نوجوان ملکی سسٹم سے مایوس اور اپنا مستقبل تاریک دیکھ رہے ہیں،اسی وجہ سے ملک چھوڑ کر جانا چاہتے ہیں
اشاعت کی تاریخ: 16th, February 2025 GMT
کراچی (رپورٹ: منیر عقیل انصاری) نوجوان ملکی سسٹم سے مایوس اور اپنا مستقبل تاریک دیکھ رہے ہیں‘ اسی و جہ سے ملک چھوڑکر جانا چاہتے ہیں‘ نجی اداروں میں کم تنخواہیں اور سرکاری ملازمتوں میں اقربا پروری عروج پر ہے، کاروبار کے لیے بلاسود قرضوں کی عدم دستیابی، اعلیٰ تعلیم کے کم مواقع اور ناقص تعلیمی نظام ہے‘ امن و امان کی خراب صورتحال اور سیاسی عدم استحکام نے ملکی مسائل کوگمبھیرکیا ہے۔ ان خیالات کا اظہار ممبر صوبائی اسمبلی (ایم پی اے) اور پارلیمانی سیکرٹری برائے کھیل و امورِ نوجوانان ایڈووکیٹ صائمہ آغا، اوورسیز ایمپلائمنٹ پروموٹرز ایسوسی ایشن کے نائب صدر محمد عدنان پراچہ، آغا خان یونیورسٹی کے پروفیسر ڈاکٹر ساجد علی، پاکستان ڈرگ لائیر فورم کے صدر ڈاکٹر نور محمد مہر، معروف ماہر ماحولیات، کالم نگار سعدیہ عبید خان، جامعہ کراچی سے ابلاغ عامہ میں ایم فل کرنے والی ریسرچ اسکالر فوزیہ جمیل اور اسٹوڈنٹس پیرینٹس فیڈریشن آف پاکستان کے چیئرمین ندیم مرزا نے جسارت کے اس سوال کے جواب میں کیا کہ
’’نوجوانوں کی بڑی تعداد ملک چھوڑکر کیوں جانا چاہتی ہے؟‘‘ صائمہ آغا نے کہا کہ پاکستان کی معیشت گزشتہ چند برسوں سے شدید بحران کا شکار رہی ہے اور مہنگائی میں بھی بے پنا اضافہ ہوا ہے جو محدود روزگار کے مواقع تھے وہ نوجوانوں کو پاکستان میں دستیاب نہیں ہو رہے جس کی وجہ سے بیرون ملک ملازمتوں کی طرف ہمارے نوجوان بڑی تعداد میں راغب ہو رہے ہیں‘ ورلڈ بینک کی رپورٹ کو اگر دیکھا جائے تو پاکستان میں بے روزگاری کی شرح مسلسل بڑھ رہی ہے لیکن نوجوانوں کو اچھی تنخواہیں نہیں مل رہی ہے‘ پرائیویٹ سیکٹر میں بھی نوجوان اپنا100 فیصد وقت دینے اور9 ٹو 5 سے زیادہ کام کرنے کے باوجود بھی انہیں وہ سیلری یا پیکج نہیں مل رہا تھا جو ایک اچھی زندگی گزارنے کے لیے انہیں چاہیے ‘ سیاسی عدم استحکام اور غیر یقینی صورتحال بھی ہے‘ سیاسی بحران، احتجاج حکومتوں کی تبدیلی پالیسیوں کی غیر یقینی صورتحال نے بھی نوجوانوں کو مایوس کیا ہے‘ حکومتوں کے بار بار تبدیل ہونے اور پالیسیوں میں عدم استحکام اور تسلسل برقرار نہ رکھنا سے بھی سرمایہ کاری متاثر ہوئی ہے۔ دوسری بات یہ کہ ہمارے نوجوانوں کو بیرون ملک جانے پر جو زیادہ مجبور کر رہی ہے وہ ہمارا تعلیمی سسٹم بھی ہے آپ دیکھیں کہ پاکستان میں کتنی یونیورسٹیاں ہیں جو دور حاضر کی ضرورت کو مد نظر رکھ کر ہمارے طلبہ کو پڑھا رہی ہیں‘کتنی یونیورسٹیاں مصنوعی ذہانت (آرٹیفیشل انٹیلیجنس) پر کام ہو رہی ہیں‘ میں سمجھتی ہوں کہ ایک بھی کام نہیں کر رہی ہیں‘ صحت و تعلیم، صاف پانی کی فراہمی اور دوسری چیزوں کا بھی ہمارے ملک میں فقدان ہے‘ اس لیے نوجوان ترقی یافتہ ممالک میں بسنے کو ترجیح دیتے ہیں‘ ملک میں قانون کی حکمرانی نہ ہونے کے برابر ہے‘ جرائم، دہشت گردی اور عدم تحفظ کی فضا نوجوانوں کو دوسرے ممالک میں محفوظ زندگی گزارنے پر آمادہ کر رہی ہے‘ خواتین کے لیے مواقع محدود ہیں اور ان کے تحفظ کے حوالے سے بھی خدشات موجود ہیں‘ کئی تعلیم یافتہ خواتین بیرون ملک مستقل ہونے کو ترجیح دیتی ہے‘ ہراسمنٹ کے واقعات یہاں زیادہ دیکھنے میں آرہے ہیں‘ کاروبار کے لیے غیر مستحکم حالات، زیادہ ٹیکسز اور حکومتی پالیسیوں کے عدم تسلسل کی وجہ سے کاروباری حضرات بھی بیرون ملک میں سرمایہ کاری کو ترجیح دے رہے ہیں‘ کینیڈا، آسٹریلیا ،جرمنی اور دیگر ممالک نے امیگریشن پالیسیوں کو آسان بنایا ہوا ہے جس سے پاکستانی نوجوانوں کے لیے مواقع پیدا ہو رہے ہیں‘ کرپشن، لاقانونیت اور اداروں میں میرٹ نہ ہونا بھی نوجوانوں کو مایوس کر رہا ہے۔ محمد عدنان پراچہ نے کہا کہ سب سے زیادہ پاکستانی سعودی عرب میں برسر روزگار ہیں، جہاں پاکستانی افرادی قوت 25 لاکھ کے لگ بھگ ہے اور یہیں سے سب سے زیادہ ترسیلات زر پاکستان کا رخ کرتی ہیں‘ پاکستان سے سالانہ 5 لاکھ افرادی قوت سعودی عرب جا رہی ہے‘ اس وقت سعودی عرب اپنے 2030ء کے وژن پر عمل پیرا ہوتے ہوئے پاکستان سے سالانہ 10لاکھ افرادی قوت کی خدمات کا خواہاں ہے لیکن ابھی ہم اس ہدف سے بہت پیچھے ہیں‘ سعودی عرب کرچی قونصلیٹ میں بہت جلد اسٹاف بڑھا دیا جائے گا جس کا مقصد ویزے کے اجرا کا عمل تیز کرنا اور زیادہ سے زیادہ لوگوں کو کم وقت میں سہولیات فراہم کرنا ہے‘ سعودی قونصلیٹ کراچی پاکستان کا واحد قونصل خانہ ہے جو روزانہ 23 سو سے 24 سو افراد کو ویزا فراہم کر رہا ہے‘ مستقبل میں سعودی عرب میں آئی ٹی انجینئرز اور میزبانی کے شعبہ میں افرادی قوت درکار ہوگی‘ سیاحت و تعمیرات کے شعبے میں ہنر مند افراد کی اشد ضرورت ہے‘ اگر ہم تجربہ کار یا ہنر مند افراد کو بھیجیں گے تو اس سے ان شہریوں اور ملکی معیشت کو فائدہ ہوگا‘ سعودی عرب جانے کے خواہاں ہنر مند شہری ایک دو ماہ اگر بنیادی عربی اور انگریزی زبان سیکھ لیں تو نہ صرف ان کی سعودیہ میں رہائش سہل ہو جائے بلکہ انہیں ترقی کے نئے مواقع بھی مل جائیں‘ اس وقت بھی 7 سے 8 ارب ڈالر ترسیلات زر میں اضافہ ہوسکتا ہے، سعودی عرب سے 