آفتاب احمد خانزادہ
۔۔۔۔
اگر آپ طاقتور اور بااختیارلوگوںکے بیانات ملا حظہ فرمائیں تو ان میں سوائے پر یشانیوں ، تفکرات اور انجانے خوف کے علاوہ اور کچھ نہیں دکھائی دے گا وہ خو د ہی سوال کرتے ہیں اور خو د ہی ا س کا جواب دینے کی کوشش کرتے ہیں ،خود ہی خوفزدہ ہیں اور خو د ہی خو د کو تسلی دے رہے ہیں۔ اگر آپ نے اس بات پر اب تک سو چ بچار نہیں کیا ہے تو پھر ہم آپ کو بتا تے ہیں کہ اصل ماجرا کیاہے۔ ان سب کیفیات کا براہ راست تعلق نفسیات سے ہے عملی نفسیات کے بانی پروفیسر ولیم جیمز نے اپنے شاگر د وں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا تھا کہ ”جو کچھ ہو چکاہے اس پر قناعت کرو کیونکہ بد نصیبیوںکا خمیازہ برداشت کرنے کی پہلی شرط یہ ہے کہ جو کچھ بیت چکا ہو اس پر رضامند ہوجائو ”۔
ٹامس ایڈیسن نے بالکل صحیح کہا ہے ‘انسان غورو فکر کر نے کی تکلیف سے بچنے کے لیے ہرقسم کے پاپڑ بیلتا ہے ” اگر ہم حقائق معلوم کرنے کے لیے تردد کرتے بھی ہیں تو ایسے جیسے شکاری کتے خر گو ش کا پیچھا کرتے ہیں ہم صرف ان ہی حقائق کو تلاش کرتے ہیں جو ہمارے اپنے خیالات کو سہارا دیتے ہوں اور باقی ہر چیز کو نظر انداز کردیتے ہیں ہمیں صرف ان ہی حقائق کی ضرورت ہوتی ہے جن سے ہمارے اعمال حق بجانب ثابت ہوسکیں جو ہماری امیدوں اور آرزئوں پر آسانی کے ساتھ مطابقت ہو سکیں اور ہمارے تعصبات اور تنگ نظر یات کی تائید کرسکیں ۔ آندرے مااور دا اسے ان الفاظ میں ادا کرتا ہے ” ہر وہ چیز جو ہماری ذاتی خو اہشوں اور آرزئوں سے ہم آہنگ ہو ہمیں درست نظر آتی ہے اور جو چیز اس کے بر عکس ہو وہ ہمارے غصے کی آتش کو بھڑکانے کا سبب بنتی ہے ”۔ اب اس کے بعد یہ بتانے کی قطعاً کو ئی ضرورت باقی نہیں رہتی ہے کہ ہمارے بااختیار اورطاقتور اتنے طیش اور غصے میں کیوں ہیں کیونکہ آپ نتیجے پر ہم سے پہلے ہی پہنچ چکے ہونگے بات بالکل سیدھی سادی سی ہے کہ ان کی ذاتی خو اہشات اور آرزئوں کچھ اور ہیں اور زمینی حقائق کچھ اور ہیں ،وہ چاہ کچھ اور رہے ہیں اور ہو کچھ اور رہاہے اور ان کے غصے میں شدت اس لیے بھی آتی جارہی ہے کہ جو کچھ ان سے ہو چکا ہے اس پر کسی صورت قناعت کرنے پرتیار نہیں ہیں ،وہ سب کچھ تباہ کرنے پر تیار نظر آتے ہیں لیکن اپنی غلطیاں اور کوتاہیاں ماننے کو تیار نہیں ہیں جب سب کچھ انسان کی خواہشوں اور آرزئوں کے خلاف ہورہا ہوتا ہے اور اس کی لاکھ کوششوں کے بعد بھی بات نہیں بن پار ہی ہوتی ہے تو انسان شدید جھنجلاہٹ اور پر یشانیوں کے نر غے میں آہی جاتا ہے اور یہ وہ موڑ ہوتا ہے جہاں انسان غلطیوں پر غلطیاں کرتا ہی چلا جاتا ہے جیسے جیسے اس سے غلطیوں پہ غلطیاں ہوتی جاتی ہیں اس کی جھنجلاہٹ اور پر یشانیاں اور بڑھتی ہی جاتی ہیں۔
