یونیسف کو کانگو میں بچوں کی صورتحال پر گہری تشویش
اشاعت کی تاریخ: 14th, February 2025 GMT
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ UN اردو۔ 14 فروری 2025ء) اقوام متحدہ کے ادارہ برائے اطفال (یونیسف) نے متنبہ کیا ہےکہ جمہوری کانگو (ڈی آر سی) میں بڑھتے ہوئے تشدد کے باعث جنسی تشدد، زیادتی اور بچوں کی ہلاکتوں میں خطرناک شرح سے اضافہ ہو رہا ہے۔
ادارے کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر کیتھرین رسل نے بچوں پر اس تنازع کے تباہ کن اثرات کی بابت گہری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ صوبہ شمالی اور جنوبی کیوو میں متحارب فریقین کی جانب سے بچوں کے حقوق کی سنگین پامالی ہو رہی ہے جس کی حالیہ برسوں میں کوئی مثال نہیں ملتی۔
بین الاقوامی غیرسرکاری ادارے 'سیو دی چلڈرن' کے مطابق، صوبہ اتوری میں سوموار کو 52 افراد کی ہلاکت ہوئی جن میں کم از کم 28 بچے بھی شامل ہیں۔ یہ ہلاکتیں تیز دھار اسلحے اور بندوقوں کی فائرنگ سے ہوئیں۔
(جاری ہے)
مسلح افراد نے بہت سے لوگوں کے گھروں کو بھی نذر آتش کر دیا جبکہ ایسے واقعات میں لوگوں کے زندہ جلنے کی اطلاعات بھی موصول ہوئی ہیں۔
جنسی تشدد اور زیادتیادارے نے بتایا ہے کہ بچوں کے اغوا اور ان کے ساتھ جنسی تشدد کے واقعات میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔
27 جنوری سے 2 فروری کے درمیانی ایام میں یونیسف کے 42 طبی مراکز میں آنے والی ایسی خواتین اور لڑکیوں کی تعداد میں پانچ گنا اضافہ دیکھا گیا جنہیں جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا گیا تھا اور ان میں 30 فیصد تعداد نوعمر لڑکیوں کی تھی۔کیتھرین رسل نے کہا ہے کہ متاثرین کی حقیقی تعداد اس سے کہیں زیادہ ہو سکتی ہے کیونکہ بہت سی خواتین خوف کے مارے سامنے نہیں آنا چاہتیں جبکہ امدادی اداروں کے پاس انہیں ایچ آئی وی انفیکشن سے بچانے کے لیے درکار ادویات کی قلت کے باعث سبھی کو طبی سہولیات کی فراہمی آسان نہیں رہی۔
جنگ میں بہت سے بچے اپنے خاندانوں سے بچھڑ گئے ہیں جنہیں بدسلوکی اور استحصال کا نشانہ بنائے جانے کا خطرہ ہے۔ دو ہفتوں کے دوران شمالی اور جنوبی کیوو میں ایسے 1,100 بچوں کی نشاندہی ہوئی جبکہ یہ تعداد متواتر بڑھ رہی ہے۔
بچہ سپاہیوں کی بھرتی
ایگزیکٹو ڈائریکٹر نے کہا ہے کہ ملک کے جنگ زدہ علاقوں میں مسلح گروہوں کی جانب سے کم از کم 4,006 بچوں کو جنگی مقاصد کے لیے بھرتی کیے جانے کی اطلاعات موصول ہوئی ہیں جن میں 12 سال تک عمر کے بچے بھی شامل ہیں۔
لڑائی میں شدت آنے کے بعد اس تعداد میں مزید اضافے کا خدشہ ہے۔انہوں نے متحارب فریقین پر زور دیا ہے کہ وہ بچوں کے حقوق کی اس سنگین پامالی کو روکیں اور شہریوں کو تحفظ دینے کے لیے بین الاقوامی قانون کی مطابقت سے ٹھوس اقدامات کریں۔
حاملہ خواتین کے مصائبجنسی و تولیدی صحت کے لیے اقوام متحدہ کے ادارے (یو این ایف پی اے) نے کہا ہے کہ لڑائی اور تشدد سے حاملہ خواتین بھی ہولناک طور سے متاثر ہو رہی ہیں۔
