کراچی بیروت بننے اور 1985ء سے بدتر حالات کیجانب جاتا نظر آ رہا ہے، فاروق ستار
اشاعت کی تاریخ: 16th, February 2025 GMT
پریس کانفرنس کرتے ہوئے سینئر رہنما ایم کیو ایم نے کہا کہ کراچی کی موجودہ صورتحال انتہائی تشویش ناک ہے، یہاں حالات کسی وقت بھی ایٹم بم کی طرح پھٹ سکتے ہیں۔ اسلام ٹائمز۔ ایم کیو ایم پاکستان کے سینئر رہنما ڈاکٹر فاروق ستار نے کہا ہے کہ آفاق احمد کو عجلت میں گرفتار کیا گیا، جس کی بھرپور مذمت اور رہائی کا مطالبہ کرتے ہیں، کراچی بیروت بننے اور 85 سے بدتر حالات کی جانب جاتا نظر آ رہا ہے۔ کراچی میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے فاروق ستار نے کہا کہ ڈمپر جلانے کے پیچھے نہ آفاق ہیں نہ ایم کیو ایم، ہم عوام کی کیفیت بیان کر رہے ہیں۔ شہر میں ڈمپر جلانے کا سلسلہ ختم نہیں ہوگا، اب چاہے تو اس بیان پر مجھے بھی گرفتار کرلیں، شہر میں لسانی فسادات کیلئے ایک بار پھر اسٹیج سجایا جا رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ آفاق احمد کی گرفتاری کے باوجود مسئلہ حل نہیں ہوگا، قانون نافذ کرنے والوں کو ابھی سے بلایا جائے، رینجرز کو تنخواہ سندھ کے خزانے سے جا رہی ہے، رینجرز کو ٹریفک پولیس کے ساتھ سڑکوں پر کھڑا کیا جائے، رینجرز کو ان واقعات کی پیشگی روک تھام کیلئے استعمال کیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ کراچی کی موجودہ صورتحال انتہائی تشویش ناک ہے، یہاں حالات کسی وقت بھی ایٹم بم کی طرح پھٹ سکتے ہیں۔
فاروق ستار نے کہا کہ 100 افراد کی ہلاکت کے باوجود وزیراعلیٰ یا کسی اعلیٰ قیادت کی جانب سے کوئی ہمدردی کا بیان نہیں آیا، شہر کی صورتحال پر حکومت کو فوراً تلاش حل کرنا ہوگا، ورنہ 85ء سے زیادہ بدتر حالات کا سامنا کرنا پڑے گا۔ فاروق ستار نے کہا کہ پُرامن احتجاج اور عوامی رابطے کے علاوہ کوئی راستہ نہیں، جماعت اسلامی بھی اس میں اپنا حصہ ڈالے، جو اس وقت پیپلز پارٹی کی بغل میں چھپی ہے، ایم کیو ایم نے ہمیشہ بھائی کو بھائی سے لڑانے کی سازشوں کو ناکام بنایا ہے اور اگر یہ سلسلہ جاری رہا تو سازش کامیاب ہو جائے گی۔ ان کا کہنا تھا کہ ڈمپر مافیا قانون کو ہاتھ میں لے کر شہر میں ریاست چلا رہا ہے اور جرائم مافیا اپنے مفادات کو فروغ دے رہا ہے۔ انہوں نے آفاق احمد کی گرفتاری کی سخت مذمت کرتے ہوئے کہا کہ اس پر کوئی ردعمل نہ آیا تو شہر کی سیاست کی ڈائنامکس تبدیل ہو جائیں گی۔ فاروق ستار نے کہا کہ ایم کیو ایم کا پیغام مہاجروں کیلئے ہے، جو اس ظلم کا شکار ہیں، اور اگر ایم کیو ایم صبر کی تلقین نہ کرتی تو شہر میں حالات مزید خراب ہو چکے ہوتے۔
