معاملے کی گہرائی، بات کی اصل تشریح ہے
اشاعت کی تاریخ: 15th, February 2025 GMT
دنیا کا ہر مسلمان اس حقیقت سے واقف ہے کہ مذہبِ اسلام میں صاف صفائی کے اہتمام کو نصف تکمیلِ ایمان کا درجہ حاصل ہے لیکن یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا بات محض انسان کی جسمانی اور اردگرد کی صفائی تک مقید ہے؟ میرے عقل و فہم کے مطابق معاملہ اتنا مختصر ہرگز نہیں ہوسکتا ہے کیونکہ ربِ کائنات کا کوئی بھی فرمانِ مبارک سطحی نہیں ہوتا ہے۔
اُس ذاتِ عظمت کے ہر نعمت، انعام اور نوازش کے پسِ پشت گہرائی و افادیت پنہاں ہوتی ہے جو جستجو رکھنے والے اُس کے بندوں پر تھوڑی سی محنت کے بعد ظاہر ہو جاتی ہے، شرط فقط اتنی ہے کہ خلق کی اصل خواہش مقصد کھوجنا ہو، بے ادبی کرنا نہیں۔
ارشادِ کریم، ’’ صفائی نصف ایمان ہے‘‘ اپنے اندر چار الفاظ کی الگ الگ وضاحت سموئے ہوئے ہے۔ لفظِ صفائی کے کئی معنی ہیں دراصل طہارت، پاکیزگی، نکھار، سادگی، صداقت اور بالکل خالی ہو جانا ’’صفائی‘‘ کے زمرے میں آتے ہیں۔ جیسے ہی صفائی کے معنی سے آگے بڑھیں یہ ایک لفظ پانچ مختلف اقسام میں تقسیم ہو جاتا ہے۔
’’جسمانی صفائی، روحانی صفائی، ذہنی صفائی، زبان کی صفائی اور ماحول کی صفائی۔‘‘ کسی انسان کے وجود میں ایمان کی موجودگی اُسے مسلمان بناتی ہے اور جب بات اُسی ایمان کے نصف مکمل ہونے کی آئے تب اہلِ ایمان کا کانٹے دار راستوں پر ننگے پاؤں سفر کرنا لازم و ملزوم ہو جاتا ہے۔
بچپن میں اپنے اردگرد موجود مذہبی علم و فراست سے آشنا شخصیات سے یہ سنہری بات اکثر و بیشتر سنتے رہتے تھے کہ صفائی نصف ایمان ہے، عمر کے اُس حصے میں یہ جملہ قلب کو بے حد بھاتا اور طبیعت کو قرار بخشتا تھا کہ محض پاکی و صفائی کا خیال رکھنا کلی طور پر باایمان ہونے کی آدھی کامیابی مہیا کرتا ہے۔
اُس چھوٹی عمرکی بے عقلی اور نادانی نے کبھی اس عام سے جملے کے خاص معنی کو صحیح طور پر سمجھنے کا موقع ہی نہیں دیا لیکن جب مزاج کو سنجیدگی اور عقل کو بالیدگی نصیب ہوئی تب خالق کے تخلیق کردہ منظر کے پس منظر میں پنہاں رازوں کو جاننے کی شدید خواہش دل میں بیدار ہوئی۔
انسان دنیا میں قدم رکھتے وقت فرشتے کی مانند ہوتا ہے، پاک روح کا مالک، اس جہانِ فانی کی آلودگی سے بے نیاز، اُس کے دل میں کسی قسم کا وسوسہ ہوتا ہے نہ وجود میں فتنہ گری کا خیال۔ انسان جیسے جیسے دنیا میں قدم جمانے اور اپنی زندگی کو پروان چڑھانے لگتا ہے وہ ماحول کے اثرات کا اثر لے کر گناہ کی مورت بن بیٹھتا ہے۔
ویسے اگر سوچا جائے کہ آخر کیا ہے یہ زندگی؟ بس پانی کا ایک بُلبلا اور اس بُلبلے کے پیچھے انسان اپنی ابدی زندگی کو برباد کرنے پر تُلا ہوا ہے، سونے پر سہاگا وہ اپنے دل میں یہ یقین لیے گھومتا ہے کہ آدھے ایمان کی تکمیل صفائی کے عوض ہوجائے گی، جب کہ ایسا گمان کرنا حماقت کے سوا کچھ نہیں ہے۔