ایسی بہت سی خواتین کو پناہ کی تلاش میں کئی مرتبہ نقل مکانی کرنا پڑی ہے اور وہ ایسے گنجان آباد کیمپوں میں رہنے پر مجبور ہیں جہاں طبی سہولیات تک رسائی بہت محدود ہے۔حالیہ بحران سے پہلے ہی ملک میں حاملہ خواتین کے لیے طبی سہولیات بہت کم تھیں جن میں اب بہت بڑے پیمانے پر اضافہ ہو گیا ہے۔ جنگ زدہ صوبوں میں ایک تہائی ہسپتال اور 20 فیصد بنیادی طبی مراکز ہی فعال رہ گئے ہیں۔
ان حالات میں بہت سی خواتین کے لیے 'یو این ایف پی اے' کے متحرک کلینک ہی طبی مدد کے حصول کا واحد ذریعہ ہیں۔ادارے نے بتایا ہے کہ شمالی اور جنوبی کیوو میں حاملہ خواتین کی تعداد تقریباً 220,000 ہے جن میں 12 ہزار سے زیادہ بے گھر ہیں جنہیں کسی طرح کی کوئی طبی مدد میسر نہیں۔ 88 ہزار سے زیادہ خواتین اور لڑکیوں کو صنفی بنیاد پر تشدد کا خدشہ لاحق ہے جبکہ طبی خدمات کی فراہمی بند ہو جانے سے ان چاہے حمل میں بھی اضافہ متوقع ہے۔
.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے حاملہ خواتین سی خواتین کہا ہے کہ کے لیے ہیں جن
پڑھیں:
اسرائیلی حکومت اور معاشرے کے درمیان گہری تقسیم
اسلام ٹائمز: فوج کے ریزرو کرنل ڈاکٹر عامر بلومین فیلڈ کا کہنا ہے کہ ہم اب ایسے لمحات میں ہیں جب خاموشی ایک دھوکہ ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ جن نازک لمحات کا ہم آج سامنا کر رہے ہیں وہاں خاموشی یا ہچکچاہٹ کی اجازت نہیں دی جا سکتی اور غزہ سے اسرائیلی قیدیوں کی واپسی کے لیے کابینہ کے عزم کا فقدان تمام اسرائیلیوں سے تقاضا کرتا ہے کہ وہ اس سلسلے میں اپنی ذمہ داری انجام دیں، جو لوگ جنگی کابینہ کیخلاف احتجاج میں شرکت نہیں کرتے اور خاموش اور لاتعلق رہتے ہیں وہ درحقیقت غدار ہیں اور انہوں نے باہمی یکجہتی کے اصول کو ترک کر دیا ہے، خاص طور پر جب اسرائیل میں اخلاقی اقدار بتدریج تباہ ہو رہی ہیں، قیدیوں کی واپسی کا مسئلہ فقط اسرائیلی معاشرے میں دائیں اور بائیں بازو کی سیاسی تقسیم نہیں، بلکہ اسرائیلی ریاست کی اپنے آباد کاروں کے ساتھ بنیادی وابستگی سے متعلق ہے۔ خصوصی رپورٹ:
غاصب صیہونی ریاست کی فضائیہ کی پائلٹوں سے لے کر موساد کے افسران تک، جنگی کابینہ کیخلاف احتجاج کی لہر اسرائیل میں اندرونی تقسیم اور دراڑ کی گہرائی کیسے ظاہر کرتی ہے؟ اس بارے میں عبرانی حلقوں کا خیال ہے کہ جنگ کے خلاف مظاہرے اور پٹیشن، جو فضائیہ کے اندر سے شروع کی گئی اور موساد جیسے حساس اداروں کے افسران میں شامل ہوتے گئے، اب نتن یاہو کی جنگی کابینہ کے خلاف اس احتجاج میں سول ملٹری اور سیاسی اشرافیہ بھی شامل ہو چکی ہے۔ یہ احتجاج اسرائیلی معاشرے میں دراڑ کی گہرائی، اسرائیلی آبادکاروں اور جنگی و سیاسی اسٹیبلشمنٹ کے درمیان بداعتمادی کے بڑھتے ہوئے بحران کی عکاسی کرتا ہے۔
یہ صیہونی آبادکاروں کے درمیان بے چینی اور اضطراب کو ظاہر کرنیوالا ایک بے مثال منظرنامہ ہے، جس میں صیہونی حکومت کی جانب سے بڑھتے ہوئے مظاہروں کا مشاہدہ کیا جا رہا ہے۔ یہ احتجاج حکومتی، فوجی اور سیکورٹی اداروں سے نکل کر ماہرین تعلیم، ڈاکٹروں، مصنفین وغیرہ سمیت اعلیٰ طبقات تک پہنچ گیا ہے، یہ سب غزہ جنگ کے خاتمے اور اسرائیلی قیدیوں کی فوری واپسی کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ احتجاج کی یہ لہر 9 اپریل کو شروع ہوئی تھی۔ جب 1200 سے زائد پائلٹوں اور فضائیہ کے ریزرو دستوں نے غزہ جنگ کے جاری رہنے اور غزہ میں اسرائیلی قیدیوں کی زندگیوں کو خطرے میں ڈالنے کے خلاف احتجاج کے طور پر خدمت جاری رکھنے سے انکار کر دیا۔
