Nai Baat:
2025-04-22@05:54:58 GMT

پاکستان تجربات کی لیبارٹری

اشاعت کی تاریخ: 14th, February 2025 GMT

پاکستان تجربات کی لیبارٹری

پاکستان شاید واحد ہی خطہ ہوگا جسے آپ ہر قسم کی تجربہ گاہ کی لیبارٹری کہہ سکتے ہیں اور آج بھی ہم آٹھویں عشرے میں انہی بار بار کئے تجربات گاہوں سے گزر رہے ہیں۔ یہ درست ہے کہ کسی بھی کام کے لئے تجربہ ضروری ہوتا ہے اور ہم نے تو ماشاء اللہ ہر معاملے میں تجربات ہی تجربات کرکے دیکھے مگر سب بے سود ثابت ہوئے۔ اب ان تجربات میں ایک دو ٹھیک ہوئے تو وہ بھی آٹے میں نمک نہ ہونے کے برابر، اگر تجربات کا ذکر چلا ہی ہے تو ہم نے آزادی کے بعد پہلے ون یونٹ کا تجربہ کیا، پھر تین بار مارشل لاء کا تجربہ ہوا، پھر بار بار جمہوریت کا تجربہ ہوا، یعنی مارشل لائ، پھر جمہوریت، پھر مارشل لاء اور پھر جمہوریت جو آج بھی لیبارٹری میں تجربہ گاہ سے گزر رہی ہے۔ اسی طرح اسلام کے نام پر آزاد ہونے والا ملک میں جنرل ضیاء الحق کی دی اسلامی پالیسی تجربہ گاہ بھی تھی۔ اس تجربے کی آڑ میں انہوں نے تمام اداروں کی سالمیت کو خطرے میں ڈال دیا تھا اور اس تجربے کے اثرات کئی عشرے گزرنے کے بعد بھی ہمارے ماحول میں موجود ہیں۔ ان تجربات کی آڑ میں ہماری نسلوں کو ایک غلط تھیوری پڑھائی گئی وہ تھی کہ اسلام خطرے میں ہے، جمہوریت خطرے میں ہے۔ معاشرہ بھی خطرے میں ہے۔ ملکی سالمیت کو بھی خطرہ ہے… خطرہ اس قدر خطرہ کہ پاکستانی نوجوانوں نے پاکستان کو خطرناک ملک قرار دے ڈالا۔ ہر وقت مشکلات اور تجربات میں گھرا پاکستان جس کے بارے آج اگر کوئی مجھ سے یہ سوال کرے کہ اسلام کو سب سے زیادہ خطرہ کس سے ہے تو میرا ایک ہی جواب ہوگا۔ افتراق و انتشار… اب اگر اس سوال پر غور کیا جائے کہ ایسی صورتحال کیونکر پیدا ہوئی تو آپ حالات و واقعات ہم سب کے سامنے ہیں کہ کس طرح سوشل میڈیا ہم پر کیوں نازل کیا گیا کہ اس یہودی خطرے نے تو ہماری نسلوں کو دین و مذہب سے بھی دور کر دیا اور کس طرح استعماری طاقتوں نے مختلف طریقوں سے امت مسلمہ میں گمراہ کن نظریات رائج کئے اور پھر ان بے مقصد تصورات کے پھیل جانے سے مسلمانوں کی وحدت کی جہاں فکر ختم کی گئی وہاں مسلمان بھی مختلف نظریاتی ٹولیوں میں تقسیم ہو گئے۔ دیکھا جائے تو یہ سارا خلفشار عقائد اور نظریات کا ہے۔ یہاں پھر سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا اس سے نکلنے کے لئے ایک صاف اور سیدھا راستہ کیا ہے کہ ہم خالص اور حقیقی اسلام کی پیروی کریں۔ یہ بات جانتے ہوئے بھی کہ اسلام کے سوا ہم جس نظام کو اپنا ئیں گے وہ ہمیں ایک دوسرے سے الگ کر دے گا۔ آج بھی امت مسلمہ میں کہیں اشتراکی نظریات کا پر چار ہے تو کہیں قومیت پرستی کا فلسفہ زور پکڑ رہا ہے اور کہیں تہذیب کے نام پر بے دینی زندگی سر اٹھا رہی ہے شاید ہمارے پاس وہ رہنما یا افراد نہیں جوغیر اسلامی قوتوں یا ان کے نظریات کا مقابلہ کر سکیں۔ دوسری طرف جدیدیت کے نام پر اسلام کے بارے میں جو منفی راستے اپنائے جا رہے ہیں اور جس طرح سوشل میڈیا پر نوجوان نسل کو اسلام سے دور کرنے کا پرچار ہو رہا ہے اس سے لگتا ہے کہ ہم آنے والے برسوں میں مزید شدید خطرات میں نہ صرف مزید گھریں گے نہ صرف مزید تباہی کا سامنا ہوگا بلکہ ہماری قومی سالمیت کو بھی ان خطرات کا سامنا کرنا پڑے گا۔ پوری دنیا میں آج جتنے بھی مذاہب ہیں ان میں واحد اسلام محبت کا مذہب ہے امتوں کا مذہب ہے، امن اور سلامتی کا مذہب ہے قوت اور صلاحیت کا مذہب ہے ترقی اور فضیلت کا مذہب ہے اکثر لوگ اسلام اور سوشلزم کو جوڑنے کی کوشش کرتے ہیں یہ نامناسب رویہ ہے اور اسلام کے ساتھ اس کی پیوند کاری درست بات نہیں ہے۔ اسلام کا ایک مستقل اور مربوط معاشرتی نظام ہے جبکہ سوشلزم ایک علیحدہ زندگی لہٰذا دونوں کی نہ تو سرحدیں ملتی ہیں اور نہ ایک دوسرے کے قریب آسکتے ہیں۔ باقی نیت تو اوپر والا ہی جانتا ہے جو پوری کائنات کا بادشاہ ہے۔ یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا مسلمان شکست کھا گئے ہیں جو کسی دور میں بہت بڑی طاقت بہت بڑی جماعت اور بہت بڑے سردار تصور کئے جاتے تھے۔ یہ سب کچھ کیسے ختم ہو گیا؟ ایسے حالات میں تو یہی کہا جا کہ مسلمانوں کی سب سے بڑی شکست کا سبب ہمارا باہمی انتشار ہے دوسرا ایک اور بڑا مسئلہ ماڈرن کہلوانے کے شوقین نو جوانوں نے مغربی تہذیب کا پرچار کرنا شروع کر دیا اور یہ مادی چمک و دمک دراصل روح کا شعلہ بجھا دیتی ہے۔

