Jasarat News:
2025-04-22@06:52:26 GMT

نمازیوں کے لیے چند بشارتیں

اشاعت کی تاریخ: 14th, February 2025 GMT

سب سے اہم عبادت نماز پر کار بند افراد کے لیے بشارتوں کا عظیم تحفہ پیش خدمت ہے!
نماز کو رب کائنات نے خصوصی امتیازات سے نوازا ہے۔ نماز تاکیدی عبادت اور بہترین اطاعت ہے۔ یہ قربِ الٰہی کو پانے کا آسان ترین ذریعہ اور بندے اور رب کے درمیان مضبوط تعلق ہے۔ لا الہ الااللہ محمد رسول اللہ کو جاننے ماننے کے ساتھ ہی ادایگی نماز ہر مسلمان پر لازم قرار پاتی ہے۔ نماز ہی وہ عمل ہے جس کی قیامت کے روز سب سے پہلے پرکھ ہوگی۔ اگر نماز درست قرار پائی تو باقی کے اعمال نسبتاً درست ہوتے چلے جائیں گے، کیوںکہ نماز فواحش ومنکرات کے روکنے کا سبب ہے۔ اس کی اہمیت جاننی ہو تو دیکھ لیجیے کہ نبی مکرمؐ کی آخری وصیت بھی اَلصَّلَاۃَ اَلصَّلَاۃَ تھی۔ نماز کا دھیان رکھنا اور اس کی ادایگی مومن کی کامیابیوں کا زینہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ نماز کو قائم رکھنے والوں اور شوق وخشوع سے اس کی ادایگی کا اہتمام کرنے والوں کو قرآن واحادیث میں بہت سی بشارتیں دی گئی ہیں، جن میں سے صریح و واضح چند خوش خبریاں آپ کی خدمت میں پیش ہیں۔

نماز کی ادایگی پر بشارتیں
افضل ترین عمل : حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کہتے ہیں کہ میںنے رسول اللہؐ سے استفسار کیا: یا رسول اللہ! کون سا عمل افضل ترین ہے؟ آپؐ نے فرمایا: نماز کو وقت پر اداکرنا۔ میں نے عرض کیا: اس کے بعد کون سا عمل افضل ہے؟ آپؐ نے فرمایا: والدین سے نیک سلوک کرنا۔ میں نے پھر عرض کیا: اس کے بعد کون سا عمل افضل ہے؟ آپؐ نے فرمایا: اللہ کی راہ میں جہاد کرنا۔ (مسلم)
اللہ اور بندے کے درمیان مضبوط تعلق کا ذریعہ: حضرت انس بن مالکؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہؐ نے فرمایا: تم میں سے جو بھی جب بھی حالتِ نماز میں ہوتا ہے تو وہ اس وقت اپنے رب کے ساتھ حالتِ مناجات میں ہوتا ہے(بخاری)۔ یعنی عبد معبود سے اثناے نماز راز ونیاز کی حالت میں ہوتا ہے جو کہ قربت کا اعلیٰ مقام ہے۔

دین کے ستون کو قائم کرنے کا ذریعہ: حضرت معاذ بن جبلؓ کہتے ہیں، رسول اللہؐ نے فرمایا: کیا میں تمھیں اسلام کے راس العمل اور اس کے ستون اور چوٹی کے عمل کے بارے میں نہ بتا دوں؟ میں نے عرض کیا: ضرور یارسول اللہ! تو آپؐ نے فرمایا: راس الامر پورا دین اسلام ہے۔ نماز دین کا ستون ہے اور چوٹی کا عمل جہاد ہے۔ (ترمذی) یعنی جس طرح عمارت کا ستون کے بغیر قائم رہنے کا تصور نہیں کیا جا سکتا اسی طرح دین کا قیام نماز کے بغیر نا ممکن ہے، اور جو اس ستون کو مضبوط کرتا رہتا ہے وہ دین کی رحمتوں کو پاتا چلا جاتا ہے۔

