چیئرمین نیوکراچی محمد یوسف وائس چیئرمین کے ہمران کیمپ میں موجود ہیں
اشاعت کی تاریخ: 15th, February 2025 GMT
چیئرمین نیوکراچی محمد یوسف وائس چیئرمین کے ہمران کیمپ میں موجود ہیں.
ذریعہ: Jasarat News
پڑھیں:
فلسطین : بندر کی بلا طویلے کے سر ( حصہ پنجم )
گذشتہ مضمون میں جائزہ لیا گیا کہ جب یورپی یہودیوں کی حالتِ زار پر زبانی کلامی ترس کھانے والے مغربی ممالک نے عملاً اپنے دروازے ان یہودیوں پر بند کر دیے تو نازی جرمنی نے پہلے تو ان یہودیوں کو مڈغاسگر اور سائبیریا میں دھکیلنے کے منصوبوں پر غور کیا۔ جب جون انیس سو اکتالیس میں نازی جرمنی نے سوویت یونین پر حملہ کر دیا تو ابتدائی فتوحات کے بعد جرمن منصوبے بکھرنے لگے اور وہ اس نتیجے پر پہنچے کہ تیزی سے بدلتے جنگی حالات میں لاکھوں یہودیوں کو یورپ سے باہر دھکیلنا عملاً مشکل ہے تب یہودیوں ’’ ادنی نسلوں‘‘ اور نازی مخالفین کے تیز رفتار صنعتی صفائے کا فیصلہ کیا گیا۔
یکم ستمبر انیس سو انتالیس کو پولینڈ اور متصل بالٹک ریاست لتھوینیا پر قبضے اور بعد ازاں بیلا روس اور یوکرین میں گسٹاپو اور ایس ایس کے قاتل دستوں اور مقامی نازی نواز ملیشیاؤں کو مزاحمت کاروں ، کیمونسٹوں اور یہودیوں کی نسلی صفائی کے لیے بے دریغ استعمال کیا گیا مگر فائرنگ اسکواڈز کے ذریعے اجتماعی ہلاکتوں اور لاشوں کو اجتماعی قبروں میں دفن کرنے کا طریقہ جرمن معیار کے مطابق سست رفتار تھا۔
چنانچہ دسمبر انیس سو اکتالیس میں پولینڈ کے علاقے چیلمنو میں قائم پہلے نسل کش کنسنٹریشن کیمپ میں ایسے ٹرکوں کو استعمال کیا گیا جن میں زائیکلون بی زہریلی گیس سے اجتماعی ہلاکت کے چیمبرز نصب کیے گئے تھے۔مگر ان موبائل گیس چیمبرز کی تعداد محدود تھی اور بیک وقت ان ٹرکوں میں چالیس پچاس بدقسمت ہی ٹھونسے جا سکتے تھے۔
چنانچہ بیس جنوری انیس سو بیالیس کو برلن کے قریب جھیل وانسی کے کنارے ایک پرشکوہ عمارت میں لگ بھگ دو گھنٹے کا انتظامی اجلاس ہوا جس میں تمام متعلقہ اداروں اور وزارتوں کے کلیدی افسروں نے شرکت کی تاکہ ایسے مربوط منصوبے کو حتمی شکل دی جا سکے جس کی مدد سے لاکھوں نازی مخالفوں اور یہودیوں کو متعدد مراکز میں عارضی طور پر رکھا جا سکے۔ان میں سے اکثر مراکز مقبوضہ پولینڈ میں قائم ہوئے۔ان میں نہ صرف مقامی پولش یہودیوں کو جمع کیا گیا بلکہ سوویت یونین اور مشرقی یورپ کے دیگر مقبوضہ علاقوں سے منتقل کیے جانے والے یہودیوں کو بھی رکھا گیا۔
ان مراکز سے انھیں مال گاڑیوں میں بھر بھر کے نسل کش کنسنٹریشن کیمپوں تک بھیجنا نسبتاً آسان تھا۔ان کیمپوں میں موت کی ٹرین سے اتارے گئے مسافروں کی فوری چھانٹی ہوتی۔مضبوط جسم والے قیدیوں کو جبری مشقت اور دیگر خطرناک کاموں پر لگا دیا جاتا۔اگر وہ پھر بھی زندہ بچ جائیں تو آخر میں انھیں بھی قتل کر دیا جاتا ( نازی نظریے کے مطابق بصورتِ دیگر وہ رہائی کے بعد اپنے جیسی مزید کمتر نسل پیدا کرتے )۔
جو لوگ ( عورتیں ، بچے ، بوڑھے ، بیمار اور معذور ) مشقت کے قابل نہ ہوتے انھیں فوراً موت کے حوالے کر دیا جاتا۔
وانسی کانفرنس کے بعد جبری مشقت کے لیے مقبوضہ علاقوں کے طول و عرض اور خود جرمنی کے اندر بیسیوں بیگار کیمپ قائم کیے گئے۔وہاں سے جرمن کمپنیوں کو صحت مند غلام فراہم کیے جاتے تاکہ جنگی صنعت کاری میں افرادی قوت کی قلت نہ ہو۔
