افغان طالبان اور ٹی ٹی پی گٹھ جوڑ، خطرات اور مضمرات
اشاعت کی تاریخ: 15th, February 2025 GMT
اسلام ٹائمز: نجی ٹی وی کے مطابق رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ ٹی ٹی پی رہنما نور ولی مسعود کے اہل خانہ کو افغان طالبان سے ہر ماہ تقریباً 43 ہزار ڈالر ملتے ہیں، جو دہشت گرد گروپ کے لیے اہم سطح کی مالی معاونت کی عکاسی کرتا ہے۔ ترتیب و تنظیم: علی احمدی
اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ پاکستان کی جانب سے کالعدم تحریک طالبان پاکستان کی حمایت بند کروانے کے لئے دباؤ کے باوجود افغان طالبان کی مسلسل حمایت پاکستان میں اس گروپ کے بڑھتے ہوئے حملوں میں اضافے کا باعث بن رہی ہے۔ نجی ٹی وی کے مطابق یہ بات اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں پیش کی گئی تجزیاتی معاونت اور تعزیرات کی نگرانی کرنے والی ٹیم کی 35 ویں رپورٹ میں کہی گئی۔ تجزیاتی معاونت اور تعزیرات کی نگرانی کرنے والی ٹیم اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی جانب سے قائم کردہ آزاد ماہرین کا ایک پینل ہے جو القاعدہ، داعش خراسان اور اس سے وابستہ گروہوں سے تعلق رکھنے والے افراد اور اداروں کے خلاف پابندیوں کے نفاذ میں مدد فراہم کرتا ہے۔
فنشل، لاجسٹک اور آپریشنل اسپورٹ:
ٹیم بین الاقوامی پالیسی اور سلامتی کی حکمت عملی تشکیل دینے کے لیے ان تنظیموں کی طرف سے درپیش خطرے کے منظرنامے کا جائزہ لینے کے لیے 2 سالانہ رپورٹ پیش کرتی ہے۔ یکم جولائی سے 13 دسمبر 2024 تک کی مدت کا احاطہ کرنے والی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ افغانستان میں ٹی ٹی پی کی حیثیت اور طاقت میں کوئی کمی نہیں آئی ہے، جب کہ اس گروپ نے پاکستان پر اپنے حملوں میں اضافہ کیا، 600 سے زائد حملے کیے، جن میں سے زیادہ تر افغان علاقے سے کیے گئے۔ بیان میں اس بات پر زور دیا گیا کہ افغان طالبان کالعدم ٹی ٹی پی کو لاجسٹک اور آپریشنل امداد، تربیتی مراکز، پناہ گاہیں اور مالی مدد فراہم کرتے رہے، جس سے گروپ کی اپنی سرگرمیوں کو برقرار رکھنے کی صلاحیت میں اضافہ ہوا۔
رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ ٹی ٹی پی رہنما نور ولی مسعود کے اہل خانہ کو افغان طالبان سے ہر ماہ تقریباً 43 ہزار ڈالر ملتے ہیں، جو دہشت گرد گروپ کے لیے اہم سطح کی مالی معاونت کی عکاسی کرتا ہے۔ ٹی ٹی پی نے کنڑ، ننگرہار، خوست اور پکتیکا (برمل) صوبوں میں نئے تربیتی مراکز بھی قائم کیے ہیں، جب کہ افغان طالبان کی صفوں کے اندر سے بھرتیوں میں اضافہ کیا ہے۔ اس توسیع کی وجہ ٹی ٹی پی افغانستان میں قائم ہونیوالی اور آپریٹ کرنیوالی سب سے بڑے درجے کی دہشت گرد تنظیم بن چکی ہے، جس میں ایک اندازے کے مطابق 6،000 سے 6،500 جنگجو ہیں۔ اس گروپ کا بڑھتا ہوا اثر و رسوخ افغان طالبان کے ٹی ٹی پی کے ساتھ مسلسل نظریاتی اور تاریخی تعلقات سے جڑا ہوا ہے۔