انہوں نے مطالبہ کیا کہ اشتعال انگیز بیانات پر ڈمپر مافیا کے سرغنہ کو بھی گرفتار کیا جائے، ڈمپر مافیا کو لوگوں کی جانوں سے کھیلنے کی کھلی چھوٹ دے دی گئی ہے، اس پر کوئی ری ایکشن دیا جائے تو اسے دھمکایا جاتا ہے۔ فاروق ستار نے کہا کہ ڈمپر مافیا کا سرغنہ کرکٹ کھلاڑی سیاستدان کے ساتھ کھڑا رہا، ان کا امیدوار تھا، یہ عناصر سیاسی جماعتوں میں اپنی جگہ بناتے ہیں، اس طرح مافیا کے کارندوں کی سرکوبی ہونی چاہئے، ایسا نہ ہوا تو مافیا اس شہر کو لیڈ کرے گا اور سیاستدان بیک سیٹ پر ہوں گے۔ ایم کیو ایم رہنما نے مزید کہا کہ کراچی میں صوبائی حکومت سیاسی وڈیروں کی بے حسی اور مفاد پرستی بدترین حکمرانی نے پاکستان کی سلامتی بقاء کو کراچی میں دائو پر لگا دیا، ہمیں دیوار سے لگایا گیا تو نہیں معلوم اس شہر میں کیا ہوگا، آخری وارننگ دے رہا ہوں، ہم کراچی کو 85ء جیسی آگ میں دھکیلنا نہیں چاہتے۔ فاروق ستار نے کہا کہ سیاسی طریقہ متروک ہوگیا تو پھر کراچی کی سیاسی ڈائنامکس تبدیل ہو جائے گی، بے بسی بے حسی احساس محرومی احساس بیگانگی اور عدم تحفظ سے کراچی کے شہری گزر رہے ہیں۔
فاروق ستار نے کہا کہ اللہ نہ کرے میرے منہ میں خاک، کراچی بیروت بننے اور 85ء سے بدتر حالات کی جانب جاتا نظر آ رہا ہے، ظلم و ناانصافی کا نا ختم ہونے والا سلسلہ اتنا طویل ہے جتنی پریس کانفرنسیں کریں کم ہیں۔ رہنما ایم کیو ایم نے پیپلز پارٹی کی 16 سالہ حکمرانی پر شدید تنقید کرتے ہوئے کہا کہ حکومتی آڑ میں بدعنوانی، کرپشن اور بدترین حکمرانی کو فروغ دیا جا رہا ہے، صوبے بالخصوص کراچی میں حکومت نام کی کوئی چیز نہیں، آئین، قانون یا حکومت کی عمل داری کہیں بھی نظر نہیں آتی، شاہانہ طرز کے میرج ہال بن رہے ہیں، ٹی وی چینلز خریدے جا رہے ہیں، یہ سارا پیسہ رشوت اور بدعنوانی کا ہے۔ فاروق ستار نے رینجرز کو وزیراعلیٰ کی جانب سے نہ بلانے پر سوال اٹھایا اور کہا کہ بینکوں سے اے ٹی ایم سے رقم نکال کر لٹنے والے افراد کے تحفظ کیلئے رینجرز کیوں نہیں بلائے جا رہے، سرجانی اور ضلع غربی لینڈ مافیا کی زد میں ہیں اور انٹر بورڈ اور جامعات میں نااہل افسران تعینات کیے گئے ہیں، جو لوٹ مار میں مصروف ہیں۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: فاروق ستار نے کہا کہ ایم کیو ایم ڈمپر مافیا بدتر حالات کرتے ہوئے رینجرز کو کراچی میں انہوں نے رہے ہیں کی جانب ایم کی رہا ہے
پڑھیں:
بلوچستان کا بحران اور نواز شریف
بلوچستان کے حالات میں بہتر تبدیلی لانے کے لیے غیر معمولی اقدامات درکار ہیں ۔ حکمت عملی کا تقاضا یہ ہونا چاہیے کہ طاقت کے ساتھ ساتھ سیاسی حکمت عملی کا بھی بھرپور استعمال کیا جائے۔ بلوچستان کے حالات اسی صورت میں بہتر ہوں گے جب ہم سیاسی حکمت عملی کو بالادستی دیں گے ، یہ ہی حکمت عملی ریاستی رٹ کو بھی مضبوط بنانے میں معاون ثابت ہوگی۔
