خیرِ کثیر کی چار علامات
اشاعت کی تاریخ: 14th, February 2025 GMT
حق تعالیٰ جسے خیرِ کثیر یعنی دین کی سمجھ سے نوازتا ہے، تو علمائِ محققین نے اس کی چار علامتیں بیان فرمائی ہیں، وہ جس میں پائی جائیں تو سمجھ لیجیے کہ اسے دین کی سمجھ نصیب ہوگئی۔
٭ پہلی علامت: دنیا میں زہد و قناعت یعنی حلال اور جائز کوشش سے بہ قدرِ ضرورت جو کچھ مل جائے اس پر راضی رہے، مزید دنیا کی رغبت نہ رکھے، یا دنیا کو ضرورت کے درجے میں رکھے، مقصد نہ بنائے ، کہ دنیا ہاتھ میں تو ہو، دل میں نہ ہو، اور دنیا میں ایسے رہے جیسے کشتی پانی میں، خود دنیا میں ر ہے، لیکن دنیا کو اپنے دل میں ہرگز نہ رکھے، یہ حال تھا حضرات صحابہؓ اور صلحاءؒ کا، حتیٰ کہ ان میں بعض کا حال تو یہ تھا کہ دنیا اپنی ساری دولت و زینت سمیت ان کے قدموں میں آئی، مگر وہ اس کی طرف دل سے متوجہ نہ ہوئے ، ان کی شان بڑی نرالی تھی۔
ایک حیرت انگیز واقعہ :
حضرت عمر فاروق ؓ نے اپنے دورِ خلافت میں حضرت سعید بن عامرؓ کو حمص کا امیر (گورنر) بنایا۔ ایک عرصے کے بعد اہلِ حمص حضرت عمرؓ کی خدمت میں حاضر ہوئے، ان سے حضرت عمر ؓ نے فرمایا: ’’اپنے علاقے کے فقراء اور ضرورت مندوں کے نام لکھ کر دو، تاکہ ہم ان کی مدد کر سکیں۔‘‘
انہوں نے فقرائِ حمص کی فہرست پیش کی، تو ان میں ایک نام حضرت سعید بن عامرؓ کا بھی تھا۔ حضرت عمرؓ نے ازراہِ تعجب دریافت کیا: ’’یہ سعید بن عامرؓ کون ہیں؟‘‘ انہوں نے بتایا: ہمارا امیر۔ حضرت عمرؓ نے پوچھا: ’’تمہارا امیر فقیر ہے؟‘‘ انہیں بتایا گیا: جی ہاں، اﷲ کی قسم ! کئی کئی دن گزر جاتے ہیں، مگر ان کے گھر میں آگ تک نہیں جلتی۔
حضرت عمر ؓ یہ سن کر رونے لگے اور وفد کے ساتھ ایک ہزار دینار سعید بن عامرؓ کے لیے بھیجے، جب وہ دینار سعید بن عامرؓ کو ملے، تو ایک دم اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْن پڑھنے لگے۔ بیوی نے کہا: کیا بات ہے ؟ کیا امیر المومنین انتقال کر گئے ؟ سعید بن عامرؓ نے کہا: معاملہ اس سے بھی بڑھ کر ہے کہ دنیا میرے پاس آنے لگی، فتنہ میرے پاس آنے لگا۔ بیوی نے کہا: اس کا حل موجود ہے کہ راہِ الٰہی میں تقسیم کر دیجیے۔ چناں چہ اسی وقت ساری رقم مستحقین میں تقسیم کر دی گئی۔ (اسد الغابۃ)
مولانا انعام الحسن ؒ فرماتے تھے: ’’ضروریاتِ زندگی میں کم از کم پر گزر کرنا زہد فی الدنیا ہے اور ضروریات کو بالکل ترک کر دینا رہبانیت ہے۔ (اسلام میں اس کی ممانعت ہے ) اور اسی میں پورا مشغول ہو جانا حبِ دنیا ہے۔‘‘
زہد فی الدنیا مطلوب ہے، ترکِ دنیا ممنوع ہے۔
٭ دوسری علامت: دین کی سمجھ ملنے کے بعد جب دنیا کی حقیقت سمجھ میں آجاتی ہے ، تو پھر ساری خواہشیں اور رغبتیں آخرت کے لیے ہو جاتی ہیں۔ حضور اکرم ﷺ اپنی امت کی رغبت آخرت کی طرف کرنے کے لیے فرماتے، مفہوم:
