غزہ سے منتقلی کے بجائے ٹرمپ غزہ کی تعمیر اور غیر جموری قوتوں پر توجہ دیں، فیصل محمد
اشاعت کی تاریخ: 15th, February 2025 GMT
ممتاز تجزیہ کار کا کہنا ہے کہ مشرق وسطی میں پائیدار امن کی خاطر ایران سمیت تمام گلف ریاستوں کیساتھ " شٹل ڈپلومیسی" کے ذریعے مسائل کو حل کیا جائیگا تو غزہ کی تعمیر نو جس کیلئے ایک کثیر رقم درکار ہے، مسلم دنیا بھی حصہ ڈالے گی اور ٹرمپ کا وہ وعدہ "جنگوں کے بغیر پرُامن دنیا" شرمندہ تعبیر ہوگا۔ اسلام ٹائمز۔ ٹرمپ کا غزہ سے فلسطینیوں کی منتقلی کا پلان مسلم دنیا سمیت کسی کو قابل قبول نہیں ہوگا، اور نہ ہی اس حوالے سے نتن یاہو کی یہ تجویز کہ سعودی عرب انہیں اپنے ملک میں جگہ دے، سعودی عرب سمیت کسی اسلامی ریاست کو قبول ہوگا۔ یہ بات عالمی مصالحتکار نے ’’اسلام ٹائمز‘‘ سے گفتگو کرتے ہوئے کہی۔ انہوں نے کہا کہ اگر ٹرمپ اپنی اس مقبولیت کو برقرار رکھنا چاہتے ہیں، جس کی وجہ سے وہ دوبارہ اقتدار میں آئے تو انہیں ایسے اقدامات اٹھانے ہونگے جن سے عالمی سطح پر سراہا جائے، ان میں سب سے پہلے غزہ اور لبنان سمیت تمام علاقوں پر جنگ بندی پر سختی سے عملدرآمد کرایا جائے۔
فیصل محمد نے کہا کہ اسرائیل، جارجیا، شام، پاکستان، تیونس سمیت ایسے ممالک جہاں غیر جمہوری طاقتیں برسرپیکار ہیں، وہاں اصلاحات کی شرط پر امریکی امداد بحال کی جائے۔ انہوں نے کہا کہ مشرق وسطی میں پائیدار امن کی خاطر ایران سمیت تمام گلف ریاستوں کیساتھ " شٹل ڈپلومیسی" کے ذریعے مسائل کو حل کیا جائیگا تو غزہ کی تعمیر نو جس کیلئے ایک کثیر رقم درکار ہے، مسلم دنیا بھی حصہ ڈالے گی اور ٹرمپ کا وہ وعدہ "جنگوں کے بغیر پرُامن دنیا" شرمندہ تعبیر ہوگا ورنہ اسرائیل کی کاراوائیاں مشرق وسطی میں امن قائم نہیں ہونے دینگیں۔
ذریعہ: Islam Times
پڑھیں:
ڈونلڈ ٹرمپ کے دور اقتدار کے ہلچل سے بھرے پہلے 3 ماہ؛ دنیا کا منظرنامہ تبدیل
امریکا کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی وائٹ ہاؤس میں دوبارہ واپسی کے بعد ان کے اقدامات اور بیانات نے دنیا بھر میں ہلچل مچا دی۔
عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے دوسرے دورِ صدارت کے پہلے 100 دن 30 اپریل کو مکمل ہو رہے ہیں اور اب تک صدر ٹرمپ نے صدارتی اختیارات کو نئی بلندیوں تک پہنچایا۔
78 سالہ صدر ٹرمپ نے ایک ایونٹ میں کہا کہ میرا دوسرا دورِ حکومت پہلے سے زیادہ طاقتور ہے۔ جب میں یہ کہتا ہوں 'یہ کام کرو تو وہ کام ہو جاتا ہے۔
ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی ٹیرف پالیسی کا دفاع کیا اور سب سے پہلے امریکا کے اپنے ایجنڈے کو پورا کرنے کے عزم کا اظہار کیا۔
امریکی صدر نے اپنی سمت کو درست قرار دیتے ہوئے کہا کہ وہ بڑی کامیابی کے ساتھ اپنے اہداف کو حاصل کر رہے ہیں۔
البتہ ان کے ناقدین نے پہلے 100 دنوں کی حکومت کو "آمرانہ طرزِ حکومت" قرار دیا ہے اور ان کی پالیسیوں کو انتشار کا باعث قرار دیا۔
سیاسی مورخ میٹ ڈالک کا کہنا ہے کہ ٹرمپ کا دوسرا دورِ صدارت پہلے سے کہیں زیادہ آمرانہ ذہنیت اور اقدامات سے بھرپور ہے۔
انھوں نے مزید کہا کہ ڈونلڈ ٹرمپ روزانہ اوول آفس میں صحافیوں کے سوالات کا سامنا کرتے اور ایگزیکٹو آرڈرز پر دستخط کرتے ہوئے خود کو ایک "ریئلٹی شو" کے مرکزی کردار کے طور پر پیش کرتے ہیں۔
ٹرمپ کے ناقدین کا بھی کہنا ہے کہ نئے صدر کے دوسرے دور میں وائٹ ہاؤس میں مخصوص اور من پسند نیوز اداروں کو رسائی دی جارہی ہے۔
علاوہ ازیں عدلیہ کے ساتھ بھی صدر ٹرمپ کا رویہ جارحانہ رہا ہے جہاں انہوں نے ماضی کے مقدمات میں شریک کئی لاء فرمز کو سخت معاہدوں میں جکڑ دیا ہے۔
سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ٹرمپ کے پہلے 100 دنوں کی تکمیل پر ان کی مقبولیت تمام جنگ عظیم دوم کے بعد صدور میں سب سے کم ہے۔ سوائے خود ان کے پہلے دور کے۔
ریپبلکن سینیٹر لیزا مرکاؤسکی نے کہا کہ ہم سب خوف زدہ ہیں جبکہ پروفیسر باربرا ٹرش کا کہنا تھا کہ صدر آئینی پابندیوں کی پرواہ کیے بغیر فیصلے کر رہے ہیں۔
ناقدین کا یہ بھی کہنا ہے کہ صدر ٹرمپ نے روس کے توسیع پسندانہ عزائم کی تقلید میں گرین لینڈ، پاناما اور کینیڈا پر علاقائی دعوے کرتے ہوئے امریکی اثرورسوخ بڑھانے کا عندیہ دیا ہے۔
ٹرمپ نے تعلیمی اداروں، جامعات اور ثقافتی مراکز کو نشانہ بناتے ہوئے خود کو ایک اہم آرٹس سینٹر کا سربراہ مقرر کیا اور ڈائیورسٹی پروگرامز کو ختم کر دیا ہے۔
اسی طرح تارکین کو پکڑ پکڑ کر دور دراز علاقے میں قائم خطرناک جیلوں میں زبردستی بھیجا جا رہا ہے۔
یاد رہے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے 20 جنوری کو عہدے کا حلف اُٹھایا تھا اور اسی دن چند اہم لیکن متنازع اقدامات کی منظوری دی تھی۔