Daily Ausaf:
2025-04-22@07:18:52 GMT

اپنی عظمت کا یقینی ادراک

اشاعت کی تاریخ: 15th, February 2025 GMT

سائنس دان متفق ہیں کہ ذہانت کے جینز اگلی نسلوں میں منتقل ہوتے ہیں۔ البتہ ان جینز کی منتقلی اگلی کونسی نسل یا کس فرد میں ہوتی ہے اس کے بارے میں سائنس دانوں کی اکثریت ابھی خاموش ہے۔ ممکن ہے اگلی چند دہائیوں میں سائنس دانوں کا احسن بچے (Perfect Babies) پیدا کرنے کا خواب پورا ہو جائے یعنی ایک جوڑا اپنی مرضی سے بیٹا یا بیٹی پیدا کر سکیں گے، ان کے بالوں اور جلد کے کالے یا گورے رنگ کا انتخاب کر سکیں گے، قد کا تعین کر سکیں گے اور یہاں تک کی ان جسامت کی دیگر ساختوں جیسا کہ آنکھوں کے رنگ کو بھی اپنی مرضی کے مطابق حاصل کر سکیں گے۔ لیکن بیالوجی کی شاخ جینیٹکس (Genetics) کے سائنس دانوں نے ابھی اتنی ترقی نہیں کی ہے کہ وہ یہ بھی بتا سکیں کہ ایسے بچے کتنے اور کس حد تک ذہین ہوں گے یا ان کا آئی کیو (IQ) لیول کتنا ہو گا؟
دنیا میں یہودیوں کو ایک ذہین قوم متصور کیا جاتا ہے۔ عظیم ترین سائنس دان آئین سٹائن بھی یہودی النسل تھا جس کی کچھ سائنسی پیش گوئیاں سو سال سے زیادہ عرصہ گزرنے کے بعد بھی سچ ثابت ہو رہی ہیں جن میں 3لاکھ میل فی سیکنڈ کی رفتار سے چلنے والی روشنی کا خلا میں خم کھانا شامل ہے۔ یہودی مائوں کے بارے مشہور ہے کہ جب وہ حاملہ ہوں تو ذہین بچے پیدا کرنےکے لیئے وہ خصوصی غذائیں کھاتی ہیں، کورسز کرتی ہیں اور خود اپنی تعلیم و تربیت پر بہت زیادہ توجہ دیتی ہیں لیکن ان کو بھی معلوم نہیں ہوتا ہے کہ ان سے پیدا ہونے والا بچہ کتنا ذہین ہو گا یا وہ ایک ناقص العقل اور سرے سے غبی و کندن ذہن ثابت کو گا۔ البتہ یہ ایک مصدقہ سائنسی حقیقت ہے کہ ذہین و فطین اور جینیس (Genius) بچوں کو اپنی ذہانت کا بدرجہ اتم ادراک ہوتا ہے جس کا اظہار وہ اس مقولے کے مصداق کہ، “ہونہار بروا کے چکنے چکنے پات” (Coming Events Cast Their Shadows Before) اپنے بچپن اور جوانی ہی میں کرنے لگتے ہیں۔ کہاجاتا ہےکہ ایک دفعہ البرٹ آئن سٹائن سنہ 1922 میں جاپان کے ایک ہوٹل میں داخل ہوئے اور ایک ویٹر اس کے کمرے میں اس کی خدمت کے لئے آیا، آئن سٹائن اسے ٹپ دینا چاہتے تھے، جب انہوں نے اپنی جیب میں ہاتھ ڈالا تو ان کے پاس ویٹر کو دینے کے لئے کوئی رقم نہیں تھی، چناںچہ آئن سٹائن نے کاغذ اور قلم نکالا اور اس کو جرمن زبان میں ایک جملہ لکھنے کے بعد دستخط کر کے دے دیا، اور اسے کہا کہ مجھے افسوس ہے کہ میرے پاس آپ کو دینے کے لئے اس وقت پیسے تو نہیں ہیں، مگر آپ یہ کاغذ کا ٹکڑا رکھ لو، ایک دن آئے گا جب اس کی فروخت بہت مہنگے داموں میں ہو گی۔ اہم اور دلچسپ بات یہ ہے کہ وہ ویٹر مر گیا اور کاغذ کا وہ ٹکڑا ویٹر کے بھتیجے کے پاس چلا گیا۔ ایک عرصہ گزرنے کے بعد آئن سٹائن کی سائنسی اہمیت و عظمت کے چرچے پوری دنیا میں ہونے لگے اور جب اس کاغذ کے ٹکڑے کی نیلامی ہوئی تو اس کی قیمت تیرہ لاکھ ڈالرز لگی۔
