تحریک انصاف کی کتاب کا آخری باب
اشاعت کی تاریخ: 17th, February 2025 GMT
اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ تحریک انصاف کا کارکن بڑا سخت جان ہے۔ اس نے سب کچھ سہا مگر خان کا ساتھ نہیں چھوڑا۔ ہر مشکل وقت کو برداشت کیا مگر خان کے بیانیے کے ساتھ رہا۔ اس کارکن نے ہر یوٹرن پر آمنا صدقنا پڑھا اور بغیر کسی اعتراض کے خان کے قافلے میں شامل رہا۔ خان کے ہر حکم پر اُس نے لبیک کہا، ہرتحریک کا حصہ بنا۔ ہر دھرنے، لانگ مارچ کی تائید کی۔ ہر احتجاج کی کال پر زیادہ نہیں تو کم از کم سوشل میڈیا پر احتجاج ضرور کیا۔
خان صاحب نے فرمایا کہ اس ملک میں بارہ موسم ہوتے ہیں، اس کارکن نے ایک دفعہ بھی اعتراض نہیں کیا۔ بلکہ موسمیاتی سائنس کی کتب سے تاویلیں تلاش کرنے لگا جن کے مطابق موسم بارہ ہی ہوتے ہیں اور خان کے اس بیان سے پہلے سائنس غفلت کی زندگی گزار رہی تھی۔ محمکہ موسمیات ڈھٹائی کا مظاہرہ کر رہا تھا یا پھر خود موسم بددیانتی کا مظاہرہ کر رہے تھے۔ کسی کارکن کے منہ سے اُف تک نہیں نکلا۔ کسی نے اپنے لیڈر کی تصحیح کی جرات نہیں کی۔
آفرین ہے اس کارکن پر جس نے خان کے کہنے پر عثمان بزدار کو بھی اپنا لیڈر مان لیا۔ وہ شخص جو چند دن پہلے کسی اور جماعت میں تھا، جس نے کبھی تقریر نہیں کی، جس نے کبھی کسی فائل پر دستخط نہیں کی، جس نے کبھی کوئی محکمہ نہیں چلایا۔ اس کو وزیر اعلیٰ بنا دیا۔ وہ وزیر اعلیٰ جو پریس سے چھپتا پھرتا تھا۔ لیکن خان کا کارکن اسے وسیم اکرم پلس کہنے لگا کیونکہ یہ خان کا حکم تھا۔ اور یہاں حکم عدولی کی گنجائش نہیں ہے۔ صرف تعمیل ہی اس کارکن کا شیوہ ہے۔
دعائیں دیجیے اس کارکن کو جس کو خان نے ’شعور‘ عطا کیا۔ اس کارکن کو احساس تک نہیں ہوا کہ شعور صرف گالیاں دینے، بہتان لگانے اور نفرت پھیلانے تک محدود تھا۔ یہ ’شعور‘ خان کے کارکنوں کا پسندیدہ شعار رہا۔ اسی شعور کے تحت پہلے وہ دوسری سیاسی جماعتوں اور ان کے قائدین کو گالی دیتے تھے۔ پھر سائفر کا جھگڑا شروع ہوا تو شعور سرحدیں پار کر امریکا تک پہنچ گیا اور یہی کارکن امریکا کو گالیاں دینے لگا۔ اسٹیبلشمنٹ سے لڑائی ہوئی تو کارکن گالیوں کی تلواریں سونت کر اسٹیبلشمنٹ کے پیچھے پڑ گیا۔ قاضی فائز عیسیٰ چیف جسٹس بنے تو گالیوں کی لہر عدلیہ کی جانب چل پڑی۔ عدلیہ سے فارغ ہوئے تو آپس میں لڑنے لگے۔ آج کل شیر افضل، سلمان اکرم راجہ کو دشنام بھرے سلام بھیج رہے ہیں۔ فواد چوہدی نے گالیوں کی بوچھاڑ میں شعیب شاہین کو مکا جڑ دیا۔ شاندانہ گلزار، مشال یوسفزئی کے حوالے سے نازیبا گفگو کر رہی ہیں۔ اور علی امین گنڈاپور پرائیویٹ محفلوں میں بشریٰ بی بی اور جیند اکبر کے بارے میں پوری شدت سے ’شعور‘ تقسیم کر رہے ہیں۔ شعور کی حد تو یہ ہے کہ انصافی یو ٹیوبر، انصافی یو ٹیوبر کے کپڑے اتار رہے ہیں۔ یہ سب خان کے احکامات کی پابندی کی وجہ سے ہو رہا ہے کیونکہ خان کو ایسے ہی جی دار اور باشعور کارکن خوش آتے ہیں۔
دادو تحسین دینی چاہیے عمران خان کے کارکن کو جس نے دھرنوں کی سختیاں برداشت کیں، لانگ مارچ کے مصائب کا مقابلہ کیا، خان کے کہنے پر ریاستی تنصیبات کو نذر آتش کیا۔ حتیٰ کہ خان سے مخلص اس سادہ لوح کارکن نے شہدا کی یادگاروں کو بھی آگ لگائی۔ اس کارکن نے آنسو گیس کا بھی سامنا کیا، گرفتاریاں بھی دیں، پولیس سے ڈنڈے بھی کھائے، گولی کا سامنا بھی کیا مگر خان کا ساتھ نہیں چھوڑا ۔
الیکشن کا وقت یاد کریں۔ انتخابی نشان والا فیصلہ آ چکا تھا۔ ن لیگ کا نعرہ مقبول ہو چکا تھا کہ ’ساڈی گل ہو گئی اے‘ تحریک انصاف کے ووٹر نے ایسے میں کمال تنظیم کا مظاہرہ کیا۔ ووٹ کتنے پڑے یہ الگ بات ہے مگر اس حقیقت کو تسلیم کرنا چاہیے کہ خان کا ووٹر الیکشن میں ووٹ ڈالنے نکلا۔ بہت سے جانتے تھے کہ معروضی حالات میں ان کا ووٹ کار آمد نہیں ثابت ہو گا لیکن اس کے باوجود خان کا کارکن ڈٹا رہا۔ اس نے شکست نہیں مانی، حوصلہ نہیں چھوڑا ۔
عمران خان نے اپنے کارکنوں کے دلوں میں اعلیٰ مقام اس وقت نہیں پایا جب وہ حکومت میں تھے۔ حکومت چھوڑنے کے بعد دو نعرے کارکنوں کے دل میں گھر کر گئے۔ ایک نعرہ امریکا کی غلامی سے نجات کا نعرہ تھا اور دوسرا نعرہ اسٹیبلشمنٹ کے خلاف تھا۔ ان دو نعروں سے خان صاحب نے ’کام اٹھا دیا‘ ، اپنی سلیکٹڈ سیاست سے نجات حاصل کی اور عوامی سیاست کے میدان میں قدم رکھا۔ یہ دو نعرے آج سے نہیں ہمیشہ سے مقبول نعرے ہیں۔ سب سیاستدانوں نے یہ نعرے لگائے اور پھر سمجھوتا بھی کیا۔ سب ہی نے کبھی نہ کبھی علم بغاوت بلند کیا اور پھر ہتھیار ڈال دیے۔
تحریک انصاف کے کارکنوں سے بات کرو تو اس وقت انہیں سب سے فکر اس بات کی ہے کہ امریکا کے خلاف جہاد جاری ہے کہ نہیں ؟ اور دوسرا وہ یقین دہانی چاہتے ہیں کہ خان اسٹیبلشمنٹ کے خلاف ڈٹ کے کھڑ ا ہے نا؟ ان دو سوالوں کے سہارے اس کارکن کی سانسیں چل رہی ہیں۔ وہ بار بار انہی دو سوالوں پر خان کے رد عمل پر خوشیاں مناتا ہے۔ اس کو یقین ہے کہ خان نہ امریکا کے آگے جھکے گا نہ اسٹیبلشمنٹ کو معاف کرے گا۔
