Nai Baat:
2025-04-22@05:59:23 GMT

صدر ٹرمپ اور امریکہ

اشاعت کی تاریخ: 15th, February 2025 GMT

صدر ٹرمپ اور امریکہ

پوری دنیا کی نظریں بشمول پاکستان اس وقت امریکہ پر گڑی ہیں، کم و بیش ہر ملک کی خارجہ پالیسی ”سپر پاور“ کے صدر کی حرکات و سکنات پر منحصر ہے، بالخصوص جنوبی ایشیا کئی کروٹیں دیکھنے کو بے تاب ہے، ایک طرف امریکہ نے COMCASA, LEMOA اور QUAD جیسے معاہدے کر کے بھارت سے روابط استوار کیے ہیں تو دوسری جانب ISIS سر اٹھانے لگی ہے، طالبان جہاں افغان سرزمین اپنے قابو میں ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں وہیں ہلکی آنچ پر داعش کی موجودگی ایک د±کھتی رگ ہے، پھر پاکستان جو”دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ“میں امریکہ کا پارٹنر رہا اور اب چین سے اقتصادی روابط بڑھا رہا ہے تو دنیا کا سٹیج آنے والے وقتوں میں کافی دلچسپ جوڑ توڑ دیکھنے کو بے تاب ہے اور ایسے حالات میں ایک عقل کی دشمن قوم ایسی بھی ہے جسے لگتا ہے کہ شاید ٹرمپ کے اقتدار میں آنے کا واحد مقصد ایک قیدی کی رہائی ہے۔
ہم سب تاحال اس میں الجھے ہیں کہ امریکہ کے حوالے سے ہم جو چاہتے ہیں وہ ہوگا یا نہیں، ہم میں سے شاید ہی یہ غور کسی نے کیا ہو کہ امریکہ کیا چاہتا ہے ؟ کیونکہ ہونا تو آخر میں وہی ہوتا ہے۔ تو بھیا جی حضرتِ ٹرمپ نے جب سے دفتر سنبھالا ہے تب سے ہر کسی نے سماجی رابطے بنانے کی کوشش کی ہے اور دوسری طرف ٹرمپ نے پہلی تقریر میں کہہ چھوڑا کہ جی مجھے فلاں فلاں چار ملکوں کے فلاں فلاں سربراہان کی مبارک بادوں کی کالز موصول ہوئیں۔ اب یہ بتانے کا مقصد حضرت ٹرمپ کا یہ ہے کہ ان کے لیے کون سے فلانے فلانے اہم ہیں ، دلچسپ امر یہ بھی ہے کہ یہ وہی لوگ ہیں جو اس وقت بھی اقتدار میں تھے جب ٹرمپ پچھلی مرتبہ صدر بنے۔ صدر ٹرمپ نے اپنی پچھلی صدارت میں چند دلچسپ و عجیب اقدامات کیے، پہلے انہیں دیکھ لیتے ہیں، پھر متوقع اقدامات پہ قیاس آرائیاں کرتے ہوئے ایک بیوقوف گروہ کی ذہنی اختراعات اور جالے بھی صاف کر چھوڑیں گے۔ تو قبلہ صدر ٹرمپ نے اپنے پچھلے دورِ حکومت میں ایران نیوکلیئر ڈیل جسے عرفِ عام میں JCPOA کہا جاتا ہے سے رشتے ناتے توڑ لیے اور ایران کے گرد sanctions کا گھیرا تنگ کر دیا، اگر بات کی جائے ماحولیاتی آلودگی کے حوالے سے دنیا بھر کے اقدامات کی تو صدر ٹرمپ سرے سے ماحولیاتی آلودگی کو حقیقت ماننے سے منحرف ہو گئے، پھر اقتصادیات کو دیکھیں تو انہیں نے ایک نعرہ بلند کیا "Let us Make America Great again”© اور ساتھ ہی ساتھ چائنہ کے بیلٹ اینڈ روڈ پراجیکٹ کو ٹکر دینے کے لیے ”برنگ بیک بیٹر ورلڈ“ لانچ کر دیا، چینی پراڈکٹس پر ٹیکس بڑھا کر”پروٹیکشنسٹ پالیسیوں“ کا نفاذ کیا، اور امتِ مسلمہ کے حوالے سے جو سب سے زیادہ تکلیف دہ قدم اٹھایا وہ تھا اسرائیل کے دارالحکومت کی تبدیلی۔۔۔۔ پھر TPP جیسے اقتصادی فورم سے پیچھے ہٹنا اور ریفیوجی کرائسز چند ایک نادر کارنامے ہیں۔
اب اگر آنے والے وقتوں کو دیکھا جائے تو ایک بار پھر سے امریکہ کی روس اور چین سے رسہ کشی دیکھنے کو ملے گی، خطے میں جو معاشی اور عسکری تعاون بھارت سے دیکھنے کو ملے گا اس دوڑ میں شاید پاکستان کہیں بہت پیچھے نظر آئے۔ ویسے بھی بھارت اور امریکہ آپس میں انگنت عسکری معاہدے کر چکے ہیں جیسے کہ COMCASA, LEMOA, QUAD وغیرہ۔ اور اب تو بھارت نے hypersonic missile بھی حاصل کر لیا ہے جس کا حصول پاکستان کے لیے فی الحال ندارد۔۔۔ اب یہاں نہ صرف خطے کا”بیلنس آف پاور“متزلزل ہوا ہے بلکہ وطنِ عزیز کے لیے اس مخصوص ہتھیار کے اعتبار سے ”سکیورٹی ڈائلاما“بھی پیدا ہوا ہے۔
سونے پہ سہاگہ افغان سرزمین پر سر اٹھاتے داعش نے کر دیا ہے، یہ ساری صورتحال جہاں ایک طرف خطے کے امن کے لیے خطرے کی گھنٹی ہے وہیں بین الاقوامی سطح پر وطنِ عزیز کی اہمیت کے بڑھ جانے کے امکانات بھی ظاہر کرتی ہے۔ خطے کی معیشت پر اگر نظر دوڑائی جائے تو ہمیں CPEC کے مقابلے میں IMEC (India-Middle East- Europe Economic Corridor) دکھائی دیتا ہے- قارئین کی سہولت کے لئے سمجھاتی چلوں کہ اس اقتصادی راہداری کا مقصد یہ ہے کہ ایک بیڑہ سامان لاد کر بھارت سے نکلے اور عرب امارات جا پہنچے، پھر ریل کے رستے وہی سامان اردن سے گزرتا ہوا اسرائیل جائے، وہاں پھر سے پانیوں کے رستے یونان پہنچے اور سیدھا جا کر یورپی مارکیٹ کی زینت بنے۔ اس راہداری سے پہلے جو روایتی رستہ اپنایا جاتا تھا وہ پاک بھارت سے ایران، ایران سے ترکی اور ترکی سے یونان جایا کرتا تھا۔ معیشت کے معاملے میں تو امریکہ کا جھکاو¿ بھارت کی طرف ہی جائے گا لیکن اگر”سلطنتوں کے قبرستان“میں ISIS نے جڑ پکڑ لی تو بہر صورت امریکہ کو پاکستان کی ضرورت پڑے گی، اور میرے ناقص علم کے مطابق پاکستان کو اس وقت ضرورت ہے اپنے ”military muscle “ کو مضبوط کرنے اور ترجیحی بنیادوں پر ہائپر سونک میزائل حاصل کرنے کی۔
رہ گئی بات قیدی کو چھڑانے کی تو یہ ایک پراپوگینڈہ کے تحت جذباتی عوام کے ذہن میں ڈالی جانے والی اختراع کے سوا اور کچھ نہیں۔ پہلے تو ہمیں یہ دیکھنا ہو گا کہ آیا صدر ٹرمپ کو خطے میں ہم سے کوئی کام پڑتا بھی ہے یا نہیں؟ با لفرض کام پڑ گیا تو کیا موجودہ سیاسی و عسکری نظام صدر ٹرمپ کے تحفظات پر عمل پیرا ہونے سے انکاری ہو گا؟ اور پھر اس صورت میں جا کر امریکہ کو کسی قیدی کو منظرِ عام پر لانے کی ضرورت پڑ سکتی ہے۔ اگر نوبت یہاں تک آ ہی جائے تو ہمیں امریکہ کی گزشتہ روایات اور قیدی کے یو ٹرنز سے مزین تاریخ بھی دیکھنا ہو گی۔ امریکہ جب کبھی کسی معاہدے میں ہاتھ ڈالتا ہے تو اس پختگی سے ڈالتا ہے کہ پھر منحرف ہونے والی کو اتنے قریب سے جا گولی لگتی ہے جہاں پرندہ پر مارنے کا تصور نہیں کر سکتا، رہ گئی بات خان صاحب کی تو ان کا وتیرہ ہے یو ٹرن، اب جو عوام اس انہونی کے پیشِ نظر بھنگڑے ڈال رہے ہیں کہ شایہ ان کا لیڈر پھر سے راج کرے گا کوئی ان معصوموں کو بتلائے گا کہ یہ سٹنٹ ان کے لیڈر کے لیے جان لیوہ ثابت ہونے کی صلاحیت رکھتا ہے؟ ۔

