نئے ججز کے ناموں کیساتھ سپریم کورٹ سنیارٹی لسٹ اپ ڈیٹ
اشاعت کی تاریخ: 14th, February 2025 GMT
سپریم کورٹ میں نئے ججز کے اضافے کے ساتھ سنیارٹی لسٹ اپڈیٹ کر دی گئی۔
سپریم کورٹ کی ویب سائٹ پہ نئے حلف لینے والے 7 ججزاوران کی پروفائل پبلک کر دی گئی۔
سینارٹی لسٹ کے مطابق چیف جسٹس کے بعد جسٹس منصورعلی شاہ پہلے، جسٹس منیب اختر دوسرے، جسٹس امین الدین خان تیسرے اور جسٹس جمال مندوخیل چوتھے نمبر پر ہیں۔
جسٹس محمد علی مظہر کا پانچواں، جسٹس عائشہ ملک کا سنیارٹی میں چھٹا نمبر ہے جبکہ جسٹس اطہر من اللہ ساتویں، جسٹس حسن اظہر رضوی آٹھویں نمبر پر موجود ہیں۔ جسٹس شاہد وحید نویں، جسٹس مسرت ہلالی دسویں، جسٹس عرفان سعادت کا گیارہواں نمبرپر ہیں۔
جسٹس نعیم اختر افغان سنیارٹی لسٹ میں بارہویں، جسٹس شہزاد ملک تیرہویں نمبر پرجبکہ جسٹس عقیل عباسی چودھویں نمبر پر موجود ہیں۔ جسٹس شاہد بلال حسن کا پندرہواں نمبر، جسٹس ہاشم کاکڑ سولویں، جسٹس شفیع صدیقی سترہویں نمبر پر ہیں۔
جسٹس صلاح الدین پنوراٹھارہویں، جسٹس شکیل احمد کا سنیارٹی میں انیسواں، جسٹس عامر فاروق کا بیسواں ں، جسٹس اشتیاق ابراہیم کا اکیسواں نمبر ہے۔ جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب بائیسویں، جسٹس سردار طارق تئیسویں نمبر پرجبکہ جسٹس مظہر عالم میاں خیل سنیارٹی لسٹ میں چوبیسویں نمبر پر ہیں۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: سنیارٹی لسٹ پر ہیں
پڑھیں:
ناانصافی ہو رہی ہو تو اُس پر آنکھیں بند نہیں کی جا سکتیں، سپریم کورٹ
اسلام آباد:صنم جاوید کی 9 مئی مقدمے سے بریت کے خلاف کیس کی سماعت میں سپریم کورٹ کے جسٹس ہاشم کاکڑ نے ریمارکس دیے ہیں کہ اگر ناانصافی ہو تو اس پر آنکھیں بند نہیں کی جا سکتیں۔
سپریم کورٹ میں 9 مئی مقدمات میں صنم جاوید کی بریت کے فیصلے کے خلاف پنجاب حکومت کی اپیل پر سماعت ہوئی، جس میں حکومتی وکیل نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ صنم جاوید کے ریمانڈ کیخلاف لاہور ہائیکورٹ میں درخواست دائر ہوئی۔ ریمانڈ کیخلاف درخواست میں لاہور ہائیکورٹ نے ملزمہ کو مقدمے سے بری کردیا۔
جسٹس ہاشم کاکڑ نے ریمارکس دیے کہ ان کیسز میں تو عدالت سے ہدایات جاری ہوچکی ہیں کہ 4 ماہ میں فیصلہ کیا جائے۔ اب آپ یہ مقدمہ کیوں چلانا چاہتے ہیں؟ جس پر وکیل نے جواب دیا کہ ہائی کورٹ نے اپنے اختیارات سے بڑھ کر فیصلہ دیا اور ملزمہ کو بری کیا۔
جسٹس ہاشم کاکڑ نے کہا کہ میرا اس حوالے سے فیصلہ موجود ہے کہ ہائیکورٹ کے پاس تمام اختیارات ہوتے ہیں۔ اگر ہائیکورٹ کو کوئی خط بھی ملے کہ ناانصافی ہورہی تو وہ اختیارات استعمال کرسکتی ہے۔ اگر ناانصافی ہو تو اس پر آنکھیں بند نہیں کی جاسکتیں۔
وکیل پنجاب حکومت نے کہا کہ ہائیکورٹ سوموٹو اختیارات کا استعمال نہیں کرسکتی، جس پر جسٹس صلاح الدین نے ریمارکس دیے کہ کریمنل ریویژن میں ہائی کورٹ کے پاس تو سوموٹو کے اختیارات بھی ہوتے ہیں۔
صنم جاوید کے وکیل نے بتایا کہ ہم نے ہائیکورٹ میں ریمانڈ کے ساتھ بریت کی درخواست بھی دائر کی تھی۔
جسٹس اشتیاق ابراہیم نے استفسار کیا کہ آہپ کو ایک سال بعد یاد آیا کہ ملزمہ نے جرم کیا ہے؟ جسٹس ہاشم کاکڑ نے کہا کہ شریک ملزم کے اعترافی بیان کی قانونی حیثیت کیا ہوتی ہے آپ کو بھی معلوم ہے۔ اس کیس میں جو کچھ ہے بس ہم کچھ نہ ہی بولیں تو ٹھیک ہے۔
جسٹس ہاشم کاکڑ نے ریمارکس میں کہا کہ ہائی کورٹ کا جج اپنے فیصلے میں بہت آگے چلا گیا۔ لاہور ہائیکورٹ کے جج نے غصے میں فیصلہ دیا۔ بعد ازاں عدالت نے مقدمے کی سماعت غیر معینہ مدت تک کے لیے ملتوی کردی۔