کراچی کی مشہور پشاوری آئسکریم
اشاعت کی تاریخ: 17th, February 2025 GMT
میں: کیا میں اس غیر سنجیدہ عنوان کی وجہ پوچھ سکتا ہوں؟
وہ: دراصل اس عنوان کی وجہ ایک واقعہ ہے۔ کئی سال قبل پشاور شہر کی سیر کے دوران بس دو چیزیں ذہن میں سما گئیں ایک روایت سے جڑا قصہ خوانی بازار دوسرا ایک Shop Sign جو اپنے انوکھے اور تخلیقی انداز تحریر سے ہر آنے جانے والے کو اپنی طرف متوجہ کررہا تھا، جس پہ لکھا تھا کراچی کی مشہور پشاوری آئس کریم۔
میں: آئس کریم والے نے اپنے کاروبار کی مشہوری کے لیے جس تخلیقی اُپچ کا مظاہرہ کرتے ہوئے مذکورہ نام وضع کیا، وہ کم از کم ہمارے میڈیا پر اُن چیختے چلاتے، بھونڈے اور بے تُکے اشتہارات سے تو بہتر ہے جو صبح وشام ہمارا جینا حرام کیے رکھتے ہیں۔
وہ: تمہاری بات بالکل درست ہے لیکن اشتہارات کا یہ بے تُکا پن صرف ہماری طبیعتوں پر گراں گزرنے تک محدود نہیں کیوں کہ ہماری اس ناگواری کی وجہ تو محض وہ خلل ہے جو کسی شو یا ڈرامے کے تسلسل کو خراب کرتا ہے، اصل میں اشتہارات نے ہماری اقدار، سماج، زبان اور تہذیب پر اتنی ضربیں لگائی ہیں کہ پوری قوم ذہنی طور پر مفلوج ہوچکی ہے۔ اب اپنی پسندو ناپسند پر ہمارا اختیار ہے نہ فیصلہ سازی کے کسی مرحلے پر ہم خود کو بااختیار محسوس کرتے ہیں۔
میں: یہ بات میری سمجھ میں نہیں آئی کہ اپنی زندگی کے فیصلوں پر اختیار ایک اشتہار ہم سے کیسے چھین سکتا ہے؟
وہ: ذرا اس پہلو پر غور کرو کہ ہم زندگی میں اپنی پسند وناپسند کا معیار کسی اپنے کے مشورے سے زیادہ اشتہار میں بتائے گئے پیغام کی بنیاد پر متعین کرتے ہیں۔ کیا کھانا ہے، کیا پہننا ہے، کیسے کھانا ہے اور کیسے پہننا ہے، کب کھانا ہے اور کب پہننا ہے۔ فرد کی زندگی کے انتہائی ذاتی نوعیت کے ان تمام فیصلوں کا اختیار بھی اب اس کے پاس نہیں رہا۔ اس کے ہر دن کا آغاز سماجی رابطے کی کسی بھی ویب سائٹ پر چلنے والے طرز(Trend) کو دیکھ کر ہوتا ہے۔ اور اب تو معاملہ یہاں تک پہنچ گیا ہے کہ صبح کا انداز کچھ ہے، اور شام کا چلن کچھ اور۔ یہ انداز یہ چلن کسی نہ کسی ادارے یا مصنوعات بنانے والی کسی کمپنی کے تعاون سے جاری کیا جاتا ہے جو اشتہار کاری کا ایک ذریعہ اور طریقہ ہے۔ جو اشیاء فرد پہلے خود چھان پھٹک کر اور اس کا معیار اپنی آنکھوں سے دیکھنے اور ہاتھوں سے چھونے کے بعد حاصل کرتا تھا، اب وہ محض ایک اشتہار ساز کی جھوٹی سچی باتوں پر من وعن ایمان لاکر خاموشی سے خرید لیتا ہے۔
