Nai Baat:
2025-04-22@07:42:31 GMT

بیرونی امداد و قرضے … قومی انا و غیرت

اشاعت کی تاریخ: 14th, February 2025 GMT

بیرونی امداد و قرضے … قومی انا و غیرت

پاکستان اس وقت شدید معاشی بحران سے گزر رہا ہے۔ ایک طرف افراطِ زر، بڑھتی ہوئی بے روزگاری اور لوگوں کی کم ہوتی ہوئی قوتِ خرید کا سنجیدہ اور تشویشناک معاملہ سامنے ہے تو دوسری طرف عوام کی زندگی کا معیار مسلسل گر رہا ہے اور قرضوں اور سود کی صورت میں قومی خزانے پر بوجھ ہے کہ بڑھتا ہی چلا جا رہا ہے۔ ملک اربوں ڈالر کا مقروض ہو گیا ہے اور یہ سارا بوجھ غریب پر پڑ گیا، اس کی قسمت اور بگڑ گئی۔ بڑے لوگ پہلے سے زیادہ بڑے ہو گئے۔ ادھر غریب کے دکھ بڑھتے ہیں، ادھر ان کی دولت میں اضافہ ہو جاتا ہے۔

 

ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان کا ہر فرد 312000 روپے تک کا مقروض ہے، جب کہ 2011ء میں ہر پاکستانی 46000، 2013ء میں 61000، اور 2016ء میں 100000روپے، 2018ء میں 140000،2022ء میں 280000، کا مقروض تھا۔ پاکستان کے ذمہ بیرونی قرضوں کا حجم جولائی 2013ء تک 61ارب 90کروڑ ڈالر تھا، جولائی 2014ء میں 65ارب ڈالر اور جو لائی 2015ء میں 66ارب ڈالر تھا، 2017ء میں72 ارب 98 کروڑ ڈالر تھا، جون 2018ء میں بیرونی قرضوں کا حجم 95 ارب ڈالر تھا، 31 دسمبر 2019ء کو 110 ارب 71 کروڑ ڈالر ڈالر، 31 دسمبر 2020ء تک ملک کا مجموعی قرض 115.

756 ارب ڈالر تھا، 2022ء کے اختتام پر 127.708 ارب ڈالر تھا، 2023ء کے اختتام تک 130.847 ارب ڈالرتھا، جو اب ملکی تاریخ کی بلند ترین سطح 133ارب ڈالر تک پہنچ گیا ہے۔ برآمدات میں مسلسل کمی ہو رہی ہے اور اس کی مناسبت سے درآمدات میں اضافہ اس بات کا عندیہ ہے کہ ہمارا مالیاتی خسارہ بھی مسلسل بڑھ رہا ہے جس سے ثابت ہوتا ہے کہ ہم قرضوں کے ناقابلِ برداشت بوجھ تلے دبے ہوئے ہیں اور قرض دینے والوں کو یہ یقین دہانی کرائی جا رہی ہے کہ ہمارے پاس اتنے ادارے ہیں کہ ہم نجکاری کر کے ان سے آنے والی رقوم کے ذریعے قرضوں کی ادائیگی کر سکتے ہیں۔ موجودہ حکومت بھی پچھلی حکومتوں کی طرح کہہ رہی ہے کہ ہم لئے جانے والے قرضے سے ملک کی معیشت کو سنوار دیں گے لیکن ہم جب ماضی میں لئے گئے قرضوں میں سال بہ سال ہونے والا اضافہ دیکھتے ہیں تو اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ حکومتیں قرضے لیتی رہیں، قرجوں کا بوجھ بڑھتا رہا جب کہ ملکی معیشت بد سے بد تر ہوتی چلی گئی۔

دنیا بھر کی قومیں اپنے ترقیاتی مقاصد کے لئے قرضے حاصل کرتی ہیں پھر ان قرضوں کو ترقیاتی سکیموں میں لگایا جاتا ہے۔ حکومتیں اپنے ملکوں میں مہنگائی کو اس قدر کنٹرول کرتی ہیں کہ کسی طور پر ان منصوبوں کی لاگت میں مزید اضافہ نہ ہو لہٰذا بروقت مکمل کرنے کی بھی ہر ممکن کوشش کی جاتی ہے۔ لیکن پاکستان کے بارے میں یہ تاثر پایا جاتا ہے کہ منصوبہ بنا لینے کے بعد اسے شروع کرنے میں ہی اتنا وقت لگا دیا جاتا ہے کہ اس کی لاگت میں مزید اضافہ ہو جاتا ہے۔ پھر ایک عرصہ گزرنے کے بعد پھر سے وسائل اکٹھے کرنے کی تگ و دو شروع کر دی جاتی ہے۔ لاگت میں اضافہ ہونے کے بعد اتنی رقم کا بندو بست نہ ہونے کے باعث منصوبہ ہی کھٹائی میں پڑ جاتا ہے۔ ہمارے ہاں حکومتیں آتی جاتی رہتی ہیں اور اکثر و بیشتر وقت سے پہلے ہی چلی جاتی ہیں تو آنے والی حکومت شروع کئے گئے منصوبوں کو سرے سے ہی رد کر دیتی ہے اور اس کی جگہ دوسرا منصوبہ تیار کیا جاتا ہے۔ ایک دفعہ پھر تمام مراحل طے کئے جاتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ آج ہم توانائی کے بحران کا شکار ہیں حکومتوں میں اتنی صلاحیت نہیں تھی کہ لانگ ٹرم بڑے پراجیکٹ تیار کرتیں اور ان کو تکمیل کے مراحل تک لے کر جاتیں۔