کارکن بہت سادہ لوح ہوتے ہیں ان کے دل معصوم ہوتے ہیں۔ عمران خان کے سخت جان کارکن کو جب اصل صورت حال کا پتہ چلے گا کہ خان کس طرح امریکا کو مدد کے لیے پکار رہا ہے بلکہ پاؤں پڑ رہا ہے تو اس کارکن کا دل کتنا ٹوٹے گا ۔جب انہیں پتہ چلے گا کہ امریکی خوش نودی حاصل کرنے کے لیے خان کے پیرو کار آئی ایم ایف کے وفد کو بھی پاکستان کی شکایت لگا سکتے ہیں تو یہ سادہ لوح کارکن کتنا رنجیدہ ہو گا۔ اور اسی کارکن کو جب اس بات کا علم ہو گا کہ خان اسٹیبلشمنٹ سے آج کل نہ صرف معافیاں مانگ رہا ہے بلکہ اس سے این آر او عطا کرنے کی درخواست کر رہا ہے۔ اس کے سارے احکامات بجا لانے کی یقین دہانیاں کرا رہا ہے۔ ہمیشہ اس کا مطیع اور فرمانبردار رہنے کی قسمیں کھا رہا ہے تو اس کارکن پر کیا گزرے گی۔
جب یہ دونوں باتیں تحریک انصاف کے کارکن کو پتہ چلیں گی کہ خان نہ امریکا کے آگے ڈٹ کر کھڑا ہے نہ اسٹیبلشمنٹ کے سامنے۔ تب یہ کارکن تحریک انصاف کی کتاب کا آخری باب تحریر کرے گا۔
تحریک انصاف کا کارکن بہت سخت جان ہے لیکن گمان ہے کہ ان دو محازوں پر پسپائی کی خبر سے وہ خان کا ساتھ چھوڑ جائے گا، شعور کی آخری حد بھی توڑ جائے گا۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
عمار مسعود کالم نگار، سیاسی تجزیہ کار، افسانہ نگار اور صحافی۔ کبھی کبھی ملنے پر اچھے آدمی ہیں۔ جمہوریت ان کا محبوب موضوع ہے۔ عوامی مسائل پر گہری نظر اور لہجے میں جدت اور ندرت ہے۔ مزاج میں مزاح اتنا ہے کہ خود کو سنجیدہ نہیں لیتے۔ تحریر اور لہجے میں بلا کی کاٹ ہے مگر دوست اچھے ہیں۔
.ذریعہ: WE News
پڑھیں:
تحریک انصاف ایک سال میں اپنے بنیادی مطالبات سے پیچھے ہٹ چکی
اسلام آباد(نیوز ڈیسک) پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) گزشتہ ایک سال کے دوران نئے عام انتخابات، حکومت کی تبدیلی اور 2024ء کے انتخابات میں مبینہ دھاندلی کی مکمل تحقیقات کے اپنے بنیادی مطالبات سے پیچھے ہٹ چکی ہے۔
اب پارٹی کی مکمل توجہ جیل میں قید پارٹی قیادت بشمول سابق وزیر اعظم عمران خان کیلئے ریلیف کے حصول اور مخالفانہ ماحول میں سیاسی مقام کے دوبارہ حصول پر مرکوز ہے۔
پارٹی ذرائع سے معلوم ہوتا ہے کہ پی ٹی آئی کے بیشتر رہنما اب سمجھ چکے ہیں کہ تاریخی لحاظ سے پاکستان کے سیاسی منظر نامے میں فیصلہ کن کردار ادا کرنے والی طاقتور ملٹری اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ براہ راست تصادم فضول ہے۔ پی ٹی آئی کی سینئر شخصیات کے ساتھ پس منظر میں ہونے والی بات چیت سے اس بات کی نشاندہی ہوتی ہے کہ عمران خان اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان اعتماد کا گہرا فقدان ٹھیک نہیں ہو سکتا اور پس پردہ کوئی ڈیل ایسی ثابت نہیں ہو سکتی کہ جس سے عمران خان کی اڈیالہ جیل سے رہائی اور اقتدار کے ایوانوں میں دوبارہ واپسی کو ممکن بنایا جا سکے۔