امریکہ کے شہر ہ آفاق میو برادرز نے اعلان کیا تھا کہ ” ہمارے ہسپتالوں کے نصف سے زیادہ بسترا عصابی مریضوں سے بھرے ہوئے ہیں ۔ لیکن پوسٹ مارٹم کرتے وقت جب کسی طاقتور خورد بین کی مدد سے ان لوگوں کے اعصاب کا معائنہ کیاجاتا ہے تو اکثر حالات میں ان کے اعصاب اتنے ہی صحت مند اور تندرست نظر آتے ہیں جس قدر کسی پہلوان کے ۔ ان کے ” اعصابی عوارض ” کی علت ان کے اعصاب کا جسمانی انحطاط نہیں ہوتا بلکہ مایوسی ، ناکامی ، شکست ، ہار ، فکر ، رنج، غم ، خوف اور ڈر کے جذبات ہوتے ہیں ”۔ افلاطون کہتاہے ” طبیبوں کی سب سے بڑی غلطی یہ ہے کہ وہ ذہن کی طرف تو جہ دئیے بغیر جسم کا علاج کرنے کی کوشش کرتے ہیں لیکن جسم اور دماغ کو ایک دوسرے سے الگ نہیں کیا جاسکتا اور نہ ہی ان کے ساتھ علیحدہ علیحد ہ سلوک کیاجاسکتا ہے ”۔
پر یشانیوں اور تفکرات کے متعلق ڈاکٹر کارل منینگرنے ایک شاندار کتاب لکھی ہے جس کانام ”انسان اپنادشمن آپ ہے ” وہ اپنی کتاب میں ان حیرت انگیز حقائق کا انکشاف کرتے ہیں کہ جب آپ مہلک جذبات کو اپنی زندگی پر غالب آنے دیتے ہیں تو اس وقت آپ اپنے ساتھ کیادشمنی برت رہے ہوتے ہیں اگر آپ یہ چاہتے ہیں کہ جو جذبات آپ کے خلاف کا رفرماہیں آپ ان کا خاتمہ کرڈالیں تو آپ اس کتا ب کو ضرور پڑھ لیں آپ اس بات کو ہمیشہ ضرور یاد رکھیں جو ولیم جیمز لکھتا ہے کہ” خدا ہمارے گناہ بخش سکتا ہے لیکن اعصابی نظام کبھی معاف نہیں کرتا” ۔ یہ ایک بو کھلادینے والی اور تقریبا ناقابل یقین حقیقت ہے کہ بیماریوں سے ہر سال اتنے امریکی نہیں مرتے جس قدر کہ وہ خود کشی سے مرتے ہیں کیوں؟ اس کا جواب ہے پریشانیاں اور الجھنیں۔ کیونکہ پر یشانیاں اور الجھنیں قطرہ قطرہ آپ کے اوپر پانی ٹپکنے کے مانند ہوتی ہیں پریشانیوں کی یہ مسلسل ٹپ ٹپ انسانوں کو جنون اور خو د کشی کی طرف دھکیل دیتی ہے ۔ یہ بات ہم سب کو یاد رکھنی چاہیے کہ اگر کوئی جہاز ڈوب جائے تو کوئی اسے واپس نہیں لاسکتا اگریہ ڈوب رہاہے تو اسے بچایا نہیں جاسکتا ہمیں ماضی کے متعلق پر یشان ہونے کے بجائے مستقبل کے مسائل کے متعلق سو چنے پر اپنا سارا وقت صرف کرنا چاہیے ۔دیگر صورت میں پھر آپ کو اپنا زیادہ وقت اسپتالوں میں ہی گزارنا پڑیگا۔یہ کتنی کربنا ک بات ہے جن لوگوں کے پاس اپنی بڑائی جتانے کے لیے کوئی بات نہیں ہوتی وہ اپنی نااہلی کے احساس کو ظاہر ی شورو غوغا اور لاف زنی کے ذریعے اسے چھپاتے پھرتے ہیں، ان کی یہ حرکت نہایت بیہودہ اور ناقابل برداشت ہوتی ہے جیسا کہ شیکسپیئر نے کہا ہے آدمی ” مغرور آدمی ادنی سے اختیارات کا مالک ہو کر آسمان تلے اس قسم کی عجیب و غریب چالیں چلتا ہے کہ فرشتوں کو بھی رونا آتا ہے” ۔انسانی فطرت عملاً کچھ اس قسم کی واقع ہوئی ہے غلط کا رسوائے اپنے اور سب کو الزام دیتا رہتا ہے ۔کنفیوشس کہتاہے جب تمہاری اپنی دہلیز غلیظ ہے تو اپنے ہمسائے کے متعلق یہ شکایت نہ کرو کہ کاہلی کی وجہ سے اس کی چھت ابھی تک برف سے ڈھکی ہوئی ہے ۔