25 سے 27 فیصد ترسیلات زر آرہی ہیں متحدہ عرب امارت سے20 سے 21 فیصد آرہی ہے سب سے زیادہ سعودی عرب سے افرادی قوت ترسیلات زر بھیج رہے ہیں اور یہ 35 سے 37 فیصد تک جا سکتا ہے‘ 70 فیصد افرادی قوت مزدور ہے‘ ان کے لیے پروجیکٹس لانچ کیے جائیں ان کی آسانی کے لیے ایسا میکینزم ہو کہ وہ اپنے کمرے میں ایک کلک سے رقم پاکستان بھیج سکیں اور آدھے گھنٹے میں وہ رقم ان کے گھر والوں تک پہنچ جائے۔ ڈاکٹر ساجد علی نے کہا کہ ملک کی سیاسی اور معاشرتی صورتحال نے نا صرف نوجوانوں بلکہ بڑی عمر کے افراد کو مایوس کردیا ہے اور انہیں اپنا اور اپنے بچوں کا مستقبل تاریک نظر آتا ہے‘ ملک میں ترقی کرنے کے مواقع بے حد کمی ہیں‘ ایک نوجوان اپنی محنت کے بجائے کسی سفارش اور تعلقات کا محتاج ہے‘ ملک میں انڈسٹری کم اور پلاٹ زیادہ کمائی کا باعث ہیں‘ ایک متوسط طبقے کا نوجوان اپنے والدین کی جمع پونجی اچھی تعلیم کے حصول پر خرچ کردیتا ہے اور جب جوان ملازمت کی تلاش کرتا ہے تو مواقع میسر نہیں ہوتے‘ اب وہ باہر جاکر اچھے ذرائع کی تلاش نہ کرے تو کیا کرے‘ ایک غریب نوجوان کی کہانی اس سے بھی زیادہ ابتر ہے اور ان میں سے بہت سے بے چارے غیر قانونی راستوں سے ملک چھوڑنے پر مجبور ہوجاتے ہیں اور کئی تو حادثات کا شکار ہوکر دنیا ہی چھوڑجاتے ہیں۔ سعدیہ عبید خان کا کہنا ہے کہ ملک میں امن و امان کی بدترین صورتحال ہے، روزگار کے مواقع کم ہیں، میرٹ کی دھجیاں اڑائی جا رہی ہیں‘ میرا نہیں خیال ہے کہ آپ اور میں بھی نہیں رہنا چاہیں گے کیونکہ یہاں کوئی چیز خوش آئند نہیں ہے‘ ٹیکسز بڑھا رہے ہیں‘ بجلی ہوتی نہیں اور بلز بہت زیادہ ہیں تو جو بنیادی سہولیات ہیں وہ حکومت بالکل بھی نہیں دیتی ہے اور اس میں لوگوں کا گزارنا کرنا بہت مشکل ہو تا جا رہا ہے‘ بچے اچھا پڑھ بھی لیں تو نوکریاں اس طرح نہیں ملتی ہیں‘ سندھ اور کراچی میں سرکاری نوکریوں کے حوالے سے بہت ہی خراب صورتحال ہے‘ کراچی میں کبھی کوئی موبائل چھنتے ہوئے مار دیتا ہے تو کبھی کوئی ڈمپر والا مار کر چلا جاتا ہے تو اس طرح کی صورتحال میں کون رہے گا۔ ڈاکٹر نور محمد مہر نے کہا کہ نوجوانوں کی بڑی تعداد ملک چھوڑ کر اس وجہ سے جانا چاہتی ہے کہ پاکستان میں قانون کا نفاذ نہیں ہے اور وہ یہاں پر اپنا مستقبل تاریک دیکھ رہے ہیں جس ملک میں قانون کی حکومت نہ ہو اور ’’جس کی لاٹھی اس کی بھینس ہو‘‘ تو وہاں اس طرح کی صورتحال ہوتی ہے‘ کرپشن اور اقرابا پروری کی وجہ سے شریف لوگوں کا رہنا مشکل ہوگیا ہے تو پاکستان میں برین ڈرین بہت زیادہ ہو رہا ہے، ڈاکٹرز انجینئرز اور دیگر اعلیٰ تعلیم یافتہ افراد پاکستان سے چلے گئے ہیں یا جا رہے ہیں‘ کینیڈا، امریکا، آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ میں مواقع اور تنخواہیں زیادہ ہیں۔