نہ کم نہ زیادہ، ٹرمپ کا ’برابر کا جواب‘ دینے کا فیصلہ
اشاعت کی تاریخ: 15th, February 2025 GMT
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 15 فروری 2025ء) امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے جمعرات کو حکم دیا کہ امریکہ میں درآمدات پر 'جواباً ٹیرف‘ لگائے جائیں، جو ان کے انتخابی وعدے 'آنکھ کے بدلے آنکھ‘ کو عملی جامہ پہنانے کی طرف ایک قدم قرار دیا جا رہا ہے۔
کیا ٹرمپ کا اعلان متنازعہ ہے؟ٹرمپ نے کہا، ''میں نے یہ فیصلہ انصاف کے تقاضوں کو ملحوظ رکھتے ہوئے کیا ہے، جو ٹیرف دوسرے ممالک امریکہ پر لگاتے ہیں، ہم بھی ان پر وہی ٹیرف لگائیں گے۔
نہ کم، نہ زیادہ۔‘‘یہ اعلان امریکہ کی طرف سے نئے ٹیرف لگانے کے ایک سلسلے کا حصہ ہے۔ امریکی حکومت نے حال ہی میں چین سے درآمدات پر دس فیصد اضافی ٹیرف لگایا گیا جبکہ اسٹیل اور ایلومینیئم پر مارچ سے اضافی محصولات عائد کیے جانے کا قوی امکان ہے۔
(جاری ہے)
ٹرمپ نے کینیڈا اور میکسیکو سے درآمدات پر بھی پچیس فیصد ٹیرف لگانے کی دھمکی دی تھی، جسے بعد ازاں ایک ماہ کے لیے مؤخر کر دیا گیا تاکہ اس حوالے سے جامع مذاکرات کیے جا سکیں۔
ٹرمپ کیوں نئے ٹیرف لگانا چاہتے ہیں؟ٹرمپ کا اصرار ہے کہ عالمی تجارت میں امریکہ کے ساتھ ناانصافی ہو رہی ہے۔ ان کے مطابق کئی ممالک امریکی اشیاء پر زیادہ ٹیرف لگاتے ہیں جبکہ امریکہ ان کی مصنوعات پر کم محصولات عائد کرتا ہے۔
مثال کے طور پر، بھارت ستاسی فیصد درآمدات پر پانچ فیصد سے بیس فیصد زیادہ ٹیرف لگاتا ہے، جو امریکی محصولات سے زیادہ ہے۔
ٹرمپ کا کہنا ہے کہ وہ دوسرے ممالک کو مجبور کرنا چاہتے ہیں کہ وہ بھی امریکہ کی مصنوعات پر کم ٹیکس لگائیں۔ اس کے ساتھ ہی ان کا کہنا ہے کہ یہ قدم 'امریکہ فرسٹ‘ پالیسی کو فروغ دے گا اور امریکی صنعتوں کو فائدہ پہنچائے گا۔
یہ نیا نظام کیسے کام کرے گا؟وائٹ ہاؤس کے مطابق امریکی حکام کو 180 دن دیے گئے ہیں تاکہ وہ ان ممالک کی نشاندہی کریں، جو امریکہ پر زیادہ ٹیرف لگاتے ہیں۔
امریکی کامرس ڈپارٹمنٹ کے نامزد سربراہ ہاورڈ لٹنک کے مطابق یہ تجاویز دو اپریل تک تیار کی جا سکتی ہیں۔اطلاعات ہیں کہ امریکی حکومت کی طرف سے پہلے ان ممالک کو نشانہ بنایا جائے گا، جن کے ساتھ امریکہ کا تجارتی خسارہ زیادہ ہے، جس میں قریبی اتحادی ممالک بھی شامل ہیں۔
ممکنہ اثرات کیا ہو سکتے ہیں؟ماہرین کا کہنا ہے کہ ان نئے محصولات سے امریکی صارفین کے لیے درآمد شدہ اشیاء مہنگی ہو جائیں گی، جس سے امریکہ میں مہنگائی میں اضافہ ہو سکتا ہے۔
جنوری میں امریکہ میں مہنگائی کی شرح تین فیصد تک پہنچ گئی تھی، جو گزشتہ چھ ماہ میں سب سے زیادہ ہے۔ اگر نئے ٹیرف مکمل طور پر لاگو ہو گئے تو صارفین کے لیے قیمتوں میں مزید 0.
