Daily Ausaf:
2025-04-22@07:09:07 GMT

بات کرنے کو ترستی ہے زبان میری

اشاعت کی تاریخ: 16th, February 2025 GMT

سچ کی شہ رگ پر انگلی رکھ کر ریاستیں چلائی جاسکتی ہوتیں تو کوئی آمر قضا کا سزاوار نہ ہوا ہوتا۔حکمرانوں نے 26ویں آئینی ترمیم اور پیکا ایکٹ کی تلوار ایک ساتھ لٹکا کرجو کارنامہ سرانجام دیا ہے اس پر پھولے نہیں سماتے وہ بھول گئے ہیں کہ کبھی کبھی صیاد اپنے ہی دام میں آجایا کرتا ہے ۔
حکمران جمہوریت کے گھوڑے پر چڑھ کر آئیں یا آمریت کی رتھ پر سوار ہوکر، اپنے کئے کی جزا وسزا پائے بغیر کبھی نہیں گئے۔ فارم 47 کی کاغذی کشتی ہچکولے کھانے کے باوجود بھی ڈوب نہیں رہی تو یہ حکمرانوں کی لیاقت کا کمال نہیں بلکہ ملک کی جغرافیائی سرحدوں کے محافظ کی حب الوطنی کا طلسم ہے، جس کا بچپن خیالی نقش تراشنے والے محب وطن کی اس چھولداری کے سائے تلے پروان چڑھا جو چھولداری اتفاق فائونڈری کی تیار کی ہوئی طنابوں کی مرہون منت ہے اور ہم سب اس چھولداری کی چھت سے الٹے لٹکے حالات کا رخ بدلنے کے منتظر ہیں کہ جب ان کے لفظوں سے تراشے بتوں کے کندھوں پر کھڑے تخت گریں گے تو ہم وہ دن دیکھیں گے جس کا وعدہ ہے۔ مگر یہاں تو خیالی نقش تراشنے والوں کا جادو سر چڑھ کے بول رہا ہے، مگر وہاں مولانا کی دستور زباں بندی کے قانون سے جکڑی زبان کو نئے سرے سے اذن ملے گا۔ جو شکوہ سرا ہیں کہ ’’سیاستدانوں کو ملکی نظام سے بے دخل کیا جارہا ہے۔‘‘
مدبر سیاستدان اور جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ مولانافضل الرحمان فرماتے ہیں کہ 26 ویں ترمیم کے ذریعے شب خون مارا گیا ،لیکن ہم نے مقابلہ کیا ،عدلیہ کو اپنی لونڈی بنانے کی کوشش کی گئی،ہم نے آئینی ترمیم کے ابتدائی مسودے کو مسترد کیا ،سیاسی لوگ ہیں بات چیت پر یقین رکھتے ہیں ۔
26 ویں ترمیم کی 56 شقیں تھیں 36 شقوں سے ہم نے حکومت کو دستبردار کرادیا۔ کچھ لوگ نظریات کی جنگ لڑتے ہیں اور کچھ لوگ اپنی اتھارٹی کی جنگ لڑتے ہیں مگر سیاستدانوں کو ملکی نظام سے بے دخل اور پارلیمنٹ کو کمزورکیا جارہا ہے۔ بات انہوں نے سچ کی ہے مگر ’’بات ہے رسوائی کی‘‘ تو شہباز سرکار اس پر کان کیوں دھرنے لگی ۔خوشحالی کے جھوٹے دعوے خادم ملک کی عادت ہے اور عادتیں سر کے ساتھ جاتی ہیں۔
