Nai Baat:
2025-12-13@23:18:58 GMT

میٹھے جھوٹ اور کڑوے سچ

اشاعت کی تاریخ: 15th, February 2025 GMT

میٹھے جھوٹ اور کڑوے سچ

گزشتہ روز اپنے آپ آرمی چیف حافظ عاصم منیر نے وزیراعظم ہاوس میں ترک صدر رجب طیب اردوان کے اعزاز میں دئیے جانے والے ایک ظہرانے میں صحافیوں سے غیررسمی بات چیت کرتے ہوئے ایک سوال کے جواب میں حکم دیا ہے”انہیں کوئی خط نہیں ملا ، خط کی باتیں محض چالیں ہیں ، اگر کوئی خط ملا وہ اسے وزیراعظم کو بھجوا دیں گے“ ، ممکن ہے وہ یہ خط وزیراعظم کو بھجوائیں وزیراعظم وہ خط لے کر ان کی خدمت میں حاضر ہو جائیں اور عرض کریں”سر آپ کو ملنے والا خط بھلا ہم پڑھنے کی جرات کیسے کر سکتے ہیں ؟ اس خط میں کچھ ایسی باتیں بھی تو ہو سکتی ہیں جو ہمارے پڑھنے والی نہ ہوں صرف آپ کے پڑھنے والی ہوں چنانچہ بہتر ہے یہ خط آپ ہی پڑھیں البتہ یہ خط پڑھنے کے بعد اگر آپ نے اسے ردی کی ٹوکری میں پھینکنا چاہیں اس کام کے لئے پھر مجھے بلا لیجئے گا“ ، محترم آرمی چیف نے وزیراعظم ہاوس میں ترکی کے صدر کے ظہرانے میں صحافیوں سے غیر رسمی گفتگو میں صرف خط کے نہ ملنے کا کہا ، وہ اگر یہ فرما دیتے ”انہیں معلوم ہی نہیں خط ہوتا کیا ہے ؟“ ان کے اس حکم پر بھی اس حکم کی طرح آنکھیں و دیگر اعضاءوغیرہ بند کر کے ہم نے یقین کر لینا تھا کہ” ہمارا سیاست سے کوئی لینا دینا نہیں ہے“ ، محترم آرمی چیف نے یہ بھی فرمایا ”ملک تیزی سے ترقی کر رہاہے، ہم بہت اچھے انداز میں آگے بڑھ رہے ہیں“ ،ہم ان کے اس”حکم“ کی بھی آنکھیں بند کر کے تعمیل کر لیں گے کیونکہ اگر ہم نے آنکھیں کھول کر تعمیل کی پھر وہ ترقی ہمیں سوائے وزیراعظم ہاوس ، وزیراعظم کے سرپرست اعلیٰ ہاوس یا سوائے پارلیمنٹ کے کہیں دکھائی نہیں دینی ، پارلیمنٹ کی ترقی کا اس سے بڑھ کر ثبوت کیا ہوسکتا ہے کہ ارکان پارلیمنٹ کی تنخواہوں میں ڈیڑھ سو فی صد تک اضافہ کر دیا گیا ہے ، اس کے بعد کون یہ کہہ سکتا ہے”پاکستان میں پارلیمنٹ کی کوئی توقیر نہیں ہے ؟“ ، خوشگوار پہلو یہ ہے ہمارے محترم آرمی چیف نے بہت عرصے بعد صحافیوں کا سامنا کیا ، وہ چاہتے کنی کترا کے نکل بھی سکتے تھے مگر انہیں چونکہ معلوم ھے ہماری صحافت کم از کم ان کے حوالے سے مکمل طور پر ایک تابعدار اور ”اچھی بچی“ بن چکی ہے چنانچہ انہوں نے صحافیوں سے غیر رسمی گفتگو کرنے میں کوئی جھجک محسوس نہیں کی ، جہاں تک ملکی ترقی کا معاملہ ہے اس کی ابتدائی صورت صرف ایک ہی ہو سکتی ہے کہ تمام ادارے اپنی آئینی حدود میں واپس جا کر اپنا اعتماد اور اپنی عزت آبرو بحال کریں ، جب تک یہ نہیں ہوگا ملکی ترقی صرف زبانی کلامی ہی ہوگی جو کہ زبانی کلامی بڑی تیزی سے ہو بھی رہی ہے ، تحریک انصاف کے بانی عمران خان جو خط ہوا میں آرمی چیف کو لکھ رہے ہیں ان میں کہی یا لکھی جانے والی بہت سی باتیں غلط ہوں گی کہ خط لکھنے والا کون سا فرشتہ ہے اس کی ہر بات درست ہو، اپنے پونے چار سالہ اقتدار میں ایک کارنامہ ملک کی حقیقی ترقی کے لئے اس نے ایسا نہیں کیا جس کی