Express News:
2025-04-22@01:32:34 GMT

اہل فلسطین مہنگائی و بھوک سے پریشان

اشاعت کی تاریخ: 16th, February 2025 GMT

اکتالیس سالہ غدہ الکفرنا وسطی غزہ میں کمیونٹی کچن کے باہر ہر روز کی طرح قطار میں کھڑی تھیں۔ گیارہ بجے کا وقت تھا اور پانچ بچوں کی ماں پچھلے دو گھنٹے سے وہاں آئی ہوئی تھیں۔ وہ کہتی ہیں’’میرے لیے خوراک اور روٹی کا حصول ایک مستقل جنگ ہے۔‘‘ سینکڑوں بچے، خواتین اور مرد ان کے گرد گھوم رہے تھے۔

غدہ کے پاس آمدنی کا کوئی ذریعہ نہیں اور ان کے شوہر ایک دائمی بیماری میں مبتلا ہیں جس کی وجہ سے وہ جنگ سے پہلے بھی کام نہیں کر رہے تھے۔اب یہ خاندان، جو شمال میں واقع بیت ہنون میں اپنی رہائش گاہ ر سے جنگ کی وجہ سے بے گھر ہو گیا تھا، دیر البلاح میں اقوام متحدہ کے ادارے، انروا( UNRWA )کے ایک اسکول میں رہائش پذیر ہے۔وہ بھوک مٹانے کے لیے مفت کھانا تقسیم کرنے والے کمیونٹی یا خیراتی باورچی خانوں پر انحصار کرتا ہے جنھیں مقامی طور پہ ’’تکیہ ‘‘کہا جاتا ہے۔

غدہ کہتی ہیں، جب تکیہ بند ہو جاتا ہے تو میرے پاس پڑوسیوں سے کھانے کے لیے بھیک مانگنے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہوتا۔ آج بھی تکیے سے کھانا لینے آئی ہوئی ہیں مگر بہت تک چکی۔ کہتی ہیں ’’میرے بچوں نے پچھلی دوپہر سے کچھ نہیں کھایا۔ پچھلے چار دنوں سے چیریٹی کچن مشکل حالات کی وجہ سے بند ہیں۔ہمیں مانگ تانگ کر دوپہر کا کھانا تو مل جاتا ہے مگر بچے ہر رات بھوکے سوتے ہیں۔" انھوں نے روتے ہوئے بتایا۔’’میں اردگرد آباد لوگوں سے ہر روز مدد کی درخواست کرتی ہوں۔لیکن زیادہ تر لوگ غذا کی کمی کا شکار اور میرے خاندان کو کوئی مدد فراہم کرنے سے قاصر ہیں۔‘‘

اکتوبر 2023ء میں جب اسرائیل نے غزہ کی اپنی جنگ شروع کی، تو اس نے پٹی کی "مکمل" ناکہ بندی کا اعلان کیا تھا۔ اقوام متحدہ کے مطابق تب سے چودہ ماہ سے زیادہ عرصے میں اسرائیل نے غزہ جانے والی خوراک میں سے صرف 38 فیصد مقدار کو وہاں محصور بچوں، خواتین اور بوڑھوں تک نہیں پہنچنے دیا ۔بین الاقوامی امدادی تنظیموں اور خیراتی اداروں نے بارہا خبردار کیا ہے کہ غزہ میں بیس لاکھ سے زائد افراد بھوک کے بحران سے متاثر ہو رہے ہیں۔ انھوں نے اسرائیل پر بھوک کو جنگ کے ہتھیار کے طور پر استعمال کرنے کا الزام بھی لگایا گیا ۔

یکم دسمبر 2024ء کو فلسطینی پناہ گزینوں کے لیے اقوام متحدہ کی ایجنسی، انروا (UNRWA) نے اعلان کیا کہ اس نے سیکیورٹی خدشات کی وجہ سے کریم ابو سالم کے ذریعے امداد کی ترسیل روک دی ہے جسے اسرائیل اور غزہ کے درمیان انسانی امداد کے لیے اہم کراسنگ پوائنٹ کہا جاتا ہے ۔دراصل خوراک اور امداد کے ٹرکوں کو مسلح گروہ لوٹنے لگے تھے۔