دیکھنے اور سوچنے والی بات یہ ہے کہ زندگی کی بے راہ روی، نماز اور قرآن پاک سے دوری اور جس طرح ذرائع ابلاغ کے ذریعے تباہ کن اثرات ہماری نسلوں کو جہاں دین اور قرآن سے بہت دور لے جا چکے ہیں، وہاں روز بروز نئی نسل بر بادی اور اپنی ہی تباہی میں گرتی نظر آ رہی ہے۔ آج جدیدیت کے نام پر فیس بک، سوشل میڈیا اور دوسری کئی خرابیوں کے بے دریغ استعمال سے اس قدر خوفناک گند گھروں کے اندر پھیلا دیا گیا اور ہماری بچیاں اور ہمارے کم عمر بچے آج ہر اس گند میں دھکیل دیئے گئے کہ نہ شرم رہی نہ حیانہ پردہ نہ احترام ایک طوفان بد تمیزی برپا ہے جس گند کے بارے میں کبھی ہم سنا کرتے تو آنکھیں شرم سے جھک جاتی تھیں اور آج وہی گند موبائل کے ذریعے انہی استعماری اور یہودی قوتوں نے ہماری نسلوں کے اندر اتار کر جدیدیت کے نام پر مسلمانوں کے خلاف اپنے ناپاک عزائم کی کسی حد تک تکمیل کر لی ہے۔ یوٹیوب کے ذریعے قوموں کو تباہ کرنے کے لئے وہ کام جو جنگوں کے ذریعے حاصل کرتے تھے اب وہ کام ایک بٹن کی دوری پر اس قدر بیہودہ فلموں ، بیہودہ گفتگو، بیہودہ مضامین کے ذریعے ہوا کہ اس نے مسلمان قوم کو تباہی کے دہانے پر لا کھڑا کیا۔ اب اس گند کو کون روکے گا اور کیا یہ رک پائے گا۔ میرے نزدیک اگر ان کا جلد تدارک نہ کیا اور یوٹیوب پر تباہی پھیلانے والے سیلاب کو نہ روکا تو یہ فحاشی، دہشت گردی اس بند گلی کی طرف لے جائے گی جہاں سے واپسی ناممکن ہے۔ یہ وہ تباہی ہے جس سے ہماری نوجوان نسل کی نسل بھی خود کو سنبھال نہ سکے گی۔

.