دنیاوی اور اْخروی نور: رسول اللہؐ کا فرمان ہے: الصَّلَاۃْ نْور، ’’نماز نور ہے‘‘۔ (مسلم، ترمذی) یعنی نماز ظلمت اور شک وشبہہ کو نْور اور یقین وسکون قلبی میں بدل دیتی ہے۔
منافقت کو ختم کرنے کا سبب: رسول اللہؐ نے ارشاد فرمایا: منافقین پر بھاری ترین نماز، فجر اور عشا کی ہوتی ہیں۔ اگر وہ جان لیں کہ ان کی ادایگی میں کیا فضل و انعام ہے، تو وہ ان کی ادایگی کے لیے ضرور آئیں، چاہے رینگ رینگ کر ہی آنا پڑے۔ (بخاری، مسلم) حضرت ابوہریرہؓ سے معلوم ہوا کہ جو تمام نمازیں ادا کرنے کا اہتمام کرتا ہے جن میں یہ دو مذکورہ نمازیں بھی شامل ہیں، وہ منافقت سے بری قرار پاتا ہے۔ یہ بہت بڑی خوش خبری ہے۔
جہنم کی آگ سے نجات: نبی اکرمؐ نے فرمایا: وہ شخص ہر گز جہنم کی آگ میں نہیں ڈالا جائے گا جو طلوعِ آفتاب (فجر) سے پہلے اور غروب آفتاب (عصر) سے پہلے کی نمازوں کی ادایگی کرتا ہے۔ (مسلم ) لیجیے نارِ جہنم سے امان کی بشارت پائیے اور عمل کیجیے۔

فواحش ومنکرات سے بچاؤ کا ذریعہ: ارشاد باری تعالیٰ ہے: (اے نبیؐ) ’’تلاوت کرو اس کتاب کی جو تمھاری طرف وحی کے ذریعے سے بھیجی گئی ہے اور نماز قائم کرو، یقیناً نماز فحش اور بْرے کاموں سے روکتی ہے‘‘۔ (العنکبوت: 45) یعنی نماز یہ صلاحیت پروان چڑھاتی ہے کہ زندگی سے بد اعمالیوں سے پاک ہونے کا سامان ہوتا چلا جاتا ہے۔
مشکلات میں مددگار اور سہارا: حکم خداوندی ہے: ’’مدد لو صبر اور نماز سے‘‘۔ (البقرہ: 45) کارزارِ حیات کی مشکلات میں دو عمل سہولت وآسانی کا سبب بنتے ہیں: 1۔صبر،2۔نماز۔ معاملات حیات میں دونوں کی خا ص اہمیت ہے۔
باجماعت نماز کی فضیلت: بلندیِ درجات کی یہ نوید اس فرمانِ رسولؐ میں آئی ہے: ’’ نماز باجماعت انفرادی نماز سے 72 درجے افضل ہے‘‘۔ (بخاری، مسلم)
اللہ کی حفاظت وضمانت: رسولِ رحمتؐ نے فرمایا: تین طرح کے افراد اللہ عزوجل کی حفاظت کو پالیتے ہیں۔ اگر زندہ ہوں تو ایسا رزق پاتے ہیں جو کفایت والا ہوتا ہے اور جب مر جائیں تو جنت میں داخل کیے جاتے ہیں: جو گھر میں داخل ہوتے ہوئے سلام کرے۔ جو نماز کی ادایگی کے لیے مسجد میں جائے۔ جو جہاد فی سبیل اللہ کے لیے جائے۔ (ابوداؤد)
ترجمہ: طارق نور الہی

.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: رسول اللہ ہوتا ہے کے لیے

پڑھیں:

کیمرے کی آنکھ دیکھ رہی ہے

اس بلاگ کی تحریک سماجی ذرائع ابلاغ پر ایک تحریر اور ویڈیو بنی ہے۔ پہلے ہم تحریر پر بات کرلیتے ہیں۔ تحریر کچھ یوں تھی کہ ایک پاکستانی صاحب رمضان المبارک کے مہینے میں کسی غیر مسلم ملک کے دورے پر گئے۔ جب دوپہر کے کھانے کا وقت ہوا تو ان کے میزبان نے کہا کہ چلیے لنچ پر چلتے ہیں۔ ان پاکستانی صاحب نے کہا کہ وہ لنچ نہیں کرسکتے۔ میزبان کے استفسار پر انھوں نے کہا کہ وہ روزے سے ہیں۔

میزبان نے پوچھا کہ یہ روزہ کیا ہوتا ہے؟ انھوں نے روزے کے بارے میں بتایا اور کہا کہ ہم اللہ کے حکم سے سورج طلوع ہونے سے پہلے کھانا بند کر دیتے ہیں اور پھر سورج غروب ہونے پر اللہ کے نام سے افطار یا کھانا کھاتے ہیں۔