بنیاد پر آج اس کے ہر جھوٹ کو سچ تسلیم کر لیا جائے ، اس کے ہر جھوٹ کو سچ تسلیم کئے جانے کی واحد وجہ موجودہ حکمرانوں اور ان کے تابع سسٹم سے عوام کی نفرت ہے ، جو میرے خیال میں شاید ہی اب ختم یا کم ہوگی ، یہ نفرت صرف ایک ہی صورت میں ختم ہوسکتی ہے اگر اس ملک کے طاقتور پہلے سے برے اپنے دل کو تھوڑا اور برا کر کے ایک بار عوام کے مینڈیٹ کو تسلیم کر لیں اور اقتدار اس شخص کے سپرد کر دیں جو جنرل باجوے کی مہربانی سے زیرو سے ہیرو بلکہ اب تو”دیوتا“ بن گیا ہے ، مجھے یقین ہے دوبارہ اقتدار میں آکر اپنے لئے پھر اسی نفرت کا وہ اہتمام کر لے گا جو اپنے پونے چار سالہ اقتدار میں اس نے کر لیا تھا ، جنرل باجوے کی پے در پے غلطیوں نے عمران خان کا جو فائدہ اور ملک کا جو نقصان کیا اس کا ازالہ شاید ہی اب ہوگا ، دوسری طرف کوئی ایک آدھ بات واقعی اس کی درست ہے اور اپنی ذاتی انا کی قربانی دے کر وہ بات م±لکی ترقی میں واقعی تیزی لا سکتی ہے اس پر غور ضرور فرما لینا چاہئے ، ابھی جو حالات بنے ہوئے ہیں ، خصوصاً اداروں کی بے توقیری اور بدحالی سے لوگوں کے دلوں میں جو نفرت پیدا ہو رہی ہے ، عوام کی خواہشات اور فیصلوں کو طاقت کے زور پر جس طرح مسلسل کچلا جا رہا ہے اس کے نتیجے میں حقیقی معنوں میں کوئی ترقی ہوئی بھی اسے ایڑی چوٹی و دیگر اعضاءکا زور لگا کر بھی کوئی قبولیت نہیں دلوائی جا سکے گی ، عوام کے گھروں میں ایک ایک کلو خالص سونے کی ڈلیاں بھی کوئی جا کر دے آئے محبت پھر بھی عوام کو اسی سے رہنی ہے جس سے موجودہ حکمرانوں اور ا±ن کے سرپرستوں کو شدید نفرت ہے ، جب تک اس کا کوئی کٹی کٹا آئینی تقاضوں کے مطابق نہیں نکلے گا کسی قسم کے استحکام کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا ، ان حالات میں ترقی کے راستے نکل بھی آئے کسی کو دکھائی نہیں دینے ، محض طاقت کے زور پر غلیظ سسٹم کو سنبھالا ایک حد تک اور ایک خاص وقت تک ہی دیا جاسکتا ہے ، طاقت کے بل بوتے پر چلنے والے اس غلیظ سسٹم کے خلاف لوگوں کی نفرت میں شدت چھبیسویں آئینی ترمیم کے بعد آئی ، عدلیہ واحد ادارہ ہے جس پر لوگوں کا اعتماد کچھ نہ کچھ بھی بحال رہے ملک کا کوئی بڑا نقصان نہیں ہوتا ، جب یہ اعتماد مکمل طور پر اٹھ جائے م±لک کا بچنا کسی بڑے معجزے سے کم نہیں ہوتا ، عدلیہ کا تھوڑا بہت بھرم جو بچ گیا ہوا تھا چھبیسویں آئینی ترمیم کے بعد یک دم زمیں بوس ہوگیا ہے ، عدلیہ کی بے توقیری اس مقام پر آن پہنچی ہے ہمیں خدشہ ہے یہ کہیں اب آئی ایم ایف کے تابع نہ چلی جائے ، گزشتہ روز آئی ایم ایف کے وفد نے چیف جسٹس آف پاکستان سے جس طرح ملاقات کی ، جس طرح کے غیر ضروری سوالات کئے ، کسی اور کو تو پتہ نہیں شرم آئی یا نہیں آئی مجھے بہت آئی کہ میرے ادارے پستی کے کس مقام پر آن پہنچے ہیں ؟ آئی ایم ایف کے وفد نے یقینا سوچا ہوگا پاکستانی عدلیہ کو چونکہ کچھ غیر متعلقہ اداروں کا دباو قبول کرنے کا اچھا خاصا تجربہ ہے تو کیوں نہ ہم ان کے اس تجربے میں مزید اضافہ کریں ؟

