غالب کی بیٹھک: وہ کیفے، جہاں چائے سے زیادہ شاعری چلتی ہے!
اشاعت کی تاریخ: 16th, February 2025 GMT
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 16 فروری 2025ء) پاکستان کے شمال مغرب میں واقع گلگت شہر سے محض نو کلومیٹر کے فاصلے پر دینور کا خوبصورت شہر آباد ہے۔ مقامی صحافی رئیس سیفی شہر کے سماجی خد و خال واضح کرتے ہوئے ڈی ڈبلیو اردو کو بتاتے ہیں، ”دینور گلگت اور آس پاس کے شہروں کی نسبت زیادہ پُرامن ہے۔ دیگر شہروں میں کبھی کبھار فرقہ وارانہ کشیدگی سر اٹھاتی ہے لیکن دینور ایسے مسائل سے پاک ہے۔
یہاں صرف فقہ جعفریہ اور اسماعیلی برادری آباد ہے۔ دینور کا امن و امان مثالی ہے۔"ثقافتی صورتحال کے بارے میں ان کا کہنا تھا، ”یہاں زیادہ تر شینا اور بروشسکی بولی جاتی ہے۔ تعلیم کا اچھا خاصہ رجحان ہے لیکن پبلک لائبریری یا کلچرل سرگرمیوں کے لیے کوئی مناسب جگہ موجود نہ تھی۔
(جاری ہے)
ہمارے شہر میں 'غالب کی بیٹھک‘ نے مقامی ادیبوں اور مطالعہ کے شوقین افراد کے مل بیٹھنے کے لیے ایک عمدہ بندوبست کیا، جو لائق تحسین ہے۔
" کتابوں کے شوقین نوجوان کو 'غالب کی بیٹھک‘ کا خیال کیسے آیا؟محمد سلیم نے قراقرم یونیورسٹی سے نفسیات میں گریجویشن کی۔ اسی دوران انہیں کتابوں کا 'چسکا‘ لگا۔ ڈی ڈبلیو اردو سے بات کرتے ہوئے وہ کہتے ہیں، ”تب میری کایا ہی پلٹ گئی۔ کتابیں پڑھتے ہوئے مجھے لگا ان سے زیادہ خوبصورت کچھ نہیں۔ فرصت ہی فرصت تھی، ہم کتابیں پڑھتے، ڈسکشن کرتے اور معاشرے کو بدلنے کے خواب دیکھتے۔
"گریجویشن کے بعد محمد سلیم کتابوں کی صحبت اور فرصت کے لمحات مِس کرنے لگے۔ ان کے بقول، ”دینور میں اسکول اور کالجز گلگت سے زیادہ ہیں مگر کوئی پبلک لائبریری نہیں۔ میں دوستوں سے کہتا کہ مل کر کوئی کتب خانہ کھولتے ہیں۔ لیکن ہمارے کاسے میں خواب تھے سکے نہیں۔"
اب محمد سلیم کی زندگی میں کتابوں کی یاد اور روزگار کی تلاش ساتھ ساتھ چل رہی تھی۔
ایک دن دوست کے ساتھ موٹر سائیکل پر جا رہے تھے، ایک جگہ سے گزرے تو اس نے بتایا، ''یہاں جو ہوٹل تھا وہ بند ہو گیا، کیوں نا ہم کھول لیں؟‘‘پہلے پہل سلیم کو لگا کیفے کھل گیا تو کتابیں اور ادب رہ جائے گا۔ بھائی اور دوستوں کے ساتھ مشاورت سے طے پایا کہ ہوٹل بناتے ہیں لیکن ماحول پاک ٹی ہاؤس جیسا ہو گا۔ یہ ہوٹل پڑھنے لکھنے والوں کی بیٹھک ہو گا۔
محمد سلیم بتاتے ہیں، ”مجھے شاعروں میں سب سے زیادہ غالب پسند تھا۔ میں نے کہا اسے غالب کے نام پر رکھیں گے اور یوں آغاز ہوا۔ ہماری دوست انیلہ سید لاہور سے آئیں اور انہوں نے آئیڈیا کے مطابق اسے بہت خوبصورتی سے ڈیزائن کیا۔ اسے آٹھ ماہ ہو چکے ہیں۔"
غالب کیفے میں جاری ادبی و ثقافتی سرگرمیاںکیفے کی پیشانی پر 'غالب کی بیٹھک‘ کا بورڈ لگا ہے مگر اس کے اندر کیا چلتا ہے؟ کس طرح کی محفلیں سجتی ہیں؟
مقامی صحافی رئیس سیفی کہتے ہیں، ”یہ پلیٹ فارم ہے، جس میں صلاحیت ہے کہ کوئی بھی آئے اور دل جیت کر لے جائے۔
مثلاً کوئی نوجوان موسیقار اپنے فن کا مظاہرہ کرنا چاہتا ہے، پہلے جگہ نہ تھی، اب غالب کیفے ہے، جس کے دروازے سب کے لیے کھلے ہیں۔"محمد سلیم کہتے ہیں، ”ہمارے پاس بڑا ہال ہے اور سب کو کھلی اجازت دے رکھی ہے کہ کوئی بھی آئے، وہ اپنا پروگرام کرے، ہم کوئی فیس نہیں لیں گے۔ یہی وجہ ہے کہ مہینے میں ایک آدھ محفل موسیقی ہو جاتی ہے۔ کتاب کے حوالے سے کوئی تقریب ہو گئی، کچھ نہ کچھ چلتا رہتا ہے۔