خوراک کی بندش نے غدہ کے خاندان سمیت ہزارہا فلسطینی گھرانوں کی مشکلات میں اضافہ کر دیا جو پہلے ہی ایک سال سے زیادہ عرصے جاری رہنے والی جنگ سے تباہ ہو چکے۔ جنگ نے ان کی ذہنی اور جذباتی تندرستی پر بہت زیادہ منفی اثر ڈالا ہے۔غدہ کہتی ہیں ’’جب میں اپنے بچوں کے لیے کھانا اور ان کو محفوظ کرنے کی خاطر ہر روز بھیک مانگتی ہوں تو ذلت اور رسوائی محسوس کرتی ہوں ۔ میں اس نہ ختم ہونے والی جدوجہد کی وجہ سے روزانہ موت کی تمنا کرتی ہوں۔جب میرے بچے بھوک سے روتے ہیں، تو میں کبھی کبھی مایوسی میں ان کو پیٹ ڈالتی ہوں۔ کل رات،میں نے اپنے آٹھ سالہ بیٹے کو مارا کیونکہ وہ کھانے کے لیے رو رہا تھا۔انھوں نے انکشاف کیا۔ ان کی آواز غم سے بھری ہوئی تھی۔’’وہ روتے روتے سو گیا اور میں نے بھی رات روتے ہوئے گزاری۔‘‘انہوں نے دنیا والوں سے التجا کی:

 "ہماری صورتحال الفاظ میں بیان نہیں ہو سکتی۔ خدا کے لیے اس جنگ کو بند کرو۔ ہم تھک چکے ہیں۔"

غدہ کی طرح محمد ابو رامی بھی اپنے گیارہ افراد رکنی خاندان کو کھانا کھلانے کے لیے مکمل طور پر کمیونٹی کچن پر انحصار کرتے ہیں۔ اٹھاون سالہ محمد ابورامی دیر البلاح کے ایک عارضی کیمپ میں واقع اپنے خیمے سے روزانہ دو بیٹوں کے ساتھ خیراتی باورچی خانے آتے اور قطار میں کھڑے ہو جاتے ہیں۔ وہ اکثر کھانے کی تقسیم شروع ہونے سے کم از کم دو گھنٹے پہلے پہنچتے ہیِں۔ کہتے ہیں:’’ تکیوں کے بغیر ہم کہیں سے کھانا حاصل نہیں کر سکتے اور بھوک کے ہاتھوں تڑپ تڑپ کر مر جائیں گے۔ پچھلے ہفتے جب خیراتی اداروں کو بند کر دیا گیا، تو ہم نے کئی دن بغیر کھائے پیے گذارے۔ ہماری بقا کا انحصار صرف اس کھانے پر ہے جو تکیے فراہم کرتے ہیں۔"

جب وہ کھانے ملنے کا انتظار کر رہے تھے تو ایک پلاسٹک کا کنٹینر پکڑے ہوئے محمد ابو رامی نے بتایا کہ اس کا خاندان جو غزہ شہر سے بے گھر ہو گیا تھا، غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہا ہے ۔’’ہمارے پاس کوئی کام نہیں، کوئی پیسا نہیں، کوئی دوا نہیں۔‘‘

انہوں نے مزید کہا، "ہمیں پانچ ماہ سے زائد عرصے میں خوراک پہ مشتمل کوئی امداد نہیں ملی۔" اس کی آواز بھاری تھی۔ "اس قحط کے دوران ہم کس کی طرف رجوع کر سکتے ہیں؟ ہم کیا کہہ سکتے ہیں؟ ہم بمباری، بھوک اور سردی میں مر رہے ہیں۔ ہمارے پاس صرف خدا ہے۔ مگر ہمارے صبر کا پیمانہ لبریز ہو گیا ہے۔ میں نے کبھی ایسے ناقابل برداشت دنوں سے گزرنے کا تصّور بھی نہیں کیا تھا۔ یہ جان بوجھ کر بھوکا مرنا ہے … ایک جنگ کے اندر دوسری جنگ۔"

یہ تقریباً گیارہ بجے کا وقت تھا اور کریمہ البطش بیکری کے باہر قطار میں کھڑے رہنے کے لیے جدوجہد کر رہی تھی کیونکہ اس کے آس پاس کھڑے لوگ روٹی خریدنے کے لیے آگے پہنچنے کی کوشش کر رہے تھے۔وہ صبح پانچ بجے سے وہاں موجود تھی ۔ جب وہ بیکری پہنچی تو یہ دیکھ کر حیران رہ گئی وہاں سینکڑوں لوگ پہلے سے ہی قطار بنائے انتظار کر رہے تھے ۔ہر کوئی کھانے کی ایک روٹی کے لیے مقابلہ کر رہا تھا۔

