اسلامی نظامِ معیشت کی نمایاں خصوصیات
اشاعت کی تاریخ: 16th, February 2025 GMT
(گزشتہ سےپیوستہ)
آج کی دنیا کے معاشی فلسفہ کے ساتھ ہمارا ایک بنیادی تنازعہ یہ بھی ہے کہ ’’فری اکانومی‘‘ کے عنوان سے یہ بنیادی اصول طے کر لیا گیا ہے کہ حلال و حرام اور جائز و ناجائز ہونے کا فیصلہ کرنا سوسائٹی کا کام ہے اور مارکیٹ کی رسد اور طلب ہی جائز و ناجائز ہونے کا معیار ہے۔ مگر اسلام اس بات کو تسلیم نہیں کرتا اور اسلام کا اصول یہ ہے کہ حلال و حرام کے دائرے متعین کرنا اللہ تعالیٰ کا کام ہے، اور وہ وحی الٰہی کے ذریعے طے شدہ ہیں۔ کیونکہ اس نے انسانوں اور اشیا دونوں کو پیدا کیا ہے اور اسی کو معلوم ہے کہ کون سی چیز انسان کے لیے فائدہ مند ہے یا نقصان دہ ہے، اس لیے حلال و حرام اور جائز و ناجائز کے فیصلے بھی اسی کے نافذ ہوں گے۔ انسانوں کو اپنے لیے حلال و حرام کے فیصلے کرنے کا اختیار نہیں ہے اور انہیں معیشت کے ہر باب میں وحی الٰہی کے مطابق اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے بیان کردہ حلال و حرام کے دائرے میں پابند رہنا ہو گا۔
اس طرح یہ فرمایا گیا ہے کہ جو مال و دولت تمہارے پاس ہے اس میں دوسروں کے بھی حقوق ہیں، یہ سارے کا سارا مال صرف تمہارا نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ ’’وفی اموالھم حق للسآئل والمحروم‘‘ (سورہ الذاریات ۱۹) ان کے مالوں میں سائل اور محروم دونوں کا حق ہے۔ اس کی تشریح مفسرین کرامؒ یہ کرتے ہیں کہ سائل اسے کہتے ہیں جو ضرورتمند ہے اور اپنی ضرورت کا اظہار بھی کرتا ہے، جبکہ محروم وہ ضرورتمند ہے جو اپنی ضرورت کو ظاہر بھی نہیں کرتا اور سفید پوشی کا بھرم قائم رکھنے کی کوشش کرتا ہے۔ دولتمند کے مال میں ان دونوں کا حق ہے۔ جو ضرورت مند اپنی ضرورت کا اظہار کرتا ہے اس کا حق تو سمجھ میں آتا ہے لیکن جو سفید پوش ضرورتمند اپنی ضرورت کا اظہار تک نہیں کرتا اس کا حق بھی دولت والے نے ادا کرنا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ دولت مند شخص کی یہ ذمہ داری بھی ہے کہ وہ سوسائٹی میں سفید پوش ضرورت مندوں کو تلاش کر کے ان تک ان کا حق پہنچائے۔
پھر قرآن کریم نے اسے ’’حقوق‘‘ میں شمار کیا ہے کہ کوئی دولتمند شخص سوسائٹی کے مستحقین پر اپنا مال خرچ کر کے ان پر احسان نہیں کر رہا ہے بلکہ ان کو ان کا اپنا حق دے رہا ہے، حتٰی کہ قرآن کریم نے کسی ضرورت مند اور مستحق پر مال خرچ کرنے کے بعد اس پر احسان جتلانے کو نیکی برباد ہو جانے کا باعث قرار دیا ہے۔
اسی طرح قرآن کریم نے سوسائٹی میں دولت کی گردش کا اصول اور فلسفہ بیان کیا ہے کہ ’’کئی لا یکون دولۃ بین الاغنیاء منکم‘‘ (سورہ الحشر ۷) دولت کی گردش کی صرف مالداروں میں محدود نہیں رہنا چاہیے بلکہ سوسائٹی کے نیچے کے طبقوں اور غریب افراد تک بھی دولت کی گردش کو آنا چاہیے۔ زکوٰۃ کا اصول یہی ہے اور وراثت کی تقسیم کی حکمت بھی یہی ہے۔ زکوٰۃ دولت کی گردش کو اوپر سے نیچے لاتی ہے اور وراثت کے نظام قائم ہو تو بڑی سے بڑی دولت بھی تقسیم در تقسیم کے عمل سے گزر کر تیسری چوتھی پشت میں عام آدمی کے دائرہ اختیار میں آجاتی ہے۔
