’’خونی کھیل‘‘ کا انسداد اوراہلِ پنجاب کا کتھارسس
اشاعت کی تاریخ: 14th, February 2025 GMT
آج کل مشرقی پنجاب میں ایک پولیس افسر (چمکور سنگھ بھنڈر) کی ویڈیو بڑی وائرل ہو رہی ہے ۔ ویڈیو میں د یکھا اور سُنا جا سکتاہے کہ مذکورہ باوردی پولیس افسر کو بھارتی پنجاب کا ایک منتخب عوامی قومی نمایندہ (MLA) فون پر دھمکی دیتے ہُوئے حکم دے رہا ہے کہ ’’تم نے میرے جو تین بندے گرفتار کرکے تھانے میں بند کررکھے ہیں، اِنہیں فوری چھوڑ دو، وگرنہ مَیں تمہارا تبادلہ کروا دُوں گا۔‘‘ جواباً پولیس افسر (پنجابی میں) یوں کہتا سنائی دیتا ہے :’’ ایم ایل اے صاحب ، آپ نے میرا تبادلہ کروانا ہے تو کروا دیں۔
آپ مجھے بطورِ سزا پاکستان بھجوا دیں یا کشمیر، مَیں یہ بندے نہیں چھوڑوں گا ۔ اُن کی دھاتی ، مہلک پتنگ ڈورسے جس موٹر سائیکل سوار بندے کا گلا کٹا ہے اور اُس کے بیوی بچے زخمی ہو کر اسپتال پڑے ہیں ، اُن کا ذمے دار کون ہے ؟اگر شہر میں دھاتی پتنگ ڈور بیچنے والے تمام سیٹھوں کو بھی اندر کرنا پڑا تو کردُوں گا۔ آپ نے جو کرنا ہے ،کر لیں۔‘‘اِس ویڈیو کو غور سے دیکھیں اور سُنیں تو کہنا پڑے گا کہ پتنگ کی دھاتی ڈور نے جو قیامتیں ہمارے ہاں ڈھا رکھی ہیں ، ایسی ہی کچھ قیامتیں مشرقی پنجاب میں بھی’’ نازل‘‘ ہو رہی ہیں ۔
ناصر کاظمی کا ایک شعر ہے :اُڑ رہے ہیں شہر میں پتنگ رنگ رنگ/جگمگا اُٹھا گگن ، بسنت آ گئی ۔ یہ فروری کا مہینہ ہے ۔ بسنت کے موسمی تہوار کی خوشبو بھی فضاؤں میں ہے ۔ بسنت کا نام مگر آتے ہی خوف اور سنسنی کا احساس بھی ہونے لگتا ہے ۔چاہیے تو یہ تھا کہ بسنت کا موسم اور تہوار ہمارے لیے تہذیبی اور کلچرل خوشیوں کا سبب بنا رہتا ۔
ہُوا مگر اِس کے برعکس ہے ۔ ہمارے ہاں پتنگ باز سجنا کی پُر خطر ڈور سے کئی معصوم زندگیوں کی ڈوریں بھی کٹتی رہی ہیں۔ اور یہ المئے محدود نہیں ہیں۔یہ خونی داستانیں مملکتِ خداداد کے کئی شہروں میں بکھری پڑی ہیں ۔ پتنگ کی ہلاکت خیز کیمیکل والی مانجھا لگی دھاتی ڈور نے ، پچھلے کئی موسمِ بسنت میں ، کتنی زندگیاں ہڑپ کرلیں ، اگر یہ خوں آشام ڈیٹا مکمل طور پر اکٹھا اور یکجا کرکے قوم کے سامنے پیش کیا جائے تو بدن میں لہو منجمد ہو جائے گا ۔
کیمیکل والی مانجھا لگی ڈور یا دھاتی تَندی نے لاہور ، راولپنڈی ، فیصل آباد ، سیالکوٹ اور کراچی میں لاتعداد انسانی جانوں کو نقصان پہنچایا ہے ۔ پاکستان بننے سے قبل بھی اِن شہروں میں فروری کے بہاریہ موسم میں پتنگیں نیلے آسمان کو رنگین کر دیا کرتی تھیں مگر اِن پتنگوں کی ڈوریں انسانی لہو سے زمین کو رنگین نہیں کرتی تھیں ۔ جب اِن خونی واقعات میں بے حد اضافہ ہونے لگا تو حکومت نے پتنگ بازی ہی پر پابندیاں عائد کردیں ۔