فوزیہ جمیل نے کہا کہ صحافتی اداروں کو پابند کرکے تشدد کی اتنی فضا قائم کردی گئی ہے کہ اب صحافی ہونا بھی ایک گناہ لگنے لگا ہے‘ خاص طور پر پیکا کے قانون کے بعد تو عام شہری خود کو غیر محفوظ سمجھنے لگے ہیں‘سرکاری و نجی ملازمتیں ناپید ہیں‘ صحافی بھی اب انٹرنیشنل میڈیا میں اپنے آپ کو منوانا چاہتے ہیں ‘ پاکستان میں اس وقت نوجوانوں کی ایک بڑی آبادی بے روزگار ہے‘ حکومت ضرورت مند افراد کے لیے کاروباری قرضے اور کاروبار کے مراحل کو آسان بنائے جو مزید تعلیم حاصل کرنا چاہتے ہیں ان کے لیے تعلیم کو سستا کیا جائے‘ جدید ٹیکنالوجی کو سیکھنے کے لیے سستے مراکز قائم کرے‘ ملک میں تعلیم کو اتنا مہنگا کردیا ہے کہ ہم باہر جا کر اعلیٰ تعلیم حاصل کرلیں‘ یہاں ایسا کچھ میسر نہیں ایک مخصوص طبقہ مسلسل ملکی وسائل اور اس کی سہولیات سے فائدہ اٹھا رہا ہے‘ معیشت کا برا حال دیکھ رہے ہیں‘ کاروباری برادری کا اپنے کاروبار کو بند کر رہی ہے۔ ندیم مرزا نے کہا کہ نوجوانوں کی ملک سے ہجرت کی بڑی وجہ ملک میں جاری سسٹم سے مایوسی ہے‘ نجی روزگار میں کم تنخواہیں، سرکاری ملازمتوں میں اقربا پروری، کاروبار کے لیے بلاسود اور کم سود کے والے قرضوں کی عدم دستیابی، اعلیٰ تعلیم کے کم مواقع اور ناقص تعلیمی نظام، امن و امان کی ناقص صورتحال، ناانصافی پر مبنی نظام انصاف اور سیاسی عدم استحکام اس کی اصل وجوہات ہیں جو نوجوانوں کو ملک کے مستقبل سے نا امید کر رہی ہیں۔
ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: مستقبل تاریک دیکھ رہے ہیں پاکستان میں نوجوانوں کی نوجوانوں کو عدم استحکام کاروبار کے ترسیلات زر افرادی قوت بیرون ملک چاہتے ہیں نے کہا کہ سے زیادہ رہی ہیں ہیں اور ملک میں کر رہی رہا ہے کے لیے اور ان رہی ہے ہے اور
پڑھیں:
کیمرے کی آنکھ دیکھ رہی ہے
اس بلاگ کی تحریک سماجی ذرائع ابلاغ پر ایک تحریر اور ویڈیو بنی ہے۔ پہلے ہم تحریر پر بات کرلیتے ہیں۔ تحریر کچھ یوں تھی کہ ایک پاکستانی صاحب رمضان المبارک کے مہینے میں کسی غیر مسلم ملک کے دورے پر گئے۔ جب دوپہر کے کھانے کا وقت ہوا تو ان کے میزبان نے کہا کہ چلیے لنچ پر چلتے ہیں۔ ان پاکستانی صاحب نے کہا کہ وہ لنچ نہیں کرسکتے۔ میزبان کے استفسار پر انھوں نے کہا کہ وہ روزے سے ہیں۔