میں: لیکن اس میں اپنی مصنوعات کی تشہیر کے لیے ان کمپنیوں کا کیا قصور ہے، وہ گاہک کو بندوق کے زور پر اپنی مصنوعات خریدنے پہ تو مجبور نہیں کرتے ’کہ ہم نے اپنے صابن پر دس روپے کم کردیے ہیں اگر نہیں خریدا تو تم جہاں نظر آئے تمہیں وہی گولی ماردی جائے گی‘۔
وہ: بالکل ایسا ہی ہے کہ اس عمل میں گاہک کے ساتھ زور زبردستی کا کوئی سلوک روا نہیں رکھا جاتا لیکن پروڈکٹ خریدنے پر مائل یا مجبور کرنے کا یہ معاملہ دھونس دھمکی کے بجائے نفسیاتی حربے کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔ کیوں کہ اشتہار ساز صارف کی نفسیات کو سمجھنے اور ہر پہلو سے اس کا پورا فائدہ اٹھانے کے لیے کوئی بھی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتا، وہ اپنی پروڈکٹ کے ساتھ نت نئی مفت پیشکشوں کی صورت میں ہو یا قرعہ اندازی کے ذریعے نکلنے والے پرکشش انعامات کی شکل میں یا پھر کبھی اسے کوئی جذباتی منظر دکھا کر اس کی جیب سے رقم نکلوانا، اس کی وضاحت انگریزی اصطلاح Emotional Blackmailing سے بآسانی ہوجاتی ہے۔ صرف اتنا ہی نہیں اشتہارات کے ذریعے قابل فروخت اشیاء کو اتنا بڑھا چڑھا کر دکھایا اور بتایا جاتا ہے کہ انسان کی آنکھیں خیرہ اور دماغ مائوف ہوجاتا ہے۔
اشتہارات کی اس ہمہ گیر نفسیاتی یلغار کے نتیجے میں آج دنیا کی ہر چیز ایک پروڈکٹ بن گئی ہے۔ یہاں تک کہ فرد کی اپنی ذات ایک پروڈکٹ ہے اور جب معاملہ کسی مشہور کھلاڑی، فن کار وغیرہ کا ہو تو پھر اس کے جسم پر موجود ہر چیز کسی نہ کسی ادارے اور اس کی بنائی ہوئی شے کی تشہیر کا ذریعہ بن جاتی ہے۔ بے چارہ صارف صرف اس بنیاد پر اس پروڈکٹ کو استعمال کرنا شروع کردیتا ہے کہ اشتہار یا کسی پروگرام میں وہ چیز اس کی پسندیدہ شخصیت کے ہاتھوں یا چہرے کی زینت بنی ہوئی ہے، بھلے حقیقی زندگی میں وہ اس مشہور شخصیت کو ایک آنکھ نہ بھاتی ہو۔ یوں کچھ ہی دن بعد وہ چمکتی دمکتی پروڈکٹ صارف کی نظر سے گر جاتی ہے، مگر کمپنی کا ملک ایک شاطر ایڈورٹائزر کی طرح اسی شے کو ایک نئے نام اور نئے فن کار کے ساتھ دوبارہ بازار میں لے آتا ہے۔
فرد کی زندگی پر اشتہارات کے اثرات کا معاملہ صرف یہیں تک محدود نہیں۔ اشتہارات نے انسان کے اندر چھپی لالچ کو ابھارا، گئی تہذیب سے جڑی قناعت نئی تہذیب کی شناخت ہوس سے بدل گئی۔ بڑے بڑے
