بھارتی فضائیہ مودی کی کرپٹ پالیسیوں کی نذر
اشاعت کی تاریخ: 15th, February 2025 GMT
وزیراعظم نریندر مودی کی کرپشن سے جہاں بھارت کے متعدد اہم شعبے متاثر ہوئے وہاں بھارتی فضائیہ بھی بدنام ہوچکی ہے۔
بھارت کی فضائی طاقت اور ہوائی دفاع کے لئے ہندوستان ایروناٹٰیکل لمیٹڈ (ایچ اے ایل) نہایت اہمیت کا حامل ہے۔ حال ہی میں بھارتی فضائی کے چیف ائیر مارشل اے پی سنگھ کے بیان کے بعد ہندوستان ایروناٹکس لمیٹڈ کی عالمی سطح پر جگ ہنسائی ہوئی۔ بھارتی فضائیہ کے چیف ایئر مارشل اے پی سنگھ نے ایرو انڈیا میں ایچ اے ایل کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا۔
بھارتی فضائیہ کمپنی کو آڑے ہاتھوں لیتے ہوئے ایئر چیف مارشل سنگھ کا کہنا تھا کہا کہ وہ اب اس کمپنی پر اعتماد نہیں کرتے۔ ایم کے 1 اے کی فراہمی میں تاخیر پر ایئر چیف نے شدید برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ایک بھی طیارہ مقررہ تاریخ تک تیار نہیں ہو سکا کیونکہ اس کی مینوفیکچرنگ حکومت کی جانب سے تاخیر کا شکار ہے۔
بھارتی ائیر چیف مارشل کا مزید کہنا تھا کہ مجھے کسی فرد کی نہیں بلکہ پورے نظام کی ناکامی کا سامنا ہے۔ میرے لئے مسلسل ان ناکامیوں کا سامنا کرنا ناممکن ہوگیا ہے کیونکہ یہ حکومت کے دفاعی منصوبوں پر سوالیہ نشان بن چکا ہے۔
ذرائع کے مطابق بھارتی طیاروں کی مینوفیکچرنگ میں ناقص مواد استعمال کیا جاتا ہے جو بعد میں حادثات کا سبب بنتا ہے۔ مودی سرکار بھارتی فضائیہ کی ضروریات کو پورا کرنے میں بری طرح ناکامی ہو چکی ہے جس سے دفاعی صنعت کو بھاری نقصان اٹھانا پڑ رہا ہے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: بھارتی فضائیہ
پڑھیں:
"پیکس سیلیکا" میں بھارت کی غیر شمولیت مودی حکومت کی سفارتی ناکامی ہے، کانگریس
کانگریس لیڈر نے نشاندہی کی کہ 10 مئی 2025ء کے بعد سے سابق امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ اور وزیر اعظم نریندر مودی کے تعلقات میں واضح بگاڑ آیا ہے، جسکے اثرات اب کھل کر سامنے آرہے ہیں۔ اسلام ٹائمز۔ کانگریس کے سینیئر لیڈر جے رام رمیش نے امریکہ کی قیادت میں قائم ہونے والے ہائی ٹیک سپلائی چین اتحاد "پیکس سیلیکا" سے ہندوستان کو باہر رکھے جانے پر سخت ردعمل ظاہر کیا ہے۔ انہوں نے اس پیشرفت کو مودی حکومت کی خارجہ پالیسی کی سنگین ناکامی قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ فیصلہ بدلتے عالمی اسٹریٹجک منظرنامے میں ہندوستان کی کمزور ہوتی پوزیشن کو ظاہر کرتا ہے۔ جے رام رمیش نے کہا کہ امریکہ نے چین کے ہائی ٹیک غلبے کو کم کرنے کے مقصد سے جو نو ملکی اتحاد تشکیل دیا ہے، اس میں جاپان، جنوبی کوریا، سنگاپور، نیدرلینڈز، برطانیہ، اسرائیل، متحدہ عرب امارات اور آسٹریلیا جیسے ممالک کو شامل کیا گیا مگر ہندوستان کو نظرانداز کر دیا گیا۔ ان کے مطابق یہ محض اتفاق نہیں بلکہ حالیہ مہینوں میں ہند-امریکہ تعلقات میں آئی سرد مہری کا نتیجہ ہے۔
کانگریس لیڈر نے نشاندہی کی کہ 10 مئی 2025ء کے بعد سے سابق امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ اور وزیر اعظم نریندر مودی کے تعلقات میں واضح بگاڑ آیا ہے، جس کے اثرات اب کھل کر سامنے آ رہے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ جس دوستی کو کبھی بڑے جلسوں، گلے ملنے اور تصویری علامتوں کے ذریعے عالمی سطح پر پیش کیا گیا، وہ اب عملی سفارت کاری میں کوئی فائدہ نہیں دے پا رہی۔ جے رام رمیش نے طنزیہ انداز میں کہا کہ ایک طرف وزیر اعظم امریکہ کے صدر سے فون پر بات چیت کو غیر معمولی کامیابی کے طور پر پیش کر رہے ہیں، اور دوسری طرف ہندوستان کو ایک ایسے اسٹریٹجک اتحاد سے باہر رکھا جا رہا ہے جو مستقبل کی ٹیکنالوجی اور عالمی سپلائی چین کی سمت طے کرے گا۔
انہوں نے زور دیا کہ اگر ہندوستان اس اتحاد کا حصہ ہوتا تو اسے سیمی کنڈکٹرز، جدید مینوفیکچرنگ، تحقیق و ترقی اور ہائی ٹیک سرمایہ کاری کے میدان میں براہِ راست فائدہ پہنچ سکتا تھا۔ انہوں نے کہا کہ مودی حکومت کے بلند بانگ دعووں کے باوجود ہندوستان کو اس اہم فورم پر جگہ نہ ملنا اس بات کا ثبوت ہے کہ خارجہ پالیسی صرف تشہیر سے نہیں، سنجیدہ اور مستقل سفارتی حکمتِ عملی سے چلتی ہے۔ جے رام رمیش نے سوال اٹھایا کہ آیا حکومت اس موقع کے ضائع ہونے کی ذمہ داری قبول کرے گی یا حسبِ معمول خاموشی اختیار کی جائے گی۔ انہوں نے کہا کہ "پیکس سیلیکا" سے ہندوستان کی غیر شمولیت آنے والے برسوں میں ملک کے اسٹریٹجک اور معاشی مفادات پر منفی اثر ڈال سکتی ہے۔