.

ذریعہ: Nai Baat

کلیدی لفظ: دیکھنے کو بھارت سے کے لیے

پڑھیں:

ٹرمپ کے دوسرے دورِ صدارت کے ہل چل سے بھرپور پہلے 100 دن

ناقدین نے پہلے 100 دنوں کی حکومت کو "آمرانہ طرزِ حکومت" قرار دیا ہے اور ان کی پالیسیوں کو انتشار کا باعث قرار دیا۔ سیاسی مورخ میٹ ڈالک کا کہنا ہے کہ ٹرمپ کا دوسرا دورِ صدارت پہلے سے کہیں زیادہ آمرانہ ذہنیت اور اقدامات سے بھرپور ہے۔ اسلام ٹائمز۔ امریکا کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی وائٹ ہاؤس میں دوبارہ واپسی کے بعد ان کے اقدامات اور بیانات نے دنیا بھر میں ہلچل مچا دی۔ عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے دوسرے دورِ صدارت کے پہلے 100 دن 30 اپریل کو مکمل ہو رہے ہیں اور اب تک صدر ٹرمپ نے صدارتی اختیارات کو نئی بلندیوں تک پہنچایا۔ 78 سالہ صدر ٹرمپ نے ایک ایونٹ میں کہا کہ میرا دوسرا دورِ حکومت پہلے سے زیادہ طاقتور ہے۔ جب میں یہ کہتا ہوں یہ کام کرو تو وہ کام ہو جاتا ہے۔

ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی ٹیرف پالیسی کا دفاع کیا اور سب سے پہلے امریکا کے اپنے ایجنڈے کو پورا کرنے کے عزم کا اظہار کیا۔ امریکی صدر نے اپنی سمت کو درست قرار دیتے ہوئے کہا کہ وہ بڑی کامیابی کے ساتھ اپنے اہداف کو حاصل کر رہے ہیں۔ البتہ ان کے ناقدین نے پہلے 100 دنوں کی حکومت کو "آمرانہ طرزِ حکومت" قرار دیا ہے اور ان کی پالیسیوں کو انتشار کا باعث قرار دیا۔ سیاسی مورخ میٹ ڈالک کا کہنا ہے کہ ٹرمپ کا دوسرا دورِ صدارت پہلے سے کہیں زیادہ آمرانہ ذہنیت اور اقدامات سے بھرپور ہے۔

انھوں نے مزید کہا کہ ڈونلڈ ٹرمپ روزانہ اوول آفس میں صحافیوں کے سوالات کا سامنا کرتے اور ایگزیکٹو آرڈرز پر دستخط کرتے ہوئے خود کو ایک "ریئلٹی شو" کے مرکزی کردار کے طور پر پیش کرتے ہیں۔ ٹرمپ کے ناقدین کا بھی کہنا ہے کہ نئے صدر کے دوسرے دور میں وائٹ ہاؤس میں مخصوص اور من پسند نیوز اداروں کو رسائی دی جارہی ہے۔ علاوہ ازیں عدلیہ کے ساتھ بھی صدر ٹرمپ کا رویہ جارحانہ رہا ہے جہاں انہوں نے ماضی کے مقدمات میں شریک کئی لاء فرمز کو سخت معاہدوں میں جکڑ دیا ہے۔

سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ٹرمپ کے پہلے 100 دنوں کی تکمیل پر ان کی مقبولیت تمام جنگ عظیم دوم کے بعد صدور میں سب سے کم ہے۔ سوائے خود ان کے پہلے دور کے۔ ریپبلکن سینیٹر لیزا مرکاؤسکی نے کہا کہ ہم سب خوف زدہ ہیں جبکہ پروفیسر باربرا ٹرش کا کہنا تھا کہ صدر آئینی پابندیوں کی پرواہ کیے بغیر فیصلے کر رہے ہیں۔ ناقدین کا یہ بھی کہنا ہے کہ صدر ٹرمپ نے روس کے توسیع پسندانہ عزائم کی تقلید میں گرین لینڈ، پاناما اور کینیڈا پر علاقائی دعوے کرتے ہوئے امریکی اثرورسوخ بڑھانے کا عندیہ دیا ہے۔

ٹرمپ نے تعلیمی اداروں، جامعات اور ثقافتی مراکز کو نشانہ بناتے ہوئے خود کو ایک اہم آرٹس سینٹر کا سربراہ مقرر کیا اور ڈائیورسٹی پروگرامز کو ختم کر دیا ہے۔ اسی طرح تارکین کو پکڑ پکڑ کر دور دراز علاقے میں قائم خطرناک جیلوں میں زبردستی بھیجا جا رہا ہے۔ یاد رہے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے 20 جنوری کو عہدے کا حلف اُٹھایا تھا اور اسی دن چند اہم لیکن متنازع اقدامات کی منظوری دی تھی۔ 

متعلقہ مضامین

  • ٹرمپ کی ناکام پالیسیاں اور عوامی ردعمل
  • عالمی تنازعات، تاریخ کا نازک موڑ
  • ٹرمپ کے دوسرے دورِ صدارت کے ہل چل سے بھرپور پہلے 100 دن
  • امریکہ کے نائب صدر کا دورہ بھارت اور تجارتی امور پر مذاکرات
  • امریکی نائب صدر جے ڈی وینس تجارتی مذاکرات کے لیے بھارت پہنچ گئے
  • چینی، بھارتی طلبا کی ویزا قوانین پر ٹرمپ کے خلاف قانونی جنگ
  • امریکہ میں ٹرمپ انتظامیہ کے خلاف سینکڑوں مظاہرے
  • بھارت پر امریکی شہری کے قتل کیلئے انعام مقرر کرنے کا الزام، سکھ تنظیموں کی امریکہ سے مداخلت کی اپیل
  • تبدیل ہوتی دنیا
  • ایلون مسک سے ٹیکنالوجی میں امریکہ کے ساتھ تعاون بڑھانے پر تبادلہ خیال کیا ہے.نریندرمودی