’’حقیقی عیش تو آخرت کا ہی ہے۔‘‘
آپ ﷺ چاہتے تھے کہ امت کی ساری رغبت آخرت کی طرف ہو جائے ، تاکہ دنیا کے فتنے سے بچ جائے اور جسے دین کی سمجھ ملتی ہے اس کی دوسری علامت یہی ہے کہ اس کی رغبت آخرت کی طرف ہو جاتی ہیں، دنیا سے کوئی خاص دل چسپی نہیں رہتی۔
٭ تیسری علامت: حق تعالیٰ جسے دین کی سمجھ دیتے ہیں اسے دینی امور کی بصیرت و مہارت عطا فرماتے ہیں، سادہ لفظوں میں یوں کہیے کہ اسے دین کا علم عطا فرماتے ہیں اور جسے دین کا علم مل گیا اسے بہت بڑی دولت مل گئی۔
ایک سبق آموز واقعہ:
امام شافعیؒ امام مالکؒ کے مایۂ ناز شاگرد ہیں۔ ایک مرتبہ جب مدینہ طیبہ حاضر ہوئے تو استادِ محترم نے ان کی دعوت کی۔ امام مالکؒ نے گھر والوں سے کہا کہ آج بہت بڑے عالم اور فقیہ کی دعوت ہمارے یہاں ہے، لہٰذا خصوصی طور پر اہتمام کیا جائے۔ چناں چہ گھر میں کھانے کا بڑا اہتمام کیا گیا، ان کے آرام کے لیے بستر لگایا، نماز کے لیے وضو کے پانی کا لوٹا بھر کر رکھا، مصلیٰ بچھایا۔ جب امام شافعیؒ دعوت کے لیے تشریف لائے تو خوب کھایا، حتیٰ کہ جتنا تھا سب ختم کردیا، پھر رات بھر لیٹے رہے، وضو کیا، نہ نماز پڑھی۔ صبح گھر والوں نے امام مالک ؒ سے کہا: آپ تو کہہ رہے تھے کہ آنے والے مہمان بڑے عالم، امام اور فقیہ ہیں، لیکن ہمیں تو ان کے طرزِ عمل سے ایسا نہیں لگا، بل کہ اشکال واقع ہُوا، اوّل تو ہم نے جتنا کھانا بھیجا تھا وہ ایک سے زیادہ افراد کے لیے کافی تھا، آپ کے مہمان اور شاگرد نے تو اتنا کھایا کہ برتن بالکل صاف ہو کر واپس آئے، ہمیں تو دھونے کی بھی ضرورت پیش نہ آئی، دوسری بات یہ ہے کہ ہم نے ان کے لیے پانی کا برتن اور مصلیٰ بچھا کر رکھا تھا کہ علم والے اور اﷲ والے تہجد گزار ہوتے ہیں، لہٰذا انہیں تہجد کے وقت کوئی دقت پیش نہ آئے، لیکن جیسا مصلیٰ بچھایا تھا صبح کو ویسا ہی رکھا ملا، اور پانی بھی جوں کا توں تھا، لگتا ہے کہ تہجد کی نماز بھی نہیں پڑھی، اور پھر مسجد میں تو وضو کا انتظام بھی نہیں، لوگ گھروں سے وضو کرکے جاتے ہیں اور یہ آپ کے مہمان اور شاگرد اسی طرح آپ کے ساتھ اٹھ کر مسجد چلے گئے، پتا نہیں انہوں نے نماز کیسے پڑھی؟ امام مالک ؒ کی بیٹیاں اعتراض کرتے ہوئے کہنے لگیں: ابو! مہمان کا معاملہ ہماری سمجھ سے بالاتر ہے۔
امام مالک ؒ نے اپنے شاگردِ رشید حضرت امام شافعی ؒ سے بچیوں کا اعتراض نقل کرکے فرمایا: ’’محمد بن ادریس ! کیا واقعی تمہارا حال ایسا ہی ہوگیا جیسے سمجھا گیا؟ ‘‘ اس پر امام شافعی ؒ نے بڑے ادب سے عرض کیا: ’’حضرت! بات یہ ہے کہ جب آپ نے کھانا پیش کیا تو اس پاکیزہ اور بابرکت کھانے میں میں نے بہت ہی زیادہ نُور کے اثرات محسوس کیے، تو سوچا کہ ممکن ہے اتنا حلال مال اور پُرنور کھانا زندگی میں پھر میسر ہو نہ ہو، آج موقع ہے کہ سارا کھانا کھاکر اسے جزوِ بدن بنالوں! اس لیے میں نے سارا کھا نا ختم کر دیا، پھر میں لیٹ گیا، لیکن اس کھانے کا اتنا اثر ہُوا کہ نیند غائب ہوگئی، کیوں کہ نورانی اور پاکیزہ کھانا تھا، اس کا اثر اس طرح ظاہر ہوا کہ میں لیٹے لیٹے احادیث ِنبویؐ میں سے ایک حدیث شریف میں غور کرتا رہا، جس میں حضورؐنے ایک چھوٹے بچے حضرت انسؓ کے بھائی کو جس کا پرندہ مرگیا تھا پیار سے فرمایا تھا کہ یَا أَبَا عُمَیْر! مَا فَعَلَ النُّغَیْر! (متفق علیہ) حضرت! حدیث کے ان چند الفاظ میں آج کی رات غور کرتا رہا، تو الحمدﷲ! فقہ کے چالیس مسائل اخذ کر لیے کہ کنیت کیسی ہونی چاہیے ؟ بچوں سے اندازِ تخاطب کیسا ہونا چاہیے؟ بچے کے دل کی ملاطفت کے لیے کیسے بات کرنی چاہیے۔ چوں کہ حدیث پاک میں غور و فکر اور مسائل کا اخذ کرنے سے سونے کی نوبت ہی نہیں آئی، لہٰذا میرا وضو باقی تھا، اس لیے نئے وضو کی ضرورت نہ پڑی، الحمدﷲ! میں نے عشاء کے وضو سے فجر کی نماز پڑھی۔‘‘
حق تعالیٰ جب کسی کو دین کی سمجھ دیتے ہیں تو اس کی ایک علامت یہ ہوتی ہے کہ اسے من جانب اﷲ دینی امور میں بصیرت اور مہارت نصیب ہوتی ہے اور وہ دین کے اہم احکام و مسائل لمحوں میں حل کر لیتا اور سمجھ لیتا ہے ، اسے کوئی دشواری نہیں ہوتی۔
٭ چوتھی علامت: اﷲ تعالیٰ کی اطاعت و عبادت کی کامل پابند رہنا ہے، بلاشبہ! عبادت و اطاعت بڑی خوبی اور نیکی کی بات ہے، لیکن کمال یہ ہے کہ اطاعت الٰہی کی پابندی اور عبادت پر استقامت نصیب ہو جائے، حق تعالیٰ کو وہی عبادت اور عمل پسند ہے جس پر مداومت اور پابندی کی جائے، یہ عظیم نعمت ہے۔
اﷲ تعالیٰ یہ نعمت ہم سب کو نصیب فرمائے۔ آمین
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: دین کی سمجھ امام شافعی امام مالک حق تعالی کہ دنیا میں تو کی طرف
پڑھیں:
سوشل میڈیا کی ڈگڈگی
تمام سوشل میڈیا پلیٹ فارمز چاہے وہ فیس بک کے جلوے ہوں یا انسٹا گرام اور تھریڈزکی شوخیاں، X نامی عجب نگری ہو یا ٹک ٹاک کی رنگینیاں، ایک نقلی دنیا کے بے سروپا تماشوں کے سوا کچھ نہیں ہیں۔ میں نے اپنے اردگرد کے لوگوں کو اکثر یہ کہتے سنا ہے، ’’ دنیا بدل گئی ہے‘‘ جب کہ ذاتی طور پر مجھے ایسا لگتا ہے کہ دنیا کبھی بدل نہیں سکتی ہے۔
دنیا ویسی ہی ہے، زمین، آسمان، سورج، چاند، ندی، دریا، سمندر، پہاڑ، پیڑ، پودوں اور قدرت کے کرشموں سے لیس انسانوں اور جانوروں کے رہائش کی وسیع و عریض پیمانے پر پھیلی جگہ جو صدیوں پہلے بھی ایسی تھی اور آیندہ بھی یوں ہی موجود رہے گی۔
البتہ دنیا والے ہر تھوڑے عرصے بعد اپنی پسند و ناپسند اور عادات و اطوار سمیت تبدیل ہوتے رہتے ہیں اور اُن کی یہ تبدیلی اس قدر جادوئی ہوتی ہے کہ وہ اپنی ذات سے جُڑی ماضی کی ہر بات سرے سے فراموش کر بیٹھتے ہیں۔