یہ ٹیرف بھارت اور ارجنٹائن کے ساتھ ساتھ براعظم افریقہ اور جنوب مشرقی ایشیا کے ترقی پذیر ممالک کے لیے سب سے زیادہ نقصان دہ ثابت ہو سکتے ہیں۔
عالمی ردعمل کیا ہے؟بھارت پہلے ہی کچھ مصنوعات پر ٹیرف کم کر چکا ہے تاکہ امریکہ کے ساتھ تجارتی کشیدگی کو کم کیا جا سکے۔ بھارتی خارجہ سیکرٹری وکرم مسری کے مطابق، ''اگلے سات مہینوں میں تجارتی معاہدہ ہو سکتا ہے۔‘‘
یورپی یونین نے ٹرمپ کے اس فیصلے کو ''غلط سمت میں ایک قدم‘‘ قرار دیا اور کہا کہ وہ کسی بھی غیر منصفانہ تجارتی رکاوٹ کا سخت جواب دے گی۔
یورپی پارلیمنٹ کے تجارتی کمیٹی کے سربراہ بیرنڈ لانگے نے کہا، ''اگر امریکہ ہماری برآمدات پر ٹیرف نہ لگائے، تو ہم امریکی گاڑیوں پر محصولات کم کرنے اور زیادہ امریکی گیس اور فوجی ساز و سامان خریدنے کے لیے تیار ہیں۔‘‘
عالمی تجارتی نظام میں ممکنہ تبدیلی؟کچھ ماہرین کا کہنا ہے کہ ٹرمپ کے اس فیصلے سے عالمی تجارتی نظام میں بڑی تبدیلی آ سکتی ہے۔
عالمی تجارتی تنظیم (WTO) کے قوانین کے مطابق 160 سے زائد ممالک عام طور پر محصولات عائد کرتے ہوئے غیر جانبدارنہ پالیسیوں پر عمل کرتے ہیں مگر ٹرمپ کا نیا نظام کئی دہائیوں سے قائم تجارتی اصولوں کو بدل سکتا ہے کیونکہ وہ محصولات عائد کرتے ہوئے ممالک کو ٹارگٹ بنا رہے ہیں اور اس طرح ٹیکسوں کو عائد کرنے کے حوالے سے ملک بہ ملک مذاکرات کا سلسلہ چل نکلے گا۔
ورٹشافٹ ہانڈل (ع ب/ ش ر)
ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے محصولات عائد کا کہنا ہے کہ درآمدات پر کے مطابق ٹرمپ کا کے ساتھ سکتا ہے کے لیے
پڑھیں:
ٹرمپ کی ناکام پالیسیاں اور عوامی ردعمل
اسلام ٹائمز: ایسا لگتا ہے کہ اگر موجودہ رجحان جاری رہا تو امریکہ افراط زر کے ساتھ کساد بازاری کے دور میں داخل ہو جائے گا۔ ایک تشویشناک منظر نامہ جسے ماہرین اقتصادیات 1970ء کی دہائی کی "جمود" کی طرف واپسی کے طور پر دیکھتے ہیں۔ ان مسائل کی وجہ سے نہ صرف ٹرمپ کی مقبولیت میں تیزی سے کمی آئی ہے بلکہ دنیا کے ساتھ امریکہ کے تعلقات بھی متاثر ہوئے ہیں اور بلا شبہ عالمی سطح پر خدشات میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ ان حالات میں امریکہ کو عظیم بنانا ایک ناقابل حصول خواب لگتا ہے۔ تحریر: آتوسا دینیاریان
