Express News:
2025-04-22@14:39:40 GMT

کراچی کو بدلنا ہے تو سوچ کو بدلو

اشاعت کی تاریخ: 15th, February 2025 GMT

جمشید نسروانجی رستم جی مہتا کو آج کچھ ہی لوگ جانتے ہوں گے۔ یہ وہ کراچی کا سپوت تھا جوکراچی اورکراچی کے عوام کا سچا مسیحا تھا۔ اس نے اپنی ’’میئری‘‘ کے دور میں کراچی کو ایک چھوٹے شہر سے بڑے شہر میں تبدیل کر دیا تھا۔ جمشید نسروانجی کو کراچی کا پہلا میئر بننے کا اعزاز تو حاصل تھا ہی انھیں اس شہر کی دل و جان سے خدمت کرنے کی وجہ سے ’’ بابائے کراچی‘‘ کا خطاب بھی حاصل تھا۔

آپ نے 1924 میں ایک اخبار کے ذریعے اہل کراچی کو یہ مشورہ دیا تھا ’’کراچی کے ہر شہری کو روزانہ صبح اٹھ کر سب سے پہلے اپنے دل پر ہاتھ رکھ کر یہ کہنا چاہیے کہ یہ شہر میرا ہے اور اگر پچاس افراد بھی ایمانداری سے اس پر عمل پیرا ہو جائیں تو سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا‘‘ یعنی کہ کراچی کے تمام مسائل حل ہو جائیں گے۔

کیا ہم کراچی کے شہری ایمانداری سے کہہ سکتے ہیں کہ ہم اس شہر کے وفادار شہری ہیں اور اس سے صرف محبت ہی نہیں کرتے ہیں بلکہ اس کے امن، ترقی اور وقار کے لیے دل و جان سے اپنا کردار ادا کر رہے ہیں، حقیقت تو یہ ہے کہ ہم نے اپنے شہرکی ماضی کی عزت و وقار اور امن پسندی کی شناخت کو خاک میں ملا دیا ہے۔

ہم نے اس شہرکو جتنا بدنام کیا ہے، شاید ہی کسی اور شہر کے لوگوں نے ایسا کیا ہوگا۔ اب سوال یہ ہے کہ ہم میں سے کتنے لوگ ہیں جو جمشید نسروانجی کی نصیحت پر عمل پیرا ہیں حالات و واقعات سے لگتا ہے صرف ایک یا دو فی صد لوگ ہی اس شہرکو دل و جان سے اپنا شہر سمجھتے ہوں گے۔ چونکہ ہم اس شہر کا حق ادا نہیں کر رہے، اسی لیے اس شہرکی حالت روز بہ روز خراب سے خراب تر ہوتی جا رہی ہے۔

اس کی سڑکیں، گلیاں، نالیاں، نالے،کھیل کے میدانوں سے لے کر اسکول، مارکیٹوں تک سب ہی تباہی و بربادی کا شکار ہیں۔ عوام بھی محفوظ نہیں ہیں، وہ روز ہی مختلف حادثات و واقعات کا شکار بنتے جا رہے ہیں، کراچی میں چوریوں اور ڈاکوؤں کی خبریں کبھی کبھی آتی تھیں مگر اسٹریٹ کرائمز اور روڈ ایکسیڈنٹ کا تو نام و نشان تک نہ تھا۔

یہ کراچی کا سنہری دور قیام پاکستان سے قبل سے لے کر 1980 تک محیط رہا۔ اس کے بعد کراچی کی بربادی جو شروع ہوئی تو ہوتی ہی چلی گئی۔ کچھ لوگوں نے عصبیت کا ایسا بیج بویا کہ وہ پھلتا پھولتا چلا گیا۔ کراچی کے شہری جو پہلے ایک دوسرے کو محبت کی نظر سے دیکھتے تھے عصبیت کے نشے میں ایسے رنگ گئے کہ ایک دوسرے کے دشمن بن گئے۔ اس زہر کو پھیلانے والوں نے خود تو خوب فائدہ اٹھایا۔

پورے شہر میں ان کی حکمرانی تھی، ان کے آگے کوئی ٹک نہیں سکتا تھا، ان ہی لوگوں نے شہر میں بھتہ خوری، اغوا برائے تاوان اور لوٹ مارکا ایسا بازار گرم کیا کہ نہ تو انتظامیہ کے پاس اس کا کوئی علاج تھا نہ وفاقی حکومت کے پاس۔ دراصل حکومت ان کے ہاتھوں یرغمال بن چکی تھی وہ ان کے خلاف قدم اٹھاتی بھی توکیسے کہ ان کی حمایت سے ہی حکومت چل رہی تھی۔

 اس وقت شہر کو پانی کی قلت اور بجلی و گیس کے بحران کا سامنا ہے۔ چوریاں، ڈکیتیاں اور اسٹریٹ کرائمز روز بروز بڑھتے ہی جا رہے ہیں اب ایک نئے مسئلے نے گمبھیر صورت اختیار کر لی ہے اور وہ ریتی بجری کے ڈمپر اور پانی کے ٹینکروں کے ذریعے شہریوں کی اندوہناک موت ہے۔

