مصر اورقطر کی ثالثی ،حماس کا قیدیوں کی رہائی کے معاہدے پر عمل کا اعلان
اشاعت کی تاریخ: 14th, February 2025 GMT
دوحا/غزہ/لندن (مانیٹرنگ ڈیسک )حماس نے قیدیوں کی رہائی سے متعلق معاہدے پر عمل کرنے کا اعلان کیا ہے ۔عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق حماس کے ترجمان نے بتایا کہ مصر اور قطر نے جنگ بندی معاہدے پر عمل درآمد پر حائل رکاوٹوں کو دور کرنے کی یقین دہانی کرائی ہے۔ ترجمان حماس نے مزید کہا کہ اس سلسلے میں رہنماؤں نے مصر کا دورہ کیا تھا اور ثالثوں سے مذاکرات کیے تھے۔ بیان میں کہا گیا کہ ثالثوں کی یقین دہانی پر ہفتے کے روز
طے شدہ 3 اسرائیلی یرغمالیوں کی رہائی معمول کے مطابق ہوگی۔حماس کی جانب سے اسرائیلی یرغمالیوں کی رہائی کے اعلان کے بعد غزہ میں جنگ بندی معاہدے کے خاتمے اور نئی جنگ کے خدشات دم توڑ گئے۔یاد رہے کہ پیر کوحماس نے اسرائیل پر جنگ بندی معاہدے سے انحراف کا الزام عاید کرتے ہوئے ہفتے کو ہونے والی یرغمالیوں کی رہائی کو مؤخر کرنے کا اعلان کیا تھا۔ جس پر امریکی صدر ٹرمپ اور اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو نے جنگ بندی معاہدے ختم کرکے غزہ پر نئی جنگ مسلط کرنے کی دھمکی دی تھی۔ امریکا اور اسرائیل نے ردعمل دیتے ہوئے کہا تھا کہ اگر ہفتے تک یرغمالی رہا نہ کیے گئے تو جنگ بندی ڈیل ختم ہوجائے گی۔دوسری جانب برطانیہ میں سعودی عرب کے سفیر شہزادہ خالد نے کہا ہے کہ فلسطینیوں کی کسی بھی ملک بشمول سعودی عرب منتقلی کے ساتھ ٹرمپ کا ‘ریویرا’ منصوبہ قابل قبول نہیں۔ انہوں نے کہا کہ سعودی عرب کو امریکا کے ریویرا (ساحلی تفریحی مقام) منصوبے پر اعتراض نہیں مگر فلسطینیوں کو غزہ سے نہ نکالاجائے۔شہزادہ خالد کا کہنا تھا کہ سعودی حکومت کامؤقف ہے وہ غزہ میں ریویرا بنانے کا خیر مقدم کرے گا، میرا خیال ہے غزہ میں ریویرا بنانا زبردست بات ہوگی مگر یہ منصوبہ غزہ سے فلسطینیوں کی منتقلی کے بغیر بنایا جائے۔سعودی سفیر نے مزید کہا کہ فلسطینیوں کی کسی بھی ملک بشمول سعودی عرب منتقلی کے ساتھ’ریویرا’ قبول نہیں، سب جانتے ہیں فلسطین کی سرزمین فلسطینیوں کی ہے اور یہ ان کا علاقہ ہے، امریکاغزہ میں صورتحال تبدیل کرنا چاہتا ہے تو ہم اسے خوش آمدید کہتے ہیں مگر وہاں فلسطینیوں کا حق ہے کہ انہیں وہاں رہنے دیا جائے۔ واضح رہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے یہ منصوبہ پیش کیا تھا کہ فلسطینیوں کو غزہ سے نکال کر دوسرے ممالک بھیجا جائے جس کے بعد غزہ کے ساحل کے ساتھ ‘ریویرا ‘ کی تعمیر کیا جائے۔بعد ازاں اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو نے یہ بھی کہا تھا کہ غزہ کے لوگوں کو سعودی عرب میں فلسطینی ریاست بنا کر بسایا جائے۔ ٹرمپ کی اس مجوزہ منصوبے پر دنیا بھر بشمول سعودی عرب سے سخت ردعمل آیا تھا اور زیادہ تر ممالک نے اس منصوبے کو مسترد کردیا تھا۔
ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: جنگ بندی معاہدے فلسطینیوں کی کی رہائی تھا کہ
پڑھیں:
بحرین کے بے گناہ قیدیوں کی آواز
اسلام ٹائمز: بحرین کی سماجی و قانونی کارکن ابتسام الصیغ نے اس بات پر زور دیا ہے کہ حالیہ دنوں میں "جو" جیل میں پیش آنے والے واقعات کوئی اتفاقی حادثاتہ نہیں تھے، بلکہ یہ ایک ایسے قانونی بحران کا حصہ تھے، جس سے بحرین برسوں سے نبرد آزما ہے۔ انٹرویو: معصومہ فروزان
بحرین ایک ایسا ملک ہے، جو حالیہ برسوں میں شدید بین الاقوامی دباؤ میں رہا ہے، کیونکہ اس ملک میں انسانی حقوق کی پامالی عروج پر ہے۔ یہ ملک خاص طور پر انسانی حقوق کے شعبے نیز انفرادی آزادیوں اور سیاسی حقوق کے شعبوں میں شدید مسائل سے دوچار ہے۔ اس بحران کا سب سے واضح مظہر سیاسی قیدیوں کی صورت حال ہے، جو بحرین کی جیلوں بالخصوص" الجو" جیل میں برسوں سے دباؤ اور بدسلوکی کا شکار ہیں۔ ان مسائل نے نہ صرف بحرین میں بلکہ بین الاقوامی سطح پر بھی بہت زیادہ توجہ حاصل کی ہے۔
بحرین کی قانونی ایکٹیوسٹ اور ملک میں انسانی حقوق کی صورت حال کے شدید ناقدین میں سے ایک "ابتسام الصیغ" نے "اسلام ٹائمز" کے نامہ نگار کو انٹرویو دیتے ہوئے" الجو" جیل میں سیاسی قیدیوں کی نازک صورتحال پر ایک بار پھر تاکید کی ہے۔ اس انٹرویو میں انہوں نے اس جیل میں سیاسی قیدیوں کے مشکل حالات کا حوالہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ بحرین میں انسانی حقوق کا بحران صرف خاص مواقع پر ہی نہیں بلکہ مسلسل، خاص طور پر قیدیوں کے روزمرہ کے حالات میں جاری و ساری ہے۔
الصیغ نے حالیہ تعطیلات کے دوران خاص طور پر قیدیوں کے لیے مذہبی سہولیات کے میدان میں پیدا ہونے والے مسائل کا خاص طور پر حوالہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ حالیہ دنوں میں، "جو" جیل میں، ہم نے قیدیوں کی مذہبی رسومات ادا کرنے کے امکان کے حوالے سے جیل حکام کی طرف سے کیے گئے وعدوں کی خلاف ورزی کا مشاہدہ کیا ہے۔ اس کارروائی کی وجہ سے قیدیوں نے احتجاج کیا اور انہیں سخت ردعمل کا سامنا کرنا پڑا، جس میں ان کے باہمی رابطوں کے خاتمے، اہل خانہ سے ملاقات پر پابندی اور قیدیوں کو سخت تشدد کا نشانہ بنانا شامل ہے۔
بحرین کی اس سماجی کارکن نے اصلاحی وعدوں کے میدان میں درپیش چیلنجوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ نئے حکام نے قیدیوں کے حالات کو بہتر بنانے کے وعدے کیے ہیں، لیکن بعض سابق اہلکاروں کی شدید مزاحمت نے جیلوں کی صورت حال کو پیچیدہ بنا دیا ہے اور اس سلسلے میں ہر طرح کی پیش رفت کو روک دیا ہے۔ بحرین میں انسانی حقوق کی اس سماجی کارکن نے اصلاحات کے وعدوں پر عوامی عدم اعتماد کے مسئلے کی طرف بھی اشارہ کرتے ہوئے اس بات پر زور دیا ہے کہ حقیقی اصلاحات اسی صورت میں حاصل کی جاسکتی ہیں، جب قیدیوں کے حالات کو بہتر بنانے اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں سے نمٹنے کے لیے مضبوط سیاسی ارادہ ہو۔