ساہوکاروں کی دیکھا دیکھی مقامی سطح کے چھوٹے کاروباریوں اور دکان داروں کو بھی یہ سیکھ ملی کہ کاغذ اور گتے کے پیکٹ میں لپیٹ کر جو چاہے کھلادو، معیار کو جتنا چاہے گرادو، بازار میں سب بک جاتا ہے، بس اگر تھوڑا بہت خرچہ کرنا بھی ہے تو پروڈکٹ کی پیکنگ کو پرکشش بنانے کے لیے اس پر کوئی اچھوتا سا نام چھاپ کر اور چمکتے دمکتے رنگوں کی مدد سے اس کو خوب صورت بناکر۔ ساتھ ہی جتنا گڑ ڈالو اتنا میٹھا کے مصداق برقی ذرائع ابلاغ کے لیے اشتہار بناکر اپنی پروڈکٹ کی وقعت میں اضافہ بھی کیا جاسکتا ہے اور اسے عوام کے لیے کم وقت میں زیادہ قابل قبول بنایا جاسکتا ہے۔ اس طرزِ معاش سے کھلے بندوں دھوکا دہی کے ایک نئے چلن کا آغاز ہوا جو موجودہ دور تک آتے آتے کاروبار میں زیادہ سے زیادہ منافع کمانے کا جائزذریعہ بن گیا۔
میں: ہاں یہ بات تو ہے ہوس اور منافع خوری کا عمل شاید اسی سوچ کا مرہونِ منت ہے۔
وہ: اس حوالے سے یہ امر بھی پیش نظر رہے کہ اشتہارات کو مغربی تہذیب اور اس کے معاشی نظامِ سرمایہ داری کا اہم ستون کہنا بے جا نہ ہوگا۔ جہاں اس نظام نے سرمائے کو صنعت اور معیشتی اداروں کی شکل میں چند افراد تک محدود کردیا وہیں سادہ لوح عوام کو نت نئی مصنوعات کی ترغیب دلا کر اس کے حصول کی خواہش جگانے میں اشتہارات نے اس نظام کی بنیادوں کو ہرگزرتے دن کے ساتھ مستحکم کیا۔ مگر اشتہارات کا یہ معاملہ محض عوام الناس کی جیبوں سے پیسے نکال کر سرمایہ داروں کی تجوریاں بھرنے تک محدود نہیں رہا، اس نے نہ صرف انفرادی سطح پر فرد کے سوچنے کا انداز بدل دیا بلکہ اجتماعی حوالے سے بھی اقدار وروایات کو ایک ایسا چولا پہنا دیا جس سے معاشروں کی خوبصورتی تہذیبی رکھ رکھائو سے نکل کر محض اشیاء کی ظاہری تراش خراش اور نمودو نمائش تک محدود ہوکر رہ گئی۔ اشتہارات کے زبان وادب پر پڑنے والے اثرات پر کسی اور نشست میں بات کریں گے۔
.ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: تک محدود جاتا ہے کے ساتھ ہے اور کے لیے اور اس
پڑھیں:
بات ہے رسوائی کی
یہ خبر حیران کن اور توجہ طلب تھی کہ جب برطانیہ میں ہسٹری کی ایک ٹیچر پچاس سالہ وینیسا براؤن کو چھبیس مارچ کو دو آئی پیڈز چوری کرنے کے الزام میں جیل میں ساڑھے سات گھنٹے گزارنے پڑے، یہ آئی پیڈز کسی اور کے نہیں بلکہ ان کی اپنی بیٹیوں کے تھے جو وینیسا نے صرف اس لیے چھپائے تھے کہ ان کی بیٹیاں اپنے اسکول کے کام پر توجہ دیں۔
یہ ترغیب دلانے کا انداز تو روایتی ماؤں والا ہی تھا لیکن ان کے لیے شرمندگی کا باعث بن گیا، صرف یہی نہیں بلکہ انھیں پابند بھی کر دیا گیا ہے کہ جب تک یہ مقدمہ خارج نہیں ہوجاتا وہ اس تفتیش کے حوالے سے نہ صرف اپنی بیٹیوں بلکہ کسی سے بھی بات نہیں کرسکتیں۔