میزبان نے پوچھا کہ یہ روزہ کیا ہوتا ہے؟ انھوں نے روزے کے بارے میں بتایا اور کہا کہ ہم اللہ کے حکم سے سورج طلوع ہونے سے پہلے کھانا بند کر دیتے ہیں اور پھر سورج غروب ہونے پر اللہ کے نام سے افطار یا کھانا کھاتے ہیں۔
میزبان نے کہا کہ میں کھانا یہاں منگوا لیتا ہوں یہاں تمہیں کھاتے ہوئے کوئی نہیں دیکھے گا۔ اس پر بھی ان صاحب نے کہا کہ یہاں مجھے کھاتے ہوئے کوئی نہیں دیکھے گا مگر اللہ تو ہر جگہ ہے اور چونکہ وہ مجھے دیکھ رہا ہے اس لیے میں یہ کھانا نہیں کھا سکتا۔ اس پر میزبان نے پوچھا کہ کیا تمھارے ملک کے تمام لوگ ایسا ہی سوچتے ہیں؟ اس پر ان صاحب نے سینہ پھلا کر فخریہ انداز میں بتایا کہ ان کے ملک کا کیا بچہ کیا بڑا سب ہی ایسا سوچتے ہیں۔
میزبان نے تھوڑی دیر سوچ کر کہا کہ پھر تو تمھارے ملک میں کوئی جرم نہیں ہوتا ہوگا کیونکہ اللہ تو ہر جگہ ہے اور وہ یقیناً دیکھتا ہوگا؟ وہ صاحب دورہ مکمل کرکے پاکستان واپس آگئے ہیں لیکن ابھی تک وہ اپنے میزبان کی اس بات کا جواب نہیں دے پائے۔
دوسری تحریک جو ایک ویڈیو بنی وہ کچھ یوں تھی کہ ایک صاحب خریداری کےلیے دکان پر جاتے ہیں لیکن دکان پر دکاندار نہیں ہوتا۔ وہ کچھ چیزیں چرا کر اپنے پاس رکھ لیتے ہیں کہ یکایک ان کی نظر اوپر کیمرے پر پڑتی ہے جو دکاندار نے نصب کروایا ہوا ہوتا ہے۔ وہ فوراً تمام چیزیں واپس اپنی اپنی جگہ پر رکھ دیتے ہیں۔ اتنے میں دکاندار واپس آجاتا ہے اور وہ اس کی سمجھداری کی تعریف کرتے ہیں کہ اس نے دکان سے چیزوں کی چوری سے بچاؤ کےلیے کیمرہ نصب کروا لیا ہے۔
دکاندار انھیں بتاتا ہے کہ کیمرہ تو لگوا لیا ہے پر ابھی وہ کارآمد نہیں کیونکہ ابھی تک اسے وقت نہیں ملا کہ وہ اس کا کنکشن کروا سکے۔ اس کے بعد اس گاہک کے ذہن پر کیا گزری ہوگی یہ میں آپ کے تخیل پر چھوڑتا ہوں۔
ہم اللہ سے زیادہ ڈرتے ہیں یا کیمرے کی آنکھ سے؟ اس کا جواب کسی کے تخیل پر نہیں چھوڑا جاسکتا کیونکہ ہمارا جواب دراصل ہمارے عقائد کا حصہ ہے، لیکن اس کے ساتھ ساتھ ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ من حیث القوم ہم چوری کرنے سے نہیں ڈرتے بلکہ چوری کرکے پکڑے جانے سے ڈرتے ہیں۔
یہ بات بھی کچھ لوگوں کےلیے ہی کہی جاسکتی ہیں۔ ہماری اشرافیہ تو چوری کرکے دو انگلیوں سے فتح کا نشان بھی بناتے ہیں اور ضرورت پڑے تو بیماری کی اداکاری کرکے اسپتال میں داخل بھی ہوجاتے ہیں۔ ملک میں کرپشن کے مقدمات اس کا عملی ثبوت ہے۔
ہم چاہیں زبانی طور پر چوری کی جتنی بھی مذمت کریں لیکن اس کے ساتھ ساتھ ہم سب یہ بھی جانتے ہیں کہ ہمارے قول اور ہمارے افعال ایک نہیں اور بقول سہیل وڑائچ کیا یہ کھلا تضاد نہیں ہے؟