"تفصیل شئیر کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا، ”کچھ دوست روزانہ شام کو اکٹھے ہوتے ہیں، گپ شپ ہو گئی، کتابوں کا تبادلہ کر لیا۔ ریگولر ماہانہ اسٹڈی سرکل ہوتا ہے، جس میں طے شدہ کتاب یا موضوع پر تبادلہ خیال کیا جاتا ہے۔"
رئیس سیفی کہتے ہیں، ”غالب کیفے نے مکالمے کا پلیٹ فارم مہیا کیا، جو اس کی سب سے بڑی خوبی ہے۔ لوگ بات کرنا چاہتے ہیں، اپنا نقطہ نظر شیئر کرنا چاہتے ہیں۔
یہاں ہر طرح کا ذہن اکٹھا ہوتا اور مکالمہ کرتا ہے۔"محمد حسین کیفے کا انتظام سنبھالتے ہیں۔ ڈی ڈبلیو اردو سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا، ”یہاں دیسی اور فاسٹ فوڈ دونوں ہیں۔ ہم نے جگہ مختص کر رکھی ہے۔ مختلف افراد اور اداروں سے درخواست کر رہے ہیں کہ ہمیں کتابیں ڈونیٹ کی جائیں تاکہ اچھی لائبریری بن سکے۔ ہم اس کا دائرہ وسیع کرنے کے لیے مسلسل بھاگ دوڑ میں لگے ہیں۔
" دینور کے نوجوان پہلے والی نسلوں سے کیسے مختلف؟صدیق پراچہ کو ریڈیو سے وابستگی کے دوران گلگت اور دینور میں طویل عرصہ قیام کا موقع ملا اور اس حوالے سے ان کے مشاہدات ایک قومی روزنامے میں شائع ہو چکے ہیں۔
ڈی ڈبلیو اردو سے بات کرتے ہوئے وہ کہتے ہیں، ”گلگت اور دینور کی معیشت بدل رہی ہے۔ اب وہاں سب سے بڑا ذریعہ روزگار تجارت ہے۔
زراعت کے برعکس تجارت مختلف برادریوں سے میل ملاپ کے زیادہ مواقع فراہم کرتی ہے۔ اس سے دل و دماغ میں وسعت پیدا ہوتی ہے۔ دینور کی نوجوان نسل زیادہ کشادہ دل اور کھلی ڈلی ہے۔ وہ زندگی، ثقافت اور رسم و رواج کو روایتی انداز میں دیکھنے کے بجائے سوالیہ نظروں سے جانچتی ہے۔"سیفی کہتے ہیں، ”نوجوان نسل اپنی شناخت کے بارے زیادہ حساس ہے۔
وہ اپنی زبان و ثقافت کی انفرادیت اور اہمیت پر زور دیتی ہے۔ انہیں اپنے حقوق کا زیادہ شعور ہے۔ وہ بھیڑ چال چلنے کے بجائے اپنی رائے بناتی اور پھر اسے آسانی سے تبدیل نہیں کرتی ہے۔"اگر نوجوان نسل اپنی شناخت اور زبان کے معاملے میں زیادہ حساس ہے تو شینا اور بروشسکی بولنے والوں نے ایک اردو کے شاعر کا انتخاب کیوں کیا؟
محمد سلیم کہتے ہیں، ”یہ اہم سوال ہے لیکن آپ کو مقامی ماحول سمجھنا ہو گا۔
اگر ہم شینا کے کسی فنکار کے نام پر کیفے کھولتے تو بروشسکی والے مائنڈ کرتے، اگر بروشسکی کی تختی لگاتے تو شینا والے ناراض ہوتے۔ ہم چاہتے تھے کہ سب یہاں آئیں۔ یہ سب کا سانجھا پلیٹ فارم ہے۔"وہ کہتے ہیں، ”غالب کی منڈلی جمتی تھی تو اس میں مولوی بھی ہوتے اور رند بھی، ہندو بھی اور مسلمان بھی۔ مکالمہ اسی چیز کا نام ہے کہ سب اپنی اپنی بات آزادی اور بلاخوف کہہ سکیں۔ اس کے لیے مرزا غالب سے بہتر کس کا نام ہو سکتا تھا؟"
.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے ڈی ڈبلیو اردو کرتے ہوئے محمد سلیم کہتے ہیں سے زیادہ کے لیے
پڑھیں:
پنجاب میں پاور شیئرنگ پر پیپلزپارٹی اور ن لیگ کی بڑی بیٹھک، ملکر چلنے پر اتفاق
لاہور (نیوزڈیسک) پنجاب میں پاور شیئرنگ پر بڑی بیٹھک ہوئی جس میں ن لیگ اور پی پی نے ملکر چلنے پر اتفاق کیا۔گورنر ہاؤس پنجاب میں پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ (ن) کی کوآرڈینیشن کمیٹی کا اجلاس ہوا،