معاشرے اور ریاست و حکومت کے درمیان عدم اعتماد کی فضا:
ملٹری برانچز کے مختلف افسروں اور اہلکاروں نے بھی پٹیشن پر دستخط کیے، جن میں فوج کے سابق چیف آف اسٹاف اور حکومت کے اعلیٰ افسران بھی شامل ہیں۔ بین گوریون، تل ابیب اور ایریل یونیورسٹیوں کے سابق ڈینز سمیت 1800 سے زائد افراد نے 11 اپریل کو ایک احتجاجی پٹیشن جاری کی۔ ان مظاہروں کی لہر برف کے گولے کی مانند تھی جس نے پورے صہیونی معاشرے کو اپنی لپیٹ میں لے لیا اور فضائیہ کے یونٹوں کے علاوہ بحریہ کے افسران، بکتر بند فوج، ریزرو فورسز اور ملٹری اکیڈمی کے گریجویٹ، انٹرنل سیکیورٹی وغیرہ بھی اس میں شامل ہیں۔ ان کا مطالبہ ہے کہ ہم جنگ کو مسترد کرتے ہیں اور قیدیوں کی فوری واپسی چاہتے ہیں۔
لیکن ان مظاہروں میں صہیونی حکام کو سب سے بڑا جھٹکا یہ لگا کہ موساد کے اندر سے مختلف عناصر بھی جنگ کے خلاف مظاہروں کی تازہ لہر کا حصہ بن گئے۔ جہاں اسپائی سروس کے 250 سابق ملازمین بشمول اس کے تین سابق سربراہان نے ایک احتجاجی پٹیشن تیار کی اور جنگ کی مخالفت کا اعلان کیا۔ ایلیٹ یونٹس جیسے شیلڈگ، شیطت 13، اور ریٹائرڈ پولیس افسران اور سابق کمشنر بھی ان احتجاجی درخواستوں میں شامل ہوئے۔ ان پٹیشنز پر دستخط کرنیوالوں میں سب سے نمایاں موساد کے سابق سربراہان جیسے ڈینی یتوم، ابراہم حلوی اور تمیر پارڈو شامل ہیں۔
اسرائیلی محکمہ صحت کے 3000 سے زائد ملازمین، نوبل انعام یافتہ شخصیات 1700 فنکاروں، اور سینکڑوں ادیبوں اور شاعروں کے ساتھ، اس سلسلے میں احتجاجی پٹیشنز پر دستخط کر چکی ہیں، جس میں جنگ کے خاتمے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ یونیورسٹی کی سطح پر، 3500 ماہرین تعلیم، 3000 تعلیمی شعبے کے ملازمین، اور 1000 طلباء ان احتجاجی درخواستوں میں شامل ہوئے۔ یہ پٹیشنز اب محض علامتی بیانات نہیں ہیں، بلکہ صیہونی حکومت کے لئے کئی دہائیوں سے اس کی بقا کا سب سے اہم عنصر سمجھنے والی اشرافیہ میں عدم اطمینان اور تقسیم اور دراڑ کی عکاسی ہے۔
قیدیوں کی رہائی کے لئے مذاکرات کا اختتام اور جنگ کے خاتمے کے لیے واضح سیاسی نقطہ نظر کی عدم موجودگی صیہونی اشرافیہ کی احتجاجی مظاہروں کی لہر میں شمولیت اسرائیلی معاشرے میں گہری تقسیم کی علامت بن گئی ہے جو اسے اندر سے درہم برہم کر سکتی ہے۔ ان احتجاجی تحریکوں اور مظاہروں کی اہمیت کے حوالے سے عبرانی حلقوں کا کہنا ہے یہ رجحان اسرائیل مقتدرہ، اشرافیہ اور اداروں میں اندرونی تقسیم کی عکاسی کرتا ہے اور گہری ہوتی سماجی تقسیم کے علاوہ سیاسی پولرائزیشن میں اضافے کا سبب ہے، فوجی اور سیکورٹی یونٹس کے ارکان کی جانب سے احتجاجی پٹیشنز پر دستخط اسرائیلی فوجی اسٹیبلشمنٹ میں ایک غیر معمولی تبدیلی کی نمائندگی کرتے ہیں، کیونکہ اسرائیل کے فوجی اور سیکورٹی اداروں کے اندر سے اتنے بڑے پیمانے پر داخلی مظاہرے شاذ و نادر ہی دیکھنے میں آتے ہیں۔