ہمارے بچپن میں یہ کہا جاتا تھا کہ اگر کوئی گناہ یا جرم کرنا ہے تو وہاں جاکر کروں کہ جہاں اللہ نہ دیکھ رہا ہو۔ ظاہر ہے کہ ایسی تو کوئی جگہ ہو ہی نہیں سکتی۔ لہٰذا اس طریقے سے لوگوں کو گناہ اور جرم سے روکنے کی کوشش کی جاتی تھی۔ آج کل ویسے بھی یہ سب باتیں کتابی لگتی ہیں۔ لوگوں نے اس کا حل یہ نکالا کہ ہر جگہ جرم و گناہ کرو ماسوائے اس جگہ کے جہاں کیمرے لگے ہوں۔
ان دنوں جرائم کو بھی دو وسیع معنوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ نیلے کالر والے جرائم اور سفید کالر والے جرائم۔ نیلے کالر والے جرائم جیسے فون چھیننا، موٹر سائیکل یا گاڑی چوری کرنا وغیرہ۔ سفید کالر جرائم تو باقاعدہ ایک صنعت کی شکل اختیار کرچکے ہیں کہ جس میں بہت قابل اور تعلیم یافتہ لوگ آپ کےلیے کام کرتے ہیں۔ اس کام میں ایسا طریقہ کار اختیار کیا جاتا ہے کہ لوگ اپنی جمع پونجی خود ان کے حوالے کردیں یا لوگوں کی جیب سے اس طرح پیسے نکلوائے جائیں کہ لوگوں کا اس کا پتہ بھی نہ چلے اور اگر پتہ چل بھی جائے تو انگلی ان تک نہ پہنچ پائے۔ اسٹاک ایکسچینج اور جائیداد کی خرید و فروخت کے سودے اس کی بڑی مثالیں ہیں۔ اس سے زیادہ مثالیں آپ کےلیے نہ سہی مگر میرے لیے یقیناً مشکلات کا باعث بن سکتی ہیں، اس لیے اس بات کو یہی روک دیتے ہیں۔
ہم لوگوں کو اس سے ڈر کیوں نہیں لگتا کہ اللہ سب دیکھ رہا ہے؟ اس کی وجہ وہ بے شمار وظائف، روایات اور رسومات ہیں کہ جن پر عملدرآمد کرکے ہم اپنے تئیں گناہوں سے پاک ہوجاتے ہیں۔ جس طرح موٹر وے پر رفتار زیادہ ہونے کی ریکارڈنگ دکھا کر جرمانہ کیا جاتا ہے، بالکل اسی طرح ہمارے تمام افعال بھی ریکارڈ ہورہے ہیں اور یوم الدین پر ہمارے اپنے اعضاء ہمارے اعمال کی گواہی دیں گے اور اس وقت لوگوں کے حق کو کھانے والے کی سزا کی تلافی کسی عبادت کے وسیلے سے ممکن نہ ہوگی۔ لیکن ہاں عبادت کے بدلے شاید ممکن ہوں لیکن وہ بھی اس صورت میں کہ اگر اس شخص کی رضا یا منشا ہو جس کا حق غصب کیا گیا تھا۔ اگر یہ سب کچھ کرکے آخر میں تہی دامن ہی ہونا ہے تو پھر آخرت میں کیوں اور دنیا میں کیوں نہیں کہ جہاں شاید اس کا ازالہ بھی ممکن ہے۔
اگر وقت ملے تو ضرور سوچیے گا ورنہ اللہ تو دیکھ رہا ہے کہ جس کی من حیث القوم نہ ہم نے پہلے کبھی پروا کی تھی اور نہ آئندہ کی کوئی امید ہے کیونکہ اگر ہم نے پروا کی ہوتی تو آج اقوام عالم میں ہماری یہ عزت افزائی نہ ہورہی ہوتی اور آخرت میں کس کے ساتھ کیا ہوگا یہ تو اللہ ہی بہتر جانتا ہے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