انٹرنیٹ ٹینکالوجی کمپنی میٹا نے ایک ایسی ٹیکنالوجی تیار کرنے کا دعویٰ کیا ہے۔ جس کے ذریعے انسانی ذہنی میں آنے والی سوچ کو الفاظ میں تبدیل کیا جا سکتا ہے۔

غیر ملکی خبر رساں ایجنسی کے مطابق میٹا کی طرف سے تیار کی جانے والی ٹیکنالوجی ہر سوچ کو الفاظ میں تبدیل نہیں کرے گی۔ بلکہ ان خیالات کو الفاظ میں تبدیل کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے جن کے تحت کوئی بھی انسان کچھ لکھنا یا کہنا چاہ رہا ہو۔

میٹا نے اس ٹیکنالوجی کو تاحال مکمل نام نہیں دیا اور اس وقت اس پر تحقیق بھی جاری ہے۔ تاہم مذکورہ ٹیکنالوجی کو “برین ٹو کیورٹی” کہا جا رہا ہے۔مذکورہ ٹیکنالوجی کچھ ایسی چیزوں پر مشتمل ہے جن میں سیلون پر موجود جیسی کرسی، اسکینر، کیمرے، الیکٹرو انٹرنیٹ تاریں اور دیگر اشیا شامل ہیں۔ یہ ٹیکنالوجی آرٹیفشل انٹیلی جنس (اے آئی) کے ایڈوانس لینگوین ماڈیول سے لیس ہے۔ اور اس ٹیکنالوجی کو انتہائی خاص کیمروں اور اسکینرز کے ساتھ جوڑا گیا ہے۔

اس ٹیکنالوجی کو بنانے سے قبل ایک بہت وسیع اور ایڈوانس اے آئی لینگویج ماڈیول کو تربیت دی گئی۔ متعدد انسانوں کو کرسی پر بٹھا کر انہیں کچھ نہ کچھ لکھنے اور سوچنے کا کہا گیا۔ پھر اسکینرز اور کیمروں نے انسان کے دماغ میں آنے والے لفظی خیالات کو ٹائپ کرنے کے لیے ٹائپنگ مشین کی جانب منتقل کیا۔مذکورہ ٹیکنالوجی کے ذریعے انسانی دماغ سے الیکٹرو انٹرنیٹ تاریں منسلک کی جاتی ہیں۔ جس کی لہریں دماغ کے اندر پیدا ہونے والے خیالات کو کیچ کر کے اسکینر، کیمرے یا کسی ایسے نظام کی جانب منتقل کرتی ہیں جو کہ خیالات کی لہروں کو الفاظ میں تبدیل کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔

کلونجی کےآپکی صحت کیلئے کسقدر مفیداثرات رکھتی ہے؟ فوائد جان کر آپ دنگ رہ جائیں گے

.

ذریعہ: Daily Ausaf

کلیدی لفظ: ٹیکنالوجی کو

پڑھیں:

تہران یورینیم افزودگی پر کچھ پابندیاں قبول کرنے کو تیار

تہران(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔21 اپریل ۔2025 ) اعلیٰ ایرانی عہدیدار نے بتایا ہے کہ تہران امریکا کو واضح کرچکا ہے کہ یورینیم کی افزودگی پر کچھ پابندیاں قبول کرنے کو تیار ہیں لیکن اس کے لیے مضبوط ضمانتوں کی ضرورت ہے کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ نئے جوہری معاہدے سے دوبارہ دستبردار نہیں ہوں گے.

(جاری ہے)

عرب نشریاتی ادارے نے ذرائع کے حوالے سے بتایا ہے کہ ایران اور امریکہ کے درمیان روم میں ہونے والے مذکرات کے دوسرے دور کو دونوں فریقوں نے مثبت قرار دیا ہے صدر ٹرمپ نے فروری سے تہران پر”زیادہ سے زیادہ دباﺅ“ کی مہم دوبارہ نافذ کی ہے اپنی پہلی مدت کے دوران 2015 میں ایران اور چھ عالمی طاقتوں کے درمیان ہونے والے ایٹمی معاہدے سے 2018 میں دستبردار ہو گئے تھے اور ایران پر دوبارہ سخت پابندیاں عائد کر دی تھیں.

ٹرمپ کی دو شرائط کے درمیان کے سالوں میں تہران نے 2015 کے معاہدے کے تحت اپنے ایٹمی پروگرام پر عائد پابندیوں سے مسلسل تجاوز کیا ان پابندیوں کا مقصد ایٹمی بم تیار کرنا مزید مشکل بنانا تھا سابق امریکی صدر جو بائیڈن، جن کی انتظامیہ نے 2015 کے معاہدے کو بحال کرنے کی ناکام کوشش کی تھی تاہم وہ تہران کی جانب سے اس ضمانت کے مطالبے کو پورا کرنے میں ناکام رہے کہ آئندہ کوئی امریکی انتظامیہ معاہدے سے دستبردار نہیں ہوگی.