تبدیلی کے اصول پر عمل پیرا ہوتے ہوئے، اس دنیا کے باسی صرف گزری، بیتی باتیں نہیں بھولتے بلکہ وہ سر تا پیر ایک نئے انسان کا روپ دھار لیتے ہیں۔ یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخر ایسا کیوں ہوتا ہے؟
جس کا سیدھا سادہ جواب ہے کہ انسان بے چین طبیعت کا مالک ہے، وہ بہت جلد ایک جیسے ماحول، حالات اور واقعات سے بیزار ہو جاتا ہے۔ ہر نئے دورکا انسان پچھلے والوں سے مختلف ہوتا ہے جس کی مناسبت سے اُن کو نت نئے نام دیے جاتے ہیں، جن میں سے چند ایک کچھ یوں ہیں،
Millennials, G i generation, Lost generation, Greatest generation, Generation Alpha, Silent generation,
Generation Z
یہ سب نام انسان کی ارتقاء کی مناسبت سے اُس کی نسل کو عنایت کیے گئے ہیں، جب ہر دورکا انسان دوسرے والوں سے قدرے مختلف ہے تو اُن کی تفریح کے ذرائع پھر کس طرح یکساں ہوسکتے ہیں۔تاریخِ انسانی کے اوائل میں مخلوقِ بشر داستان گو سے دیو مالائی کہانیاں سُن کر اپنے تصور میں ایک افسانوی جہاں تشکیل دے کر لطف اندوز ہوتی تھی، وہ دنیاوی مسائل سے وقتی طور پر پیچھا چھڑانے کے لیے انھی داستانوں اور تصوراتی ہیولوں کا سہارا لیتی تھی۔
چونکہ انسان اپنی ہر شے سے چاہے وہ فانی ہو یا لافانی بہت جلد اُکتا جاتا ہے لٰہذا جب کہانیاں سُن سُن کر اُس کا دل اوب گیا تو وہ خود افسانے گھڑنے لگا اور اُسے اس کام میں بھی خوب مزا آیا۔ دراصل داستان گوئی کا جو نشہ ہے، ویسا خمارکہانی سننے میں کہاں میسر آتا ہے مگر انسان کی بے چین طبیعت نے اس شوق سے بھی زیادہ عرصے تک اُس کا جی بہلنے نہ دیا اور بہت جلد وہ داستان گوئی سے بھی بیزار ہوگیا پھر وجود میں آئے انٹرنیٹ چیٹ رومز جہاں بِن دیکھے لوگ دوست بننے لگے، جن کی بدولت’’ ڈیجیٹل فرینڈ شپ‘‘ کی اصطلاح کا جنم ہوا اور اس طرح تفریح، مزاح، لطف کی تعریف ہمیشہ ہمیشہ کے لیے بدل گئی۔
زمانہ حال کے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز ماضی کے اُنھی انٹرنیٹ چیٹ رومز کی جدید شکل ہیں، ان بھانت بھانت کے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز نے آج پوری دنیا کو اپنی جانب متوجہ کیا ہوا ہے اور تقریباً ہر عمر و طبقے کا انسان اپنی زندگی کا بیشمار قیمتی وقت ان پر کثرت سے ضایع کر رہا ہے۔ پہلے پہل انسان نے تفریح حاصل کرنے کی نیت سے داستان سُنی پھر افسانے کہے اور اب خود جیتی جاگتی کہانی بن کر ہر روز سوشل میڈیا پر جلوہ افروز ہوتا ہے۔
مزے کی بات یہ ہے کہ اس خود ساختہ کہانی کا مرکزی کردار وہ خود ہی ہوتا ہے، جو انتہائی مظلوم ہوتا ہے اور کہانی کا ولن ٹھہرتا ہے ہمارا سماج۔
دورِ حاضر کا انسان عقل و شعور کے حوالے سے بَلا کا تیز ہے ساتھ کم وقت میں کامیابی حاصل کرنے میں اُس کا کوئی ثانی نہیں ہے مگر طبیعتاً وہ بہت خود ترس واقع ہوا ہے۔ سوشل میڈیا کی آمد نے جہاں انسان کو افسانوی دنیا کی کھڑکی فراہم کی ہے وہیں اُسے انگنت محرومیوں کا تحفہ بھی عنایت فرمایا ہے۔
