کالعدم ٹی ٹی پی کیلیے چندہ اکھٹا کرنے کے مجرموں کو 5،5 سال قید کی سزا
اشاعت کی تاریخ: 15th, February 2025 GMT
پشاور کی انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالت نے کالعدم تحریک طالبان پاکستان ( ٹی ٹی پی) کیلیے چندہ اکھٹا کرنے کے مجرموں کو 5، 5 سال قید کی سزا سنا دی۔
کالعدم ٹی ٹی پی کے لئے چندہ اکھٹا کرنے کے کیس کی سماعت انسداد دہشتگردی کی خصوصی عدالت کے جج محمد اقبال خان نے کی۔ جرم ثابت ہونے پر دونوں ملزمان کو 5، 5 سال قید اور 60 ہزار روپے جرمانے کی سزا سنا دی گئی۔
پراسیکیوشن نے موقف اختیار کیا کہ ملزم مدثر اور اسماعیل کالعدم تنظیم ٹی ٹی پی کے لیے چندہ اکھٹا کر رہے تھے۔ دونوں ملزمان کو جمیل چوک پشاور میں چندہ اکھٹا کرتے ہوئے گرفتار کیا گیا۔ ملزمان سے چندے کی رقم اور دیگر اشیا بھی برآمد ہوئی تھیں۔ ملزمان کے خلاف تمام شواہد موجود ہیں۔ عدالت نے جرم ثابت ہونے پر دونوں مجرموں کو 5، 5 سال قید اور 60 ہزار روپے جرمانے کی سزا سنائی۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: ٹی ٹی پی سال قید کی سزا
پڑھیں:
جعلی و غیر ضروری کیسز کا خاتمہ؛ مقدمے کیلیے درخواست گزار کا عدالت آنا لازمی قرار
لاہور:ہائی کورٹ نے جعلی و غیر ضروری کیسز کے خاتمے کے لیے درخواست گزار کا مقدمات کے لیے عدالت آنا لازمی قرار دے دیا۔
چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ جسٹس عالیہ نیلم نے پنجاب کی ماتحت عدالتوں میں جعلی اور غیر ضروری مقدمات کی روک تھام کے لیے بڑا اور تاریخی فیصلہ سنا دیا۔
عدالتی فیصلے کے بعد اب مدعی یا درخواست گزار کو خود عدالت میں پیش ہونا لازم ہوگا اور بائیو میٹرک کے بغیر کوئی بھی کیس درج نہیں ہوسکے گا۔ فیصلے کے مطابق پنجاب بھر کی ماتحت عدالتوں میں اب کسی بھی قسم کا مقدمہ دائر کرنے کے لیے مدعی کی بائیو میٹرک تصدیق لازمی قرار دی گئی ہے۔
درخواست گزار کی تصویر بھی ویب کیمرے سے لی جائے گی تاکہ کسی اور کی جگہ مقدمہ دائر نہ ہو سکے۔
چیف جسٹس عالیہ نیلم نے یہ فیصلہ لاہور ہائیکورٹ کی انتظامی کمیٹی کی منظوری کے بعد کیا۔ اس سلسلے میں پنجاب کے تمام سیشن ججز کو باقاعدہ مراسلہ بھجوا دیا گیا ہے۔
مراسلے میں مقدمات دائر کرنے کے نئے ایس او پیز بھی جاری کر دیے گئے ہیں، جس کےمطابق اب درخواست گزار کو عدالت میں اسپیشل کاؤنٹر پر جا کر بائیو میٹرک تصدیق کروانا ہوگی۔
وائس چیئرمین پنجاب بار کونسل عرفان صادق تارڑ نے چیف جسٹس کے فیصلے کا خیرمقدم کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس اقدام سے جعلی اور بے بنیاد کیسز کی حوصلہ شکنی ہوگی۔
قانونی ماہرین کا خیال ہے کہ اس نظام سے عدالتی وقت اور وسائل کا ضیاع کم ہوگا اور انصاف کی فراہمی میں شفافیت بڑھے گی۔