ایل او سی پر بھارت کی تخریبی سرگرمیوں میں اضافہ ہوگیا، وزیر داخلہ آزاد کشمیر
اشاعت کی تاریخ: 14th, February 2025 GMT
مظفرآباد(نیوز ڈیسک) آزاد کشمیر کے وزیر داخلہ وقار احمد نور نے کہا ہے کہ بھارت کی جانب سے لائن آف کنٹرول (ایل او سی) پر تخریبی سرگرمیاں بڑھ چکی ہیں۔
مظفر آباد میں اعلیٰ حکام کے ہمراہ پریس کانفرنس کے دوران وقار احمد نور نے کہا کہ 2016 کے بعد سے ایل او سی پر آئی ای ڈیز نصب کرنے کے 54 واقعات رونما ہو چکے ہیں۔ ان دھماکوں میں کئی معصوم شہری شہید اور زخمی ہوئے۔
انہوں نے بتایا کہ 4 سے 6 فروری کے دوران بٹل سیکٹر اور راولاکوٹ میں 4 بھارتی آئی ای ڈیز برآمد ہوئیں جبکہ 12 فروری کو بھارتی فوج نے دیوا اور باکسر سیکٹر میں فائر بندی کی خلاف ورزی کی۔
انہوں نے کہا کہ 2016 کے بعد سے چکوٹھی، نیزاپیر، چیریکوٹ، رکھ چکری، دیوا، بٹل، کوٹ کوٹیرہ اور دیگر علاقوں میں بھارتی آئی ای ڈیز کے ملنے اور پھٹنے کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے۔ ان دھماکوں کے نتیجے میں کئی شہریوں کی جانیں گئی ہیں اور دیگر زخمی ہوئے ہیں۔ پاکستان نے بھارت سے ان تخریبی سرگرمیوں خاص طور پر آئی ای ڈیز کی نقل و حمل پر احتجاج کیا ہے۔
وقار احمد نور نے کہا کہ بھارت منشیات اور ہتھیاروں کی اسمگلنگ کے لیے فوجی ذرائع استعمال کرتا ہے، اور ڈبل ایجنٹوں کے ذریعے اسلحے کی کھیپ بھارتی سرحدی یونٹس تک پہنچائی جاتی ہے۔ بھارتی فوج ان ڈبل ایجنٹوں کو پاکستانی ظاہر کر کے انہیں مار ڈالتی ہے اور جعلی مقابلے بھی کرتی ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان نے اقوام متحدہ کے حکام سے بھارت کی تخریبی سرگرمیوں کے شواہد بھی فراہم کیے ہیں۔ وزیر داخلہ نے اس بات پر زور دیا کہ ایل او سی پر نہتے شہریوں پر بلا اشتعال فائرنگ اور بھارت کی تخریبی سرگرمیاں ایک طویل تاریخ رکھتی ہیں، بھارت کو یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ پاکستان اس کا بھرپور جواب دینے کی مکمل صلاحیت رکھتا ہے۔ بھارت کی یہ مذموم سرگرمیاں علاقائی سلامتی کے لیے خطرہ بن سکتی ہیں۔
.ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: آئی ای ڈیز ایل او سی بھارت کی کہا کہ نے کہا
پڑھیں:
امریکہ کے نائب صدر کا دورہ بھارت اور تجارتی امور پر مذاکرات
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 21 اپریل 2025ء) امریکی نائب صدر جے ڈی وینس آج پیر کی صبح نئی دہلی پہنچے جن کی شام کے وقت بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کے ساتھ ملاقات متوقع ہے۔ اس ملاقات میں دیگر اہم امور کے ساتھ ہی دو طرفہ تجارتی معاہدے پر بات چیت توجہ مرکوز رہنے کا امکان ہے۔