سیاسی اور عسکری اداروں میں عدم اعتماد کا بحران:
یہ تجزیہ کار اس بات پر زور دیتے ہیں کہ جنگ کے خلاف احتجاجی پٹیشنز اسرائیل کی سیاسی قیادت اور عسکری کمانڈروں پر اعتماد میں کمی کی عکاسی کرتی ہیں اور معاشرے کے ایک بڑے طبقے خصوصاً اشرافیہ کا کابینہ اور فوج سے اعتماد اٹھ چکا ہے۔ اسرائیلی فوج اور سول اداروں کی طرف سے جاری احتجاجی درخواستیں ڈیڑھ سال سے زائد عرصے کی بے نتیجہ جنگ کے بعد سیاسی ذرائع سے قیدیوں کے تبادلے کے معاہدے کو مکمل کرنے کے لیے بینجمن نیتن یاہو کی کابینہ پر بڑھتے ہوئے احتجاج اور اندرونی دباؤ کی مثال ہیں۔ اسرائیلی فوج کے ایک ریزرو جنرل اسرائیل زیو نے اعلان کیا ہے کہ غزہ جنگ کے خاتمے اور قیدیوں کی واپسی کا مطالبہ کرنے والی درخواستیں سول نافرمانی تو نہیں، لیکن یہ اسرائیلی آبادکاروں اور جنگی کابینہ کے درمیان بڑھتے ہوئے فاصلوں اور بحران کی عکاسی کرتی ہیں۔
اس صہیونی جنرل، جو اس سے قبل انفنٹری اور پیرا ٹروپرز ڈویژن کے کمانڈر، غزہ ڈویژن کے کمانڈر اور اسرائیلی فوج کے آپریشنل شعبے کے سربراہ جیسے اہم عہدوں پر فائز رہ چکے ہیں، نے اسرائیلی ٹی وی چینل 12 کی سائیٹ پر شائع ہونے والے ایک مضمون میں تاکید کی ہے کہ جن لوگوں نے احتجاجی درخواستوں پر دستخط کیے ہیں وہ فوجی اور سیکورٹی اداروں کے اشرافیہ کے اہم لوگ ہیں، یہ اس جنگ میں اسرائیل کی سیاسی قیادت کی ناکامی پر گہری تشویش کا اظہار ہے۔ انہوں نے اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو پر کڑی تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ ان پٹیشنز پر دستخط کرنے والے نیتن یاہو پر بھروسہ نہیں کرتے، کیونکہ وہ اپنے سیاسی ایجنڈے، ذاتی مقاصد اور مفادات کی تکمیل کے لیے اسرائیلیوں کے جذبات کا استحصال کرتے ہیں، اور وہ غزہ سے قیدیوں کی واپسی کے لیے کوشش نہیں کر رہے، اس کا مطلب ہوگا واضح قومی اور فوجی اہداف کے بغیر جنگ جاری رہے گی، جس سے اسرائیل کی سلامتی خطرے میں ہے۔
صیہونی فوج کے ریزرو کرنل ڈاکٹر عامر بلومین فیلڈ کا کہنا ہے کہ ہم اب ایسے لمحات میں ہیں جب خاموشی ایک دھوکہ ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ جن نازک لمحات کا ہم آج سامنا کر رہے ہیں وہاں خاموشی یا ہچکچاہٹ کی اجازت نہیں دی جا سکتی اور غزہ سے اسرائیلی قیدیوں کی واپسی کے لیے کابینہ کے عزم کا فقدان تمام اسرائیلیوں سے تقاضا کرتا ہے کہ وہ اس سلسلے میں اپنی ذمہ داری انجام دیں، جو لوگ جنگی کابینہ کیخلاف احتجاج میں شرکت نہیں کرتے اور خاموش اور لاتعلق رہتے ہیں وہ درحقیقت غدار ہیں اور انہوں نے باہمی یکجہتی کے اصول کو ترک کر دیا ہے، خاص طور پر جب اسرائیل میں اخلاقی اقدار بتدریج تباہ ہو رہی ہیں، قیدیوں کی واپسی کا مسئلہ فقط اسرائیلی معاشرے میں دائیں اور بائیں بازو کی سیاسی تقسیم نہیں، بلکہ اسرائیلی ریاست کی اپنے آباد کاروں کے ساتھ بنیادی وابستگی سے متعلق ہے۔