میزبان نے کہا کہ میں کھانا یہاں منگوا لیتا ہوں یہاں تمہیں کھاتے ہوئے کوئی نہیں دیکھے گا۔ اس پر بھی ان صاحب نے کہا کہ یہاں مجھے کھاتے ہوئے کوئی نہیں دیکھے گا مگر اللہ تو ہر جگہ ہے اور چونکہ وہ مجھے دیکھ رہا ہے اس لیے میں یہ کھانا نہیں کھا سکتا۔ اس پر میزبان نے پوچھا کہ کیا تمھارے ملک کے تمام لوگ ایسا ہی سوچتے ہیں؟ اس پر ان صاحب نے سینہ پھلا کر فخریہ انداز میں بتایا کہ ان کے ملک کا کیا بچہ کیا بڑا سب ہی ایسا سوچتے ہیں۔ 
میزبان نے تھوڑی دیر سوچ کر کہا کہ پھر تو تمھارے ملک میں کوئی جرم نہیں ہوتا ہوگا کیونکہ اللہ تو ہر جگہ ہے اور وہ یقیناً دیکھتا ہوگا؟ وہ صاحب دورہ مکمل کرکے پاکستان واپس آگئے ہیں لیکن ابھی تک وہ اپنے میزبان کی اس بات کا جواب نہیں دے پائے۔

دوسری تحریک جو ایک ویڈیو بنی وہ کچھ یوں تھی کہ ایک صاحب خریداری کےلیے دکان پر جاتے ہیں لیکن دکان پر دکاندار نہیں ہوتا۔ وہ کچھ چیزیں چرا کر اپنے پاس رکھ لیتے ہیں کہ یکایک ان کی نظر اوپر کیمرے پر پڑتی ہے جو دکاندار نے نصب کروایا ہوا ہوتا ہے۔ وہ فوراً تمام چیزیں واپس اپنی اپنی جگہ پر رکھ دیتے ہیں۔ اتنے میں دکاندار واپس آجاتا ہے اور وہ اس کی سمجھداری کی تعریف کرتے ہیں کہ اس نے دکان سے چیزوں کی چوری سے بچاؤ کےلیے کیمرہ نصب کروا لیا ہے۔

دکاندار انھیں بتاتا ہے کہ کیمرہ تو لگوا لیا ہے پر ابھی وہ کارآمد نہیں کیونکہ ابھی تک اسے وقت نہیں ملا کہ وہ اس کا کنکشن کروا سکے۔ اس کے بعد اس گاہک کے ذہن پر کیا گزری ہوگی یہ میں آپ کے تخیل پر چھوڑتا ہوں۔

ہم اللہ سے زیادہ ڈرتے ہیں یا کیمرے کی آنکھ سے؟ اس کا جواب کسی کے تخیل پر نہیں چھوڑا جاسکتا کیونکہ ہمارا جواب دراصل ہمارے عقائد کا حصہ ہے، لیکن اس کے ساتھ ساتھ ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ من حیث القوم ہم چوری کرنے سے نہیں ڈرتے بلکہ چوری کرکے پکڑے جانے سے ڈرتے ہیں۔

یہ بات بھی کچھ لوگوں کےلیے ہی کہی جاسکتی ہیں۔ ہماری اشرافیہ تو چوری کرکے دو انگلیوں سے فتح کا نشان بھی بناتے ہیں اور ضرورت پڑے تو بیماری کی اداکاری کرکے اسپتال میں داخل بھی ہوجاتے ہیں۔ ملک میں کرپشن کے مقدمات اس کا عملی ثبوت ہے۔

ہم چاہیں زبانی طور پر چوری کی جتنی بھی مذمت کریں لیکن اس کے ساتھ ساتھ ہم سب یہ بھی جانتے ہیں کہ ہمارے قول اور ہمارے افعال ایک نہیں اور بقول سہیل وڑائچ کیا یہ کھلا تضاد نہیں ہے؟

