Islam Times:
2025-04-22@06:27:20 GMT

امریکہ نے یورپ کی سلامتی بیچ ڈالی

اشاعت کی تاریخ: 16th, February 2025 GMT

امریکہ نے یورپ کی سلامتی بیچ ڈالی

اسلام ٹائمز: اگرچہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے نائب صدر کے بیان کی حمایت کی ہے اور اسے سراہا بھی ہے لیکن اکثر ماہرین کا کہنا ہے کہ یورپ اور امریکہ کے درمیان تعلقا کا نیا باب شروع ہو چکا ہے۔ میونخ کانفرنس میں تقریر کرنے والے سیاسی ماہر فرینک والٹر اشتاین نے کہا: "واضح ہے کہ نئی امریکی حکومت ایک خاص سوچ رکھتی ہے جو ہم سے بہت زیادہ مختلف ہے۔" یورپی کالم نویس اور تجزیہ کار ایرنو برٹرن نے امریکی نائب صدر کی تقریر کا 2007ء میں روسی صدر پیوٹن کی تقریر سے موازنہ کرتے ہوئے کہا: "یہ دونوں فیصلہ کن مواقع تھے جب موجودہ اتحاد مکمل طور پر تبدیل ہو گیا۔" انہوں نے کہا: "وینس بھرپور انداز میں دوسری عالمی جنگ کے بعد تشکیل پانے والے آرڈر کو سبوتاژ کرنے میں مصروف ہیں۔" انہوں نے اس بات پر بھی زور دیا کہ جی ڈی وینس کی تقریر شاید ایسی تقریر کے طور پر یاد رکھی جائے جس نے دوسری عالمی جنگ کے بعد امریکہ اور یورپ کے درمیان اتحاد ختم کر ڈالا۔" تحریر: حامد خبیری
 
یوں دکھائی دیتا ہے کہ ٹرمپ کی سربراہی میں امریکہ اور یورپ کے تعلقات اس سے کہیں زیادہ چیلنجز کا شکار ہوں گے جن کی توقع کی جا رہی تھی۔ امریکی نائب صدر جیمز ڈیوڈ وینس نے میونخ سیکورٹی کانفرنس میں تقریر کرتے ہوئے کہا ہے: "امریکہ دنیا کے کسی اور حصے پر توجہ مرکوز کرنا چاہتا ہے لہذا بہتر ہے کہ یورپ اپنے دفاع کا بندوبست خود ہی کریں۔" ان کے اس بیان نے یورپ کے بیمار بدن پر ٹھنڈا پانی ڈال دیا ہے۔ انہوں نے مزید کہا: "یورپ کو جس چیز سے اصل خطرہ ہے وہ روس اور چین نہیں بلکہ خود یورپ کے اندر موجود قوتیں ہیں۔" امریکی نائب صدر کے اس بیان کے بعد بعض حلقوں نے اسے یورپ اور امریکہ کے درمیان اتحاد کے اختتام کا آغاز قرار دے دیا ہے۔ یورپی یونین کے سیکرٹری خارجہ کایا کالاس نے اس بارے میں کہا: "ٹرمپ کے نائب وینس کی آج کی تقریر سن کر یوں لگتا ہے جیسے امریکہ ہم سے جنگ شروع کرنا چاہتا ہے۔"
 
امریکی نائب صدر جی ڈی وینس نے ماضی کی تمام تر روایات سے پشت کرتے ہوئے جرمنی کی دائیں بازو کی جماعت الٹرنیٹو فار جرمنی (اے ایف ڈی) کے سربراہ ایلس وائیڈل سے ملاقات کی۔ اگرچہ خود جرمن حکام نے اس ملاقات پر سب سے زیادہ اعتراض کیا ہے لیکن یہ ملاقات درحقیقت تمام یورپی حکومتوں کے لیے ایک اہم پیغام سمجھی جاتی ہے۔ یہ وہی پیغام ہے جسے کچھ گھنٹے پہلے امریکی نائب صدر نے میونخ کانفرنس میں تقریر کرتے ہوئے بیان کیا اور کہا کہ یورپ کو اپنے دفاع کا بندوبست خود کرنا ہو گا۔ جیمز ڈیوڈ وینس کی تقریر نے ان یورپی حکمرانوں کی نیندیں حرام کر دی ہیں جو دوسری عالمی جنگ کے بعد سے اب تک کئی عشروں سے خود کو امریکہ کا قریبی اتحادی تصور کرتے آئے ہیں۔ وینس نے 2855 الفاظ پر مشتمل اپنی تقریر میں بارہا یورپی حکمرانوں کو جمہوریت کا سبق پڑھایا اور ان سے مطالبہ کیا کہ وہ اپنے عوام کی مرضی سے خوفزدہ نہ ہوں۔
 