ہماری ہر حکومت کا یہ وتیرہ رہا ہے کہ سنگین مسئلہ سر اُٹھانے پر درمیان کی پُر امن اور سب کے لیے کوئی قابلِ قبول صورت نکالنے کی بجائے بس پابندیاں عائد کر دی جاتی ہے ۔ پتنگ بازی پر سخت پابندیوں کے باوصف لوگ پھر بھی باز نہیں آ رہے ۔ مثال کے طور پر ’’دی ایکسپریس ٹربیون‘‘ نے خبر دی کہ راولپنڈی میں کائیٹ فلائنگ ایسو سی ایشن نے اعلان کیا ہے کہ ’’ہم 13اور14فروری 2025ء کو، دو دن کے لیے بسنت منائیں گے ۔ پتنگیں بھی اُڑیں گی ، لاؤڈ اسپیکر بھی استعمال ہوں گے اور ہوائی فائرنگ بھی ہوگی۔ پورے راولپنڈی میں ہر قسم کی پتنگیں متعلقہ تاریخوں پر دستیاب ہوں گی ۔‘‘
خبر میں راولپنڈی میں کائیٹ فلائنگ ایسوسی ایشن کے وائس چیئرمین حاجی اقبال بتائے جاتے ہیں۔ مذکورہ اعلان مبینہ طور پر اُنہی کی طرف سے سامنے آیا ہے ۔ اور یہ اعلان عین ایسے ایام میں سامنے آیا ہے جب حکومت( خصوصاً حکومت پنجاب) کی جانب سے ریڈیو ، ٹی وی اور اخبارات میں پتنگ بازی پر سخت پابندیوں بارے بار بار اشتہارات دیے جا رہے ہیں ۔ اِس ماحول میںحاجی اقبال کا یہ اعلان نہیں، بلکہ مقامی انتظامیہ کو دعوتِ مبارزت ہے ۔
جب حکومت نے پتنگ بازی پر، ہلاکت بازیوں کے کارن، پابندیاں مسلّط کررکھی ہیں تو اِس کی خلاف ورزی کرنے والوں کو لا محالہ سزائیں بھی بھگتنا ہونگی ۔یعنی آگے آگے پتنگ باز نوجوان بھاگ رہے ہوں گے اور اُن کے تعاقب میں ہر شہر کی پولیس ۔یہ تماشہ نہیں لگنا چاہیے ۔ اِسے اب شائستگی سے رکنا چاہیے ۔
ہمارے ہاں ایک وقت ایسا بھی آیا تھا کہ لاہور میں سرکار ی سرپرستی میں بسنت منائی جانے لگی تھی ۔ بھارت سمیت دُنیا بھر سے ٹورسٹ اِس رنگ برنگے تہذیبی اور بہاریہ موسم سے لطف اندوز ہونے کے لیے لاہور میں اکٹھے ہونے لگے تھے ۔ پتنگ بازوں، پتنگ سازوں اور ڈور سازوں کے کارن کروڑوں روپے کاکاروبار کیا جاتا تھا ۔ لاہور کی ٹورِزم انڈسٹری نے بھی خوب فائدے اُٹھائے ۔ مگر جب کیمیکل لگی ہلاکت خیز ڈور نے فضاؤں میں انسانی لہو کی باس رچا دی تو بسنت کا میلہ بھی اُجڑ گیا ، پتنگ ساز صنعت بھی سکڑ کر رہ گئی اور ملک کے کئی شہروں کے ہزاروں لوگ بے روزگار ہو گئے ۔
اگر یہ’’ ظلم‘‘ ہے تواِس کے ذمے دار وہ لالچی اور لوبھی لوگ ہیں جو کیمیکل لگی ، دھاتی اور ہلاکت خیز ڈور کو بنانے اور استعمال کرنے سے باز نہیں آرہے ۔ انھوں نے خود پتنگ سازی کی صنعت اور بسنت تہوار کے پاؤں پر کلہاڑی چلائی ہے۔ موقع غنیمت دیکھ کر ہمارے بعض متشدد گروہوں نے بسنت کو ہندو مذہب سے جوڑ دیا ۔ یوں پاکستانیوں کو بسنت سے متنفر کرنے کی دانستہ اور منظم کوشش کی گئی ۔ حکومتی پابندیاں مگر سب سے سوا ہیں۔