اسلام کا اصول دولت کو جمع کرنا نہیں بلکہ اسے تقسیم کر کے اس کی گردش کو سوسائٹی کے تمام طبقات تک وسیع کرنا ہے، اور زکوٰۃ اور وراثت کا نظام سوسائٹی میں یہی کام کرتا ہے۔ حضرت امام غزالیؒ نے سوسائٹی میں دولت کی گردش کو انسانی جسم میں خون کی گردش کی مانند قرار دیا ہے، انسان کے جسم میں خون گردش کرتا ہے تو جسمانی صحت قائم رہتی ہے، اگر کسی عضو کو اس کی ضرورت کا خون نہ ملے تو فالج پیدا ہوتا ہے، اور اگر کسی عضو میں خون پہنچ کر رک جائے یا ضرورت سے زیادہ خون پہنچ جائے تو خون فاسد ہو جاتا ہے، پھوڑے پھنسی وغیرہ پیدا ہوتے ہیں، خون پیپ کی شکل اختیار کر لیتا ہے اور خرابی پیدا ہوتی ہے۔ اسی طرح سوسائٹی کے کسی طبقے تک دولت کی گردش نہ پہنچے تو فقر و محتاجی پیدا ہوتی ہے، محرومی جنم لیتی ہے، زندگی میں تعطل آجاتا ہے، جبکہ کسی طبقہ میں دولت حد سے زیادہ آجائے یا دولت وہاں آ کر رک جائے اور اس میں گردش نہ رہے تو تعیش اور آرام طلبی پیدا ہوتی ہے جسے قرآن کریم نے ’’مترفین‘‘ سے تعبیر کیا ہے اور اس سے سوسائٹی کا نظام بگڑ کر رہ جاتا ہے۔ سود کے نظام اور زکوٰۃ کے نظام میں یہی فرق ہے کہ زکوٰۃ دولت کو اوپر سے نیچے لاتی ہے، اور سود دولت کو نیچے سے اوپر لے جاتا ہے اور پھر دولت اوپر کے طبقات میں گردش کرنے لگتی ہے جسے ’’دولۃ بین الاغنیاء منکم‘‘ کے عنوان سے بیان فرمایا ہے، اور سود کی شدید درجہ کی حرمت کی ایک حکمت یہ بھی بیان کی جاتی ہے۔
اسی طرح قرآن کریم نے معیشت کے ایک اور اہم مسئلہ کی بھی وضاحت فرمائی ہے کہ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے لوگوں نے پوچھا ’’ماذا ینفقون؟‘‘ وہ اپنے مال میں سے کتنا حصہ خرچ کریں۔ اس سوال کے جواب میں قرآن کریم نے ایک آیت میں تو اس طرف توجہ دلائی ہے کہ ’’کیا خرچ کریں‘‘ کے ساتھ ساتھ ’’کہاں خرچ کریں‘‘ کا سوال بھی ضروری ہے۔ اور اس سوال کے جواب میں خرچ کے مصارف کا ذکر کیا ہے کہ ’’ما انفقتم من خیر فللوالدین والاقربین والیتامٰی والمساکین وابن السبیل‘‘ (سورہ البقرہ ۲۱۵) جو بھی خرچ کرو اس کے اولین مستحق ماں باپ، قریبی رشتہ دار، یتامٰی، مساکین اور مسافر ہیں۔ اور دوسری آیت میں فرمایا کہ ’’العفو‘‘ ضرورت سے زائد مال خرچ کر دو۔ اس آیت میں اپنی روزمرہ ضروریات سے زائد مال و دولت کو جمع کرنے اور ذخیرہ کرنے کی بجائے اسے سوسائٹی کے ضرورتمند افراد پر خرچ کر دینے کی تلقین کی گئی ہے۔ اسے حضرت ابو ذرغفاریؓ فرضیت اور وجوب کے درجہ میں بیان کرتے ہیں اور ضرورت سے زائد مال ذخیرہ کرنے کو حرام کہتے ہیں، مگر حضرت عبد اللہ بن عمرؓ اور جمہور صحابہ کرامؓ اس حکم کو استحباب پر محمول کرتے ہیں کہ زکوٰۃ و عشر اور دیگر صدقات واجبہ کی ادائیگی کے بعد زائد از ضرورت مال کو جمع رکھنا جائز اور مباح تو ہے مگر بہتر یہی ہے کہ زائد از ضرورت مال کو خرچ کر دیا جائے۔