امریکی نائب صدر نے کہا: "ہمیں اپنے عوام سے خوفزدہ نہیں ہونا چاہیے، حتی اس وقت بھی جب وہ اپنے لیڈروں کے خلاف اظہار خیال کر رہے ہوں۔" جیمز ڈیوڈ وینس نے یورپی حکمرانوں کے اس بیانیے کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا کہ روس ان کے لیے خطرہ ہے اور کہا: "وہ خطرہ جس کے بارے میں مجھے یورپ کے بارے میں زیادہ پریشانی لاحق ہے روس نہیں ہے اور نہ ہی چین ہے اور نہ ہی کوئی اور بیرونی طاقت ہے بلکہ میں جس خطرے سے پریشان ہوں وہ اندرونی خطرہ ہے۔" انہوں نے مزید وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ یہ خطرہ دراصل یورپ کی جانب سے کچھ بنیادی ترین اقدار جو امریکہ اور یورپ کی مشترکہ اقدار ہیں، سے ہاتھ کھینچ لینا ہے۔ امریکی نائب صدر نے رومانیہ کی جانب اشارہ کیا جہاں نیٹو اور یورپی یونین کے منتقد ایک دائیں بازو کے رہنما کی کامیابی کے بعد الیکشن کالعدم قرار دے دیا گیا ہے۔
 
انہوں نے کہا: "رومانیہ حکومت نے حال ہی میں پورے الیکشن کو کالعدم قرار دے دیا ہے۔" انہوں نے خبردار کرتے ہوئے کہا: "اگر ہر چیز شیڈول کے مطابق آگے نہ بڑھے تو ممکن ہے یہی واقعہ جرمنی میں بھی پیش آ جائے۔" یوں دکھائی دے رہا تھا جیسے وہ کھلم کھلا دائیں بازو کی یورپی سیاسی جماعتوں کی حمایت کر رہے ہیں۔ انہوں نے یورپی حکمرانوں سے مطالبہ کیا کہ وہ ووٹرز کے ووٹ نظرانداز نہ کریں اور کہا: "اگر آپ اپنے ووٹرز سے خوفزدہ ہیں تو امریکہ آپ کی مدد نہیں کرے گا۔" جیمز ڈیوڈ وینس نے سویڈن، بلجیئم اور برطانیہ میں بھی آزادی اظہار کی صورتحال پر شدید تنقید کی اور کہا: "میں اس بارے میں پریشان ہوں کہ یورپی حکمران آزادی اظہار کی قدر سے پیچھے ہٹ رہے ہیں۔" اس بارے میں وینس نے حتی اپنے ملک پر تنقید کرتے ہوئے کہا: "بعض اوقات سینسرشپ کی سب سے اونچی آواز یورپ سے نہیں بلکہ میرے ملک سے سنائی دیتی ہے۔"
 
یورپی حکمرانوں کو جیمز ڈیوڈ وینس کی یہ چبھتی ہوئی تقریر اچھی نہیں لگی جس کا ہر لفظ انہیں جمہوریت کا سبق پڑھاتا دکھائی دیتا تھا۔ جرمنی کے دائیں بازو کے سیاسی رہنما ایلس وائیڈل نے امریکی نائب صدر کی تقریر کو سراہا جبکہ جرمنی کے صدر اولاف شولتز نے شدت پسند دائیں بازو کے رہنما کی حمایت کو اجنبی کی مداخلت قرار دے کر اس کی مذمت کر ڈالی۔ انہوں نے کہا: "اگر غیر ہماری جمہوریت میں، ہمارے الیکشن میں اور قوم پرست جماعت اے ایف ڈی کے حق میں رائے عامہ ہموار کرنے میں مداخلت کرتے ہیں تو یہ ہمارے لیے قابل قبول نہیں ہو گا۔" انہوں نے مزید کہا کہ شدت پسند دائیں بازو کی جماعت کی حمایت ان تجربات سے تضاد رکھتا ہے جو ہم ماضی میں نازی سے سیکھ چکے ہیں۔ جرمنی کے صدر نے کہا: "ہم خود فیصلہ کریں گے کہ ہماری جمہوریت میں کیا ہونا چاہیے۔"
 
اگرچہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے نائب صدر کے بیان کی حمایت کی ہے اور اسے سراہا بھی ہے لیکن اکثر ماہرین کا کہنا ہے کہ یورپ اور امریکہ کے درمیان تعلقا کا نیا باب شروع ہو چکا ہے۔ میونخ کانفرنس میں تقریر کرنے والے سیاسی ماہر فرینک والٹر اشتاین نے کہا: "واضح ہے کہ نئی امریکی حکومت ایک خاص سوچ رکھتی ہے جو ہم سے بہت زیادہ مختلف ہے۔" یورپی کالم نویس اور تجزیہ کار ایرنو برٹرن نے امریکی نائب صدر کی تقریر کا 2007ء میں روسی صدر پیوٹن کی تقریر سے موازنہ کرتے ہوئے کہا: "یہ دونوں فیصلہ کن مواقع تھے جب موجودہ اتحاد مکمل طور پر تبدیل ہو گیا۔" انہوں نے کہا: "وینس بھرپور انداز میں دوسری عالمی جنگ کے بعد تشکیل پانے والے آرڈر کو سبوتاژ کرنے میں مصروف ہیں۔" انہوں نے اس بات پر بھی زور دیا کہ جی ڈی وینس کی تقریر شاید ایسی تقریر کے طور پر یاد رکھی جائے جس نے دوسری عالمی جنگ کے بعد امریکہ اور یورپ کے درمیان اتحاد ختم کر ڈالا۔"