انسانی ذات میں صفائی درحقیقت جسمانی صفائی کے ذریعے داخل ہوتی ہے، انسان کا اپنے وجود کو صاف رکھنا خالق کا حکم اور نبی کریم کی سنت ہے۔ جسمانی صفائی کے بعد روحانی صفائی انسان کے لیے لازمی ہے کیونکہ اگر کسی فرد کی روح پر منفیت طاری ہو تو اُس کی روح سے وابستہ تمام معاملات میں بگاڑ پیدا ہونا لازم ہے۔
جسمانی اور روحانی طہارت کے اہتمام کے بعد ذہنی صفائی کی باری آتی ہے، انسان کا ذہن صرف اُسی صورت پاک تصور کیا جاتا ہے جب وہ ہر طرح کے پراگندہ خیالات سے عاری ہو اور وہاں دوسرے انسانوں کے لیے منفی سوچ اور گناہ کرنے کا کوئی خیال موجود نہ ہو۔
جس انسان کا جسم، روح اور ذہن اُجلا ہو تو اُس کی زبان میں شائستگی خود بخود آجاتی ہے لیکن اگر کسی انسان کی زبان ہی گندی ہو تو پھر کسی طرح کی صفائی بھی اُسے اخلاقی اعتبار سے ایک برا انسان بننے سے روک نہیں سکتی ہے۔ سب سے آخر میں آتی ہے ماحول کی صفائی جہاں سے تمام خرابیوں کی شروعات ہوتی ہے ساتھ وہیں سے اُن کا خاتمہ بھی ممکن ہے۔
ماحول ہی مثبت اور منفی اثرات کو جنم دیتا ہے۔ ماحول پُر مسرت ہو تو انسانی جسم توانا اور روح شفاف رہتی ہے، ذہن مثبت خیالات کے نور سے جگمگاتا ہے اور زبان سے بھی پھول جھڑ رہے ہوتے ہیں اس کے برعکس اخلاقی طور پر حبس زدہ ماحول فقط برائیوں کو پروان چڑھانے کا سبب بنتا ہے۔
طہارت و پاکیزگی کے ذریعے نصف ایمان کا حصول حقوق العباد کے راستے سے گزر کر ہوتا ہے، لہٰذا خالق نے حقوق العباد کا احترام کرنے کے لیے اپنی خلق پر خاص زور دیا ہے۔ لوحِ قرآنی میں رب العالمین فرماتے ہیں ’’ لوگوں کے ساتھ اچھی گفتگو کرو۔‘‘
قرآن میں ایک اور مقام پر حقوق العباد کے متعلق ارشادِ خداوندی ہے ’’ اے ایمان والو! اللہ تعالیٰ سے ڈرو،کوئی قوم دوسری قوم سے مذاق نہ کرے، اس کو حقیر نہ جانے، ایسی گفتگو نہ کرے جس سے اس کی تذلیل ہو اور نہ عورتوں کے ساتھ اس قسم کی گفتگو کرو، کیا خبر تم جن کو حقیر سمجھتے ہو، اللہ کے نزدیک وہ اعلیٰ ہو۔‘‘
قرآن انسان کے لیے نسخہ حیات کا درجہ رکھتا ہے، خداوند کریم نے اس میں دنیا کے باسیوں کو حقوق العباد کا خیال رکھنے کی بے حد تلقین فرمائی ہے اور اس موضوع پر بیشمار احادیثِ مبارکہ بھی موجود ہیں۔ آنحضرت ﷺ نے اپنی اُمت کو اللہ تعالیٰ کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے حقوق العباد کا آسان راستہ چننے کی ہدایت فرمائی ہے۔
ہمارے پیارے نبی ﷺ کا ایک فرمان ہے، ’’ مسلمان وہ ہے، جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں۔‘‘ انسان کا اگر ظاہر صاف ہو، وہ طہارت و پاکیزگی کا اہتمام بھی کرتا ہو مگر اُس کی باطنی غلاظت سے دوسرے انسان کو تکلیف پہنچتی ہے تو ایسی صفائی ایمان کو فائدہ نہیں اُلٹا نقصان پہنچاتی ہے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: حقوق العباد صفائی کے انسان کا کی صفائی ہوتا ہے کے لیے
پڑھیں:
اللہ میاں کی Fan Following
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