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے من پسند پالیسیوں پر انحصار کرتے ہوئے دنیا کے بیشتر ممالک خصوصاً چین کے خلاف ٹیرف کی ایک وسیع جنگ شروع کی ہے، اس طرزعمل کے نتائج نے موجودہ امریکی معیشت پر گہرے اثرات مرتب کیے ہیں اور عوام کے عدم اطمینان میں اضافہ ہوا ہے۔ حالیہ مہینوں میں ریاستہائے متحدہ میں معاشی حالات خراب ہوئے ہیں اور حالیہ مہینوں میں ٹرمپ کے فیصلوں کی وجہ سے امریکی صارفین کے لیے قیمتوں میں بھی نمایاں اضافہ ہوا ہے۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا دعویٰ ہے کہ وہ تحفظ پسند پالیسیوں کو نافذ کرکے اور چین اور دیگر ممالک کے خلاف تجارتی محصولات میں اضافہ کرکے "عظیم امریکی خواب" کے نظریے کو بحال کر رہے ہیں۔ لیکن عملی طور پر ان پالیسیوں کی وجہ سے مہنگائی میں اضافہ، معاشی ترقی کی رفتار میں کمی اور وسیع پیمانے پر عدم اطمینان پیدا ہوا ہے۔
ٹرمپ کی مقبولیت میں کمی:
اس وقت صرف 44% امریکی ان کے معاشی انتظام سے مطمئن ہیں اور اگر یہ سلسلہ جاری رہتا ہے تو ان کی مقبولیت کا گراف مزید نیچے آئے گا۔
افراط زر اور بڑھتی ہوئی قیمتیں:
افراط زر کی شرح 3% تک پہنچ گئی ہے، جبکہ فیڈرل ریزرو کا ہدف 2% ہے۔ یہ وہ علامات ہیں، جو کسی ملک میں کساد بازاری کو دعوت دینے کے مترادف سمجھی جاتی ہیں۔ اس کے نتیجے میں ترقی کی رفتار رک جاتی ہے اور سست اقتصادی ترقی کا سایہ منڈلانے لگتا ہے۔ تجارتی پالیسی کے عدم استحکام کی وجہ سے سرمایہ کار طویل مدتی سرمایہ کاری سے گریز کرنے لگتے ہیں۔
بڑے پیمانے پر احتجاج:
ٹرمپ کی اقتصادی پالیسیوں کے خلاف ہزاروں امریکیوں نے مختلف شہروں میں مظاہرے کیے ہیں۔ یہ مظاہرے متوسط طبقے اور محنت کشوں کی ان پالیسیوں سے عدم اطمینان کی عکاسی کرتے ہیں، جو دولت مند اور بڑی کارپوریشنز کے حق میں ہیں۔ ادھر فیڈرل ریزرو کے چیئرمین جیروم پاول نے خبردار کیا ہے کہ نئے ٹیرف مہنگائی اور سست اقتصادی ترقی کو بڑھا سکتے ہیں۔ اگرچہ ٹرمپ کے معاشی فیصلے ظاہری طور پر امریکی معاشی حالات کو بہتر بنانے اور ملکی پیداوار کو سپورٹ کرنے کے دعوے کے ساتھ کیے گئے تھے، لیکن عملی طور پر وہ مسابقت میں کمی، قیمتوں میں اضافے، معاشی ترقی میں سست روی اور مارکیٹ میں عدم استحکام کا باعث بنے ہیں۔
ایسا لگتا ہے کہ اگر موجودہ رجحان جاری رہا تو امریکہ افراط زر کے ساتھ کساد بازاری کے دور میں داخل ہو جائے گا۔ ایک تشویشناک منظر نامہ جسے ماہرین اقتصادیات 1970ء کی دہائی کی "جمود" کی طرف واپسی کے طور پر دیکھتے ہیں۔ ان مسائل کی وجہ سے نہ صرف ٹرمپ کی مقبولیت میں تیزی سے کمی آئی ہے بلکہ دنیا کے ساتھ امریکہ کے تعلقات بھی متاثر ہوئے ہیں اور بلا شبہ عالمی سطح پر خدشات میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ ان حالات میں امریکہ کو عظیم بنانا ایک ناقابل حصول خواب لگتا ہے۔