تہران احتیاط کے ساتھ مذاکرات کے قریب پہنچ رہا ہے وہ کسی معاہدے تک پہنچنے کے امکان کے بارے میں شکوک اور ٹرمپ کے موقف پر شکوک و شبہات کا شکار ہے ٹرمپ نے بارہا دھمکی دی ہے کہ اگر اس نے یورینیم کی افزودگی کے تیز رفتار پروگرام کو روکا نہیں تو ایران پر بمباری کی جائے گی ایران کا مسلسل کہنا ہے کہ اس کا پروگرام پرامن ہے. تہران اور واشنگٹن کہہ چکے ہیں کہ وہ سفارت کاری کو جاری رکھنے کے لیے پرعزم ہیں لیکن دو دہائیوں سے زیادہ عرصے سے جاری تنازع پر ان کے موقف ایک دوسرے سے الگ ہیں ایرانی عہدیدار نے شناخت ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا ہے کہ تہران کی ریڈ لائنز جو سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای کی طرف سے لگائی گئی ہیں کو مذاکرات میں عبور نہیں کیا جا سکتا.

ایرانی عہدیدار نے کہا کہ ایران کی ریڈ لائنز کا مطلب ہے کہ وہ اپنے یورینیم کی افزودگی سینٹری فیوجز کو ختم کرنے، افزودگی کو مکمل طور پر روکنے یا افزودہ یورینیم کی مقدار کو اس سطح تک کم کرنے پر راضی نہیں ہوگا جو 2015 کے معاہدے میں طے پایا تھا انہوں نے کہا کہ وہ اپنے میزائل پروگرام پر بات چیت نہیں کرے گا جسے وہ کسی بھی ایٹمی معاہدے کے دائرہ کار سے باہر سمجھتا ہے ایرانی عہدیدار نے کہا کہ ایران کو عمان میں بالواسطہ بات چیت میں معلوم ہوا کہ واشنگٹن نہیں چاہتا کہ وہ اپنی تمام ایٹمی سرگرمیوں کو روکے یہ ایران اور امریکہ کے لیے منصفانہ مذاکرات شروع کرنے کی بنیاد ہو سکتی ہے یہ اس وقت سامنے آیا ہے جب ایران نے گزشتہ روز کہا کہ امریکہ کے ساتھ سمجھوتہ ممکن ہے اگر وہ سنجیدہ ارادوں کا مظاہرہ کرے اور غیر حقیقی مطالبات نہ کرے.

امریکہ کے مذاکرات کار سٹیو وِٹکوف نے کو”ایکس“پر ایک پیغام میں کہا تھا کہ ایران کو امریکہ کے ساتھ معاہدے تک پہنچنے کے لیے اپنی ایٹمی افزودگی روکنا اور قریب ترین ہتھیاروں کے درجے کے یورینیم کے ذخیرے کو ختم کرنا ہوگا . ایرانی عہدیدار نے بتایا کہ ایران نے بین الاقوامی ایٹمی توانائی ایجنسی کے ساتھ تعاون کرنے پر آمادگی ظاہر کی ہے ایران اس ادارے کو اس عمل میں واحد قابل قبول ادارہ سمجھتا ہے انہوں نے بتایا کہ ایرانی وزیر خارجہ عباس عراقچی نے امریکیوں کو آگاہ کیا ہے کہ امریکہ کو اس تعاون کے بدلے ایران کے تیل اور مالیاتی شعبوں پر عائد پابندیاں فوری طور پر ہٹانی ہوں گی.

متعلقہ مضامین

  • اب بغیر انٹرنیٹ ترجمہ کریں، واٹس ایپ کے نئے فیچر میں خاص بات کیا ہے؟
  • غزہ میں جو کچھ ہورہا ہے اس کو الفاظ میں بیان نہیں کیا جاسکتا، روسی قونصل جنرل
  • ڈونلڈ ٹرمپ کے دور اقتدار کے ہلچل سے بھرے پہلے 3 ماہ؛ دنیا کا منظرنامہ تبدیل
  • تہران یورینیم افزودگی پر کچھ پابندیاں قبول کرنے کو تیار
  • تعلیم پر روزانہ 59 ہزار روپے خرچ کرنیوالی جاپانی گلوکارہ
  • میاں بیوی کے درمیان جھگڑے کی وجہ دریافت، سائنسدانوں کی حیران کن تحقیق سامنے آگئی
  • خلیل الرحمٰن قمر کی پاکستان سے مایوسی، بھارت کیلیے کام کرنےکو تیار
  • ’لگتا ہے ان کا ذہنی توازن درست نہیں‘ شہباز گل کا شیرافضل مروت کے بیان پر ردعمل
  • تبدیل ہوتی دنیا
  • ایران امریکا مذاکرات: فریقین کا جوہری معاہدے کے لیے فریم ورک تیار کرنے پر اتفاق