ذریعہ: Juraat
کلیدی لفظ: اور آرزئوں کرتے ہیں کے متعلق ہیں اور کچھ اور ہے اور
پڑھیں:
بجلی
ہمارے پاس کوئی ایسا قومی رہنما موجود نہیں ہے جو پہلے قوم کو بتا سکتا کہ ہماری اصل بدحالی کتنی گھمبیر ہے۔ ملک میں بجلی کے بحران‘ اس کا حد درجہ مہنگا علاج اور آئی پی پیز وہ استعارے ہیں جس کی آڑ میںبجلی کا بحران پیدا کیا گیا۔ آج بھی حکومتی پالیسی کی وجہ سے گردشی قرضے ادا کرنا مشکل سے مشکل بنا دیا گیا ہے۔
Ember‘ لندن میں موجود ایک ایسا تحقیقاتی ادارہ ہے جس میں دنیا کے ہر ملک کی بجلی بنانے کے ذرائع اور حکمت عملی پر غیر متعصب تجزیہ کیا جاتا ہے۔ ادارہ کی رپورٹ کے مطابق‘ پوری دنیا میں کلین انرجی’’Clean Energy‘‘کا تناسب 41فیصد ہے۔ 2024ء میں سولرانرجی میں 29فیصد سے زیادہ اضافہ ہوا ہے۔ ہوا سے بجلی پیدا کرنے کے رجحان میں (Wind energy) تقریباً آٹھ فیصد اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ سب سے کم ترین اضافہ‘ کوئلے اور ڈیزل (Fossil) سے حاصل کرنے والی توانائی کے ذرائع میں ہوا ہے۔ جو تقریباً 1.4 فیصد کے قریب ہے۔ یعنی پوری دنیا ‘ فوسل توانائی سے دور بھاگ رہی ہے اور کلین انرجی کی طرف رواں دواں ہے۔ یہ رجحان روز بروز بڑھتا جا رہا ہے۔
مگر ہمارے ملک کی داستان الگ ہے۔ پاکستان میں بجلی کے نام پر وہ کرپشن ہوئی ہے، جو ایک منفی مثال کے طور پر پیش کی جاتی ہے۔ قیامت یہ بھی ہے کہ کمال عیاری سے ڈیم بنانے کے کام کی رفتار کو حد درجہ شکستہ کردیا گیا ہے۔ پھر لوڈشیڈنگ کو بطور ہتھیار استعمال کیاگیا، اس کی آڑمیں نجی بجلی گھر بنانے کے معاہدے شروع ہو گئے۔ جن سے ہمارے ملک کی معیشت کی کمر ٹوٹ گئی۔
کمال دیکھئے کہ پاکستان میں زیادہ تر بجلی ڈیزل یا کوئلے سے بنائی جاتی ہے۔ پھر یہ بھی ہوا ہے کہ ترقی یافتہ ممالک سے‘ ایسے استعمال شدہ بجلی گھر درآمد کیے گئے جو متعلقہ ممالک میں متروک کیے جارہے تھے۔ یہ ملک سے انتقام لینے کی مونہہ بولتی تصاویر ہیں۔ کمال یہ بھی ہے کہ باخبر حلقے حقائق جانتے ہیں ۔ مگر ہمارے نیرو تو دہائیوں سے چین کی بانسری مسلسل بجاتے آرہے ہیں۔
ایک سابقہ بجلی اور پانی کے وزیر ملے، فرمانے لگے کہ جب میں وزیر بنا تو پیغام بھجوایا گیا کہ آپ اگر نجی شعبے کے متعلق کوئی فیصلہ نہ کریں تو … وزیر موصوف کاریگر آدمی تھے، ہر چیز کو بھانپ گئے ، پھر سیاست میں آ گئے۔ اور آج بھی خیر سے میڈیا پرمیرٹ اور شفافیت پر بات کرتے نظر آتے ہیں۔ بہرحال جانے دیجیے۔