اجلاس میں مسلم لیگ (ن) کی جانب سے وزیراعظم کے مشیر رانا ثنا اللہ، سپیکر پنجاب اسمبلی ملک محمد احمد خان اور سینئر صوبائی وزیر مریم اورنگزیب شریک ہوئیں جبکہ پیپلزپارٹی کی جانب سے گورنر پنجاب سردار سلیم حیدر، ندیم افضل چن، حسن مرتضیٰ اور علی حیدر گیلانی نے شرکت کی۔
کمیٹی کے کچھ رہنماؤں نے زوم کے ذریعے اجلاس میں شرکت کی جبکہ کوارڈینیشن کمیٹی کے اجلاس میں آئی جی پنجاب ڈاکٹر عثمان انور سمیت دیگر افسران بھی شریک ہوئے۔
کوآرڈینیشن کمیٹی نے پنجاب میں پاور شیئرنگ کے حوالے سے اب تک ہونے والی پیش رفت پر تبادلہ خیال کیا جبکہ سب کمیٹی کی ملاقاتوں میں ہونے والے فیصلوں پر مشاورت کی۔
بعد ازاں سپیکر پنجاب اسمبلی ملک احمد خان کے ہمراہ میڈیا سے گفتگو کے دوران پاکستان پیپلزپارٹی وسطی پنجاب کے سیکرٹری جنرل حسن مرتضیٰ نے اسمبلی میں پیش کیے گئے بلدیاتی بل پر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ہم نے بلدیاتی انتخابات کرانے کا مطالبہ کیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ملکی حالات کے پیش نظر ساتھ چلنے پر اتفاق ہوا، امید ہے کہ ہم مزید آگے بڑھیں گے جبکہ اجلاس میں زراعت اور گندم سے متعلق بات ہوئی اور گورننس سے متعلق تحفظات بھی رکھے۔
حسن مرتضیٰ نے کہا کہ پانی کی تقسیم ارسا طے کرتا ہے، کینالز کا معاملہ تکنیکی ہے اور اسے تکنیکی بنیاد پر ہی دیکھنا چاہیے، نئی نہریں نکالی جائیں گی تو اس کے لیے پانی کہاں سے آئے گا جبکہ اس وقت ہم اپنے اپنے موقف کے ساتھ کھڑے ہیں، گفتگو کے بعد بہتر راستہ نکلے گا۔
دوسری جانب مسلم لیگ (ن) کے ملک احمد کا کہنا تھا کہ ارسا میں پانی کی تقسیم کا معاملہ طے ہے جس پر سب کا اتفاق ہے، سندھ کا حق ہے کہ وہ اپنے پانی کی حفاظت کرے۔انہوں نے کہا کہ بتایا گیا 10 ملین ایکڑ پانی کا گیپ ہے، سندھ اور پنجاب کے درمیان پانی کے معاملات پر ڈیٹا کے مطابق بات کریں گے۔
ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ مقامی سطح پر عوامی نمائندوں کو اختیار ملنا چاہیے، پیپلز پارٹی بھی چاہتی ہے پنجاب میں اچھی گورننس ہو۔ملک محمد احمد خان نے مزید کہا ہے کہ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن دو مختلف جماعتیں ہیں، پیپلز پارٹی اتحادی جماعت ہے، اس کی رائے مختلف ہوتی ہے تو اظہار جلسوں اور باہمی ملاقاتوں میں ہوتا ہے، اس میں اچنبھے کی کوئی بات نہیں۔
دوسری جانب گزشتہ روز صدر ن لیگ نواز شریف کی ہدایت پر رانا ثنا اللہ نے وزیرِ اطلاعات سندھ شرجیل میمن سے فون پر رابطہ کیا جس میں رانا ثنا نے کہا کہ نہروں کے معاملے پر سندھ سے مذاکرات کے لیے تیار ہیں۔
رانا ثنا اللہ نے کہا کہ میاں نواز شریف اور شہباز شریف نے ہدایت کی ہے کہ نہروں کے معاملے پر سندھ کے تحفظات دور کیے جائیں۔اس موقع پر شرجیل میمن نے کہا کہ پیپلز پارٹی اور سندھ حکومت کو دریائے سندھ سے نہریں نکالنے پر شدید تحفظات ہیں
پیپلز پارٹی بھی نہروں کے معاملے پر وفاقی حکومت سے مذاکرات کے لیے تیار ہے، پیپلز پارٹی سندھ کے عوام کے لیے 1991 کے معاہدے کے تحت پانی کی منصفانہ تقسیم چاہتی ہے۔
شاعر مشرق، مفکر پاکستان ڈاکٹر علامہ محمد اقبالؒ کی آج 87 ویں برسی