چیلمنو نسل کش کیمپ ( دسمبر اکتالیس تا جنوری پینتالیس ) میں گیس چیمبرز کے کامیاب تجربے کے بعد وانسی کانفرنس کے انتظامی فیصلوں کے نتیجے میں اگلے چند ماہ کے دوران پانچ مزید نسل کش کیمپ پولینڈ میں قائم کیے گئے۔بلجچ کیمپ مارچ تا دسمبر انیس سو بیالیس آپریشنل رہا۔سوبی بور کیمپ ( مئی بیالیس تا اکتوبر تینتالیس ) ، تریبلانکا کیمپ ( جولائی بیالیس تا اگست تینتالیس ) ، میڈانک کیمپ ( ستمبر انیس سو بیالیس تا جولائی انیس سو چوالیس ) اور سب سے بڑا کیمپ آشوٹز برکناؤ جو وانسی کانفرنس کے دو ماہ بعد مارچ انیس سو بیالیس میں فعال ہوا۔اگلے تین برس ( تا جنوری انیس سو پینتالیس ) تب تک صنعتی پیمانے کی قتل گاہ بنا رہا جب تک نازیوں کو پیچھے دھکیلنے والی سوویت فوج نے آشوٹز کے قیدیوں کو آزاد نہیں کروا لیا۔
بتایا جاتا ہے کہ ان نسل کش کیمپوں کے گیس چیمبرز میں لگ بھگ تین برس کے دوران تیس لاکھ انسانوں کو دھکیلاگیا۔ان میں سے دس لاکھ کو آشوٹز کے گیس چیمبرز میں ہلاک کیا گیا۔قیدیوں کو گیس چیمبرز میں بھیجنے سے پہلے یہ بتا کر تن کے کپڑوں سمیت تمام سامان رکھوا لیا جاتا کہ بیرکوں میں منتقلی سے پہلے انھیں جراثیم کش پانی سے ’’ غسل ‘‘ دیا جائے گا۔
مرنے والوں میں صرف یہودی نہیں بلکہ سلاوک اور جپسی بھی شامل تھے کیونکہ یہ دونوں نسلیں نازی نظریے کے مطابق جرمن آریا نسل کے مقابلے میں کمتر تھیں۔نازیوں کے تخمینے کے مطابق سوویت یونین سے پرتگال تک یہودیوں کی کل آبادی ایک کروڑ گیارہ لاکھ تھی۔مگر نازیوں کو ان میں سے ستر فیصد تک گرفت کا موقع نہ مل سکا۔
میڈانک پہلا نسل کش کیمپ تھا جہاں جولائی انیس سو چوالیس میں سوویت فوجی دستے پہنچے۔ تریبلانکا جبری مشقت کے لیے قائم سب سے بڑا کیمپ تھا۔اسے جنگ کے خاتمے سے ایک ماہ قبل اپریل انیس سو پینتالیس میں مغربی اتحادی دستوں نے آزاد کروایا۔ آزاد قیدیوں میں سے اکثریت کو نہیں معلوم تھا کہ وہ اس وقت کہاں ہیں اور اب وہ کہاں آباد ہوں گے۔ان میں سے ہزاروں قیدی خراب صحت ، لاغری اور متعدی بیماریوں میں مبتلا ہونے کے سبب آزاد فضا میں بھی اگلے چند ماہ ہی زندہ رہ پائے۔
کیا مغربی اتحادیوں کو نسل کش نازی کیمپوں کا علم جنگ کے اختتامی دنوں میں ہوا یا ابتدا سے ہی معلوم تھا ؟ یہودی ذرائع کا کہنا ہے کہ کچھ نسل کش کیمپوں سے چند قیدی کامیابی سے فرار ہوئے اور ان کے ذریعے معلوم ہوا کہ موت کے کیمپوں میں کیا ہو رہا ہے۔یہ تفصیلات برطانوی و امریکی سفارتی و عسکری حلقوں تک پہنچائی گئیں۔مگر عسکری حکمتِ عملی مرتب کرنے والے اس انسانی المئے کو الگ سے دیکھنے کے بجائے نازیوں کی اجتماعی شکست کی حکمتِ عملی سے جوڑ کر دیکھتے رہے۔
جرنیلوں کی دلیل یہ تھی کہ اگر ان نسل کش کیمپوں پر بمباری بھی کی جائے تب بھی زیادہ جانی نقصان قیدیوں کا ہی ہو گا۔لہذا بہتر حل یہی ہے کہ نازی حکومت کے تیز رفتار فوجی زوال پر پوری توجہ مرکوز کی جائے۔
اگلے مضمون میں اکہتر برس قبل جرمن قابضین کے خلاف وارسا کے یہودیوں کی ناکام مزاحمت (اپریل تا مئی انیس سو تینتالیس ) کا تذکرہ ہو گا جس کا تاریخ میں بہت مثبت انداز میں چرچا ہوتا ہے۔بالکل ایسی ہی مزاحمت جب کل کے مظلوموں اور آج کے غاصبوں کے خلاف فلسطینیوں بالخصوص اہلِ غزہ نے کی تو اسے دھشت گردی قرار دے کر اسی سفاکی سے کچلا گیا جو سفاکی نازیوں نے دکھائی۔ (جاری ہے)
(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیے bbcurdu.com اورTweeter @WusatUllahKhan.پر کلک کیجیے)