گورنر کے پی فیصل کنڈی کے سخت سوال، وزیرِ اعلی علی امین گنڈاپور مسکراتے رہے
اشاعت کی تاریخ: 14th, February 2025 GMT
گورنر کے پی فیصل کنڈی کے سخت سوال، وزیرِ اعلی علی امین گنڈاپور مسکراتے رہے WhatsAppFacebookTwitter 0 14 February, 2025 سب نیوز
پشاور (آئی پی ایس )گورنر اور وزیرِ اعلی خیبر پختونخوا کے درمیان خوش گوارملاقات ہوئی ہے۔ گورنر کے پی فیصل کنڈی کے سخت سوالات پر وزیرِ اعلی علی امین گنڈا پور مسکراتے رہے۔گورنر اور وزیرِ اعلی کے پی کے مابین ملاقات پشاور کے گورنر ہاوس میں قائم مقام چیف جسٹس کی تقریبِ حلف برداری سے پہلے ہوئی ہے۔وزیرِ اعلی علی امین گنڈاپور اور گورنر فیصل کریم کنڈی کی ملاقات 10 منٹ تک جاری رہی، دونوں خوش گوار موڈ میں دکھائی دیئے۔
ملاقات کے دوران گورنر نے وزیرِ اعلی سے سوال کیا کہ پی ٹی آئی میں کیا ہو رہا ہے؟ شیر افضل مروت کو بھی نکال دیا، مجھے ان سے ہمدردی ہے۔فیصل کریم کنڈی نے علی امین سے کہا کہ آپ کی حکومت نے اپنے ہی خلاف صوابی میں احتجاج نہیں کیا؟ اس دوران وزیرِ اعلی غیر معمولی طور پر مسکراتے رہے۔گورنر ہائوس میں وزیراعلی اور گورنر کے پی کی ملاقات کے حوالے سے ترجمان وزیر اعلی نے ردعمل میں کہا ہے کہ گورنر فارم 47 کی حکومت کا نمائندہ ہے۔
ترجمان وزیراعلی کے مطابق ملاقات کے دوران کسی قسم کی سیاسی گفتگو نہیں کی گئی۔ گورنر فارم 47 سے بنائی گئی حکومت کا نمائندہ ہے، اپنے آپ کو خبروں میں رکھنے کے لیے گورنر ہائوس کی جانب سے من گھڑت باتیں پھیلائی جارہی ہیں۔ ترجمان علی امین نے بتایا کہ پی ٹی آئی کو کے پی عوام نے 3 مرتبہ ووٹ پر منتخب کیا ہے، صوابی جلسے یا پارٹی امور پر قیاس آرائیاں مناسب نہیں، گورنر ہائوس کی جانب سے من گھڑت باتیں پھیلائی جارہی ہیں۔
.ذریعہ: Daily Sub News
کلیدی لفظ: اعلی علی امین مسکراتے رہے گورنر کے پی
پڑھیں:
وزیر اعلیٰ کے مشیر کا بیان خطے کے سیاسی و سماجی ماحول پر ایک سنگین سوال ہے، شیعہ علماء کونسل گلگت
شیعہ علما کونسل گلگت کے جنرل سیکرٹری شیخ علی محمد عابدی نے ایک بیان میں کہا کہ کسی حکومتی نمائندے کی جانب سے تند و تیز، ذاتی نوعیت اور غیر شائستہ انداز میں گفتگو نہ صرف قابلِ افسوس ہے بلکہ اس سے خطے کی حساس فضاء کو نقصان پہنچنے کا خدشہ ہے۔ اسلام ٹائمز۔ شیعہ علماء کونسل ضلع گلگت کے جنرل سکریٹری شیخ علی محمد عابدی نے ایک بیان میں کہا ہے کہ مورخہ 19 اپریل 2025ء کو جاری ہونے والی مشیر وزیراعلیٰ گلگت بلتستان مولانا محمد دین کی پریس ریلیز محض ایک بیان نہیں بلکہ گلگت بلتستان کے سیاسی و سماجی ماحول پر ایک سنگین سوال ہے جس کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس خطے کی شناخت پرامن بقائے باہمی، مذہبی رواداری اور اجتماعی شعور ہے۔ ایسے میں کسی حکومتی نمائندے کی جانب سے تند و تیز، ذاتی نوعیت اور غیر شائستہ انداز میں گفتگو نہ صرف قابلِ افسوس ہے بلکہ اس سے خطے کی حساس فضاء کو نقصان پہنچنے کا خدشہ ہے۔ وزیراعلیٰ گلگت بلتستان سے ہمارا سوال ہے کہ کیا مشیر موصوف کی یہ پریس ریلیز آپ کی منظوری سے جاری کی گئی؟ اگر ہاں، تو یہ طرز حکمرانی پر سوالیہ نشان ہے کہ ایک حکومت اپنے عوام سے اس انداز میں مخاطب ہو رہی ہے جو نفرت، تقسیم اور اشتعال کو ہوا دے رہا ہے۔ اور اگر یہ بیان آپ کی اجازت یا علم کے بغیر جاری کیا گیا ہے تو آپ کی ذمہ داری بنتی ہے کہ ایسے غیر سنجیدہ اور نالائق مشیروں کو فوراً برطرف کریں تاکہ حکومت کی نیک نامی، شفافیت اور سنجیدگی پر عوام کا اعتماد قائم رہ سکے۔
ان کا کہنا تھا کہ مشیر موصوف نے خطیب جامع مسجد امامیہ گلگت جناب آغا سید راحت حسین الحسینی جیسے محترم، سنجیدہ اور باوقار عالم دین کے خلاف جو زبان استعمال کی، وہ گلگت بلتستان کے مہذب سیاسی و سماجی کلچر سے متصادم ہے۔ ان کی باتوں سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ وہ اختلاف رائے کو ذاتی حملے سمجھتے ہیں اور سنجیدہ تنقید کا جواب اخلاقیات کے دائرے سے باہر نکل کر دینا مناسب سمجھتے ہیں۔ حکومتی پالیسیوں پر تنقید اور سوال اٹھانا ہر باشعور شہری، خصوصاً اہل علم کا آئینی، اخلاقی اور سماجی حق ہے۔ اگر حکومت کی پالیسیاں واقعی عوامی مفاد پر مبنی ہیں تو دلیل و حکمت سے عوام کو مطمئن کیا جائے، نہ کہ ان پر الزام تراشی کر کے ان کی زبان بند کرنے کی کوشش کی جائے۔ مشیر موصوف کا یہ کہنا کہ "دین کو سیاست سے الگ رکھا جائے" نہ صرف فکری گمراہی کی نشانی ہے بلکہ اس قوم کے نظریاتی اساس سے انحراف بھی ہے۔ پاکستان کا قیام ہی کلمہ طیبہ ”لا الہ الا اللہ“ کے نام پر ہوا تھا، اور اس ملک کی بقاء اسی وقت ممکن ہے جب دین اور سیاست کو ہم آہنگی سے مربوط کیا جائے۔