زمانہ حال کا انسان سوشل میڈیا پر دکھنے والی دوسرے انسانوں کی خوشحال اور پُر آسائش زندگیوں سے یہ سوچے بغیر متاثر ہو جاتا ہے کہ جو دکھایا جا رہا ہے وہ سچ ہے یا کوئی فرد اپنی حسرتوں کو وقتی راحت کا لبادہ اُڑا کر اُس انسان کی زندگی جینے کی بھونڈی کوشش کر رہا ہے جو وہ حقیقت میں ہے نہیں مگر بننا چاہتا ہے۔
سوشل میڈیا پر بہت کم ایسے افراد پائے جاتے ہیں جو دنیا کو اپنی حقیقی شخصیت دکھانے پر یقین رکھتے ہوں۔ سوشل میڈیا پرستان کی جیتی جاگتی تصویر ہے، دراصل یہ وہ جہاں ہے جدھر ہر جانب فرشتہ صفت انسان، عدل و انصاف کے دیوتا، سچ کے پجاری، دوسروں کے بارے میں صرف اچھا سوچنے والے، ماہرِ تعلیم، حکیم، نفسیات شناس اور بندہ نواز موجود ہیں۔
حسد، جلن، نظر بد کس چڑیا کا نام ہے، اس سے یہاں کوئی واقف نہیں ہے، سب بنا مطلب دنیا کی بھلائی کے ارادے سے دوسروں کی اصلاح میں ہمہ تن گوش رہتے ہیں۔جب کوئی فرد کسی سوشل میڈیا پلیٹ فارم کا حصہ بنتا ہے تو اُسے استقبالیہ پر ایک مکھوٹا پیش کیا جاتا ہے جسے عقلمند انسان فوراً توڑ دیتا ہے جب کہ بے عقل اپنی شخصیت کا اہم جُز بنا لیتا ہے، یہی وجہ ہے کہ جب وہ خوش ہوتا ہے تب اپنی اندرونی کیفیات کو من و عن ظاہرکردیتا ہے جب کہ دکھ کی گھڑیوں میں اپنے حقیقی جذبات کو جھوٹ کی رنگین پنی میں لپیٹ کر خوشی سے سرشار ہونے کی بڑھ چڑھ کر اداکاری کر رہا ہوتا ہے۔
سوشل میڈیا اپنے صارفین کو اُن کے آپسی اختلافات کے دوران حریفِ مقابل پر اقوالِ زریں کی مار کا کھلم کھلا موقع بھی فراہم کرتا ہے، ادھر کسی کی اپنے دوست سے لڑائی ہوئی اُدھر طنز کی چاشنی میں ڈوبے اخلاق کا سبق سموئے نرم گرم جملے اُس کے سوشل میڈیا اکاؤنٹ پر دکھائی دینے لگتے ہیں۔
انسان کو سوشل میڈیا پر ملنے والے دھوکے بھی دنیا والوں سے ڈھکے چھپے نہیں ہیں اب چاہے وہ اپنے شناسا لوگوں سے ملیں یا اجنبیوں سے، کڑواہٹ سب کی ایک سی ہی ہوتی ہے۔ جوش میں ہوش کھونے سے گریزکرنے والے افراد ہی سوشل میڈیا کی دنیا میں کامیاب گردانے جاتے ہیں۔
سوشل میڈیا پلیٹ فارمز قطعی برے نہیں ہیں بلکہ یہ تو انسانوں کے بیچ فاصلوں کو کم کرنے، بچھڑے ہوئے پیاروں کو ملانے، نئے دوست بنانے اور لوگوں کو سہولیات پہنچانے کی غرض سے وجود میں لائے گئے تھے۔
چونکہ انسان ہر اچھی چیزکا بے دریغ استعمال کرکے اُس کے تمام مثبت پہلوؤں کو نچوڑ کر اُس کی منفیت کو منظرعام پر لانے میں کمال مہارت رکھتا ہے لٰہذا یہاں بھی کچھ ایسا ہی ہوا ہے۔ انسان جب تک تفریح اور حقیقت کے درمیان فرق کی لکیرکھینچنا نہیں سیکھے گا تب تک وہ بندر کی طرح سوشل میڈیا پلیٹ فارمزکی ڈگڈگی پر ناچ کر خود کا اور قوم بنی نوع انسان کا تماشا بنواتا رہے گا۔