اس طرح کے سرفروش کردار ‘ ہر سیاسی جماعت میں اور ہر دور میں موجود رہے ہیں ۔ کیا آپ کو یہ بات عجیب نہیں لگتی کہ ہمارے سیاستدان اور حکمران کسی بھی بڑے آبی ڈیم کو مکمل کرنے میں کوئی دلچسپی نہیں رکھتے۔ واپڈا کو تو ویسے ہی کئی حصوں میں تقسیم کر دیا گیا ہے۔ جو چیئرمین بنائے جاتے ہیں اور ان کی ’’کہانیاں‘‘ آپ واپڈا ملازمین سے پوچھ سکتے ہیں۔ شاید انھیں بتا دیاجاتا ہے کہ برخوردار کسی ڈیم کو بروقت مکمل نہیں کرنا ۔ ہاں‘ ان کی طرف‘ ایک مصنوعی توجہ ضرور رکھنی ہے۔
پاکستان کا نجی شعبہ ’’کلین انرجی‘‘ نہیں پیدا کر رہا۔ ہمارے ہاں تو ایسا بھی ہوا ہے کہ ہماری ایک حکومت میں تعینات ہونے والے مشیر نے اچھی خاصی کمائی کی ، ذرا سی بازپرس ہوئی تو بوریا بستر گول کر کے باہر چلے گئے۔ یہ اس حکومت کا کارنامہ ہے ‘ جو صرف ساڑھے تین سال حکومت کر پائی۔ جناب ‘ ہمارے تمام اکابرین ایک جیسے رویے کے حامل ہیں۔ شفاف حکومت‘ تبدیلی حکومت اور عوامی حکومت کے طرز عمل میں رتی برابر کا کوئی فرق نہیںہے۔
ایک بات عرض کرنا چاہوں گا۔ بجلی کی چار گنا اور انواسنگ بھی ہوتی ہے۔ اور ہمارے سرکاری بابوؤں نے کبھی کوئی اعتراض نہیں کیا۔کسی سرکاری بابو نے یہ معائنہ نہیں کیا‘ کہ اصل پیداواری صلاحیت کتنی ہے۔ آپ خود مجھے سمجھائیے کہ کیا ہماری معیشت کو ہندوستان نے تباہ کیا ہے؟ نہیں جناب! یہ کام ہم نے خود کیا ہے۔ اقتدار بھی اشرافیہ کا‘ میڈیا بھی ان کا‘ ریاستی ادارے بھی ان کے ۔Amber کی رپورٹ کے مطابق‘ پاکستان میں سولر انرجی کو لوگوں نے مجبوراً استعما ل کرنا شروع کیا ہے کیونکہ سرکاری بجلی ناقابل برداشت حد تک مہنگی کردی گئی ۔
لوگوں نے پیٹ کاٹ کر سولر پینل اور نیٹ میٹرنگ پر توجہ دی ہے۔ 2024 میں ہمارے ملک میں سترہ گیگا واٹ کے پینل امپورٹ کیے گئے ہیں۔ World Economic Forumنے بتایا ہے کہ چین نے سولر پینلزکی پیداوار حد سے زیادہ کر دی ہے۔ اور انھوں نے پاکستان کے عوام کی نفسیات سے بھرپور طریقے سے فائدہ اٹھایا ہے۔ چین نے ڈبل منافع کمایا۔ ایک طرف تو چین نے بجلی گھر فراہم کیے ‘ دوسری طرف‘ ہمیں سولر پینل مہیا کرنے شروع کر د یئے۔
بہرحال لوگوں میں سولر پینل کے بڑھتے ہوئے استعمال کا نتیجہ یہ نکلا کہ سرکاری بجلی کا استعمال کم ہونا شروع ہوا ، سرکاری بجلی کی فروخت میں کمی آنی شروع ہو گئی۔ اس پر حکومت نے وہ بجلی جو لوگ سولر پینل سے اپنے گھروں میں پیدا کر رہے تھے، اس کی قیمت خرید مبینہ طور پر صرف دس روپے کر دی۔ عوامی رد عمل کا خوف محسوس ہوا تو بجلی کی قیمت میں سات روپے کی کمی فرما دی۔ اس کی تشہیر ایسے کی گئی جیسے کہ ملک پر ایک ایسا احسان فرما دیا گیا ہے یا عوام کے تمام مسائل حل ہو گئے ہیں۔ اس پر کیا لکھوں۔ بلکہ کیوں لکھوں۔ہر ایک کو بجلی کے معاملات کی اصلیت معلوم ہے۔ لوگوں میں شعور کی سطح حد درجہ بلند ہے۔ وہ اپنے غم خواروں اوررقیبوں کو خوب پہچانتے ہیں۔