.

ذریعہ: Nai Baat

کلیدی لفظ: آرمی چیف کی ترقی کے بعد

پڑھیں:

ترقی کا واحد راستہ، محنت اور معاشی استحکام

وزیراعظم محمد شہباز شریف نے کہا ہے کہ جادو ٹونے سے نہیں ملک محنت سے ترقی کرے گا، عسکری و سیاسی قیادت نے مل کر کام کیا اور ڈیفالٹ کے دہانے پر کھڑی معیشت دوبارہ پٹری پر آئی، افواج کی قربانیوں کا مذاق اڑائیں گے تو کون پاکستان کی عزت کرے گا؟ ملکی ترقی اور استحکام کے لیے اتحاد و یکجہتی ناگزیر ہے، علمائے کرام کو تفرقہ بازی کا خاتمہ کرنا ہو گا۔

 اس کے بغیر ملک ترقی نہیں کر سکتا، جب کہ چیف آف آرمی اسٹاف، چیف آف ڈیفنس فورسز فیلڈ مارشل سید عاصم منیر نے کہا کہ دہشت گردی پاکستان کا نہیں، بھارت کا وتیرا ہے، ہم دشمن کو چھپ کے نہیں للکار کر مارتے ہیں، انھوں نے ان خیالات کا اظہار قومی علماء کنونشن سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ دوسری جانب امریکا کے ایگزم بینک نے پاکستان کے لیے ایک ارب 25 کروڑ ڈالر کی نئی مالی معاونت کی منظوری دے دی ہے‘ یہ سرمایہ کاری بلوچستان میں ریکوڈک منصوبے میں اہم معدنیات کی کانکنی میں مزید پیشرفت کے لیے ہے۔

 وزیراعظم محمد شہباز شریف کی گفتگو نے ایک ایسے وقت میں قومی بیانیے کو مہمیز دی ہے جب ملک ایک جانب معاشی مشکلات کے بوجھ تلے دبا ہوا ہے تو دوسری جانب دہشت گردی کی مسلسل لہر سیاسی و معاشرتی استحکام کے لیے چیلنج بنتی جا رہی ہے۔ وزیراعظم کا یہ کہنا کہ ملک جادو ٹونے سے نہیں بلکہ محنت سے ترقی کرے گا، محض ایک جملہ نہیں بلکہ پاکستانی معاشرے میں رائج اس سوچ کی نفی ہے جو مسائل کے حقیقی اسباب کو سمجھنے کے بجائے غیر حقیقی سہولت پسندی اور ماورائی حل تلاش کرنے میں مصروف رہتی ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ کوئی بھی قوم جب تک اجتماعی کوشش، منظم پالیسی، مربوط حکمت عملی اور طویل المدت منصوبہ بندی کے ساتھ محنت کو اپنا شعار نہیں بناتی وہ ترقی کے راستے پر آگے نہیں بڑھ سکتی۔ وزیراعظم کی اس بات کا اصل تناظر بھی یہی ہے کہ ملک کی معیشت، سیاست، اداروں اور سماجی ڈھانچے کو کسی شارٹ کٹ، کسی کرشمے یا کسی چھپے ہاتھ سے نہیں بلکہ انتھک کام اور اصولوں کے ساتھ جمایا جا سکتا ہے۔ وزیراعظم نے عسکری و سیاسی قیادت کی مشترکہ کوششوں کا ذکر بھی کیا جن کے نتیجے میں ڈیفالٹ کے دہانے پر کھڑی معیشت کو دوبارہ پٹری پر لایا گیا۔ یہ حقیقت اپنی جگہ درست ہے کہ گزشتہ چند برسوں میں پاکستانی معیشت ایک ایسے بحران کا شکار ہو چکی تھی جس سے نکلنے کے لیے غیر معمولی اقدامات ضروری تھے۔