جہاں ہزاروں فلسطینی روزانہ کمیونٹی کچنوں کے سامنے قطار میں کھڑے ہوتے ہیں، اس سے بھی زیادہ تعداد میں لوگ صبح سویرے ہی بیکریوں کے باہر جمع ہوجا تے ہیں۔کمیونٹی کچن اور بیکریاں ،دونوں اسرائیل کی پابندیوں کی وجہ سے گندم کے آٹے کی شدید کمی کا شکار ہیں۔ وہ محدود تعداد میں ہی روٹیاں بنا پاتے ہیں۔

انتالیس سالہ کریمہ البطش بتاتی ہے ’’ کئی ماہ ہو چکے، میرے پاس آٹا نہیں ہے اور بازاروں میں بھی دستیاب نہیں۔کسی امدادی ایجنسی نے بھی ہمیں آٹا فراہم نہیں کیا۔‘‘کریمہ اور اس کا خاندان غزہ شہر کے زیتون محلے میں رہتا تھا۔ وہ بے گھر ہونے کے بعد دیر البلاح چلا آیا اور خیمے میں رہنے لگا۔ وہیں اس کے شوہر اسرائیلی فضائی حملے میں شہید ہو گئے۔ چار بچوں کی ماں اب بیکریوں کے باہر روٹیاں پانے کی خاطر بپھرے ہجوم کا مقابلہ کرتی ہے۔ یہ خوفناک صورت حال غزہ میں گہرے ہوتے بھوک کے سنگین بحران کی واضح علامت بن گئی ہے۔ غزہ میں بھوک اور مایوسی نے لوگوں کی قوت برداشت کو اپنی آخری حدوں تک پہنچا دیا ہے۔

کریمہ اپنی باری کا انتظار کرتے ہوئے کہتی ہیں ’’یہ منظر افراتفری اور دل دہلا دینے والا ہوتا ہے۔ہر کوئی اپنے خاندانوں کا پیٹ بھرنے اور روٹی کے چند ٹکڑے حاصل کرنے کے لیے لڑ رہا ہوتا ہے۔ بھوک زوروں پر ہوتی ہے ، اس لیے ہر کوئی بے لگام ہو جاتا ہے اور اپنے حواس میں نہیں رہتا۔ پچھلے ہفتے دیر البلاح میں تین خواتین بھگدڑ میں دم گھٹنے سے ہلاک ہو گئیں۔ دنیا کیسے ایسا ہونے کی اجازت دے سکتی ہے؟یہاں انسان صرف ایک روٹی کے لیے مر رہے ہیں؟"

وہ دیکھیے ، محمد دردونہ بیکری کی قطار سے نکلے ہیں ۔ روٹی پانے کے لیے قطار میں لگنے کو وہ "روٹی کی جنگ" کہتے ہیں ۔ اس کے کپڑے دھول آلود ہیں اور چہرہ تھکن سے بھرا ہوا تھا۔بیالیس سالہ محمد دردونہ غم وغصّے سے بھرے لہجے میں کہتے ہیں ’’ہماری زندگی کولتار کی طرح سیاہ اور تاریک ہو چکی۔غزہ کے لوگ جن روح فرسا مصائب اور مشکلات کا سامنا کر رہے ہیں، دنیا والے ان کا تصور بھی نہیں کر سکتے۔‘‘ اس کے کندھے پر روٹی کا ایک چھوٹا سا تھیلا لدا ہوا تھا۔

"میں اپنے گھر والوں کے لیے پانی لانے کو صبح پانچ بجے اٹھتا ہوں۔ صبح آٹھ سے نو بجے تک میں اپنے بچوں کے لیے کھانا تلاش کرنے کی خاطر تکیہ تلاش کرتا ہوں۔ پھر روٹی کے حصول کے لیے گھنٹوں لائن میں کھڑا رہتا ہوں۔ اب آٹے کی قلت کی وجہ سے روٹیاں نایاب ہو رہی ہیں۔‘‘ انھوں نے دیر البلاح میں اپنے روزمرہ کے معمولات بیان کرتے ہوئے وضاحت کی۔ ’’یہ ہے اب میرے جیسے بہت سے لوگوں کے لیے غزہ میں زندگی کا خلاصہ ۔‘‘