بڑھتے ہوئے حملوں کیوجہ سے پاکستان نے فوجی کارروائیوں کو تیز کر دیا ہے، جس میں افغان سرحد کے پار، خاص طور پر پکتیکا اور خوست میں ٹی ٹی پی کے ٹھکانوں کو بھی نشانہ بنایا گیا ہے۔ ان فوجی اقدامات میں سرحد پار چھاپے اور جوابی حملے بھی شامل ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ پاکستان نے سفارتی روابط کو آگے بڑھایا اور افغان طالبان پر زور دینے کے لیے کابل میں وفود بھیجے کہ وہ ٹی ٹی پی کی پناہ گاہوں کے خلاف کارروائی کریں۔ تاہم، افغان حکام فیصلہ کن اقدامات کے بجائے ثالثی کی تجویز پیش کرنے سے گریزاں رہے، جس کی وجہ سے سفارتی تعطل پیدا ہوا۔ اقوام متحدہ کی رپورٹ میں ان پیش رفتوں کی تصدیق کی گئی ہے۔
تحریک جہاد پاکستان، دہشت گردوں کا مشترکہ پلیٹ فارم:
رپورٹ میں اس بات پر روشنی ڈالی گئی ہے کہ افغان طالبان کی حمایت نے ٹی ٹی پی کو پاکستان کے خلاف اپنی جارحانہ حکمت عملی کو تیز کرنے کے قابل بنایا ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان پر (ٹی ٹی پی) کے حملوں کی تعداد اور عزم میں نمایاں اضافہ ہوا تھا۔ القاعدہ برصغیر (اے کیو آئی ایس) اور دیگر دہشت گرد گروہوں کے ساتھ تعاون میں اضافے سے ٹی ٹی پی کی آپریشنل صلاحیتوں کو مزید تقویت ملی ہے۔ رپورٹ میں نشاندہی کی گئی ہے کہ یہ تنظیمیں تحریک جہاد پاکستان (ٹی جے پی) کے جھنڈے تلے حملے کر رہی ہیں۔ رپورٹ میں متنبہ کیا گیا ہے کہ ان دہشت گرد گروہوں کے درمیان تعاون میں اضافہ ہوا ہے، جس میں خودکش بمباروں اور جنگجوؤں اور نظریاتی رہنمائی کی فراہمی شامل ہے۔
رپورٹ کے مطابق یہ افغان تعاون کالعدم ٹی ٹی پی کو دوسرے خطوں اور ممکنہ طور پر جنوبی ایشیا میں سرگرم دیگر دہشت گرد گروہوں کے لیے ایک چھتری فراہم کرنیوالی تنظیم میں تبدیل کر سکتا ہے۔ رپورٹ کے مطابق کالعدم بلوچستان لبریشن آرمی (بی ایل اے) نے اپنے مجید بریگیڈ کے ذریعے آواران، پنجگور اور دالبندین سمیت جنوب مغربی پاکستان میں متعدد بڑے حملے کیے، قابل ذکر بات یہ ہے کہ مجید بریگیڈ نے خواتین کو اپنی صفوں میں شامل کیا ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ مجید بریگیڈ کے کالعدم ٹی ٹی پی، داعش خراسان اور ای ٹی آئی ایم/ ٹی آئی پی کے ساتھ رابطے ہیں، اور یہ عناصر افغانستان میں اپنے آپریشنل مراکز اور روابط کے ذریعے بی ایل اے سمیت ان گروہوں کے ساتھ تعاون کرتے ہیں۔
روایتی طور پر نسلی قوم پرست مقاصد کی پیروی کرنے والے بی ایل اے اور ٹی ٹی پی جیسے مذہبی دہشت گرد گروہوں کے درمیان یہ ابھرتا ہوا گٹھ جوڑ مفادات کے تزویراتی ہم آہنگی کی نشاندہی کرتا ہے۔ رپورٹ کے مطابق پاکستانی سکیورٹی فورسز نے پاکستان میں اپنا نیٹ ورک قائم کرنے کی داعش خراسان کی کوششوں کو ایک بڑا دھچکا قرار دیتے ہوئے 3 ہائی پروفائل کارندوں کو گرفتار کیا۔ اس سے قبل ان کی گرفتاری کا اعلان پاکستانی سیکیورٹی فورسز کی جانب سے نہیں کیا گیا تھا، جو ان کی انسداد دہشت گردی کی کارروائیوں کی باقاعدگی سے تشہیر کرتی ہیں۔