ایک استاد کو جو دوسرے بچوں کو تعلیم دیتا ہے، اپنے ہی بچوں کی پڑھائی کی خاطر اس اقدام کی وجہ سے جس کوفت اور اذیت کا سامنا کرنا پڑا، اس تجربے کو انھوں نے ناقابل بیان تباہی اور صدمہ قرار دیا ہے۔ کیونکہ ان کی تمام تر توجیہات بے اثر ثابت ہوئیں۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ آئی پیڈز ان کے بچوں کے تھے اور وہ انھیں ضبط کرنے کی حق دار تھیں۔ پولیس نے مذکورہ آئی پیڈز ان کی والدہ کے گھر سے برآمد کیے تھے۔ایک ماں خاص کر جب وہ استاد کے رتبے پر بھی فائز ہو، دہری ذمے داریوں کی حامل ہوتی ہے۔
اسے اپنے بچوں کی تعلیم و تربیت کے علاوہ اس کے اردگرد کے ماحول کو بھی دیکھنا پرکھنا ہوتا ہے کہ آیا وہ اس کی اولاد کے لیے موافق ہیں یا نہیں۔ وہ اپنے بچوں کی راہ سے کانٹے چننے کی اہل ہوتی ہے جس کے لیے انھیں پولیس کی مدد اور معاونت کی ضرورت نہیں، لیکن بدقسمتی سے مغربی ممالک میں حقوق کی علم برداری کے بڑے جھنڈے گڑھے ہوتے ہیں، جو ایک ماں سے اپنی اولاد کے حقوق تک چھین لیتے ہیں۔
ایک ماں کو اپنی اولاد کے لیے کیا تحفظات ہوتے ہیں، وہ پڑھے لکھے، صحت مند اور تندرست رہے،کھیل کود بھی کرے اور اپنی دوسری ذمے داریاں بھی نبھائے، اس تمام کے لیے اس کا ذہن صحت مند سوچ رکھنے کا حامل پہلی ترجیح ہوتا ہے۔
ماں بری سوچ سے اپنی اولاد کو الگ رکھنا چاہتی ہے۔آج کل بچوں کے ہاتھ میں بالشت بھر موبائل ساری حشر سامانی لیے ہر دم موجود اور تازہ دم تیار رہتا ہے۔ وہ اپنے والدین اور بڑوں کی نظر سے چھپ کر برا اور غلیظ مواد بھی دیکھ سکتے ہیں۔ فحش مواد دیکھنے سے ذہن کس طرح اثرانداز ہوتا ہے، کینیڈا کی لاوال یونیورسٹی کی ایک محقق ریچل اینی بارر نے ایک تحقیق کی جس میں انھوں نے بتایا۔
’’دنیا بھر میں کروڑوں افراد انٹرنیٹ کو مثبت کی بجائے منفی مقاصد کے لیے استعمال کرتے ہیں، خصوصاً فحش مواد یا پورن سائٹس پر وقت گزارتے ہیں، یہ عادت دماغ کے اہم ترین حصے کو چاٹ لیتی ہے اور کند ذہن یا تعلق بچگانہ ذہنیت کا مالک بنا سکتی ہے ۔‘‘
دراصل غیر اخلاقی مواد کو دیکھنا عادت بنا لینے والے افراد کے دماغی حصے پری فرنٹل کورٹیکس کو نقصان پہنچاتا ہے۔ اس اہم حصے قوت ارادی جسمانی حرکات اور اخلاقیات کو کنٹرول کرتا ہے۔ ایک تحقیق تو فحش مواد اور فلموں کے دیکھنے والوں کے متعلق کہتی ہے کہ ان کے دماغ سے منسلک ’’ریوارڈ سسٹم‘‘ چھوٹا ہوتا چلا جاتا ہے۔
جرمنی کی اس سائنسی تحقیق کی مصنفہ زیمونے کیون کا کہنا ہے ’’باقاعدگی سے فحش فلمیں دیکھنے کا مطلب یہ ہو سکتا ہے کہ کم یا زیادہ آپ کا دماغی ریوارڈ سسٹم ضایع ہوتا جاتا ہے۔‘‘دماغ میں موجود عصبی ڈھانچوں کے مجموعے کو ریوارڈ سسٹم کہتے ہیں اور عصبی ڈھانچے خوشی فراہم کرتے ہوئے دماغی رویے کو کنٹرول کرتے ہیں۔