آٹھ بچوں کے والد محمددردونہ شمالی غزہ میں واقع جبالیہ میں مقیم تھے۔ جنگ شروع ہوئی تو گھر ان سے چھٹ گیا۔ اس وقت بھی جبالیہ میںتقریباً ایک لاکھ فلسطینی رہ رہے ہیں۔ انہیں بھوک اور غذا کی قلت کا سامنا ہے۔ عالمی امدادی ادارے خبردار کر رہے ہیں کہ جلد وہاں قحط پڑ سکتا ہے اور غذا نہ ہونے سے خاص طور پہ بچے تیزی سے مرنے لگیں گے۔

محمد دردونہ کا کہنا ہے’’ میں ایک اچھی زندگی گزار رہا تھا ۔ میری ایک چھوٹی سی دکان تھی جس سے خاطر خواہ آمدنی ہو جاتی۔ میرا اپنا گھر تھا جہاں ہم تکالیف کے باوجود رہ رہے تھے۔ ہم نے جنگ کی ہولناکیوں کو برداشت کر لیا لیکن اس طرح بھوک کا سامنا کرنا ناقابل تصّور ہے۔‘‘

اس وقت غزہ میں25 کلو گرام (55 پاؤنڈ) آٹے کے تھیلے کی قیمت ایک ہزار شیکل (28 ڈالر) سے زیادہ ہو چکی۔ پاکستانی کرنسی میں یہ رقم 78 ہزار روپے بنتی ہے۔ محمد کہتے ہیں، اب اتنا زیادہ مہنگا آٹا تو غزہ کے امیر لوگ بھی نہیں خرید سکتے۔ ان کی جمع پونجی بھی جنگ کے باعث ختم ہو چکی۔ ان کا کہنا ہے’’ آٹا اگر اسی طرح مہنگا ہوتا رہا تو ہم خود کو زندہ دفن کر لیں گے۔ موت ہی فرار کا واحد راستہ ہے۔میں نے کبھی ایسے دن کا تصّور بھی نہیں کیا تھا جب میں بھوکا رہوں گا یا اپنے بچوں کو بھوکا دیکھوں گا۔ہم دنیا والو ں سے اپیل کرتے ہیں کہ جنگ بند کرو اور آٹا آنے دو۔ غزہ میں انسانیت کی تذلیل ہوتے دیکھ کر ان کو کچھ تو شرم آنی چاہیے۔"

نو بچوں کی چوالیس سالہ ماں ، فادیہ وادی کمزور جسم رکھتی ہیں۔ وہ بیکری کے گیٹوں پر بڑے ہجوم کو برداشت کرنے سے قاصر ہیں۔اس لیے انھیں مانگ تانگ کر کیڑوں والا آٹا بھی مل جائے تو اس کو غنیمت سمجھتی ہیں۔ انھوں نے غزہ کے درے پر آئے غیر ملکی صحافیوں کو بتایا:

’’ آپ دیکھ سکتے ہیں، یہ آٹا خراب ہے۔ کیڑوں سے بھرا ہوا ہے اور اس میں سے تیز بو آ رہی ہے۔‘‘ فادیہ نے آٹا گوندھنے سے پہلے بڑی محنت سے کیڑے نکالتے ہوئے وضاحت کی۔ "لیکن میرے پاس اس کے علاوہ کوئی چارہ کار نہیں ؟ آٹا یا تو دستیاب نہیں یا بہت مہنگا ہے۔"

فادیہ وادی کا کہنا ہے ، بھوک نے انہیں ناقابل تصّور سمجھوتا کرنے پر مجبور کر دیا ہے۔ اس کا بڑا بیٹا جنوری میں شمالی غزہ میں اسرائیلی حملے میں شہید ہو گیا تھا، جب کہ اس کا شوہر شمال میں رہتا ہے۔ اس نے اسے اپنے باقی آٹھ بچوں کی پرورش کے لیے چھوڑ دیا۔’’جنگ نے ہمیں ایسے کام کرنے پر مجبور کر دیا جنھیں انجام دینے کا میں نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا ۔ مجھے اب اپنے بچوں کو کھانا کھلانے کے لیے گھٹیا سے گھٹیا کام کرنے پڑتے ہیں۔‘‘

