سپریم کورٹ کے نئے ججز نے حلف اٹھا لیا‘چیف جسٹس نے حلف لیا
اشاعت کی تاریخ: 14th, February 2025 GMT
اسلام آباد، کراچی (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 14 فروری2025ء)سپریم کورٹ آف پاکستان کے نئے ججز نے عہدے کا حلف اٹھا لیا۔چیف جسٹس آف پاکستان یحییٰ آفریدی نے سپریم کورٹ میں حلف برداری کی تقریب میں سپریم کورٹ میں نئے تعینات ہونے والے 6 ججوں سے حلف لیا۔جسٹس عامر فاروق، جسٹس ہاشم کاکڑ، جسٹس اشتیاق ابراہیم، جسٹس شکیل احمد، جسٹس شفیع صدیقی اور جسٹس صلاح الدین پنہور نے سپریم کورٹ کے جج کا حلف اٹھایا۔
(جاری ہے)
تقریبِ حلف برداری میں اسلام آباد ہائی کورٹ کے جج محسن اختر کیانی، اٹارنی جنرل، وکلاء ، لاء افسران اور عدالتی اسٹاف نے شرکت کی۔واضح رہے کہ صدرِ مملکت آصف علی زرداری نے نئے ججوں کی تقرری کی منظوری دی تھی۔دوسری جانب قائم مقام چیف جسٹس سندھ ہائیکورٹ جسٹس جنید غفار نے بھی عہدے کا حلف اٹھا لیا۔کراچی میں گورنر ہاؤس میں گورنر سندھ کامران خان ٹیسوری نے قائم مقام چیف جسٹس سندھ ہائیکورٹ سے حلف لیا۔حلف برداری کی تقریب میں ایڈیشنل اٹارنی جنرل، سندھ ہائیکورٹ کے ججز، ایڈووکیٹ جنرل سندھ اوردیگر نے شرکت کی۔.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے سپریم کورٹ چیف جسٹس کورٹ کے
پڑھیں:
ناانصافی ہو رہی ہو تو اُس پر آنکھیں بند نہیں کی جا سکتیں، سپریم کورٹ
اسلام آباد:صنم جاوید کی 9 مئی مقدمے سے بریت کے خلاف کیس کی سماعت میں سپریم کورٹ کے جسٹس ہاشم کاکڑ نے ریمارکس دیے ہیں کہ اگر ناانصافی ہو تو اس پر آنکھیں بند نہیں کی جا سکتیں۔
سپریم کورٹ میں 9 مئی مقدمات میں صنم جاوید کی بریت کے فیصلے کے خلاف پنجاب حکومت کی اپیل پر سماعت ہوئی، جس میں حکومتی وکیل نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ صنم جاوید کے ریمانڈ کیخلاف لاہور ہائیکورٹ میں درخواست دائر ہوئی۔ ریمانڈ کیخلاف درخواست میں لاہور ہائیکورٹ نے ملزمہ کو مقدمے سے بری کردیا۔
جسٹس ہاشم کاکڑ نے ریمارکس دیے کہ ان کیسز میں تو عدالت سے ہدایات جاری ہوچکی ہیں کہ 4 ماہ میں فیصلہ کیا جائے۔ اب آپ یہ مقدمہ کیوں چلانا چاہتے ہیں؟ جس پر وکیل نے جواب دیا کہ ہائی کورٹ نے اپنے اختیارات سے بڑھ کر فیصلہ دیا اور ملزمہ کو بری کیا۔
جسٹس ہاشم کاکڑ نے کہا کہ میرا اس حوالے سے فیصلہ موجود ہے کہ ہائیکورٹ کے پاس تمام اختیارات ہوتے ہیں۔ اگر ہائیکورٹ کو کوئی خط بھی ملے کہ ناانصافی ہورہی تو وہ اختیارات استعمال کرسکتی ہے۔ اگر ناانصافی ہو تو اس پر آنکھیں بند نہیں کی جاسکتیں۔
وکیل پنجاب حکومت نے کہا کہ ہائیکورٹ سوموٹو اختیارات کا استعمال نہیں کرسکتی، جس پر جسٹس صلاح الدین نے ریمارکس دیے کہ کریمنل ریویژن میں ہائی کورٹ کے پاس تو سوموٹو کے اختیارات بھی ہوتے ہیں۔
صنم جاوید کے وکیل نے بتایا کہ ہم نے ہائیکورٹ میں ریمانڈ کے ساتھ بریت کی درخواست بھی دائر کی تھی۔
جسٹس اشتیاق ابراہیم نے استفسار کیا کہ آہپ کو ایک سال بعد یاد آیا کہ ملزمہ نے جرم کیا ہے؟ جسٹس ہاشم کاکڑ نے کہا کہ شریک ملزم کے اعترافی بیان کی قانونی حیثیت کیا ہوتی ہے آپ کو بھی معلوم ہے۔ اس کیس میں جو کچھ ہے بس ہم کچھ نہ ہی بولیں تو ٹھیک ہے۔
جسٹس ہاشم کاکڑ نے ریمارکس میں کہا کہ ہائی کورٹ کا جج اپنے فیصلے میں بہت آگے چلا گیا۔ لاہور ہائیکورٹ کے جج نے غصے میں فیصلہ دیا۔ بعد ازاں عدالت نے مقدمے کی سماعت غیر معینہ مدت تک کے لیے ملتوی کردی۔