ہمارے بچپن میں یہ کہا جاتا تھا کہ اگر کوئی گناہ یا جرم کرنا ہے تو وہاں جاکر کروں کہ جہاں اللہ نہ دیکھ رہا ہو۔ ظاہر ہے کہ ایسی تو کوئی جگہ ہو ہی نہیں سکتی۔ لہٰذا اس طریقے سے لوگوں کو گناہ اور جرم سے روکنے کی کوشش کی جاتی تھی۔ آج کل ویسے بھی یہ سب باتیں کتابی لگتی ہیں۔ لوگوں نے اس کا حل یہ نکالا کہ ہر جگہ جرم و گناہ کرو ماسوائے اس جگہ کے جہاں کیمرے لگے ہوں۔

ان دنوں جرائم کو بھی دو وسیع معنوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ نیلے کالر والے جرائم اور سفید کالر والے جرائم۔ نیلے کالر والے جرائم جیسے فون چھیننا، موٹر سائیکل یا گاڑی چوری کرنا وغیرہ۔ سفید کالر جرائم تو باقاعدہ ایک صنعت کی شکل اختیار کرچکے ہیں کہ جس میں بہت قابل اور تعلیم یافتہ لوگ آپ کےلیے کام کرتے ہیں۔ اس کام میں ایسا طریقہ کار اختیار کیا جاتا ہے کہ لوگ اپنی جمع پونجی خود ان کے حوالے کردیں یا لوگوں کی جیب سے اس طرح پیسے نکلوائے جائیں کہ لوگوں کا اس کا پتہ بھی نہ چلے اور اگر پتہ چل بھی جائے تو انگلی ان تک نہ پہنچ پائے۔ اسٹاک ایکسچینج اور جائیداد کی خرید و فروخت کے سودے اس کی بڑی مثالیں ہیں۔ اس سے زیادہ مثالیں آپ کےلیے نہ سہی مگر میرے لیے یقیناً مشکلات کا باعث بن سکتی ہیں، اس لیے اس بات کو یہی روک دیتے ہیں۔

ہم لوگوں کو اس سے ڈر کیوں نہیں لگتا کہ اللہ سب دیکھ رہا ہے؟ اس کی وجہ وہ بے شمار وظائف، روایات اور رسومات ہیں کہ جن پر عملدرآمد کرکے ہم اپنے تئیں گناہوں سے پاک ہوجاتے ہیں۔ جس طرح موٹر وے پر رفتار زیادہ ہونے کی ریکارڈنگ دکھا کر جرمانہ کیا جاتا ہے، بالکل اسی طرح ہمارے تمام افعال بھی ریکارڈ ہورہے ہیں اور یوم الدین پر ہمارے اپنے اعضاء ہمارے اعمال کی گواہی دیں گے اور اس وقت لوگوں کے حق کو کھانے والے کی سزا کی تلافی کسی عبادت کے وسیلے سے ممکن نہ ہوگی۔ لیکن ہاں عبادت کے بدلے شاید ممکن ہوں لیکن وہ بھی اس صورت میں کہ اگر اس شخص کی رضا یا منشا ہو جس کا حق غصب کیا گیا تھا۔ اگر یہ سب کچھ کرکے آخر میں تہی دامن ہی ہونا ہے تو پھر آخرت میں کیوں اور دنیا میں کیوں نہیں کہ جہاں شاید اس کا ازالہ بھی ممکن ہے۔ 

اگر وقت ملے تو ضرور سوچیے گا ورنہ اللہ تو دیکھ رہا ہے کہ جس کی من حیث القوم نہ ہم نے پہلے کبھی پروا کی تھی اور نہ آئندہ کی کوئی امید ہے کیونکہ اگر ہم نے پروا کی ہوتی تو آج اقوام عالم میں ہماری یہ عزت افزائی نہ ہورہی ہوتی اور آخرت میں کس کے ساتھ کیا ہوگا یہ تو اللہ ہی بہتر جانتا ہے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

متعلقہ مضامین

  • معروف شیف ذاکر حسین انتقال کرگئے
  • رومان رئیس کی بہن انتقال کر گئیں
  • سابق جج سپریم کورٹ جسٹس سرمد جلال عثمانی انتقال کر گئے
  • حیا
  • یہودیوں کا انجام
  • باطنی بیداری کا سفر ‘شعور کی روشنی
  • وہ ملک جس نے بجلی کی بچت کے لیے مساجد میں نماز کا دورانیہ مختصر کر دیا
  • کار مسلسل
  • کراچی میں نماز کیلیے جانے والے بزرگ کو واٹر ٹینکر نے کچل دیا
  • کیمرے کی آنکھ دیکھ رہی ہے