چاہے وہ آئی ایم ایف کے ساتھ مشکل مذاکرات ہوں، دوست ممالک سے مالی معاونت حاصل کرنا ہو، محصولات میں اضافہ ہو، کفایت شعاری کے اقدامات ہوں یا پھر برآمدات و مقامی صنعت کو سہارا دینے کی مساعی۔ یہ تمام اقدامات اسی صورت میں نتیجہ خیز ہوتے ہیں جب سیاسی اور عسکری سطح پر ہم آہنگی موجود ہو۔ ملکوں کی تاریخ گواہ ہے کہ داخلی خلفشار، بے یقینی اور ادارہ جاتی کشمکش معیشت کو سب سے زیادہ نقصان پہنچاتی ہے۔ اس پس منظر میں وزیراعظم کی بات ایک مثبت پیغام بھی رکھتی ہے کہ قیادت نے مل کر ملک کو بحران سے نکالا، تاہم یہ شروعات ہیں، منزل ابھی بہت دور ہے۔

 وزیراعظم نے افواج پاکستان کی قربانیوں کا مذاق اڑانے پر سخت ردعمل کا اظہار کیا اور سوال اٹھایا کہ اگر ہم اپنی فوج کی عزت نہیں کریں گے تو دنیا پاکستان کا احترام کیسے کرے گی؟ یہ سوال بنیادی نوعیت رکھتا ہے۔ گزشتہ دو دہائیوں میں ملک دہشت گردی کے خلاف جنگ میں لاکھوں متاثرین اور ہزاروں شہداء دے چکا ہے۔ یہ وہ جنگ تھی جو پاکستان نے کسی کے کہنے پر نہیں بلکہ اپنی بقا کے لیے لڑی۔ دہشت گردوں کے حملوں کا نشانہ فوج ہو یا پولیس، شہری آبادی ہو یا کمزور اضلاع، کسی میں تمیز نہیں کی گئی۔

ایسے میں ان قربانیوں کو متنازع بنانے یا ان کا مذاق اڑانے کا طرزِ عمل نہ صرف قومی وحدت کو نقصان پہنچاتا ہے بلکہ دشمن کو تقویت بھی دیتا ہے۔ حساس قومی اداروں اور ان کی قربانیوں کو تضحیک کا نشانہ بنانا کسی بھی مہذب معاشرے میں قابل قبول نہیں ہوتا۔

دہشت گردی اور معاشی ترقی کے باہمی تعلق پر وزیراعظم کی گفتگو بالکل درست سمت کی نشاندہی کرتی ہے۔ دنیا میں کوئی مثال نہیں ملتی کہ ایک ملک جس میں روزانہ دھماکے ہوں، شہری خوف و ہراس میں مبتلا ہوں، پولیس اور سیکیورٹی فورسز نشانہ بن رہی ہوں، صوبے عدم استحکام سے دوچار ہوں اور وہاں سرمایہ کار تحفظ محسوس کریں، صنعتکار اعتماد کے ساتھ سرمایہ لگائیں یا عالمی کمپنیوں کے وفود وہاں آکر بیٹھنے میں آسودگی پائیں۔ بلوچستان اور خیبر پختونخوا میں حالیہ مہینوں میں ہونے والے واقعات اس حقیقت کا دردناک چہرہ ہیں کہ دہشت گردی صرف انسانی جانوں کا نقصان نہیں کرتی بلکہ پورے ترقیاتی عمل کو یرغمال بنا دیتی ہے۔