دنیا کے عظیم ترین سائنس دان آئن سٹائن کے ہاتھ سے لکھے اس کاغذ پر لکھا تھا کہ، “ایک پرسکون اور معمولی زندگی مسلسل بے چینی سے جڑی کامیابی کے حصول سے زیادہ خوشی لاتی ہے:” “A quiet and modest life brings more joy than a pursuit of success bound with constant unrest۔” آئن سٹائن کے اس مقولے کا اصطلاحی مفہوم یہ ہے کہ وقتی طور پر مشکلات میں گھرا مگر ذہنی طور پر پرسکون رہنے والا شخص ایک دن عظیم انسان بن کر دنیا کے چہرے پر ابھرتا ہے۔ بے شک مشکلات، تکلیفوں، پریشانیوں اور مصائب کے ستائے ہوئے شخص کے پاس وہ صلاحیتیں موجود ہوتی ہیں جو خوشحال لوگ چاہ کر بھی کبھی حاصل نہیں کر پاتے ہیں۔ ایسے لوگوں کا اخلاق اور کردار و سیرت لوگوں کے ساتھ معاملہ کرنے کا طریقہ عام لوگوں سے بہت اوپر ہوتا ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ بھرا ہوا برتن دنیا کے کام آئے مگر کبھی کبھی خالی برتن ہی دوسروں کی پیاس بجھاتے ہیں کیونکہ جو بظاہر دیکھنے میں خالی نظر آتے ہیں جب وہ بھرتے ہیں تو کبھی خالی ہونے کا نام نہیں لیتے ہیں۔
دنیا کے عظیم لوگوں کی اکثریت آج بھی محرومیوں میں پروان چڑھ رہی ہے۔ سائنس دانوں کو دیکھ لیں یا فوربز میں چھپنے والے دنیا کے 100 امیر ترین لوگوں کی زندگیوں کا مطالعہ کر لیں ان کی اکثریت محرومیوں اور غربت کا شکار تھی لیکن انہوں نے ہمت ہاری اور نہ ہی اپنے اندر پائی جانے والی صلاحیتوں اور عظمت کو اپنے اندر دفن ہونے دیا بلکہ وہ اپنے اندر کی اس عظمت کو اندر ہی اندر پروان چڑھاتے رہے، انہیں ہمیشہ اپنی اس عظمت کا ادراک رہا، انہوں نے مشکل حالات میں بھی اپنے ذہن پر کوئی دبائو محسوس نہیں کیا اور ان کو جونہی مناسب موقع ملا وہ دنیا میں ایک چمک دار ستارے کی مانند نمودار ہوئے۔
جب انسان کو اپنی عظمت کا شعور حاصل ہو تو وہ جیسے بھی مشکل حالات کا شکار ہو وہ ان سے نکل آتا ہے اور ایک دن ایسا ضرور آتا ہے جب وہ اپنا لوہا منوا کر رہتا ہے۔ آسائشوں میں پروان چڑھنے والے، اپنی خوبیوں اور صلاحیتوں کی پہچان کر کے ہی ترقی کی جا سکتی ہے۔ آسائشوں میں پروان چڑھے لوگ عموما سست اور کاہل ہوتے ہیں۔ حقیقی بڑے اور عظیم لوگ وہی ہوتے ہیں، جن کو اپنی عظمت اور صلاحیتوں کا مکمل ادراک ہوتا ہے اور جو ہر مشکل اور رکاوٹ کو عبور کر کے ابھرتے ہیں۔