اگرچہ اس کے بچے خراب آٹے سے بنی روٹی کھانے سے ہچکچاتے ہیں، لیکن فادیہ کو لگتا ہے، یہ کھانا بیکریوں پر پُرتشدد قطار میں لگنے سے زیادہ محفوظ راستہ ہے۔ وہ کہتی ہے ’’میں نے دو دن پہلے روٹی لینے کی کوشش کی تھی لیکن میں بھگدڑ مچنے کے باعث سے زخموں سے ڈھکی ہوئی واپس آئی۔‘‘ آٹا گوندھتے ہوئے اس کا کہنا ہے ’’یہ ایک المناک، انتہائی مشکل زندگی ہے۔‘‘

تکیوں اور بیکریوں پر کھڑے مرد ، خواتین اور بچوں کو جہاں بھگدڑ میں پھنسنے کا خطرہ ہوتا ہے، وہیں انہیں اسرائیلی حملوں کے خطرے کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے۔ غزہ میں سبزی، گوشت اور پولٹری اور چاول اور پاستا جیسی بنیادی چیزیں عام دستیاب نہیں ہیں ۔ یا پھر بہت مہنگے داموں ملتی ہیں۔ فادیہ کے پاس کیڑوں سے متاثرہ آٹے کے ساتھ کھانا پکانے کے علاوہ کوئی راستہ نہیں ۔وہ آنکھوں میں آنسو لیے کہتی ہے:

’’غزہ میں آٹا غائب ہے۔ امداد کی کمی ہے اور امدادی پارسل مہینوں سے نہیں پہنچے۔ میں بچوں کو روٹی یا کھانا کیسے فراہم کروں؟" وہ مزید کہتی ہے ’’ہم پہلے یہ خراب آٹا جانوروں کے آگے پھینک دیتے تھے۔لیکن اب ہم اسے اپنے بچوں کو کھلانے پر مجبور ہو چکے۔ اب ہمیں اس بات کی بھی پروا نہیں کہ اسے کھا کر بیمار ہو جائیں گے۔ اب ہماری منزل یہی بن چکی کہ جس طرح بھی بن پڑے، اپنی بھوک مٹا لیں۔‘‘

اہل غزہ کے لاکھوں مرد و زن اور بچوں کی زندگیاں اب خیراتی تقسیم پر منحصر ہو چکیں۔ فادیہ ایک ایسی زندگی کی زندہ مثال بن چکی جس میں لامتناہی انتظار اور لمبی قطاروں کا غلبہ ہے۔ ’’یہاں سب کچھ ایک لائن ہے، ایک قطار … کھانا، روٹی، پانی، سب کچھ!" وہ کہتی ہے ’’ہم بھوکے ہیں، ہم ہر چیز کو ترستے ہیں۔ پتا نہیں ہمارا کیا بنے گا؟‘‘

پیاز اور نمک بھی مہنگے

علاء البتنیجی دیر البلاح میں سبزیوں کے اسٹینڈ کے سامنے کھڑے ہو کر چند سبزیاں احتیاط سے چن رہے تھے ۔وہ ایسی سبزی خریدنا چاہتے تھے جسے اپنی جیب کے مطابق لے کر اپنے چار بچوں کے خاندان کو کھلا سکیں۔اڑتیس سالہ علاء کہتے ہیں:’’سبزیوں کی قیمتیں ناقابل یقین ہیں۔ہم پہلے سبزیاں کلو کے حساب سے خریدتے تھے لیکن اب یہ اتنی زیادہ مہنگی ہو چکیں کہ ہمیں ٹکڑوں کے حساب سے خریدنا پڑتا ہے۔‘‘

ہلچل سے بھری سبزی و پھل کی منڈیاں کبھی بہت سے لوگوں کے لیے رزق کا ذریعہ ہوتی تھیں۔مگر جنگ کے آغاز سے ہی وہاں اشیائے خورونوش کی قیمتیں آسمان کو چھونے لگیں۔ اس وجہ سے وہ خاص طور پہ بے گھر خاندانوں کے لیے ایسے مقام بن گئیں جہاں انھیں کچھ حاصل نہیں ہو سکتا تھا۔ مہنگائی کا اندازہ یوں لگائیے کہ غزہ میں صرف دو پیاز اور دو ٹماٹر کی قیمت تقریباً 32 شیکل (9ڈالر) ہے۔ پاکستانی کرنسی میں یہ رقم ڈھائی ہزار روپے بنتی ہے۔