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: دوسری عالمی جنگ کے بعد کانفرنس میں تقریر امریکہ اور یورپ امریکی نائب صدر یورپی حکمرانوں کرتے ہوئے کہا انہوں نے کہا کے درمیان کی حمایت کی تقریر نے یورپ یورپ کے کہ یورپ وینس کی اور کہا وینس نے ہے اور

پڑھیں:

ایران کیساتھ مذاکرات میں اہم پیشرفت ہوئی ہے، امریکی محکمہ خارجہ

اپنے ایک بیان میں بدر البوسعیدی کا کہنا تھا کہ ایران و امریکہ کے درمیان غیر مستقیم مذاکرات میں تیزی آ گئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس وقت وہ بھی ممکن ہے جو کبھی ناممکن تھا۔ اسلام ٹائمز۔ اٹلی کے دارالحکومت "روم" میں ایران-امریکہ غیر مستقیم مذاکرات کے 12 سے زائد گھنٹے گزرنے کے بعد، امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان "ٹامی بروس" نے المیادین سے گفتگو میں کہا کہ ان مذاکرات میں قابل توجہ پیشرفت ہوئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے ایرانی فریق سے اگلے ہفتے دوبارہ ملنے پر اتفاق کیا ہے۔ اسی دوران ٹرامپ انتظامیہ کے سینئر عہدیدار نے امریکی میڈیا سے گفتگو میں کہا کہ روم میں تقریباََ 4 گھنٹے تک مذاکرات کا دوسرا دور جاری رہا۔ جس میں بالواسطہ و بلاواسطہ بات چیت مثبت طور پر آگے بڑھی۔ واضح رہے کہ امریکہ کے ساتھ بالواسطہ مذاکرات کے دوسرے دور میں ایرانی وفد کی قیادت وزیر خارجہ "سید عباس عراقچی" نے کی جب کہ امریکی وفد کی سربراہی مشرق وسطیٰ میں ڈونلڈ ٹرامپ کے نمائندے "اسٹیو ویٹکاف" کے کندھوں پر تھی۔

مذاکرات کا یہ عمل روم میں عمانی سفیر کی رہائش گاہ پر عمان ہی کے وزیر خارجہ "بدر البوسعیدی" کے واسطے سے انجام پایا۔ دوسری جانب مذاکرات کی تفصیلات بیان کرتے ہوئے سید عباس عراقچی نے کہا کہ فریقین کئی اصولوں اور اہداف پر مثبت تفاہم تک پہنچ چکے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ رواں ہفتے بدھ کے روز ماہرین کی سطح تک مذاکرات کا یہ عمل آگے بڑھے گا جب کہ اعلیٰ سطح پر بات چیت کے لئے اگلے ہفتے اسنیچر کو اسی طرح بالواسطہ اجلاس منعقد ہو گا۔ سید عباس عراقچی نے کہا کہ اس وقت مذاکرات سے اچھی امید باندھی جا سکتی ہے لیکن احتیاط کی شرط کے ساتھ۔ ایرانی وزیر خارجہ کے ساتھ ساتھ اُن کے عمانی ہم منصب بدر البوسعیدی نے بھی دعویٰ کیا کہ ایران و امریکہ کے درمیان غیر مستقیم مذاکرات میں تیزی آ گئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس وقت وہ بھی ممکن ہے جو کبھی ناممکن تھا۔

متعلقہ مضامین

  • ٹرمپ کی ناکام پالیسیاں اور عوامی ردعمل
  • ٹیرف کے اعلان کے بعد تجارتی معاہدے پر مذاکرات، امریکی نائب صدر کا دورہ انڈیا
  • افریقہ میں امریکہ کا غیر ضروری سفارت خانے اور قونصل خانے بند کرنے پر غور
  • امریکہ کے نائب صدر کا دورہ بھارت اور تجارتی امور پر مذاکرات
  • امریکی نائب صدر جے ڈی وینس تجارتی مذاکرات کے لیے بھارت پہنچ گئے
  • عمران خان کیلئے امریکی دبائو؟ فسانہ یا حقیقت
  • بھارت پر امریکی شہری کے قتل کیلئے انعام مقرر کرنے کا الزام، سکھ تنظیموں کی امریکہ سے مداخلت کی اپیل
  • ایران کیساتھ مذاکرات میں اہم پیشرفت ہوئی ہے، امریکی محکمہ خارجہ
  • یمن میں امریکہ کی برباد ہوتی حیثیت
  • چین کا امریکی سیکشن 301 کی تحقیقات کے جواب میں الزام تراشی بند کرنے کا مطالبہ