.

ذریعہ: Daily Ausaf

کلیدی لفظ: کر سکیں گے آئن سٹائن ہوتا ہے دنیا کے

پڑھیں:

فلسطین: انسانیت دم توڑ رہی ہے

دنیا کے نقشے پر اگرکہیں ظلم کی سب سے بھیانک اور خوفناک تصویر نظر آتی ہے۔ زمین کے نقشے پر اگرکوئی خطہ سب سے زیادہ زخم خوردہ ہے، اگر کہیں مظلومیت روز جیتی ہے اور انسانیت روز مرتی ہے، اگرکہیں معصوم بچوں کے کٹے پھٹے جسم انسانی ضمیرکو جھنجھوڑتے ہیں اور پھر بھی دنیا کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی تو وہ فلسطین ہے۔

آج فلسطین صرف ایک سرزمین نہیں، بلکہ قیامت زدہ قبروں کا میدان ہے، جہاں بچوں کے جنازے روزانہ اٹھتے ہیں، جہاں عورتوں کی چیخیں دیواروں سے ٹکرا کر دم توڑ دیتی ہیں، جہاں ملبے تلے کچلی ہوئی زندگی کراہ رہی ہے اور جہاں پوری دنیا کی خاموشی انسانی تاریخ کے منہ پر ایک زوردار طمانچہ ہے۔

یہ صرف ایک قوم کا المیہ نہیں، بلکہ پوری امت مسلمہ کی غفلت، بے حسی اور زوال کی تصویر ہے۔ آج غزہ صرف ملبے کا ایک ڈھیر نہیں، بلکہ تاریخ انسانی کی سب سے تاریک داستانوں میں سے ایک ہے، جو ہر باشعور انسان سے سوال کر رہی ہے۔ ’’کیا تم واقعی انسان ہو؟ ‘‘

غزہ پر پچھلے ڈیڑھ سال سے جو قیامت ٹوٹی ہے، اس نے ظلم اور وحشت کی ساری حدیں پار کردی ہیں۔ اسرائیل نے غزہ کو صفحہ ہستی سے مٹانے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ آئے روز ہونے والے فضائی حملے، ٹینکوں کی گولہ باری، ڈرونز سے میزائل برسائے جانے اور زمین دوز بموں نے اس علاقے کو کسی کھنڈر میں بدل دیا ہے، جہاں زندگی باقی نہیں رہی، صرف موت کا راج ہے۔

غزہ کی گلیاں اب زندگی کی نہیں، موت کی تصویر ہیں۔ ہر طرف بکھری لاشیں، خون میں نہائے بچے، روتی بلکتی مائیں اورکھنڈرات میں چھپتے بے سہارا انسان، یہ سب کچھ ہمیں صرف ایک تصویر دکھاتے ہیں کہ انسانیت ہار چکی ہے۔

ہزاروں معصوم بچے جنھوں نے ابھی دنیا دیکھی بھی نہ تھی، دنیا چھوڑگئے۔ وہ بچے جو اسکول جانا چاہتے تھے،کتابوں سے دوستی کرنا چاہتے تھے، آج ان کی کتابیں خون میں لت پت ملبے تلے دبی پڑی ہیں۔ مائیں اپنے شیر خوار بچوں کے لاشے سینے سے لگائے بیٹھی ہیں اور دنیا کی بے حسی پر ماتم کر رہی ہیں۔ غزہ کے کئی علاقے مکمل طور پر نیست و نابود کردیے گئے ہیں۔

پورے محلے، بستیاں، سڑکیں، اسپتال، مساجد، اسکول اور یونیورسٹیاں ملبے کا ڈھیر بن چکے ہیں۔ لاکھوں افراد بے گھر ہو چکے ہیں۔ پینے کا صاف پانی ہے، نہ کھانے کو کچھ میسر، نہ دوا ہے، نہ علاج۔ بیمار مرتے ہیں، زخمی سسکتے ہیں اورکوئی مدد کو نہیں آتا۔

ظلم صرف غزہ میں نہیں ہو رہا، بلکہ فلسطین کے کئی علاقوں میں اسرائیلی فوجی گھروں میں گھس کر نہتے شہریوں کو مار رہے ہیں، نوجوانوں کو اغوا کیا جا رہا ہے، عورتوں کی بے حرمتی ہو رہی ہے اور مسجد اقصیٰ میں نمازیوں پر حملے معمول بن چکے ہیں۔