’’ہر روز ہم امید کرتے ہیں کہ حالات میں بہتری آئے گی، لیکن ایسا نہیں ہوتا۔ میں نے اپنی زندگی میں اس قدر مہنگائی، فاقہ کشی اور مشکلات کو دیکھنے کا کبھی تصّور بھی نہیں کیا تھا۔‘‘ علاء البتنیجی کہتے ہیں جو جنگ سے قل غزہ شہر کے مشرق میں واقع شجاعیہ محلے میں رہتے تھے مگر اب بے گھر ی کی زندگی گذار رہے ہیں۔

’’میں نے آج دو پیاز چھ شیکلز میں خریدے،گویا صرف دو پیاز کے لیے تین ڈالر ادا کرنا پڑے۔ ماضی میں، میں ایک شیکل میں پورا کلو پیاز خرید سکتا تھا۔میں نے دو ٹماٹر بھی خریدے۔ ہر ٹماٹر کے لیے مجھے دس شیکل (تقریباً تین ڈالر) ادا کرنا پڑے۔یہاں کی قیمتیں جان کر ایسا محسوس ہوتا ہے ، میں شکاگو یا پیرس میں خریداری کر رہا ہوں… اب تو غزہ میں پیاز اور نمک بھی عیش و عشرت کی علامت بن چکے ۔‘‘ انھوں نے ایک تھیلے میں دو پیاز ڈالتے ہوئے کہا:

’’ مجھے ان لوگوں پر بہت ترس آتا ہے جو ناقابل یقین حالات برداشت کر رہے ہیں۔ ہم تھک چکے ہیں۔‘‘  

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: دیر البلاح میں ور بھی نہیں کر رہے تھے کا کہنا ہے اپنے بچوں کی وجہ سے میں واقع کہتے ہیں نہیں کیا انھوں نے سے زیادہ میں اپنے کرتے ہیں کے لیے ا رہے ہیں ہوتا ہے کیا تھا بچوں کی جاتا ہے روٹی کے بچوں کو کے باہر بچوں کے دو پیاز نہیں ہو ہے اور جنگ کے ہو چکی کر دیا ہیں کی غزہ کے ہیں کہ ہو گیا بے گھر

پڑھیں:

جب مزاحمت بھی مشکوک ٹھہرے، فلسطین، ایران فوبیا اور امت کی بے حسی

اسلام ٹائمز: ضرورت اس امر کی ہے کہ اُمتِ مسلمہ فلسطین کے مسئلے کو صرف مسلکی یا جغرافیائی زاویے سے نہ دیکھے۔ فلسطین ایک انسانی، اخلاقی اور اصولی مسئلہ ہے۔ جو بھی اسکی حمایت کرے۔ خواہ وہ ایران ہو، ترکی یا کوئی عرب ریاست۔ اُسکا ساتھ دینا اصولی فریضہ ہے۔ یہ بھی سمجھنا ضروری ہے کہ جس طرح اسلام کسی مخصوص نسل، قوم یا زبان تک محدود نہیں، اسی طرح مظلوم کی حمایت بھی کسی مسلکی حد بندی کی محتاج نہیں۔ تحریر: علامہ سید جواد نقوی

غزہ میں جاری ظلم و ستم اور نسل کشی نے دنیا بھر کے انسان دوست حلقوں کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے، مگر حیرت انگیز طور پر پاکستان جیسے بیدار دل معاشرے میں، خاص طور پر مذہبی طبقات میں، ایک غیر معمولی خاموشی طاری رہی۔ یہ خاموشی صرف وقتی نہیں، بلکہ ایک فکری جمود اور بیانیاتی تقسیم کا اظہار ہے، جو امتِ مسلمہ کے اجتماعی ضمیر کو جھنجھوڑنے کے بجائے اسے مسلکی اور جغرافیائی تعصبات میں بانٹ دیتی ہے۔ فلسطینیوں پر ہونیوالے مظالم کسی ایک لمحے یا واقعے تک محدود نہیں۔ شہداء کے لاشے، تباہ حال ہسپتال، یتیم بچے، زخمی ماں باپ، جلتی بستیاں، یہ حالات گذشتہ کئی ماہ سے جاری ہیں۔ تو سوال یہ ہے کہ اب یکدم جذبات کیوں بھڑک اُٹھے؟ (فتوے کیوں آنا شروع ہوگئے) اور پہلے کیوں خاموشی رہی؟ یہ جذبات اگر واقعی فلسطینی عوام کیلئے ہیں تو اُن لمحوں میں کیوں نہیں اُبھرے، جب حزب اللہ، حماس اور ایران اسرائیلی جارحیت کا مقابلہ کر رہے تھے۔؟

