑا ہوا ہے۔بیٹے نے ایک خدمت گار تعینات کردیا۔ تو اس نے اسے بھی یہ کہہ کر مسترد کردیا کہ ایک خدمت گار کسی اور سے خدمت کیسے لے سکتا ہے۔

وہ اپنی ناکامی کے احساس سے شرمندہ ہے کہ جو کچھ اس نے پچاس سال ایک پارٹی سے وابستہ رہ کر حاصل نہیں کیا تھا، وہ اس کے بیٹے نے ایک پارٹی میں چند ہی سال میں حاصل کرلیا۔کیونکہ وہ باپ کی فرسودہ پارٹی کو چھوڑ کر نئے دور کی ایک ’’بیسٹ سیلر‘‘ پارٹی میں شامل ہوگیا۔ جو ’’شارٹ کٹوں‘‘ سے بھرپور بھی ہے اور پورے گھر کو ہر چیز سے بھردیا ہے، ہم کبھی کبھی اس ناکام نامراد اور نکمے سے جاکر حال چال پوچھتے ہیں اور اگلے زمانے کے بیوقوف لوگوں کی کہانیاں سنتے ہیں۔

 ایک دن اس کے بیٹے سے ملاقات ہوئی تو اس نے شکایت کی کہ میں تو ہر طرح سے ان کا خیال رکھنا چاہتا ہوں لیکن وہ میرا کچھ بھی قبول نہیں کرتے حالانکہ میں نے یہ سب کچھ انھی کی برکت سے پایا ہے۔

ہم نے کہا ہاں ان کا ایک ’’نام‘‘ تو تھا۔بولا میں نام کی بات نہیں کر رہاہوں، نام تو آج کل ایک کھوٹا سکہ ہے۔میں ان کے اصولوں کی بات کررہا ہوں۔ان کے تین اصول تھے ایمانداری، خودداری اور وفاداری۔ میں نے ان کے ان تین اصولوں کو ہمیشہ یاد رکھا، اپنے سامنے رکھا۔اور ہمیشہ ان سے’’بچنے‘‘ کی کوشش کی، ان کو کبھی اپنے قریب آنے نہیں دیا۔ اور یہ سب کچھ اسی پالیسی کا نتیجہ ہے کہ میں نے ہمیشہ ان اصولوں کو راستے کا روڑا سمجھ کر یا تو لات مارکر راستے سے ہٹا دیا ہے۔یا پیر اٹھا کر اور انھیں پھلانگ کر آگے بڑھا ہوں۔

متعلقہ مضامین

  • جو نام ہم بھجواتے وہ جیل انتظامیہ قبول نہیں کرتی، نعیم حیدر
  • کوہ قاف میں چند روز
  • غزہ کے بچوں کے نام
  • تین سنہرے اصول
  • دہشت گردوں سے لڑنا نہیں بیانیے کا مقابلہ کرنا مشکل ہے، انوارالحق کاکڑ
  • نئے پوپ کا انتخاب کیسےکیا جاتا ہے؟
  • ہمارے خلاف منصوبے بنتے ہیں مگر ہم کہتے ہیں آؤ ہم سے بات کرو، سلمان اکرم راجہ
  • مسیحیوں کے تہوار ’ایسٹر‘ کی دلچسپ تاریخ
  • گلشن اقبال کراچی میں شہری کے ہاتھوں مبینہ ڈاکو کی ہلاکت، ویڈیو سامنے آگئی
  • بلاول کی تائید کرتا ہوں، شیر جب بھی آتا، سب کچھ کھا جاتا ہے: گیلانی