ایک طرف عوام کی زندگی عدم تحفظ کا شکار ہوتی ہے اور دوسری طرف حکومت پر سیکیورٹی اخراجات بڑھ جاتے ہیں، صحت، تعلیم اور بنیادی ڈھانچے پر خرچ ہونے والا پیسہ دہشت گردی کے خلاف کارروائیوں میں لگ جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وزیراعظم نے دوٹوک انداز میں کہا کہ دہشت گردی اور معاشی ترقی کی کاوشیں ساتھ ساتھ نہیں چل سکتیں۔

علمائے کرام کو فرقہ واریت کے خاتمے کے لیے کردار ادا کرنے کی اپیل بھی وقت کی سب سے بڑی ضرورت ہے۔ پاکستان میں مذہبی بنیادوں پر قائم تفریق نہ صرف معاشرتی ہم آہنگی کو توڑتی ہیں بلکہ دہشت گرد عناصر کے لیے غذا بھی فراہم کرتی ہیں۔ اگر علماء کرام منبر و محراب کے ذریعے امن، وحدت، باہمی احترام اور رواداری کا درس دیں، فرقہ واریت کا خاتمہ ممکن بنائیں اور مذہبی جھگڑوں کا دروازہ بند کریں تو ملک کی داخلی استحکام کی راہ میں حائل بڑی رکاوٹ دور ہو سکتی ہے۔

اسی منظر نامے میں آرمی چیف سید عاصم منیر کے خطاب نے قومی بیانیے کو ایک اور زاویہ فراہم کیا ہے۔ ان کا کہنا کہ دہشت گردی پاکستان کا نہیں بلکہ بھارت کا وطیرہ ہے، اس حقیقت کی عکاسی کرتا ہے کہ خطے میں دشمن قوتیں پاکستان میں عدم استحکام پیدا کرنے کے لیے مسلسل سازشوں میں مصروف ہیں۔ پاکستان کی سیکیورٹی فورسز نے بارہا اس بات کے ثبوت پیش کیے ہیں کہ دہشت گرد تنظیموں کو بیرونی معاونت فراہم کی جاتی ہے، انھیں عسکری، مالی اور تکنیکی مدد دی جاتی ہے تاکہ وہ پاکستان کے اندر افراتفری اور خوف کی فضا قائم رکھ سکیں۔ آرمی چیف کا یہ کہنا کہ ہم دشمن کو للکار کر مارتے ہیں، پاکستان کی عسکری قوت کے اس اعتماد اور صلاحیت کو ظاہر کرتا ہے جو طویل جنگی تجربے اور مسلسل آپریشنز کے نتیجے میں پروان چڑھی ہے۔

پاکستان نے نہ صرف دہشت گردی کو شکست دی بلکہ اپنے علاقوں کو کلیئر کیا، لاکھوں شہریوں کو واپس ان کے گھروں میں آباد کیا اور دنیا کو دکھایا کہ اگر ارادہ مضبوط ہو تو دہشت گردی ناقابل شکست نہیں رہتی۔دوسری جانب امریکی ایگزم بینک کی جانب سے پاکستان کے لیے ایک ارب 25 کروڑ ڈالر کی نئی مالی معاونت کی منظوری ملک میں معدنیات کے شعبے کے لیے امید کی نئی کرن ہے۔ ریکوڈک منصوبہ نہ صرف بلوچستان بلکہ پورے پاکستان کے لیے معاشی امکانات کا دروازہ ہے۔ اس سرمایہ کاری کے نتیجے میں امریکا میں چھ ہزار اور بلوچستان میں تقریباً ساڑھے سات ہزار روزگار کے نئے مواقعے پیدا ہوں گے۔ یہ اعداد و شمار پاکستان کے لیے غیر معمولی اہمیت رکھتے ہیں کیونکہ روزگار کے مواقعے میں اضافہ خوشحالی اور معاشی سرگرمی کو براہ راست متاثر کرتا ہے۔