ہائی پروفائل دہشت گردوں کی نشاندہی:
رپورٹ میں پنج شیری کو داعش خراسان کے لیے ٹریول اینڈ لاجسٹکس کا کوآرڈینیٹر بتایا گیا ہے، جب کہ منزیر نے وسطی ایشیا میں بھرتی نیٹ ورکس کا انتظام کیا، کاکا یونس کی شناخت دہشت گردی کی سرگرمیوں کے ایک اہم مالی اعانت کار کے طور پر کی گئی تھی۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ان گرفتاریوں کے باوجود طارق تاجک، جسے کرمان حملے کا ماسٹر مائنڈ سمجھا جاتا ہے، افغانستان میں مفرور ہے۔ رپورٹ کے مطابق، داعش خراسان نے نشاندہی سے بچنے اور مزید گرفتاریوں کو کم سے کم کرنے کے لیے ہدایات جاری کیں اور اجلاسوں کے انعقاد کے لیے الیکٹرانک مواصلات سے دوری اور احتیاط کی پالیسی اپنائی ہے۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: دہشت گرد گروہوں کے رپورٹ کے مطابق اقوام متحدہ کی افغانستان میں کیا گیا ہے کہ افغان طالبان رپورٹ میں ان میں اضافہ کہ افغان ٹی ٹی پی کے ساتھ کرتا ہے کے لیے کی گئی
پڑھیں:
پاکستان اور افغانستان: تاریخ، تضاد اور تعلقات کی نئی کروٹ
پاکستان اور افغانستان، دو ہمسائے جنہیں فطرت نے جوڑا، مگر تاریخ اور سیاست نے اکثر جدا رکھا۔ یہ محض دو ممالک نہیں، بلکہ دو تہذیبوں، دو قوموں، دو مشترکہ دکھوں کی داستان ہے۔ ایک وہ، جو کبھی دروازہ کھول کر مہمان نوازی کرتا رہا؛ دوسرا وہ، جو ہر بار بدلتے نظام میں خود کو محفوظ رکھنے کے لیے دوسروں پر شک کرتا رہا۔ مگر اب وقت آ چکا ہے کہ ہم ان تعلقات کو نئی آنکھ سے دیکھیں،ایک ایسی نگاہ جو صرف ماضی کی گرد نہ دیکھے، بلکہ مستقبل کی روشنی تلاش کرے۔
برصغیر کی تقسیم کے بعد پاکستان جب ایک آزاد ریاست کے طور پر ابھرا، تو افغانستان واحد ملک تھا جس نے اقوامِ متحدہ میں اس کی رکنیت کی مخالفت کی۔ مخالفت کی بنیاد ڈیورنڈ لائن تھی، وہ تاریخی لکیر جو 1893 میں برطانوی ہند اور افغان امارت کے درمیان کھینچی گئی، اور جو آج بھی پاکستان کی مشرقی سرحدوں پر ایک سیاسی ارتعاش بن کر موجود ہے۔ پاکستان اسے بین الاقوامی قانون کی روشنی میں تسلیم شدہ سرحد سمجھتا ہے، جبکہ افغانستان کی بیشتر حکومتیں، اور اب طالبان قیادت بھی، اسے ایک استعماری زخم تصور کرتی ہیں۔
پاکستانی مؤقف واضح اور قانونی بنیاد پر قائم ہے۔ اقوام متحدہ سمیت بیشتر عالمی ادارے ڈیورنڈ لائن کو ایک جائز سرحد مانتے ہیں۔ مگر افغانستان کی پشتون قوم پرستانہ سوچ، اور ‘پشتونستان’ کے خواب نے ان تعلقات میں بداعتمادی کا وہ بیج بویا، جو نصف صدی بعد بھی لہلہا رہا ہے۔ پاکستان کے قبائلی علاقوں میں قوم پرست تحریکوں کی پشت پناہی، سردار داؤد خان کی حکومت کے دوران بلوچ مزاحمت کاروں کو تربیت دینے جیسے اقدامات، کابل کی مداخلت پسندی کی روشن مثالیں ہیں۔