251213-03-4
شرَفِ عالم
میں: تم نے گزشتہ نشست میں گفتگو کو ایک عجیب موڑ دے دیا، ہم بات کررہے تھے بندگی ِ بے غرض کی اور تم اللہ میاں کی fan following کی طرف نکل پڑے۔ اللہ ربّ العزت کی ہستی کا انسانوں سے کیا موازنہ؟۔
وہ: ایسے کسی موازنے یا تقابل کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ اصل میں یہ آج کے انسان کا مجموعی رویہ ہے جسے بدلنے کو وہ بالکل تیار نہیں۔ موبائل فون کی شکل میں ایک کھلونا نما مشین اس کے ہاتھ لگ گئی ہے، جس کے سامنے وہ خود ایک کھلونا بن گیا ہے۔ جو اسے سوتے ہوئے بھی جگائے رکھتا ہے اور جاگنے کی حالت میں بھی سلائے رکھتا ہے۔ ویسے یہ اپنی جگہ خود ایک الگ موضوع ہے۔ اس پر کسی اور نشست میں بات کریں گے۔ ہم بات کررہے ہیں سوشل میڈیا کے زیر ِ اثر پروان چڑھنے والے انسانی رویے کی کہ کس طرح وہ ایک غیر متعلق اور انجان شخص کا کچھ سوچے سمجھے بغیر اس قدر گرویدہ ہوجاتا ہے کہ اگر وہ کہیں مل جائے تو اس کے ساتھ ایک سیلفی بنانے کے لیے دیوانوں کی سی حرکتیں کرنے لگتا ہے۔ اب تو نیکی کا تصور بھی بس یہیں تک رہ گیا ہے کہ کسی مولانا صاحب کا کوئی درس یا اصلاحی بیان اپنے احباب کے گروپ میں فارورڈ یا کم از کم پسندیدگی کا علامتی اظہار ہی کردیا جائے۔
میں: انسان تو ازل سے ایسا ہی ہے، اپنے سے بہتر اور منفرد صلاحیتوں کے حامل دوسرے انسانوں سے متاثر اور مرعوب ہوتا رہا ہے، ان کی قدر اور تعریف وتوصیف کرتا رہا ہے، آ ج وہ یہ کام سوشل میڈیا پر کررہا ہے تو اس میںکیا قباحت ہے؟۔ اور رہی بات خدا کی بنائی ہوئی اس کائنات اور اس میں موجود اشیا کے حوالے سے انسان کے رویے کی تو وہ بھی ہمیشہ سے ایسا ہی ہے۔ تاریخ میں ایسے واقعات بہت کم ہی نظر آئے ہیں کہ انسان تخلیق ِ کائنات میں موجود حکمت ودانائی کے اسرار ورموز اور خلاقی کے مسلسل اور مستقل معجزوں کے سامنے اپنی عاجزی اور بے بسی کو تسلیم کرتے ہوئے خدا کا گرویدہ ہوگیا ہو۔
وہ: اس کی وجہ کہیں یہ تو نہیں کہ انسان کو یہ کائنات بنی بنائی مل گئی ہے، نہ اس کے بننے میں اس کا کوئی حصہ ہے اور نہ ہی اس نے اس دنیا کی تشکیل کے مراحل اور موجود اشیا کے بننے کا عمل اپنی آنکھوں سے براہ ِراست دیکھا ہے، کہ یہ بلند وبالا پہاڑ کیسے بنے، ان سمندروں اور دریائوں میں تاحد ِ نگاہ تک پھیلا یہ پانی کہاں سے آیا۔ آسمان پر تارے کیوں چمک رہے ہیں، زمین روشنی کے لیے سورج کی محتاج کیوں ہے، بقول غالبؔ
سبزہ و گل کہاں سے آئے ہیں
ابر کیا چیز ہے، ہوا کیا ہے
اور اسی بنا پر انسان اس دنیا کی چیزوں اور اس کے بنانے والے کو اکثر for granted لیتا ہے کہ یہ سب تو اس کا پیدائشی حق ہے کیوں کہ آگ، ہوا، مٹی اور پانی کے یہ چار عناصر اگر نہ ہوں تو وہ زندہ کیسے رہے گا۔ اس کا عمل ربّ کی عطا کردہ نعمتوں کے استعمال اور خود اس کی ذات کو حاصل صلاحیتوں کے حوالے سے ناشکری اور ناقدری کی عکاسی کرتا نظر آتا ہے۔
