بھارت کی شمال مشرقی ریاست منی پور میں جاری نسلی فسادات کے بعد بھارتی حکومت نے براہ راست کنٹرول سنبھال لیا۔ 

منی پور کے وزیر اعلیٰ این برین سنگھ نے گزشتہ ہفتے استعفیٰ دے دیا تھا، جس کے بعد بھارتی صدر دروپدی مرمو نے گورنر اجے کمار بھلا کی رپورٹ پر صدر راج نافذ کرنے کا اعلان کیا۔

منی پور میں 2023 سے جاری تنازعے میں اکثریتی میٹی ور اقلیتی کُکی برادری کے درمیان شدید جھڑپیں دیکھنے میں آ رہی ہیں۔ 

یہ جھگڑا اس وقت شروع ہوا جب ایک عدالتی فیصلے میں کُکی برادری کو دی جانے والی معاشی سہولتیں اور نوکریوں میں کوٹہ میٹی برادری کو بھی دینے کا مشورہ دیا گیا۔ اس کے بعد دونوں گروہوں کے درمیان خونی تصادم شروع ہو گیا، جس میں اب تک 250 سے زائد افراد ہلاک اور ہزاروں بے گھر ہو چکے ہیں۔

منی پور کے سابق وزیر اعلیٰ این برین سنگھ جو بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے اہم رہنما اور میٹی برادری کے نمائندہ تھے، اپوزیشن اور اپنی ہی پارٹی کے اتحادیوں کے دباؤ کے باعث مستعفی ہو گئے۔ 

ریاست میں بڑھتے ہوئے تشدد اور حکومت کی ناکامی پر نیشنل پیپلز پارٹی نے نومبر میں حکومت سے علیحدگی اختیار کر لی تھی، تاہم مقامی میڈیا کے مطابق پارٹی نے حال ہی میں دوبارہ بی جے پی کے ساتھ الحاق کر لیا ہے۔

بھارتی حکومت نے منی پور میں صدر راج نافذ کر کے ریاست کا کنٹرول گورنر اجے کمار بھلا کو سونپ دیا ہے۔ 

بھارتی صدر دروپدی مرمو نے کہا، "ریاست میں ایسے حالات پیدا ہو چکے ہیں، جن میں آئینی طریقے سے حکومت چلانا ممکن نہیں رہا۔"

مودی حکومت کا کہنا ہے کہ منی پور میں بڑھتی ہوئی فرقہ وارانہ کشیدگی کی ایک بڑی وجہ میانمار کے مہاجرین کا ریاست میں داخلہ بھی ہے۔ بھارتی حکومت کا ماننا ہے کہ میانمار سے آنے والے پناہ گزینوں کی آمد نے دونوں برادریوں کے درمیان اختلافات کو مزید بھڑکا دیا ہے۔

منی پور میں فوج اور پولیس کی بھاری نفری تعینات ہے، اور بھارتی حکومت کسی بھی ممکنہ خطرے سے نمٹنے کے لیے ہنگامی اقدامات کر رہی ہے۔

 

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: بھارتی حکومت منی پور میں

پڑھیں:

کینالز تنازع پر ن لیگ پیپلزپارٹی آمنے سامنے، کیا پی ٹی آئی کا پی پی پی سے اتحاد ہو سکتا ہے؟

دریائے سندھ سے کینالز نکالنے کے معاملے پر پاکستان پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن آمنے سامنے ہیں۔ جمعہ کو حیدر آباد میں جلسے سے خطاب کرتے ہوئے چئیرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو نے کہاکہ پانی کی تقسیم کا مسئلہ وفاق کو خطرے میں ڈال سکتا ہے، اسلام آباد والے اندھے اور بہرے ہیں، یہ نہ سننے کو تیار ہیں اور نہ ہی دیکھنے کے لیے تیار ہیں، ہم وزارتوں کو لات مارتے ہیں، کینالز منصوبہ کسی صورت منظور نہیں ہے۔

انہوں نے کہاکہ وفاقی حکومت فوری طور پر اپنا متنازع کینالز کا منصوبہ روکے، ورنہ پیپلز پارٹی ساتھ نہیں چل سکتی۔

یہ بھی پڑھیں متنازع کینالز منصوبہ: نواز شریف اور شہباز شریف کی پیپلزپارٹی کے تحفظات دور کرنے کی ہدایت