امریکی نائب صدر وینس اپنی اہلیہ کے ساتھ بھارت آئے ہیں، جو بھارتی نژاد ہیں اور ان کا تعلق ریاست آندھرا پردیش سے ہے۔
صدر ڈونالڈ ٹرمپ کی انتظامیہ میں اس دورے کو اہم سمجھا جا رہا ہے، یاد رہے کہ یہ امریکہ اور چین کے درمیان بڑھتی ہوئی تجارتی جنگ کے درمیان ہو رہا ہے۔بھارتی وزارت خارجہ کا کہنا ہے کہ یہ دورہ "فریقین کو دو طرفہ تعلقات میں پیش رفت کا جائزہ لینے کا موقع فراہم کرے گا" اور ملاقات کے دوران دونوں رہنما "باہمی دلچسپی کی علاقائی اور عالمی امور کی پیش رفت پر خیالات کا تبادلہ کریں گے۔
(جاری ہے)
"امریکی ادارے کا بھارتی خفیہ ایجنسی 'را' پر پابندی کا مطالبہ
وزیر اعظم مودی کے ساتھ ہونے والی بات چیت میں فروری میں مودی کے دورہ امریکہ کے دوران طے پانے والے دو طرفہ ایجنڈے کی پیش رفت پر توجہ مرکوز کرنے کا امکان ہے۔ اس ایجنڈے میں دو طرفہ تجارت میں "انصاف پسندی" اور دفاعی شراکت داری میں توسیع جیسے امور شامل ہیں۔
بھارتی وزارت خارجہ کا کہنا ہے، "ہم بہت مثبت ہیں کہ یہ دورہ ہمارے دو طرفہ تعلقات کو مزید فروغ دے گا۔"
بھارت کے لیے اہم کیا ہے؟امریکہ بھارت کا سب سے بڑا تجارتی شراکت دار ہے۔ امریکی حکومت کے اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ برس دونوں ممالک کی باہمی تجارت 129 بلین ڈالر تک پہنچ گئی تھی، جس میں بھارت کے حق میں 45.7 بلین ڈالر کا سرپلس ہے۔
مودی ان پہلے عالمی رہنماؤں میں شامل ہیں، جنہوں نے دوسری بار اقتدار سنبھالنے کے بعد صدر ٹرمپ سے ملاقات کی تھی۔ بھارتی حکومت نے امریکہ سے برآمد کی جانے نصف سے زیادہ اشیا پر ٹیرف میں کمی کرنے کی تجویز بھی پیش کی ہے۔
ٹرمپ کا بڑے پیمانے پر عالمی ٹیرف کا اعلان، پاکستان بھی متاثر
مودی اور ٹرمپ کے درمیان اچھے تعلقات کا ذکر عام بات ہے، البتہ امریکی صدر نے بھارت کو "ٹیرف کا غلط استعمال کرنے والا" اور "ٹیرف کنگ" تک کہا ہے۔
ٹرمپ نے بھارتی درآمدات پر 26 فیصد ٹیرف کا اعلان کیا ہے، جس پر فی الوقت 90 دنوں تک کے لیے روک لگی ہوئی ہے اور اس سے بھارتی برآمد کنندگان کو عارضی راحت بھی ملی ہے۔
امریکی نائب صدر وینس اس ماہ بھارت کا دورہ کریں گے
وینس کے دورہ بھارت کے ساتھ سے نئی دہلی کو اس بات کی امید ہے کہ 90 دن کے وقفے کے اندر ہی ایک تجارتی معاہدہ ہو جائے گا۔
بھارت رواں برس کواڈ سربراہی اجلاس کی میزبانی کرنے والا ہے اور وینس کے دورے کو اس طرح بھی دیکھا جا رہا ہے کہ اس سے بھارت میں ٹرمپ کی میزبانی کا راستہ بھی ہموار ہو سکتا ہے۔ کواڈ میں امریکہ، بھارت، جاپان اور آسٹریلیا شامل ہیں۔
ادارت رابعہ بگٹی