دھر ملک کے بہت ہی بڑے منصبدار جن کانام لیں تو زبان پر انگارے دھر دیئے جانے کا خوف، بس اتنا کہنا کافی ہے کہ انہوں نے صحافیوں کے بڑے ہجوم کے سامنے اعتراف کیا ہے کہ ’’مجھے کسی کا کوئی خط نہیں ملا اور اگر مل بھی گیا تو پڑھوں گا نہیں ،وزیراعظم کو بھجوا دوں گا‘‘ ہاں مگر یہ اتنے بڑے منصبدار کے شایان شان نہیں کہ ایسی بات کریں ۔ان کو زیبا کچھ اور ہے ۔اگر یہ کسی کا خواب بھی ہے تو اس کی تعبیر بننے میں کوئی حرج نہیں کہ یہ بھی امن و امان کا ایک دروازہ ہی ہوگا جو کسی طور بھی کھل جائے تو قوم کچھ نہ کچھ نیا ضرور پالے گی ۔آخر انہوں نے بھی تو آرزوئوں کے چراغ جلائے ہوئے ہی ہیں ان کو بھی تو روشن رکھنے کا اہتمام انہی بڑوں ہی کو کرنا ہے۔
معیشت کی خوشحالی کے دعوے کب تک امید کے دھاگوں سے کاٹے جاتے رہیں گے۔ رہے وزیراعظم کے اختیارات تو بھلا کس کے پاس ہیں ؟ یہ بات بھی کسی سے چھپی ہوئی نہیں ہے ۔ بس ایک شفقت کا ہاتھ ہی تو ہے جو کسی کے سر پر رکھنا ہے شاید اسی سے کو ئی لاینحل گتھی سلجھ جائے ۔
ممکن ہے ’’نامہ‘‘ تحریر کرنے والوں نے جسے نامہ بر بنایا ہو اس کی پر واز میں تاخیر ہو گئی ہو یا پھر خط کی قبولیت کے لئے پہلے تشہیر کرکے مزاج یار کا انداز لگایا گیا ہو ۔اچھا ہوتا اگر اس مرحلے کوطے کرنے کے لئے مولانا کی خدمات پر ہی صاد کیا جاتا ،ان کے سیاسی تدبر سے استفادہ کیا جاتا کہ اب اس بے لذت گناہ سے تو دست کش ہو ہی چکے کہ کپتان یہودی ایجنٹ ہے۔یہ بھلے اسی الزام کا کفارہ ہی کیوں نہ سمجھ لیتے۔
ہمارے محترم مولانا جنہوں نے پی ٹی آئی سے پینگیں تو بڑھا ہی لی ہیں اور اب وہ حکمرانوں کے خلاف محاذ بنانے کے بھی کتھا گت کے چکرمیں ہیں اس سلسلے میں قوم پرست لیڈر محمود اچکزئی صاحب سے بھی معاملات طے فرما چکے ہیں ،کوئی دن نہیں وہ کشتی طوفان میں ڈال دیں یوں اپنی قیمتی شرائط پر معاشی اور سیاسی بھنور میں پھنسی حکمرانوں کے کشتی کو کنارے لے آئیں یا خود بھی اس کشتی میں کسی نہ کسی صورت بیٹھ جائیں۔ان سارے امکانات کے در وا لگتے ہیں۔بس ضرورت اس امر کی ہے کہ مولانا اپنے تدبر کا پورا پورا فائدہ اٹھانے میں سرخرو ٹھہریں ۔کہ حضرت والا نے کبھی بے ثمر آرزو تو کی ہی نہیں ۔

