Jasarat News:
2025-04-22@05:55:22 GMT

مکتی باہنی کمانڈر تائب ہوا

اشاعت کی تاریخ: 16th, February 2025 GMT

مکتی باہنی کمانڈر تائب ہوا

وہ بنگالی نیشنلسٹ جو بنگلادیش کی آزادی کی لڑائی میں ہیرو مانا گیا جس نے مکتی باہنی کے کمانڈر کی حیثیت سے لڑائی میں حصہ لیا۔ اس نے اپنی زندگی کے آخری سال پاکستان میں گزارے ہے نا حیرت کی بات!! اپریل 1971ء میں وہ پاکستانی فوج میں میجر کے عہدے پر تھا۔ پھر وہ باغی ہو کر انڈیا کی مدد سے بننے والی مکتی باہنی سے جا ملا۔ وہ تھے میجر عبدالجلیل جو 1985ء کے نصف میں پاکستان آگئے اور پھر آخری دم تک پاکستان ہی میں رہے۔

اپریل 1971ء میں ایک اور باغی میجر ضیا الرحمن نے پہلی بار بنگلادیش کا پرچم لہرایا تھا۔ عبدالجلیل نے بھی بریسال پر قبضے کے بعد بنگلادیش کا پرچم لہرایا تھا۔ انہوں نے ڈپٹی کمشنر کے آفس کے ایک قاصد سے پاکستانی پرچم اُتار کر بنگلادیش کا پرچم لہرانے کا حکم دیا۔ یہ بنگالی تھا اس نے چوبیس برس تک پاکستانی پرچم لہرانے کی ڈیوٹی ادا کی تھی اس نے ایسا کرنے سے انکار کردیا۔ میجر عبدالجلیل نے بے رحمی سے اس کو پھانسی دے دی۔

باریسال میں باغیوں کی اس کارروائی کے بعد پاکستانی فوج کی بائیسویں فرنٹیئر فورس کو باریسال پر قبضہ ختم کرانے کا مشن سونپا گیا۔ اس مشن میں کیپٹن آفتاب نے بھی حصہ لیا تھا۔ یہ وہی میجر آفتاب ہیں جن کی کتاب ’’آخری سلام‘‘ مشرقی پاکستان کے میدان سے ’’2018ء میں لاہور سے شائع ہوئی جس میں اس کے انتساب میں وہ لکھتے ہیں ’’پاکستان اور بنگلادیش کے عوام کے نام؛ جن کی کوکھ نظریے اور تاریخ شہدا اور غازی، ماضی کی تلخ یادوں اور حال کی سیاسی مصلحتوں کے باوجود ہمیشہ سانجھے رہیں گے۔ تم اور ہم 1971ء کے المیے، اس جنگ و جدل کے دوران، اس سے پہلے اور بعد آپس میں دشمن تھے نہ ہوسکتے تھے، کبھی اپنے ہم سفر اور ساتھی پھر عروس وطن کے حوالوں سے رقیب اور حریف اور اب اس کی یادوں میں کھوئے اس کے سپاہی اپنے (بنگالی لیفٹیننٹ) کا سلام محبت قبول کرنا جو تمہاری اور اپنی مشرقی سرحد پر شب و روز یہ سوچتے ہوئے پہرے پر رہا کہ اس کی پامالی میں اس کی نہیں تمہاری بھی شکست تھی۔ دشمن تو ایک ہی تھا جس کے ہاتھوں میں تم ہی نہیں ہم بھی کھیلے۔ تمہاری فتح تو قرار داد پاکستان ہی کی فتح ہوتی لیکن اس کی جیت میں ہم سب کی شکست تھی! میرا وہاں اور تمہارا وجود مٹ نہیں سکتا کہ یہ ایک ہی تصویر کے دو جز ہیں۔ لاہور کی سرحد پر مستعد اور چوکس کھڑے سینئر ٹائیگرز کے شہدا اور جیسور کی بارکوں میں جنگ جمل کے شکار اس وجود کے دائمی گواہ رہیں گے‘‘۔

سچ ہے کہ خانہ جنگی کے المیے کے تناظر میں یہ ایک انتہائی اہم کتاب ہے جو اگلے مورچوں کے کسی مکین نے ’’وفادار‘‘ دستوں کے باغی فوج (مکتی باہنی) سے جنگ و جدل کے بارے میں تحریر کی ہو۔ جو انہوں نے خاک سے جا ملنے سے قبل ہی کئی حوالوں سے نامہ اعمال کو نئی منزلوں کے نئے راہی نئی نسلوں کے لیے محفوظ کردیا۔ سبق حاصل کرنے والوں کو حاصل کرنا چاہیے۔ یہی میجر آفتاب اپنی ایک اور کتاب ’’ہارن کھیڈ فقیرا‘‘ میں میجر عبدالجلیل کے ساتھ اپنی معرکہ آرائی کی تفصیل بیان کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ ’’وہ چھے ماہ تک باریسال سے نکلنے کے بعد سندر بن کے جنگلات میں کیمپ بنا کر چھاپا مار کارروائیاں کرتے رہے اور مکتی باہنی کے رضا کاروں کو تربیت دیتے رہے‘‘۔