امریکی سرمایہ کاری کا پاکستان کے لیے ایک اور بڑا فائدہ یہ ہے کہ اس کے نتیجے میں عالمی سرمایہ کاروں کا اعتماد بحال ہوگا۔ اس وقت دنیا خصوصی طور پر معدنیات، توانائی اور جدید ٹیکنالوجی کے شعبوں میں سرمایہ کاری کے نئے مواقع تلاش کر رہی ہے۔ اگر پاکستان شفاف سیاسی ماحول، مضبوط اداروں، مستحکم سیکیورٹی صورتحال اور معیاری قانونی فریم ورک فراہم کرے تو بیرونی سرمایہ کار یقیناً ملک کی طرف متوجہ ہوں گے۔ ریکوڈک کا منصوبہ ایک ایسی کامیاب مثال بن سکتا ہے جس کے نتیجے میں پاکستان کی بیرونی سرمایہ کاری اپنی نئی راہوں پر چل نکلے گی۔

 اگر ہم نے محنت کو اپنا شعار نہ بنایا، اگر ہم نے سیکیورٹی کو مضبوط نہ کیا، اگر ہم نے فرقہ واریت کو جڑ سے نہ اکھاڑا ، اگر ہم نے قومی اداروں کی عزت نہ کی، اگر ہم نے بیرونی سرمایہ کاری کو جذب کرنے کے لیے مربوط پالیسی نہ بنائی تو پھر کوئی جادو، کوئی دعا، کوئی شارٹ کٹ اور کوئی خفیہ طاقت ہمیں ترقی نہیں دلا سکتی۔

وزیراعظم شہباز شریف کا پیغام، آرمی چیف کا عزم، امریکی سرمایہ کاری کی نوید، یہ سب پاکستان کے لیے ایک نئی امید کی علامت بن سکتے ہیں۔ لیکن اس امید کو حقیقت میں بدلنے کے لیے جس چیز کی ضرورت ہے وہ ہے اجتماعی طور پر بطور قوم اپنی ذمے داریوں کا احساس۔ یہ پاکستان ہم سب کا ہے، اس کی ترقی ہم سب کی ترقی ہے، اس کا استحکام ہم سب کا استحکام ہے۔ آج وقت ہم سے مطالبہ کرتا ہے کہ ہم اپنی صفوں کو درست کریں، اپنے اختلافات کو پسِ پشت ڈالیں، ملک میں امن و اتحاد کو فروغ دیں اور دنیا کو دکھائیں کہ پاکستان ایک زندہ قوم ہے جو ہر چیلنج کا مقابلہ کر سکتی ہے۔

متعلقہ مضامین

  • وزیراعظم سے برطانوی وزیربرائے  بین الاقوامی ترقی و افریقا کی ملاقات
  • طلال چوہدری: برطانیہ کی عدالتوں نے جھوٹا بیانیہ پھیلانے والوں کے خلاف فیصلے دیے
  • وزیراعظم شہباز شریف سے برطانوی وزیربرائے بین الاقوامی ترقی و افریقہ کی ملاقات
  • وزیراعظم سے برطانوی وزیربرائے بین الاقوامی ترقی و افریقہ کی ملاقات
  • دہشتگردی کا نیا خطرہ افغانستان سےسر اٹھا رہا ہے، شہباز شریف
  • دہشتگردی کا نیا خطرہ افغان سرزمین سے سر اٹھا رہا ہے، وزیراعظم شہباز شریف کا ترکمانستان میں عالمی فورم سے خطاب
  • ترقی کا واحد راستہ، محنت اور معاشی استحکام
  • جادو ٹونے سے نہیں ملک محنت سے ترقی کریگا، وزیراعظم
  • لندن ہائیکورٹ: عادل راجہ کے بریگیڈیئر راشد پر الزامات جھوٹ کا مجموعہ، جرمانہ عائد
  • جادوٹونے سے ملک ترقی نہیں کرے گا،بعض علما اب بھی تفرقہ پھیلارہے ہیں،وزیراعظم