پچھلے دنوں سابق وزیراعظم نواز شریف اور سابق وزیر اعلی بلوچستان ڈاکٹر عبدالمالک کی اس تناظرمیں ہونے والی ملاقات ایک اہم پیش رفت سمجھی جا سکتی ہے۔بہت سے سیاسی افراد اور اہل دانش نے یہ تجویز دی تھی کہ اگر نواز شریف آگے بڑھیں اور اپنا کردار ادا کریں تو حالات میں بہتری کی گنجائش پیدا ہو سکتی ہے۔خود نواز شریف نے بھی اس خواہش کا اظہار کیا تھا کہ وہ بلوچستان کے حالات کی بہتری میں اپنا کردار ادا کرنا چاہتے ہیں۔اس میں کوئی شک نہیں کہ نواز شریف ایک بڑی سیاسی شخصیت ہیں اور ان کو بلوچستان میں احترام کے طور پر دیکھا بھی جاتا ہے۔
بلوچستان کے حالات میں خرابیاں چند دنوں یا ہفتوں میں نہیں ہوئی ہیں بلکہ یہ برسوں کی کہانی ہے۔ بلوچستان کے حالات کی بہتری میں جو بڑا کردار بڑی سیاسی جماعتوں بالخصوص مسلم لیگ ن،پیپلز پارٹی اور پی ٹی آئی کو ادا کرنا چاہیے تھا ، اس کا فقدان دیکھنے کو ملا ہے۔اس وقت بھی بلوچستان میں دو بڑی سیاسی جماعتوں پیپلز پارٹی و مسلم لیگ ن کی مشترکہ حکومت ہے ۔اس مشترکہ حکومت کا بھی کوئی بڑا کردار ہمیں حالات کی بہتری میں دیکھنے کو نہیں مل رہا ہے۔
موجودہ حالات میں صوبائی حکومت کا کردار محدود نظر آتا ہے۔اصل میں بلوچستان میں موجود سیاسی جماعتیں اور ان کی قیادتیں موجودہ حالات میں پاکستان کی بڑی سیاسی جماعتوں سے بھی مایوس نظر آتی ہیں۔ان کے بقول بلوچستان کے حالات کی خرابی میں جہاں دیگر عوامل موجود ہیں وہیں بڑی سیاسی جماعتوں کا صوبے کے حوالے سے لاتعلقی کا پہلو بھی ہے۔
بلوچستان کی قوم پرست سیاسی جماعتیں یہ بھی سمجھتی ہیں کہ بلوچستان کے صوبے میں حقیقی سیاسی لوگوں کی بجائے نمائشی سیاسی لوگوں کی بالادستی ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ بڑی سیاسی جماعتوں نے بلوچستان کے حالات کی درستگی میں کب عملی اقدامات اٹھائے ہیں اور ان کوعملی اقدامات کرنے سے کب روکا گیا ہے۔اصل میں ہماری بڑی سیاسی جماعتوں نے خود سے بھی بلوچستان کے حالات میں کچھ بھی نہ کرنے کی پالیسی اختیار کر لی ہے اور اس کا عملی نتیجہ بلوچستان کے حالات کی خرابی کی صورت میں دیکھنے کو مل رہا ہے۔
پاکستان میں جو پاپولر سیاست ہو رہی ہے، اس میں نواز شریف سرگرم نظر نہیں آرہے۔ قومی سیاست ایک طرف وہ مسلم لیگ ن ہی نہیں بلکہ پارلیمانی سیاست میں بھی کوئی دلچسپی نہیں لے رہے اور نہ ہی وہ پارلیمنٹ کے اجلاسوں میں شرکت کرتے ہیں۔اسی طرح پارٹی کے اجلاس ہوں یا پارلیمانی میٹنگز میں بھی ان کی غیر حاضری واضح طور پر دیکھی جا سکتی ہے۔مسلم لیگ ن کی سیاست پر گہری نظر رکھنے والے اہم افراد اور دانش وروں و تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ نواز شریف موجودہ حالات سے مطمئین نظر نہیں آتے ہیں۔
اسی بنیاد پر جو لوگ یہ سمجھ رہے ہیں کہ نواز شریف بلوچستان میں کوئی بڑا مفاہمانہ کردار ادا کرسکیں گے اس پر بہت سے سوالیہ نشان موجود ہیں۔ نواز شریف 8فروری کے انتخابات کے بعد بڑے بہت زیادہ فعالیت یا متحرک ہونے کی بجائے بیک ڈور بیٹھ کرخاموشی کے کردار کو ہی اپنے لیے بہتر سمجھتے ہیں تاکہ وفاقی حکومت اور پنجاب حکومت کو کسی بڑی مشکل کا سامنا نہ کرنا پڑے۔
