عدلیہ اتنی آزاد ہوگئی ہے کہ آئی ایم ایف سے مل رہی ہے،سینیٹر کامران مرتضیٰ
اشاعت کی تاریخ: 14th, February 2025 GMT
اسلام آباد(نمائندہ جسارت)وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے سینیٹ میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہا ہے کہ عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کا وفد چیف جسٹس آف پاکستان کے پاس کسی مقدمے کا پوچھنے نہیں گیا تھا بلکہ ہمارے دوستوں کی طرف سے خطوط آئی ایم ایف کو بھیجے جاتے ہیں اور عدالتی درجہ بندی سے متعلق میڈیا میں رپورٹ ہوتا ہے وہ اس حوالے سے ملاقات کرنے گئے تھے۔ڈپٹی چیئرمین سینیٹ سیدال خان ناصر کی زیرِ صدارت سینیٹ اجلاس شروع ہوا، سینیٹ اجلاس میں پرنس کریم آغا خان کے انتقال پر دعائے مغفرت کی گئی، دعا سینیٹر دوست محمد خان نے کروائی۔جے یو آئی (ف) کے سینیٹر کامران مرتضی نے نقطہ اعتراض پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ ملک میں معاشی ترقی ایسی ہے کہ کرپشن انڈیکس بڑھ گئی ہے، آئی ایم ایف کا وفد آیا ہوا ہے جو چیف جسٹس سے مل رہا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ آئی ایم ایف وفد کی چیف جسٹس سے ملاقات خود مختاری کے خلاف ہے، عدلیہ اتنی آزاد ہوگئی ہے کہ آئی ایم ایف سے مل رہے ہیں، بلوچستان خیبرپختو نخوا میں حالات خراب ہیں۔وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے جواب میں کہا کہ آئی ایم ایف کا وفد چیف جسٹس کو ملا ہے، دو تین پروگرام ہیں، جو لا اینڈ جسٹس کمیشن چلاتا ہے، ہمارے دوستوں کی طرف سے خطوط آئی ایم ایف کو بھیجے جاتے ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ اس حوالے سے عدلیہ کے سربراہ سے آئی ایم ایف وفد کی ملاقات ہوئی ہے، آئی ایم وفد سپریم کورٹ کسی مقدمہ کا پوچھنے نہیں گیا، عدالتی درجہ بندی پر اکثر میڈیا میں رپورٹ ہوتا رہتا ہے، اس حوالے سے ملاقات ہوئی ہے۔وزیر قانون نے کہا کہ چیف جسٹس نے بطور سربراہ لاءاینڈ جسٹس کمیشن ملاقات کی، آئی ایم ایف کے وفد نے چیف جسٹس سے ملاقات کی ججوں سے نہیں، ان کا جوڈیشل اصلاحات کا پروگرام ہے، چیف جسٹس سے وقت مانگا گیاتھا، انہوں نے گورننس اور عدالتی اصلاحات پر بات کی۔
سینیٹ اجلاس
ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: کہ آئی ایم ایف چیف جسٹس سے سے ملاقات
پڑھیں:
عدالت کیخلاف پریس کانفرنسز ہوئیں تب عدلیہ کا وقار مجروح نہیں ہوا؟
اسلام آباد ( اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین۔ 21 اپریل 2025ء ) اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس بابر ستار نے جج ہمایوں دلاور کیخلاف سوشل میڈیا کمپین سے متعلق ایف آئی اے کی رپورٹ غیرتسلی بخش قرار دیدی۔ تفصیلات کے مطابق اسلام آباد ہائیکورٹ نے جج ہمایوں دلاور کے خلاف مبینہ سوشل میڈیا مہم پر ڈائریکٹر اینٹی کرپشن خیبرپختونخواہ صدیق انجم اور دیگر کے خلاف کیس میں وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کی رپورٹ کو غیرتسلی بخش قرار دیتے ہوئے دوبارہ رپورٹ جمع کرانے کا حکم دے دیا، عدالت نے خصوصی عدالت میں مقدمے کا ٹرائل روکنے کا حکمِ امتناع بھی برقرار رکھا۔ سماعت کے دوران ایف آئی اے کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ ’ڈی جی ایف آئی اے کی جانب سے رپورٹ جمع کروا دی گئی ہے، ڈی جی ایف آئی اے کی رپورٹ ہمارے مؤقف کی تائید ہے، ایف آئی اے رپورٹ کے مطابق جج ہمایوں دلاور کے خلاف سوشل میڈیا پر مہم شروع کی گئی‘، اس پر جسٹس بابر ستار نے استفسار کیا کہ ’کیا ایف آئی اے کو معلوم نہیں کہ عدالت میں رپورٹ کس طرح فائل کی جاتی ہے؟ شریک ملزم کے مطابق سوشل میڈیا مہم کے لیے سیاسی دباؤ تھا اس کا کیسے دفاع کریں گے؟ درخواست گزار کے مطابق شریک ملزم کا مجسٹریٹ کے سامنے دیا گیا بیان ریکارڈ پر موجود ہے، اس نے اس میں ایسا کچھ نہیں کہا‘۔(جاری ہے)
اس کے جواب میں ایف آئی اے وکیل نے کہا کہ ’جج کی طرف سے ایف آئی اے میں کوئی شکایت فائل نہیں کی گئی، اُن کے بھانجے نے شکایت فائل کی تھی‘، جسٹس بابر ستار نے ریمارکس دیئے کہ ’کوئی جج کی طرف سے کیسے شکایت درج کروا سکتا ہے؟ ایف آئی اے رپورٹ میں مہم سے عدلیہ کا وقار ختم کرنے کا لکھا ہوا ہے، آپ کو پتا ہے اس ہائیکورٹ کے کتنے ججز کے خلاف بدنیتی پر مبنی کمپینز چلیں؟ ہائیکورٹ کے ججز کے معاملے پر ایف آئی اے نے کہا کہ کچھ پتا نہیں کون کر رہا ہے، اِس کیس میں ایف آئی اے کو سب پتا چل گیا حالاں کہ جج نے خود شکایت بھی نہیں جمع کرائی‘، بعد ازاں عدالت نے ایف آئی اے کو دوبارہ رپورٹ جمع کرانے کا حکم دیتے ہوئے سماعت 19 مئی تک ملتوی کردی۔