.

ذریعہ: Daily Ausaf

کلیدی لفظ: ہیں کہ

پڑھیں:

پنجاب کے کسان کی بات کرنے والوں کو سندھ نظر نہیں آتا: عظمٰی بخاری

لاہور (نوائے وقت رپورٹ) وزیر اطلاعات پنجاب عظمٰی بخاری نے کہا ہے کہ بلاول بھٹو نے ایک جلسے میں پنجاب کی قیادت کے خلاف سخت جملوں کا استعمال کیا جبکہ ہم صرف سوال ہی پوچھ لیں تو توہین ہو جاتی ہے۔ پنجاب کے کسانوں کی بات کرنے والوں کو سندھ کے کسان نظر کیوں نہیں آتے؟ پالیسی کے تحت اگر پنجاب نے گندم نہیں خریدی تو کسانوں کو لاوارث بھی نہیں چھوڑا۔ پنجاب کے کسانوں کو ایک سو ارب روپے کا پیکج،  پانچ ہزار فی ایکڑ اور پچیس ارب روپے کا ویٹ پروگرام دیا جائے گا۔ پنجاب کے کسانوں کو کسان کارڈ،  ہزاروں ٹریکٹرز اور سپر سیڈرز دیئے گئے ہیں۔ جلسوں میں باتیں کرنا بہت آسان ہے مگر کسی صوبے نے کسانوں کے لیے امدادی قیمت کا اعلان نہیں کیا۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے ڈی جی پی آر میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کیا۔ انہوں نے کہا کہ کسانوں کے حقوق کی آڑ میں سیاست کرنے والے آج پنجاب کے کسانوں کے لیے مگرمچھ کے آنسو بہا رہے ہیں، جبکہ سندھ کے کسانوں کی حالت زار پر مکمل خاموشی اختیار کی گئی ہے۔ انہوں نے بلاول بھٹو کی جانب سے دئیے گئے بیانات کو بے بنیاد قرار دیتے ہوئے کہا کہ "کسانوں کے مسائل پر سیاست چمکانا آسان ہے، لیکن حل دینا اصل قیادت کا کام ہوتا ہے۔"انکا کہنا تھا کہ افسوس کا مقام یہ ہے کہ سندھ کے کسانوں کی حالت پر کسی نے بات نہیں کی۔ نہ وہاں گندم کا ریٹ مقرر کیا گیا، نہ کسان کارڈ جاری کیے گئے۔ ہر کسان کو فی ایکڑ 5 ہزار روپے دئیے جا رہے ہیں۔ اس کے علاوہ، 25 ارب روپے کے ویٹ سپورٹ پروگرام کا آغاز کیا گیا۔ ہر ضلع کے بہترین کاشتکار کو 10 لاکھ روپے انعام دیا جائے گا۔ انہوں نے مزید کہا کہ نجی شعبے کو گندم کی خریداری کی اجازت دے دی گئی ہے تاکہ کسانوں کو فوری ریلیف حاصل ہو۔ بنک آف پنجاب کے ذریعے کسانوں کے لیے 100 ارب روپے کی کریڈٹ لائن دی جا رہی ہے اور کسان کارڈ کے ذریعے اب تک 55 ارب روپے کی خریداری ہو چکی ہے۔ دنیا بھر میں استعمال ہونے والی جدید زرعی مشینری بھی حکومت پنجاب خریدے گی اور بغیر کسی منافع کے کسانوں کو فراہم کرے گی تاکہ پیداوار میں اضافہ ہو۔ انہوں نے کہا کہ وزیراعلیٰ پنجاب کسانوں کے مفاد کو ذاتی اہمیت دیتی ہیں اور حکومت کسان اور کاشتکار کی بہتری کے لیے عملی اقدامات کر رہی ہے۔ گندم کے باہر جانے کا مکمل ریکارڈ مرتب کیا جا رہا ہے اور حکومت کے پاس گندم کا وافر ذخیرہ موجود ہے۔

متعلقہ مضامین

  • پنجاب کے کسان کی بات کرنے والوں کو سندھ نظر نہیں آتا: عظمٰی بخاری
  • غزہ میں جو کچھ ہورہا ہے اس کو الفاظ میں بیان نہیں کیا جاسکتا، روسی قونصل جنرل
  • میری وائرل ہونے والی نازیبا ویڈیوز سابق بوائے فرینڈ نے پھیلائیں؛ ٹک ٹاکر سامعہ
  • پی ٹی آئی سے اتحاد نہ کرنے کی خبریں  مصدقہ نہیں،  ترجمان جے یو آئی
  • خوراک کیلئے ترستی فلسطینی خاتون بچوں کو کھچوے پکا کر کھلانے پر مجبور
  • تحریک انصاف کے ساتھ اتحاد نہیں ہوگا، جے یو آئی
  • یمن میں امریکہ کو بری طرح شکست کا سامنا ہے، رپورٹ
  • پی ایچ ڈی کا موضوع لوٹا کیوں نہیں ہو سکتا؟
  • معاشی ترقی اور اس کی راہ میں رکاوٹ
  • اور ماں چلی گئی