یہ بات قابلِ غور ہے کہ جب ایران نے شام یا لبنان کے محاذ سے اسرائیل کو جواب دیا، یا جب حماس اور حزب اللہ نے عسکری مزاحمت کی تو بیشتر مذہبی حلقے خاموش رہے۔ اس وقت دلیل یہ دی گئی کہ یہ "ایران کا ایجنڈا" ہے، یا یہ "شیعہ سیاست" کا حصہ ہے۔ اس طرزِ فکر نے فلسطینی مزاحمت کو مسلکی خانوں میں قید کر دیا۔ یوں امتِ مسلمہ کا ایک اہم اور مقدس مسئلہ فرقہ وارانہ بیانیے کی نذر ہوگیا۔ یہ خاموشی محض اتفاق نہیں، بلکہ ایک سوچے سمجھے پروپیگنڈے کا نتیجہ بھی ہے، جس کا مقصد امت کو فرقہ وارانہ بنیادوں پر تقسیم رکھنا ہے۔ جب ایک مزاحمتی تحریک کو صرف اس بنیاد پر مشکوک بنا دیا جائے کہ اسے کسی مخصوص مسلک یا ملک کی حمایت حاصل ہے تو یہ درحقیقت ظالم کے بیانیے کو تقویت دینے کے مترادف ہے۔ کیا یہ ممکن ہے کہ اگر کوئی سنی ملک فلسطین کی کھل کر عسکری حمایت کرے تو پھر وہ حمایت "حلال" اور قابلِ قبول ہو جائے، لیکن اگر یہی کام ایران کرے تو وہ فوراً "مسلکی ایجنڈا" بن جائے؟ کیا ظلم کیخلاف آواز اٹھانے کا جواز صرف اس وقت بنتا ہے، جب وہ آواز ہماری مسلکی شناخت کے مطابق ہو۔؟

یہ طرزِ فکر انتہائی خطرناک ہے، کیونکہ یہ نہ صرف فلسطینی عوام کی حمایت کو محدود کرتا ہے، بلکہ اُمت کو اصولوں سے ہٹا کر شناختوں کی قید میں جکڑ دیتا ہے۔ اگر فلسطین کا مسئلہ واقعی اُمت کا مسئلہ ہے تو پھر اس کی حمایت ہر اس شخص، ریاست یا گروہ سے کی جانی چاہیئے، جو اخلاص سے مظلوم کیساتھ کھڑا ہو، چاہے اس کی فقہی یا سیاسی شناخت کچھ بھی ہو۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ایران، اپنے سیاسی و مسلکی پس منظر کے باوجود، فلسطین کی مسلح مزاحمت کا سب سے مستقل اور مخلص حامی رہا ہے۔ اگر اس کی حمایت کو صرف اس بنیاد پر مسترد کیا جائے کہ وہ ایک شیعہ ملک ہے، تو یہ انصاف اور عقل دونوں کے منافی ہے۔ ایسی سوچ نہ صرف فلسطینیوں کیلئے نقصان دہ ہے، بلکہ پوری مسلم دنیا میں وحدت کے امکانات کو بھی مجروح کرتی ہے۔ فلسطینی مزاحمت کے حق میں آواز بلند کرنا ایک اصولی فرض ہے اور یہ فرض اس سے مشروط نہیں ہونا چاہیئے کہ کون ساتھ دے رہا ہے۔ جب ایران یا اس کے حمایت یافتہ گروہ جیسے حزب اللہ یا حماس میدان میں ہوں تو ان کی حمایت یا مخالفت کا پیمانہ صرف مسلک نہیں، بلکہ یہ ہونا چاہیئے کہ کیا وہ مظلوم کی مدد کر رہے ہیں یا نہیں۔