اس وقت وزیراعظم میاں شہباز شریف بھی بلوچستان کے حالات کی بہتری میں کوئی بڑا بریک تھرو نہیں کراسکے ہیں۔جس انداز سے قومی سیاست میں سیاست دانوں،سیاسی جماعتوں سمیت سیاست وجمہوریت کی جگہ محدود ہوئی ہے وہاں ایک بڑے مجموعی سیاسی کردار کی جنگ بھی محدود ہی نظر آتی ہے۔ماضی میں نواز شریف کئی بار بلوچستان کے حالات کی بہتری میں اپنا کردار ادا کرتے رہے ہیں اور اسی تناظر میں سابق وزیر اعلی ڈاکٹر عبدالمالک نے نواز شریف سے ملاقات بھی کی ہے۔
اگر ان تمام تر حالات کے باوجود نواز شریف خود سے آگے بڑھ کر بلوچستان کے حالات کی درستگی میں عملی طور پر کچھ کرنا چاہتے ہیں تو اس کی یقیناً سیاسی قدر کی جانی چاہیے۔اسی طرح یہ سوال بھی اپنی جگہ اہمیت رکھتا ہے کیا نواز شریف اسٹیبلشمنٹ کی مرضی اور منشا کے بغیر بلوچستان کے حالات میں کوئی کردار ادا کرنا چاہتے ہیں یا ان کو اس تناظر میں اسٹیبلشمنٹ کی مکمل حمایت حاصل ہوگی۔
کیونکہ مسلم لیگ ن اس پوزیشن میں نہیں ہے کہ وہ اسٹیبلشمنٹ کی مدد کے بغیر آگے بڑھ سکے ۔بلوچستان کی بیشتر قوم پرست سیاسی جماعتیں اور ان کی قیادت بلوچستان کے تناظر میں اسٹیبلشمنٹ کی سیاست پر تحفظات رکھتی ہیں۔ایسے میں نواز شریف کیا اسٹیبلشمنٹ اور بلوچستان کے قوم پرستوں کے درمیان غلط فہمیوں پر ایک بڑے پل کا کردار ادا کر سکیں گے۔ان حالات میںجب بلوچستان کی سنگینی کافی حساس نوعیت کی ہے تو نواز شریف نے بلوچستان جانے کی بجائے اپنے خاندان کے دیگر افراد کے ساتھ بیلا روس اور لندن کے دورے پر جانے کو ترجیح دی اور اب وہ اپنے علاج کے سلسلے میں لندن میں موجود ہیں۔اس دورے سے ان کی ترجیحات کو سمجھا جاسکتا ہے۔
بظاہر ایسا لگتا ہے کہ اس وقت بلوچستان میں شرپسندوں کے خلاف طاقت کی حکمت عملی اختیار کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے اور اگر یہ درست ہے تو پھر سیاسی آپشن واقعی محدود ہو جاتے ہیں۔یہ ہی وجہ ہے کہ نواز شریف کے بھی سیاسی آپشن محدود ہیں ۔ بلوچستان کے مسائل کے حل کے لیے تمام سیاسی جماعتوں ،سیاسی قیادت اور اسٹیبلیشمنٹ کو مل کر سیاسی اور انتظامی حکمت عملی اختیارکرنا ہوگی تاکہ اس بحران کا حقیقی اور پائیدار حل سامنے آسکے۔بلوچستان کے مسائل کا بہتر حل قومی سیاست اور ایک بڑے سیاسی،معاشی اور سیکیورٹی استحکام کے ساتھ ہی جڑا ہوا ہے ۔
اس لیے ایک ایسے موقع پر جب خارجی یا علاقائی ممالک بالخصوص بھارت اور افغانستان کی مداخلت موجود ہے توایسے میں ہمیں داخلی سطح کے مسائل کا حل تلاش کرکے ایک بڑے سیاسی اتفاق رائے کو پیدا کرنا ہوگا اور اسی حکمت عملی کی بنیاد پر سیاسی حل تلاش کرکے ہمیں بلوچستان کا حل تلاش کرنا ہے۔