میں: تم کیا کہنا چاہ رہے ہو کہ اگر کائنات یا اس دنیا کے مرحلہ ٔ تشکیل کے دوران ایک آدھ منظر انسان اپنی آنکھوں سے براہِ راست دیکھ لیتا تو کیا وہ خدا پر من وعن ایمان لے آتا، تب بھی وہ یہی کہتا نظرآتا جیسا وہ آج سورج کے طلوع وغروب، چاند کی گردش، پھول کے کھلنے مرجھا جانے اور نہ جانے کتنے بے شمار معجزوں اور کاموں کو دیکھ کر کہتا ہے کہ یہ سب تو کسی سائنسی اور میکانیکی عمل کا نتیجہ ہے جو کچھ مخصوص حالات کی وجہ سے رونما ہوگیا ہے۔ کیوں کہ خالق تو نظروں سے اوجھل ہی ہے اور یہ صورت حال تاقیامت جوں کی توں رہے گی۔ اور آج seeing is believing کے اس دور میں خدا شناسی کے حوالے سے انسان کا یہ رویہ انتہائی تشویشناک ہوچکا ہے۔
وہ: شاید یہی وہ وجہ ہے جس کی بنا پر خدا نے دنیا میں بھیجے گئے پہلے بندے کو اپنا پیغمبر بنا کے بھیجا تاکہ آنے والے انسانوں کو اس دنیا میں اپنے مقصد ِ وجود اور اللہ کے بندے کی حیثیت سے اپنے مقام ومرتبے کو سمجھنے میں کسی شک وشبہ کی گنجائش باقی نہ رہے۔
میں: تمہاری اس بات سے ایک اور بات نکلتی ہے کہ اس دنیا میں انسانوں کے لیے خدا کی بنائی ہوئی اسکیم میں کسی قسم کا کوئی جھول موجود نہیں ہے، وہ زندہ رہنے کے لیے زمین پر موجود وسائل کی دستیابی ہو یا بندہ بنے رہنے کے لیے منبع ہدایت اور رہنمائی کی ہمہ وقت موجودگی۔ یعنی ایسا نہیں ہوا کہ اللہ میاں نے دنیا میں آزمائشی بنیادوں پر پہلے سو دو سو آدمیوں کو بھیجا اور پھر سو دو سو سال بعد ان کی تعداد بڑھنے اور سرکشیوں میں اضافہ ہونے پر ان کی اصلاح کے لیے اپنے پیغمبر مبعوث کرنا شروع کیے۔ اور اس تمام کے باوجود بھی انسان کتنا احسان فراموش اور ناشکرا واقع ہوا۔
وہ: اس حوالے سے ایک اور بات بھی بنیادی اہمیت رکھتی ہے کہ کائنات اور قدرتی عوامل پر غورو فکر کے نتیجے میں خدائے واحد پر ایمان لانے کا عمل علم، مشاہدے اور جستجو کا متقاضی ہوتا ہے اور یہی امر ذہن ِ انسانی کے ارتقا پر دلالت کرتا ہے۔ اور چوں کہ ہر انسان کا علم وشعور اور ذہنی صلاحیت برابری کی سطح پر نہیں ہوا کرتی اسی لیے محض علم کو ایمان کی بنیاد قرار نہیں دیا جاسکتا۔ یعنی مقام ِ بندگی کے ادراک کے ذریعے شان ِ خداوندی کا اقرار عالم وجاہل اور خاص و عام کے لیے ایک ہی درجے پر ہوتا ہے۔ اللہ میاں کو تو وہ جاہل چرواہا زیادہ پسند ہے جو اس کی دی گئی نعمتوں کا شکر ادا کرنے کے لیے اپنی عقل و فہم کے مطابق خدا کو ایک انسانی وجود سمجھتے ہوئے اس کے سر میں تیل لگا کر اس کے بال سنوارنا چاہتا ہے نہ کہ آج کا وہ اسکالر جو محض گزشتہ ڈیڑھ دوسو سال کی سائنسی ترقی کی بنیاد پر ٹیکنالوجی کو اپنا خدا سمجھ بیٹھا ہے۔ اور آج کا انسان اسی شعبے سے وابستہ تخلیق کاروں اور بھانڈوں کا سب سے بڑا فین ہے یا پھر اپنی ذات کا۔ بقول شاعر
بھانڈ کے فین، خرافات کے فین
ہم ہیں موسیقی کے آلات کے فین
کون پروردگارِ عالم ہے؟
ہم تو ہیں صرف اپنی ذات کے فین