یہ فرقہ وارانہ تقسیم صرف فلسطینی کاز کو نہیں، بلکہ خود امت کے اتحاد کو کمزور کرتی ہے۔ اگر مزاحمت کو صرف اس بنیاد پر قبول یا مسترد کیا جائے کہ اسے کون کر رہا ہے، تو یہ ایک خطرناک رجحان ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ ہم اصول، انصاف اور مظلوم کی حمایت کو شخصیات، ریاستوں اور مسالک کی بنیاد پر تول رہے ہیں۔ یہی انتخابی مزاحمت (Selective Activism) ہے۔ جب تصاویر زیادہ دردناک ہو جائیں، جب سوشل میڈیا پر لہر اُٹھے، جب عرب میڈیا بھی مجبور ہو کر کچھ دکھا دے، تب عوامی غصہ سامنے آتا ہے۔ مگر جب زمینی سطح پر مزاحمت ہو رہی ہو، جب خون بہہ رہا ہو، جب دشمن کو جواب دیا جا رہا ہو، تب ہم خاموش رہتے ہیں۔ یا پھر اسے "ایرانی ایجنڈا" کہہ کر رد کر دیتے ہیں۔ یہ بھی ایک فکری غلامی ہے۔ ایک ایسا ذہنی جال جس میں امت کو اس حد تک اُلجھا دیا گیا ہے کہ وہ اپنی ہی جنگ میں غیر جانبدار، بلکہ کبھی کبھار مخالف بن جاتی ہے۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ اُمتِ مسلمہ فلسطین کے مسئلے کو صرف مسلکی یا جغرافیائی زاویے سے نہ دیکھے۔ فلسطین ایک انسانی، اخلاقی اور اصولی مسئلہ ہے۔ جو بھی اس کی حمایت کرے۔ خواہ وہ ایران ہو، ترکی یا کوئی عرب ریاست۔ اُس کا ساتھ دینا اصولی فریضہ ہے۔ یہ بھی سمجھنا ضروری ہے کہ جس طرح اسلام کسی مخصوص نسل، قوم یا زبان تک محدود نہیں، اسی طرح مظلوم کی حمایت بھی کسی مسلکی حد بندی کی محتاج نہیں۔ اگر ہم کسی ملک یا گروہ کی مذہبی شناخت کی بنیاد پر اس کے موقف کو رد کر دیں تو ہم خود بھی اسی تعصب کا شکار ہو جاتے ہیں، جس کیخلاف اسلام نے ہمیں خبردار کیا ہے۔ فلسطینی پرچم صرف جذبات کی لہر یا وقتی احتجاج کیلئے نہیں، بلکہ اصولی موقف، فکری استقلال اور اتحادِ امت کی علامت ہونا چاہیئے۔ اس پرچم کو کسی ایجنڈے، پراکسی یا مسلک سے جوڑنے کی بجائے، اسے ظلم کیخلاف مزاحمت اور حق کی سربلندی کا نشان بنانا ہوگا۔ جب تک امت اس بنیادی اصول کو نہیں سمجھے گی، تب تک ہم فلسطین کیساتھ بھی انصاف نہیں کرسکیں گے اور نہ ہی اپنے آپ کیساتھ۔ (مضمون نگار تحریک بیداری امت مصطفیٰ کے سربراہ اور پاکستان کے ممتاز عالم دین ہیں)

متعلقہ مضامین

  • فلم ’سکندر‘ کے سینسر کیے گئے سین کی ویڈیو وائرل؛ مداح حیران، فلم ناقدین پریشان
  • فلسطین کی صورتحال اور امتِ مسلمہ کی ذمہ داری
  • تھرپارکر، پراسرار بیماری سے 8 سے زائد مور ہلاک، سیکڑوں بیمار
  • فلسطین اور امت مسلمہ کی ذمہ داریاں
  • فلسطین: انسانیت دم توڑ رہی ہے
  • بالائی علاقوں میں شدید موسمی خرابی سے ملک بھر کی متعدد پروازیں منسوخ، سینکڑوں سیاح پریشان
  • مہنگائی 38 فیصد سے ایک اشاریہ 5 فیصد تک آگئی، پاکستان خوشحالی کی طرف گامزن ہے، وزیراعظم شہباز شریف
  • جب مزاحمت بھی مشکوک ٹھہرے، فلسطین، ایران فوبیا اور امت کی بے حسی
  • آٹا، آلو، گھی، چینی، ٹماٹر ، مرغی اور دالیں سستی ہو گئیں
  • آٹا، آلو، گھی، چینی، ٹماٹر ، مرغی اور دالیں سستی ہو گئیں