چوریوں، ڈکیتیوں اور اسٹریٹ کرائمز سے لے کر ٹریفک حادثات کو روکنا کوئی مشکل بھی نہیں ہے، اگر ہماری ٹریفک پولیس سنجیدہ ہو جائے اور اپنے فرائض کو خیر خوبی اور ذمے داری ادا کرنے کا تہیہ کر لے۔ کراچی میونسپل کارپوریشن بھی شہریوں پر رحم کھائے اور سڑکوں کی حالت زار کو درست کرنے میں اب اپنی کوتاہی کو ختم کر دے۔

اسے پولیس کی کوتاہی یا لاپرواہی ہی کہا جائے گا کہ کراچی میں غیر ملکی شہری بھی محفوظ نہیں ہیں۔ پاکستان میں سرمایہ کاری چاہے ملکی لوگوں کی جانب سے ہو یا غیر ملکیوں کی جانب سے اس میں اصل رکاوٹ کی وجہ سیکیورٹی کی بدترین صورت حال ہے جس پر ہماری وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو سنجیدگی سے توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ خواہ کراچی ہو یا ملک کے دوسرے شہر بدقسمتی سے ہمارے عوام میں سماجی شعور کی کمی ہے وہ اپنی ذمے داریوں کو نہیں جانتے۔

سڑک پر چلنے یا گاڑی ڈرائیو کرنے سے لے کر اپنی حفاظت کرنے اور چور ڈاکوؤں سے محفوظ رہنے کے لیے خود حفاظتی تدابیر اور قانون کی ہدایات پر کیوں عمل نہیں کرتے؟ اس سلسلے میں ہمارے شہر کراچی میں کئی سماجی اور اصلاحی تنظیمیں موجود ہیں انھیں اپنی ذمے داریاں پوری کرنی چاہئیں ۔کراچی کے نوجوانوں نے ایک نئی تنظیم ’’ تحریک سوچ کراچی‘‘ کے نام سے قائم کی ہے۔ امید ہے کہ یہ تحریک کراچی کے عوام کی سوچ کو بدلنے میں اہم کردار ادا کرے گی ۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: کراچی کے سے لے کر

پڑھیں:

کراچی: ٹک ٹاک ویڈیو دیکھ کر ملتان سے فریج لینے کے لئے آنے والے شہری کو سی ویو جانا مہنگا پڑ گیا

 ٹک ٹاک کی ویڈیو دیکھ کر ملتان سے کراچی فریج لینے کے لئے آنے والے شہری کو سی ویو جانا مہنگا پڑ گیا

رپورٹ کے مطابق  بائیک رائیڈر "پردیسی" کو سمندر کنارے لیجاکر کپڑے، چپل، موبائل فون اور چالیس ہزار روپے لیکر غائب ہوگیا، عمران نامی متاثرہ شخص ملتان سے کراچی پہنچا تھا۔

متاثرہ شخص  نے کہا کہ کینٹ اسٹیشن پر شیرشاہ کے لئے آف لائن بائیک بک کرائی،  شیر شاہ مارکیٹ پہنچے تو مارکیٹ بند تھی، شیر شاہ سے کورنگی اپنے رشتے دار کے گھر جانے کے لئے اسی بائیک رائیڈر سے کہا۔

متاثرہ شخص  نے کہا کہ  راستے میں کلفٹن سی ویو آیا تو سمندر دیکھنے کے لئے رک گیا،  متاثرہ شخص سی ویو سمندر میں گیا کپڑے گیلے ہونے پر اپنے قمیض ،چپل بائیک رائیڈر کو دیئے۔

اس نے مزید بتایا کہ سمندر میں گیا وہاں سے دیکھا تو بائیک رائیڈر غائب تھا، میرے قمیض کی جیب میں چالیس ہزار نقد ، موبائل فون شناختی کارڈ و دیگر اشیاء موجود تھیں۔

بائیک رائیڈر کے ہاتھوں لٹنے والا شہری بغیر قیمض اور ننگے پاؤں سی ویو چوکی پہنچا ، پولیس نے کہا کہ  متاثرہ شہری کی درخواست وصول کرلی ہے، کارروائی جاری ہے۔

 

متعلقہ مضامین

  • کراچی میں تھانے بھی غیر محفوظ، شہری کی قیمتی 125 موٹر سائیکل چوری
  • کراچی: کلفٹن جانے والے شخص کو مبینہ طور پر آن لائن بائیک رائیڈر نے لوٹ لیا
  • کراچی: تھانے میں دوست سے ملنے آئے شہری کو FIR کٹوانی پڑ گئی
  • کراچی، ڈکیتی کی جھوٹی اطلاع دینے پر شہری گرفتار
  • World Earth Day ; ماحول اور زمین کی حفاظت ہم پر قرض، رویے بدلنا ہوںگے!!
  • کراچی: ڈکیتی مزاحمت پر شہری ڈاکوؤں کی فائرنگ سے زخمی
  • کراچی میں رواں سال کے 110 روز میں مجموعی ٹریفک حادثات میں 289 شہری جاں بحق
  • کراچی: ٹک ٹاک ویڈیو دیکھ کر ملتان سے فریج لینے کے لئے آنے والے شہری کو سی ویو جانا مہنگا پڑ گیا
  • کراچی: شہریوں کے تشدد سے 3 پولیس اہلکار زخمی
  • کراچی میں ڈکیتوں کو لوٹ مار مہہنگی پڑ گئی، شہری کی فائرنگ سے ایک ڈکیت ہلاک