ہمارے ہاں ہر بڑے شہر میں ویسے بھی نوجوانوں سے اسپورٹس کے جملہ مواقع چھین لیے گئے ہیں ۔ کھیل کے میدانوں پر کئی تنظیموں نے قبضے کر لیے ہیں ۔ پھر ہمارے نوجوان کھیل کا شوق پورا کرنے کے لیے جائیں تو جائیں کہاں؟ایسے روز بروز محدود ہوتے ہُوئے ماحول میں ہمارے نوجوان اپنی اسپورٹس جبلّت کی تسکین کیسے کریں؟ ہمارے نوجوان تو ملک میں روزگارکے مواقع نہ ہونے کے سبب پہلے ہی غیر ممالک کی سرحدوں پر گولیاں کھا کراور سمندروں میں بیکسی سے ڈُوب کر مر رہے ہیں۔
محترمہ مریم نواز شریف کی حکومتِ پنجاب نے قانون کی طاقت سے ، بظاہر، پتنگ بازی روک تو دی ہے اور اِس کی تحسین بھی کرنی چاہیے مگر سوال پھر یہ ہے کہ کیا ہمارے نوجوانوں کو خوش ہونے کے مواقع نہیں ملنے چاہئیں؟ بسنت کے بہاریہ موسم میں فضاؤں کو انسانی خون سے رنگے بغیر یہ تہوار بحال کیا جانا چاہیے۔ چین اور امریکہ میں بھی وسیع پیمانے پر پتنگ بازی کی جاتی ہے ۔ حیرت ہے وہاں کسی کی پتنگ ڈور سے کسی کی زندگی کی ڈور نہیں کٹتی ۔ شائد اس لیے کہ وہاں مقامی انتظامیہ نے ایسے ضوابط وضع کر رکھے ہیں جن پر پتنگ باز سجنا کو عمل کرنا پڑتا ہے ۔
ہمارے ہاں بھی ضوابط تو وضع کر دیے گئے ہیں ، قوانین بھی خاصے سخت ہیں ، پتنگ بازی ضوابط کی خلاف ورزی کرنے والوں کے لیے بھاری جرمانوں کی سزائیں بھی موجود ہیں مگر اِنہیں ہوا میں اُڑانے والوں کی کمی بھی نہیں ہے ۔ پتنگ بازی کی حمائت کرنے والے کہتے ہیں کہ ملک کے مراعات یافتہ طبقات اور امراکے بچے تو مہنگے ترین کلبوں میں جا کر موج میلہ کرلیتے ہیں لیکن ہم متوسط یا زیریں متوسط یا غریب طبقات سے تعلق رکھنے والوں کے بچے پتنگ بازی کا سستا کھیل بھی نہیں کھیل سکتے ؟ واقعہ یہ ہے کہ ہماری پولیس کی بد انتظامی اور نااہلی ہی سے قاتل و مہلک پتنگ ڈور کے استعمال پر عمل نہیں ہو رہا ۔
حکومتِ پنجاب کا اخلاص اپنی جگہ۔شکر ہے کہ لاہور میں اِس موسمِ بہار کے آغاز میں پنجاب کے ثقافتی اور زرعی پس منظر میں ایک رنگا رنگ اور متنوع میلہ شروع کیا گیا ہے ۔ تقریباً تین دہائیوں بعد یہ میلہ پورے اہتمام اور تزک و احتشام سے بروئے کار آیا ہے ۔ اِس کا کریڈٹ ، بلا شبہ، محترمہ مریم نواز شریف کو جاتا ہے ۔ بسنت کے تہوار سے محرومی کے بعد اہلِ پنجاب کی کچھ تو تلافی اور کتھارسس ہُوئی ہے ۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: ہمارے نوجوان پتنگ بازی ہمارے ہاں پتنگ باز کے لیے
پڑھیں:
کینال منصوبہ ہمارے ہاتھ سے نکل گیا تو پھر احتجاج کیلیے نکلیں گے، وزیراعلیٰ سندھ
کراچی:وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے کہا ہے کہ کینال منصوبہ اگر ہمارے ہاتھ سے نکل گیا تو پھر احتجاج کے لیے نکلیں گے۔
میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے وزیراعلیٰ سندھ نے واضح کیا کہ سندھ کے عوام کے مفاد کے خلاف کوئی منصوبہ منظور نہیں کیا جائے گا اور وہ کینال منصوبے کو روکنے کے لیے پرعزم ہیں۔ انہوں نے کہا کہ سندھ ایک ایسا صوبہ ہے جو ہر مذہب، ہر ذات اور ہر برادری کو ساتھ لے کر چلتا ہے۔
مراد علی شاہ کا کہنا تھا کہ منصوبہ کسی نے بھی بنایا ہو، لیکن سندھ حکومت نے اسے منظور نہیں ہونے دیا۔ کینالز پر نہ ہونے کے برابر کام ہوا، وہ بھی جولائی میں۔ اگر یہ معاملہ ہمارے ہاتھ سے نکل گیا تو ہم احتجاج کے لیے نکلیں گے۔۔
انہوں نے کہا کہ کسی کی نیت پر شک نہیں کر رہے لیکن کسی کے ہاتھوں میں بھی نہیں کھیل رہے۔ یہ اجتماعی مقصد ہے اور ہمیں کینال منصوبے کو روکنا ہے کیونکہ یہ ملک کی بہتری کے لیے ضروری ہے۔
وزیراعلیٰ نے کہا کہ وکلا برادری جمہوریت کی بحالی میں پہلے بھی شراکت دار رہی ہے، اب بھی وہ ہمارے ساتھ ہیں۔انہوں نے وکلا کی کینالز کے خلاف جدوجہد کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ ہم ان کے ساتھ ہیں۔
مراد علی شاہ کا کہنا تھا کہ سندھ حکومت نے احتجاج کرنے والوں کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی۔ ہم اپوزیشن جماعتوں اور قوم پرست تنظیموں کو خوش آمدید کہتے ہیں۔ انہوں نے اپیل کی کہ احتجاج ضرور کریں مگر عوام کو تکلیف نہ پہنچائیں، سڑکیں بند نہ کریں۔ میں ضمانت دیتا ہوں کہ یہ کینالز نہیں بنیں گی۔
وزیراعلیٰ سندھ نے سوال کیا کہ وفاقی حکومت اب تک اس منصوبے کو ختم کیوں نہیں کر رہی؟ وزیر خزانہ نے 19 اپریل کو خط بھیجا کہ سندھ اپنا این ایف سی نمائندہ تجویز کرے، ہم اس پر کام کر رہے ہیں۔ 14 ماہ بعد وفاقی حکومت نے قومی مالیاتی کمیشن کے نمائندے مانگے ہیں۔
مراد علی شاہ نے کسانوں کی حالت پر تشویش ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ پنجاب کے فارمرز بھی اگلے سال گندم نہ اگانے کا سوچ رہے ہیں۔ چین میں گندم کی فی ایکڑ پیداوار 60 سے 65 من ہے، ہمیں بھی ٹیکنالوجی اپنانا ہوگی۔
انہوں نے مزید کہا کہ ہم کپاس کی پیداوار بڑھا نہیں سکے اور اب ریگستان کو آباد کرنے کی باتیں ہو رہی ہیں۔ بھارت کے اندرا کینال کے نتائج چیٹ جی پی ٹی سے چیک کر لیں۔ نئی نہروں کے لیے اضافی پانی موجود ہی نہیں ہے۔ ان شا اللہ ہم یہ منصوبہ واپس بھی لیں گے۔
انہوں نے امید ظاہر کی کہ وزیراعظم سندھ کے تحفظات کا احترام کریں گے۔ انہوں نے یاد دلایا کہ انگریز دور میں بھی زیریں علاقوں کے مفاد میں بالائی علاقوں کے کینال منصوبے مسترد کیے گئے تھے۔ آخر میں وزیراعلیٰ سندھ نے کہا کہ مجھے پوری امید ہے کہ وزیراعظم انصاف پر مبنی فیصلہ کریں گے۔