ذریعہ: Nai Baat

کلیدی لفظ: ہماری نسلوں کا مذہب ہے کے نام پر اسلام کے کے ذریعے

پڑھیں:

ہمارے حکمران اور سیاستدان اُمت مسلمہ سے نہیں ہیں، علامہ راجہ ناصر عباس جعفری 

کربلائے عصر فلسطین سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے ایم ڈبلیو ایم کے چیئرمین کا کہنا تھا کہ دشمن کی کوشش ہے کہ مزاحمت نہ ہو اور وہ پراپیگنڈہ کر رہا ہے، ہماری ذمہ داری ہے کہ مزاحمت زندہ ہے اور جاری ہے، یہ خدا کا وعدہ ہے، جو اُسکی مدد کرتا ہے، خدا اُسکی مدد کرتا ہے، ہم نے فلسطین کی حمایت کو زندہ رکھنا ہے۔ اسلام ٹائمز ۔ مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے سربراہ سینیٹر علامہ راجہ ناصر عباس جعفری نے کربلائے عصر فلسطین سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ یزید کل بھی ہارا ہے، وہ آج بھی ہارے گا، جو اپنے اصولوں پر مر مٹا، وہ زندہ ہے اور جیت اُس کی ہے، ہماری ذمہ داری ہے استقامت دکھانا، ظالموں کا مقابلہ کرنا ہے، قیام کرنا ہماری ذمہ داری ہے، واقعہ کربلا کے بعد مخدرات عصمت نے استقامت کا مظاہرہ کیا اور کربلا والوں کی قربانیوں کو دنیا کے سامنے پیش کیا، اللہ کی راہ میں جہاد کرنے والوں کے لیے اللہ کے وعدے ہیں اور اُن کے لیے انعام ہے۔

دشمن کی کوشش ہے کہ مزاحمت نہ ہو اور وہ پراپیگنڈہ کر رہا ہے، ہماری ذمہ داری ہے کہ مزاحمت زندہ ہے اور جاری ہے، یہ خدا کا وعدہ ہے، جو اُسکی مدد کرتا ہے، خدا اُس کی مدد کرتا ہے، ہم نے فلسطین کی حمایت کو زندہ رکھنا ہے، ہمارے حکمران اور سیاستدان اُمت مسلمہ سے نہیں ہیں، اُمت مسلمہ وہ ہے، جو امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کرے، کوئی بھی منافق اُمت محمدی سے نہیں ہے، شہدائے غزہ و فلسطین ہمیشہ کے لیے زندہ ہیں، شہید صرف زندہ نہیں ہوتا بلکہ وہ زندہ کرتا بھی ہے، وہ اُمت کو بیدار کرتا ہے، خاموش اُمت اسرائیل کی حامی ہے۔
 

متعلقہ مضامین

  • مانتے ہیں ہمارا مڈل آرڈر زیادہ مضبوط نہیں: روی بوپارہ
  • زمین صرف ہماری نہیں، آنے والی نسلوں کی بھی امانت ہے: مریم نواز
  • نکسلزم کو ختم کرنے کی ہماری مہم جاری رہے گی، امت شاہ
  • بیوروکریسی کی کارکردگی جانچنے کا نیا نظام منظور، ایف بی آر پر تجربہ کامیاب
  • وزیراعظم نے بیوروکریسی کی کارکردگی جانچنے کا نیا نظام منظور کرلیا، FBR پر تجربہ کامیاب، تنخواہیں کامیابی سے مشروط
  • وقف قانون کے خلاف لڑائی میں جیت ہماری ہوگی، ملکارجن کھرگے
  • مسلسل شکستوں نے عاقب جاوید کی رخصتی کا پروانہ بھی جاری کردیا
  • ہمارے حکمران اور سیاستدان اُمت مسلمہ سے نہیں ہیں، علامہ راجہ ناصر عباس جعفری 
  • ایک نا تجربہ کار حکومت نے ملک کی معاشیات کو تباہ کر کے رکھ دیا،خواجہ آصف
  • سمجھ نہیں آیا پیپلز پارٹی کینال کیخلاف کھڑی ہے یا ساتھ، مفتاح اسماعیل