لیکن ساتھ ہی یہ بھی لکھتے ہیں کہ وہ واحد کمانڈر تھے جو بنگلادیشی حکمرانوں اور مکتی باہنی کے اصرار کے باوجود ایک روز کے لیے بھی اپنا تربیتی کیمپ انڈین سرزمین پر منتقل کرنے کے لیے آمادہ نہ ہوئے اور بنگلادیش کی آزادی کے بعد ان چند افسران میں شامل تھے جنہوں نے انڈین افواج کی بنگلادیش میں لوٹ مار پر احتجاج کیا اور انہیں ملک سے نکل جانے کو کہا۔ بنگلادیش کے بانی صدر شیخ مجیب الرحمن نے اپنے ہاتھوں سے میجر عبدالجلیل کے سینے پر ملک کا سب سے بڑا بہادری کا تمغہ ’’بیراتم‘‘ سجایا لیکن انہوں نے کرنل شریف دالم کی طرح ان کی انڈین نواز پالیسیوں سے نالاں ہو کر اسے واپس کردیا۔

انڈین مداخلت اور بنگلادیش کی خودمختاری پر حاوی ہوتے اشاروں کے ردعمل کے طور پر انہوں نے سیاسی میدان میں قدم رکھا، اپنی جماعت بنائی، الیکشن میں 1973ء میں حصہ لیا لیکن ایک سیٹ پر بھی کامیابی نہ ہوئی۔ دو دفعہ کئی سال کے لیے جیل میں ڈال دیے گئے، رہا ہوئے تو پھر 1981ء میں پھر انتخابات میں حصہ لیا لیکن ناکام ہوئے، دل برداشتہ ہوئے اور سابقہ وطن واپس لوٹ آئے، جہاں گم نامی کی زندگی گزار کر نومبر 1989ء میں انتقال کرگئے۔ ان سے قریبی لوگ ان کے آخری ایام کے بارے میں بتاتے ہیں کہ وہ مکتی باہنی کے ہاتھوں اپنے مخالفین جن میں جماعت اسلامی کے رضا کار اور پاکستان کے حامی بہاری لوگ شامل تھے ان پر تشدد اور بے رحمی سے قتل پر انتہائی کرب میں مبتلا تھے۔

ہائے اس زود پشیمانی کا پشیماں ہونا

.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: میجر عبدالجلیل مکتی باہنی کے انہوں نے حصہ لیا کے بعد

پڑھیں:

پی ٹی اے نے 3 کمپنیوں کو وی پی این لائسنس جاری کر دیے

پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی (پی ٹی اے) نے 3 کمپنیوں کو وی پی این سروسز کے لیے کلاس لائسنس جاری کر دیے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: پاکستان میں وی پی این اور اے آئی صارفین ہیکرز کے نشان پر

ترجمان پی ٹی اے کے مطابق  3 کمپنیوں کو وی پی این سروسز کے لیے کلاس لائسنس جاری کیا گیا ہے، بغیر لائسنس وی پی این سروس فراہم کرنے والی کمپنیوں کو فوری طور پر لائسنس حاصل کرنا ہوگا۔

ترجمان پی ٹی اے نے کہا کہ وی پی این سروسز کے لائسنس کے اجرا کا مقصد موجودہ ریگولیٹری فریم ورک پر عملدرآمد کو یقینی بنانا ہے تاکہ سروسز کے استعمال میں شفافیت اور قانون کی پاسداری ممکن ہوسکے۔

یہ بھی پڑھیں: پاکستان میں وی پی اینز کے استعمال سے بڑا نقصان، رپورٹ جاری

پی ٹی اے کا کہنا ہے کہ بروقت لائسنس حاصل کرنے سے کمپنیوں کو سروس میں تعطل سے بچنے میں مدد ملے گی اور صارفین کو بغیر کسی رکاوٹ کے محفوظ اور مستحکم وی پی این خدمات کی فراہمی ممکن ہوسکے گی۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

we news پاکستان پی ٹی اے لائسنس وی پی این

متعلقہ مضامین

  • خیبر پختونخوا میں سیکیورٹی فورسز کے آپریشنز، خوارج کمانڈر ذبیح اللّٰہ سمیت 6 دہشتگرد ہلاک
  • خیبر پختونخوا: سیکیورٹی فورسز کے آپریشنز، خوارج کمانڈر ذبیح اللّٰہ سمیت 6 دہشتگرد ہلاک
  • علامہ اقبال اور پاکستان پوسٹ
  • جسٹس منصور علی شاہ نے قائم مقام چیف جسٹس کا حلف اٹھا لیا
  • جسٹس منصور علی شاہ نے قائمقام چیف جسٹس کا حلف اٹھا لیا
  • بنگلادیش کی مفرور سابق وزیراعظم شیخ حسینہ کیخلاف انٹرپول سے ریڈنوٹس کی درخواست
  • بلوچستان کی ترقی اور کالعدم تنظیم کے آلہ کار
  • پی ٹی اے نے 3 کمپنیوں کو وی پی این لائسنس جاری کر دیے
  • دنیا کے بلند ترین محاذِ جنگ سیاچن کے اہم معرکے” آپریشن چُیومک“ کو 36 سال مکمل
  • پاکستان اور قطر کے درمیان انسداد منشیات تعاون پر اہم پیش رفت