یہ چند باتیں میں نے آپ حضرات کو اور علماء و طلبہ کو توجہ اور شوق دلانے کے لیے عرض کی ہیں کہ معاشیات بھی قرآن و سنت کا اہم موضوع ہیں جن کا سینکڑوں آیات و احادیث میں تذکرہ موجود ہے، ہمیں ان کا بھی اہتمام سے مطالعہ کرنا چاہیے اور آج کے دور میں ان کی روشنی میں امت کی راہنمائی کرنی چاہیے۔
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: دولت کی گردش سوسائٹی میں حلال و حرام سوسائٹی کے اپنی ضرورت کی گردش کو ضرورت کا جاتا ہے کا اصول نہیں کر کرتا ہے دولت کو اور اس کیا ہے ہے اور
پڑھیں:
سوزوکی کی نئی آلٹو 2025 ماڈل لانچ: جدید فیچرز اور قیمتوں میں نمایاں اضافہ
اسلام آباد (نیوز ڈیسک) پاکستان سوزوکی موٹرز نے اپنی مقبول گاڑی “آلٹو” کا نیا 2025 ماڈل متعارف کرا دیا ہے، جو جدید خصوصیات اور بہتر سیکیورٹی فیچرز کے ساتھ مارکیٹ میں پیش کیا گیا ہے۔ سوشل میڈیا پر نئی آلٹو کی تصاویر اور ویڈیوز تیزی سے وائرل ہو رہی ہیں اور صارفین کی جانب سے مثبت ردعمل دیکھنے میں آ رہا ہے۔
ذرائع کے مطابق، سوزوکی نے فروری 2025 میں آلٹو کی قیمتوں میں اضافہ کیا، جس کی وجہ گاڑی میں شامل کیے گئے نئے اور بہتر فیچرز ہیں۔ ان اپڈیٹس میں ABS بریکنگ سسٹم، پاور ونڈوز، سیٹ بیلٹ الرٹ سسٹم، اور ISOFIX چائلڈ سیفٹی اینکرز شامل ہیں۔ کمپنی کا کہنا ہے کہ یہ تبدیلیاں صارفین کو مزید محفوظ، آرام دہ اور جدید ڈرائیونگ کا تجربہ فراہم کریں گی۔
نئی آلٹو 2025 ماڈل کی نمایاں خصوصیات:
پچھلے دروازے پر ایمبلم کا نیا ڈیزائن
فرنٹ سیٹ پر سیٹ بیلٹ پری ٹینشنرز
سیٹ بیلٹ ریمائنڈر سسٹم
ISOFIX چائلڈ سیفٹی اینکرز
بیک ڈور گارنش
VXR MT اور VXR AGS ماڈلز میں اضافی فیچرز:
پاور ونڈوز (سامنے اور پیچھے)
پاور ونڈو سوئچ میں لائٹنگ
ڈرائیور ونڈو کے لیے سیفٹی پنچ گارڈ
آٹو اپ/ڈاؤن فنکشن برائے ڈرائیور ونڈو
ABS بریکنگ سسٹم
AGS ویریئنٹ میں خصوصی اضافہ:
سائیڈ ٹرن سگنل لائٹس
قیمتوں میں نیا اضافہ:
آلٹو VXR MT: پرانی قیمت 27,07,000 روپے → نئی قیمت 28,27,000 روپے (اضافہ: 1,20,000 روپے)
آلٹو VXR AGS: پرانی قیمت 28,94,000 روپے → نئی قیمت 29,89,000 روپے (اضافہ: 95,000 روپے)
آلٹو VXL AGS: پرانی قیمت 30,45,000 روپے → نئی قیمت 31,40,000 روپے (اضافہ: 95,000 روپے)
سوزوکی کا دعویٰ ہے کہ یہ تمام اپگریڈز گاڑی کی کارکردگی، آرام اور حفاظت کو بہتر بنانے کے لیے کیے گئے ہیں تاکہ صارفین کو ایک جدید، محفوظ اور آرام دہ سواری کا تجربہ حاصل ہو۔
مزیدپڑھیں:خریداروں کیلئے خوشخبری ، سولرسسٹم، بیٹریاں اور یو پی ایس سستے ہوگئے