اس تحقیق کے لیے چونسٹھ لوگوں کا انتخاب کیا گیا جن کی عمریں اکیس سے چونسٹھ سال کے درمیان تھیں۔ اس تحقیق سے پتا چلا کہ جو لوگ فحش فلمیں دیکھتے ہیں ان کے دماغ کا ’’اسٹریم‘‘ نامی حصہ چھوٹا ہو جاتا ہے، ریوارڈ سسٹم کا یہ اہم جز جنسی تحریک کا اہم کردار ہے۔فحش مواد دیکھنے والوں کے حوالے سے اگر دیکھا جائے تو ریسرچ کی ایک طویل فہرست ہے اس لیے کہ آج کی دنیا کا یہ اہم اور پیچیدہ مسئلہ ہے، بچے اور بڑے، خواتین اور مرد فحش مواد کو دیکھنے کے باعث منفی رویوں کا شکار ہو جاتے ہیں جن میں زیادتی، تشدد، مار پیٹ، خود غرضی اور قتل بھی شامل ہیں۔
ایسے افراد سرد مہری اور ظلم و جبر کرنے کے عادی ہوجاتے ہیں باالفاظ دیگر وہ عام انسانوں کے برخلاف زیادہ تلخ، کرخت اور بدمزاج ہو جاتے ہیں۔ اپنی خواہشات کو کسی بھی حد تک پورا کرنے کی کوشش کر سکتے ہیں۔ ہم اس قسم کے لوگوں کو دوسروں کے مقابلے میں آسانی سے پہچان بھی سکتے ہیں کیونکہ ان کے رویے اور جذبات عام انسانوں کے مقابلے میں مختلف ہوجاتے ہیں۔
برقی تاروں سے پوری دنیا میں نجانے کیا کچھ دیکھا جا رہا ہے جو دیکھنے والوں کا قیمتی وقت تیزی سے برباد کرتا چلا جاتا ہے اب چاہے وہ طالب علم ہو یا گھریلو خواتین اور عام لوگ۔ یہ ایک ایسا سحر ہے جو اپنے اندر سب کچھ اتارتا چلا جا رہا ہے لیکن ماں باپ اور اساتذہ کے حوالے سے ایک بہت بڑا امتحان وہ غلیظ مواد ہے جو معاشرے کے نہ صرف معماروں کو بلکہ معمر شہریوں کی دماغی استعداد پر اثرانداز ہوتا ہے۔
ہمارے اپنے ملک میں اسلام کے حوالے سے روایتیں تو سخت ہیں لیکن درحقیقت اب جو کچھ کھلے عام اس انٹرنیٹ کے حوالے سے چل رہا ہے شرم انگیز ہے۔ کیا سب کچھ اسکرین پر لگا دینا ہماری اقدار کے ساتھ انصاف کرتا ہے؟ محبت،ایک اور لفظ کے اضافے سے جوکچھ مختصر ترین چند منٹوں میں دیکھا تو عقل ماتم کرنے لگی کہ یہ کمائی کا خوب اچھا طریقہ ہے۔
نجانے کون لوگ اس کے ڈائریکٹر اور پروڈیوسر و لکھاری تھے، پر نامعقولیت میں اول تھے۔ مرکزی کردار درمیانی عمر کے کردار ادا کرتے آنکھوں میں وحشت بھرے اداکار تھے۔ لوگ تنقید بھی کر رہے تھے اور تعریف بھی۔ ہمارے معاشرے میں، تو شاید یہ کہنا فضول ہی ہوگا کہ برطانیہ میں ہسٹری کی استاد کو اپنی ہی بچیوں کا آئی پیڈ چھپانے کی سزا جیل میں کیوں بھگتنی پڑی؟ اس لیے کہ تاریخ کی استاد جانتی تھی کہ ماضی میں عیش و عشرت اور فحش مواد دیکھنے کی وجہ سے قومیں کیسے برباد و خوار ہوئیں۔