مزید پڑھیں: پاکستان اور افغانستان کا کابل ملاقات میں ہونے والے فیصلوں پر جلد عملدرآمد پر اتفاق
1979 سے 1989 تک سوویت یلغار کے خلاف جنگ میں پاکستان نے جو کردار ادا کیا، وہ محض اسٹریٹجک ڈیپتھ کا مظہر نہیں بلکہ ایک قومی قربانی کا باب ہے۔ تین ملین سے زائد افغان مہاجرین کو پناہ دینا، ہزاروں مدارس میں تعلیم وقیام، یہ وہ بوجھ ہے جس کی قیمت آج بھی پاکستان چکا رہا ہے۔ 2001 کے بعد، جب طالبان کو اقتدار سے ہٹا کر کرزئی اور اشرف غنی کی حکومتیں لائی گئیں، تو توقع تھی کہ کابل پاکستان کا شکر گزار ہو گا۔ مگر اس کے برعکس، وہی کابل اسلام آباد کو خطے میں خرابی کی جڑ سمجھنے لگا۔
پاکستان پر الزام لگایا گیا کہ وہ طالبان کی پناہ گاہ ہے، افغانستان میں عدم استحکام کی وجہ پاکستان کو قرار دیا گیا، جبکہ بھارت کی موجودگی اور افغانستان کی داخلی بدانتظامی کو نظرانداز کیا گیا۔ پاکستان نہ صرف دہشتگردی کے خلاف جنگ کا ہراول دستہ رہا، بلکہ 80 ہزار سے زائد قربانیاں دے کر، 150 ارب ڈالر سے زائد کا معاشی نقصان سہہ کر، خود دہشتگردی کا سب سے بڑا شکار بنا۔ یہ وہ حقائق ہیں جن پر عالمی برادری اکثر خاموش رہی، اور افغانستان نے مسلسل الزام تراشی کی روش اپنائی۔
2021 میں طالبان کی واپسی ایک موقع تھا کہ پاکستان اور افغانستان تعلقات میں نئی جہت پیدا کریں۔ مگر افسوس، طالبان نے ڈیورنڈ لائن کو سرحد ماننے سے انکار کیا، اور تحریک طالبان پاکستان (TTP) کے ساتھ اپنی قربت کو کم کرنے سے گریز کیا۔ 2022 کے بعد پاکستان میں دہشتگردانہ حملوں میں جو اضافہ ہوا، اُس کے واضح سراغ افغان سرزمین کی طرف جاتے ہیں۔
مزید پڑھیں: افغان مہاجرین کی باعزت واپسی، اپنی سرزمین ایک دوسرے کیخلاف استعمال نہیں ہونے دینگے، پاکستان افغانستان کا اتفاق
افغان مہاجرین کے حوالے سے پاکستان پر جو الزامات لگائے جاتے ہیں، ان کا بھی ایک تناظر ہے۔ پاکستان اس وقت بھی 30 لاکھ کے قریب افغان مہاجرین کا میزبان ہے، جن میں لاکھوں بغیر کاغذات کے مقیم ہیں۔ پاکستان کی سیکیورٹی ایجنسیوں نے بارہا یہ نشاندہی کی ہے کہ ٹی ٹی پی اور دیگر گروہ انہی مہاجر کیمپوں میں پناہ لیتے ہیں۔ اس پس منظر میں اگر پاکستان ایک واضح پالیسی کے تحت مہاجرین کی واپسی کا عمل شروع کرتا ہے، تو اسے سیاسی انتقام قرار دینا انصاف نہیں۔
تجارتی سطح پر بھی دونوں ممالک کے درمیان متعدد پیچیدہ مسائل موجود ہیں۔ 2010 میں طے پانے والا افغانستان-پاکستان راہداری تجارت معاہدہ (APTTA) بظاہر دوطرفہ اقتصادی تعاون کا ایک اہم سنگِ میل تھا، جس کے تحت افغان تاجروں کو کراچی اور گوادر کی بندرگاہوں کے ذریعے اپنی اشیاء عالمی منڈیوں تک پہنچانے کی سہولت دی گئی۔ تاہم، اس جیسے معاہدوں کی بارہا خلاف ورزی، واہگہ کے راستے بھارت تک رسائی کا تنازع، اور سرحدی چوکیوں پر کرپشن اور بدسلوکی کے الزامات ،یہ تمام ایسے امور ہیں جنہیں افغان فریق اپنی جائز شکایات کے طور پر پیش کرتا ہے۔ پاکستان کا مؤقف ہے کہ بھارت سے افغان تجارت کو بعض اوقات ایک اسٹریٹیجک دباؤ کے آلے کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے، جو پاکستان کے قومی سلامتی واقتصادی مفادات سے متصادم ہو سکتا ہے۔