موجودہ ترقی یافتہ دور میں قوموں کے لئے غیر ملکی امداد و قرضہ جات کا حصول بڑی حد تک ناگزیر ہے،ممالک نہ چاہتے ہوئے بھی ایسے روابط سے منسلک ہونے پر مجبور ہیں جن سے ان کی غیرت و انا پر زد پڑتی ہے کیونکہ دنیا کی 95فیصد سائنس و ٹیکنالوجی پر 5فیصد اقوام کا قبضہ ہے اسلحہ، اجناس و خوراک کی امداد کے بغیر شائد گزارہ ہو جائے مگر جدید ٹیکنالوجی کے بغیر اس دور میں زندہ رہنا پھلنا پھولنا محال ہے۔ لیکن غیر ملکی امداد اس حد تک جائز و مناسب ہے کہ قومی انا و غیرت پر زد نہ پڑتی ہو اور اس حاصل ہونے والی امداد سے قومی ترقی و تعمیر کا مقصد حاصل ہوتا نظر آ سکے۔ جب یہ امداد قومی غیرت کا سودا کر کے چند افراد اور طبقوں کی ذاتی مراعات و خواہشات کی تکمیل کے لئے حاصل کی جائے تو یہ زہرِ قاتل بن جاتی ہے۔
پاکستان اس وقت جس نازک اور سنگین صورت حال سے دوچار ہے، ان حالات میں ملک کی تمام سیاسی قوتوں کو اپنے وقتی اور فروعی اختلافات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے اتحاد و یکجہتی اور فکری ہم آہنگی کا مظاہرہ کرنے کے ساتھ ساتھ آمرانہ قوتوں کو اپنے رویے میں تبدیلی پیدا کرنا ہو گی۔ خاص طور پر وردی کی صورت میں حکومتی امور چلانے کی روش کو مکمل طور پر ترک کرنا ہو گا۔ ان حالات میں قومی اتحاد و یکجہتی کے لئے تمام سیاسی اور مذہبی قوتوں کو مل کر بیٹھنا ہو گا۔ ماضی کی غلطیوں کا ازالہ کرنے کے لئے ایسی پالیسی وضع کرنا ہو گی جس میں جمہوریت کو استحکام حاصل ہو اور ملک کے تمام جمہوری اداروں کو اپنا کردار ادا کرنے کا موقع ملے۔ اگر ان حالات میں بھی سیاست دان خاص طور پر حکمرانوں نے اپنی انانیت ترک نہ کی اور ہر صورت میں اقتدار سے چمٹے رہنے کی پالیسی اختیار کئے رکھی تو کسی وقت بھی کوئی المیہ رونما ہو سکتا ہے۔ اس وقت پاکستان کو ایسی قیادت کی ضرورت ہے جو عوام کے دکھوں کو سمجھے اور ان کے مسائل کا حل نکالے۔ معیشت کی بہتری کے لئے سیاسی استحکام بنیادی ضرورت ہے۔ سیاسی عدم استحکام کے باعث عوامی مسائل جوں کے توں رہتے ہیں۔ سیاسی عدم استحکام اور معاشی ترقی کا آپس میں گہرا تعلق ہے حکومت سیاسی جماعتوں کے ساتھ مل کر استحکام پیدا کرنے کے لئے ٹھوس اقدامات کرے۔

ذریعہ: Nai Baat

کلیدی لفظ: ارب ڈالر تھا ہے کہ ہم جاتا ہے ہے اور رہا ہے کے لئے

پڑھیں:

سونے کی فی تولہ قیمت میں ہزاروں روپے کا اضافہ

پاکستان اور عالمی مارکیٹ میں سونے کی قیمت میں مسلسل اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے جس سے سونے کی قیمت تاریخ کی بلند ترین سطح پر پہنچ گئی ہے۔

پاکستان میں فی تولہ سونے کی قیمت میں 8100 روپے کا اضافہ ہوگیا۔

ملک میں فی تولہ سونا 8100 روپے اضافے کے بعد 357800 روپے کا ہوگیا جب کہ 10 گرام سونا 6944 روپے اضافے کے بعد 306755  روپے کا ہو گیاہے۔

اس کے علاوہ 10 گرام 22 قیراط سونے کی قیمت 281202  روپے ہوگئی۔

جبکہ عالمی بازار میں سونا 69 ڈالر اضافے کے بعد 3395 ڈالر فی اونس کا ہوگیاہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

ڈالر سونے کی قیمت سونے کی قیمت میں اضافہ فی تولہ سونا

متعلقہ مضامین

  • اسرائیلی مائنڈ سیٹ،کیا پدی اور کیا پدی کا شوربہ؟
  • پاکستان کا 3 ارب 40 کروڑ ڈالر کا چینی قرض ری شیڈول کرانے کا فیصلہ 
  • حکومت کو ملنے والی غیرملکی امداد میں کمی آگئی
  • نئے پوپ کا انتخاب کیسےکیا جاتا ہے؟
  • پاکستان میں پولیو کے خلاف سال کی دوسری قومی مہم کا آغاز
  • سونے کی فی تولہ قیمت میں ہزاروں روپے کا اضافہ
  • پاکستان کا 3 ارب 40 کروڑ ڈالر کا چینی قرض ری شیڈول کرانے کا فیصلہ
  • وزیراعظم کے کامیاب بیرونی دورے کے ثمرات جلد نظرآئینگے :رانا مبشر اقبال
  • ہمارے خلاف منصوبے بنتے ہیں مگر ہم کہتے ہیں آؤ ہم سے بات کرو، سلمان اکرم راجہ
  • چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروبار کیلئے بلاسود قرضے دئیے جا رہے ہیں: شافع حسین