فلسطین پر ظلم کوئی نیا واقعہ نہیں۔ یہ ایک مسلسل کہانی ہے، جو پچھلی کئی دہائیوں سے جاری ہے۔ 1948 میں اسرائیل کے قیام کے وقت سے ہی فلسطینی قوم کو اپنی سرزمین سے بے دخل کیا گیا، ان کے گھروں پر قبضے کیے گئے، ان کی زمینیں چھینی گئیں اور ان کی نسل کو مٹانے کی کوشش کی گئی۔

کبھی ’’نقب‘‘ کیمپوں میں، کبھی ’’ صبرا و شتیلا‘‘ میں، کبھی ’’جنین‘‘ اور کبھی ’’غزہ‘‘ میں۔ ہر جگہ اسرائیل نے ظلم کی نئی تاریخ رقم کی، لیکن جو کچھ گزشتہ ڈیڑھ سال میں ہوا، وہ محض ظلم نہیں، بلکہ انسانیت کا جنازہ ہے۔ افسوس اس بات کا ہے کہ فلسطین جلتا رہا، معصوم بچے مرتے رہے، عورتیں چیختی رہیں، بوڑھے کراہتے رہے، مگر مسلم دنیا کے حکمران اپنی کرسیوں سے ہلنے کو تیار نہیں۔

او آئی سی، جو کہ اسلامی تعاون تنظیم کہلاتی ہے، صرف بیانات تک محدود رہی۔ عرب لیگ کے اجلاس منعقد ہوئے، لیکن ان اجلاسوں میں صرف قراردادیں منظور ہوئیں، جن کا زمین پر کوئی اثر نہ پڑا۔ کہیں سے نہ تجارتی بائیکاٹ ہوا، نہ سفارتی دباؤ، نہ اسرائیل کے خلاف عالمی عدالت میں مقدمات دائرکیے گئے۔

یہاں تک کہ مسلم دنیا اسرائیلی مصنوعات کے بائیکاٹ پر بھی متحد نہ ہو سکی۔ کیا یہ ہمارے ایمان کی کمزوری نہیں؟ کیا یہ ہمارے ضمیرکی موت نہیں؟جہاں مسلم حکمرانوں کی بے حسی شرمناک ہے، وہیں عالمی طاقتوں کا کردار اور بھی زیادہ مجرمانہ ہے۔ امریکا نے اسرائیل کو مہلک ہتھیار فراہم کیے، اس کی ہر ظلم کی پشت پناہی کی اور اقوام متحدہ میں فلسطینیوں کے حق میں آنے والی ہر قرارداد کو ویٹو کر کے یہ ثابت کر دیا کہ وہ انصاف کے نہیں، مفادات کے علمبردار ہیں۔

برطانیہ، جرمنی، فرانس جیسے ممالک جو انسانی حقوق کے علمبردار بنتے ہیں، وہ بھی اسرائیل کی صف میں کھڑے نظر آئے۔ اقوام متحدہ، جو امن و انصاف کا عالمی ادارہ کہلاتا ہے، فلسطین کے معاملے میں محض تشویش، افسوس اور فوری جنگ بندی کی اپیل جیسے کمزور الفاظ سے آگے نہ بڑھ سکا۔

یہ ادارہ اگر شام، لیبیا، یوکرین یا کسی اور مغربی مفادات سے جڑے ملک میں انسانی حقوق کی خلاف ورزی پر متحرک ہو سکتا ہے تو فلسطین کے معاملے میں اتنا بے بس کیوں ہے؟ کیا فلسطینی انسان نہیں؟ کیا ان کے خون کی قیمت کم ہے؟ یہ سب دیکھ کر دل چیخ اٹھتا ہے کہ کیا انسانیت واقعی مر چکی ہے؟ کیا اب دنیا صرف طاقتور کے حق کو تسلیم کرتی ہے؟ کیا اب معصوم بچوں کی لاشیں عالمی ضمیر کو جھنجھوڑنے کے لیے کافی نہیں رہیں؟