پانی کا تنازع ایک خاموش مگر شدید حساس معاملہ ہے۔ کابل دریا پاکستان کے لیے آبی زندگی کی حیثیت رکھتا ہے۔ افغانستان کی جانب سے ڈیم سازی اور پانی کے بہاؤ کو محدود کرنے کی کوششوں کو اگر بروقت نہ روکا گیا، تو یہ تنازع آئندہ دہائیوں میں ایک نیا سنگین بحران بن سکتا ہے۔ پاکستان دہائیوں سے اس موضوع پر مذاکرات کی اپیل کر رہا ہے، مگر کابل کی جانب سے سنجیدگی کی کمی رہی ہے۔
مزید پڑھیں: اسٹیک ہولڈرز کو اعتماد میں لیے بغیر افغانستان سے بات چیت سود مند نہیں ہوگی، بیرسٹر سیف
اس سب کے باوجود، امید کی کچھ کرنیں باقی ہیں۔ 2024 میں دونوں ممالک کے درمیان تجارت میں 84 فیصد اضافہ ہوا۔ اگر یہی رجحان برقرار رہا، تو یہ معاشی تعاون دوطرفہ اعتماد سازی میں اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔ دونوں فریقوں نے سرحدی روابط کو بہتر بنانے، اور مشترکہ تجارتی انتظامات پر بات چیت کا عندیہ دیا ہے۔
حل کیا ہے؟پہلا قدم: ایک مستقل، فعال، اور بااختیار پاک-افغان رابطہ کمیٹی کا قیام، جو صرف بحران کے وقت نہیں بلکہ مسلسل رابطے میں رہے۔
دوسرا قدم: عوامی سطح پر ثقافتی اور علمی تبادلے، جن میں نوجوان، اساتذہ، اور علما شامل ہوں۔
تیسرا قدم: دہشت گردی کے خلاف مشترکہ انٹیلیجنس اور آپریشنل تعاون، جس میں طالبان کو بھی اپنے وعدے پورے کرنا ہوں گے۔
چوتھا قدم: افغان مہاجرین کی باعزت واپسی کے لیے ایک بین الاقوامی فریم ورک۔
پانچواں قدم: کابل دریا پر ایک باقاعدہ آبی معاہدہ، جس میں دونوں فریق کی ضروریات اور خدشات شامل ہوں۔
مزید پڑھیں: اسحاق ڈار کا پہلا دورہ افغانستان، اہم کیا ہے؟
پاکستان اور افغانستان کو اس حقیقت کا ادراک ہونا چاہیے کہ وہ ایک دوسرے کے ہمسائے ہی نہیں، بلکہ جغرافیائی تقدیر کا حصہ ہیں۔ دشمنی یا بداعتمادی کا تسلسل نہ صرف دونوں قوموں کو نقصان پہنچائے گا، بلکہ پورے خطے میں ترقی اور امن کی راہ روک دے گا۔ پاکستان کی ریاست، افواج اور عوام نے بارہا ثابت کیا ہے کہ ہم امن کے خواہاں ہیں لیکن اس امن کی قیمت قومی سلامتی پر سودے بازی نہیں ہو سکتی۔
اب فیصلہ کابل کو کرنا ہے، وہ پاکستان کے ساتھ ایک باعزت تعلق چاہتا ہے یا مسلسل بداعتمادی کا اسیر رہنا چاہتا ہے۔ تاریخ نے ہر اُس قوم کو یاد رکھا ہے جس نے تعلقات کو عزت، وقار اور حقیقت پسندی کی بنیاد پر استوار کیا۔ اب وقت ہے کہ افغانستان بھی یہی انتخاب کرے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
اسلام اباد افغانستان بھارت پاکستان ٹی ٹی پی ڈیورنڈ لائین طالبان کابل