پارٹی کی ایک سینئر شخصیت نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر اس بات کا اعتراف کیا کہ فی الوقت ہمارے لیے سب سے بہتر چیز یہ ہو سکتی ہے کہ اقتدار میں واپسی کی بجائے سیاسی بقاء کی حکمت عملی اختیار کی جائے تاکہ پارٹی کو سانس لینے کا موقع مل سکے اور 2028ء میں منصفانہ الیکشن ملے۔ پارٹی اب سمجھتی ہے کہ موجودہ ’’ہائبرڈ سسٹم’’ (ایک اصطلاح جو اکثر اسٹیبلشمنٹ کے زیر تسلط سیاسی فریم ورک کو بیان کرنے کے لیے استعمال ہوتی ہے) جاری رہے گا۔
یہ نظام ختم کرنے یا اسے کمزور کرنے کی پی ٹی آئی کی کوششیں ناکام رہی ہیں جس کیلئے پارٹی عوامی تحریکیں، عدالتی دبائو یا بین الاقوامی برادری سے اپیلوں کا راستہ اختیار کر چکی ہے۔ پارٹی کا اپنا تجزیہ یہ ہے کہ عدلیہ اپنی غیر جانبداری کھو چکی ہے، جبکہ غیر ملکی حکومتوں نے خاموشی اختیار کر رکھی ہے۔
ملک کے کئی حصوں میں خاص طور پر نوجوانوں اور شہری متوسط طبقے میں پی ٹی آئی کی مقبولیت زیادہ ہے۔ تاہم، پارٹی رہنما مانتے ہیں کہ اس عوامی حمایت سے سیاسی فائدہ حاصل نہیں کیا جا سکا کیونکہ یہ تسلیم کی گیا ہے کہ فوج کے ساتھ براہِ راست تصادم کی پالیسی غلط رہی۔ پارٹی کی صفوں میں ایک پریشان کن سوال جنم لے رہا ہے کہ اگر کوئی سمجھوتہ ہوا بھی تو کیا اسٹیبلشمنٹ عمران خان پر دوبارہ بھروسہ کرے گی؟ اس کے ساتھ ہی یہ بھی تسلیم کیا جاتا ہے کہ عمران خان کے بغیر پی ٹی آئی سیاسی لحاظ سے ناقابل تصور ہے۔
پی ٹی آئی کیلئے پریشان کن بات یہ ہے کہ مفاہمت کی خواہشات کے باوجود پارٹی کے بانی چیئرمین نے اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ تعلقات ٹھیک کرنے کیلئے پارٹی سوشل میڈیا کو بیان بازی میں نرمی لانے یا حکمت عملی تبدیل کرنے کیلئے نہیں کہا۔
اس کے برعکس، پارٹی سوشل میڈیا کا بیانیہ سخت تنقید پر مبنی ہے جس سے حالات مزید خراب ہوتے ہیں۔ آئندہ کے حوالے سے پی ٹی آئی کے اندرونی ذرائع کا کہنا ہے کہ پارٹی کو ایک عملی نقطہ نظر اختیار کرنا چاہئے: اپنے قیدی رہنمائوں کیلئے قلیل مدتی ریلیف حاصل کرنا، نچلی سطح پر دوبارہ منظم ہونا، اور آئندہ عام انتخابات کیلئے تیاری شروع کرنا۔ یہ دیکھنا باقی ہے کہ پارٹی اپنی حکمت عملی تبدیل کرتے ہوئے تصادم کی بجائے بقائے باہمی کا راستہ چنتی ہے یا نہیں۔
Post Views: 5