اس وقت پوری دنیا میں جو کچھ ہو رہا ہے، وہ ہمیں ایک عظیم سبق دے رہا ہے کہ صرف جذباتی تقریریں، روایتی احتجاج اور سوشل میڈیا پر ہیش ٹیگ چلانا کافی نہیں۔ اب وقت ہے کہ مسلم دنیا اپنے وسائل، اپنی طاقت، اپنی وحدت کو یکجا کرے۔

وہ ملت جو ڈیڑھ ارب سے زیادہ افراد پر مشتمل ہو، جس کے پاس بے پناہ دولت، افرادی قوت اور وسائل ہوں، وہ اگر متحد نہ ہو تو اس کا بہت بڑا جرم ہے۔ ہمیں سوچنا ہو گا کہ ہم نے فلسطینیوں کے لیے کیا کیا؟ ہم میں سے ہر فرد جواب دہ ہے۔

کیا ہم نے اسرائیلی مصنوعات کا بائیکاٹ کیا؟ کیا ہم نے اپنے حلقے میں شعور اجاگرکیا؟ کیا ہم نے مظلوموں کے لیے دعا بھی کی؟ کیا ہم نے ان کے حق میں آواز بلند کی؟ کیا ہم نے قلم اٹھایا؟ کیا ہم نے بچوں کو بتایا کہ فلسطین کیا ہے؟ اگر ہم نے اسرائیلی مصنوعات کا بائیکاٹ نہیں کیا، اگر ہم نے سوشل میڈیا پر فلسطینیوں کے حق میں آواز نہیں اٹھائی، اگر ہم نے اپنی اولاد کو فلسطین کی حقیقت نہیں بتائی تو ہم بھی مجرم ہیں۔

خاموشی بھی ظلم کا ساتھ دینا ہے اور ظلم کے سامنے خاموش رہنے والا بھی ظالم کے جرم میں شریک ہوتا ہے۔ آج فلسطین ملبے تلے صرف معصوم انسانوں کی لاشیں نہیں دفن ہو رہیں، بلکہ انسانیت کی روح بھی کچلی جا رہی ہے، اگر آج ہم نے آنکھیں بند رکھیں، زبانیں بند رکھیں، ہاتھ روک لیے اور ضمیر کو سلا دیا تو کل جب ہماری باری آئے گی تو کون ہمارے لیے بولے گا؟ کون ہمارا پرسان حال ہوگا؟ یہ وقت محض تماشائی بنے رہنے کا نہیں، عملی اقدامات کا ہے۔ یہ وقت بیدار ہونے کا ہے۔ آج ہم خاموش رہے تو کل تاریخ ہم پر بھی خاموشی کا پردہ ڈال دے گی۔ آج غزہ ختم ہو رہا ہے، کل بیت المقدس پر ہاتھ ڈالا جائے گا۔ ظلم کو آج نہ روکا گیا تو یہ کل ہم سب کو نگل لے گا۔

متعلقہ مضامین

  • یقینی بنانا چاہیے کہ ٹیکنالوجی انسانوں اور کرہ ارض کے لیے مثبت کردار ادا کرے، احسن اقبال
  • پاکستان سمیت دنیا بھر میں آج ’ارتھ ڈے‘ منایا جا رہا ہے
  • لاہور: پنجاب فرانزک سائنس ایجنسی سے فرانزک ہونے والے اسلحے کی چوری کا انکشاف ، ملازم ہی ملوث نکلا
  • عماد عرفانی کی گلوکار علی عظمت کو دلچسپ انداز میں سالگرہ کی مبارکباد
  • بچوں کے روشن مستقبل کو ہر قیمت پر یقینی بنایا جائیگا :  پولیو کے مکمل خاتمہ تک چین سے نہیں بیٹھیں گے : وزیراعظم : لاہور سے باکو پیآئی اے کی براہ ست پر وازوں کا آگاز سفارتی فتح قرار
  • مریم نواز کی گندم خریداری کیلئے الیکٹرونک ویئر ہاؤس ریسیٹ نظام کی منظوری
  • پوپ فرانسس… ایک درد مند انسان
  • دنیا کا خطرناک ترین قاتل گانا، جس کو سن کر مرنے والوں کی تعداد تقریباً 100 رپورٹ ہوئی
  • فلسطین: انسانیت دم توڑ رہی ہے
  • سوشل میڈیا کی ڈگڈگی