اس ساری صورتحال میں اگر پیپلز پارٹی حکومت کی حمایت سے دستبردار ہو جاتی ہے تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا پیپلز پارٹی اور پی ٹی آئی اکٹھی ہو سکتی ہیں؟ اور یہ ممکنہ اتحاد پی ٹی آئی کے لیے کم بیک کرنے میں کتنا مفید ثابت ہو سکتا ہے؟

کینالز کے معاملے پر اختلاف پیپلزپارٹی اور اسٹیبلشمنٹ میں ہوگا، ماجد نظامی

سیاسی تجزیہ کار ماجد نظامی نے کہاکہ پیپلز پارٹی اس وقت مشکل صورتحال سے اس لیے دوچار ہے کیونکہ 9 فروری کے بعد سے لے کر اب تک وہ وفاقی حکومت پر تنقید تو کرتے تھے، لیکن ساتھ شامل بھی تھے، لیکن اب معاملہ تھوڑا مختلف ہے کیوں کہ کینالز کے معاملے پر یہ اختلاف پیپلز پارٹی اور اسٹیبلشمنٹ میں ہوگا۔

انہوں نے کہاکہ اس کے علاوہ سندھ میں قوم پرستوں کے مؤقف کی وجہ سے بھی پیپلز پارٹی کو سیاسی طور پر مشکل کا سامنا ہو سکتا ہے، اس لیے وفاقی حکومت پر پیپلز پارٹی تنقید تو کررہی ہے، لیکن ان کے اصل مخاطب اسٹیبلشمنٹ کے افراد ہیں، کیونکہ کینالز جو خصوصاً پنجاب میں آئیں گی، وہ ماڈرن فارمنگ کے ایریاز کے لیے تشکیل دی جا رہی ہیں۔

’براہِ راست اسٹیبلشمنٹ کو مخاطب کرنا پیپلز پارٹی کے لیے ذرا مشکل ہے‘

انہوں نے سیاسی صورتحال پر بات کرتے ہوئے کہاکہ چونکہ سیاسی صورتحال پر براہِ راست اسٹیبلشمنٹ کو مخاطب کرنا پیپلز پارٹی کے لیے ذرا مشکل ہے، اس لیے وہ وفاقی حکومت پر تنقید کررہے ہیں، لیکن یہ معاملہ پیپلز پارٹی بمقابلہ اسٹیبلشمنٹ ہے، اس سے مسلم لیگ ن کا کوئی تعلق نہیں۔

ایک سوال کے جواب میں ماجد نظامی نے کہاکہ پیپلزپارٹی اور پی ٹی آئی کے درمیان اتحاد کا کوئی امکان نہیں، کیوں کہ نہروں کے معاملے پر پیپلزپارٹی کی یہ لڑائی مسلم لیگ ن سے نہیں بلکہ اسٹیبلشمنٹ سے ہے۔

انہوں نے کہاکہ پاکستان میں کوئی ایسی حکومت تشکیل نہیں پا سکتی جس کو اسٹیبلشمنٹ کی حمایت حاصل نہ ہو، اس لیے پی ٹی آئی اور پیپلز پارٹی کے اتحاد کا معاملہ ذرا مشکل نظر آتا ہے۔

کینالز کے معاملے پر پیپلزپارٹی اور ن لیگ کی نشست کامیاب نہیں ہوسکی، احمد بلال

تجزیہ کار احمد بلال نے کہاکہ سندھ تو پہلے سے ہی شور مچاتا آرہا ہے کہ انہیں پانی کم ملتا ہے، اگر اب ایسی صورت میں نہریں بھی نکلیں گی تو ان کے ساتھ زیادتی ہوگی، اسی لیے پیپلزپارٹی سمیت دیگر سیاسی جماعتیں باقاعدہ مہم چلا رہی ہیں۔

انہوں نے کہاکہ متنازع کینالز منصوبے کے حوالے سے پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ ن کے درمیان ہونے والی نشست کامیاب نہیں ہو سکی، جس کی وجہ سے یہ مسئلہ مزید بڑھتا جارہا ہے، اور بلاول بھٹو نے یہاں تک کہہ دیا ہے کہ اگر انہوں نے ساتھ چھوڑ دیا تو یہ حکومت نہیں چل سکے گی۔

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہاکہ پاکستان پیپلزپارٹی کبھی بھی مسلم لیگ ن کے ساتھ اتحاد نہیں کرےگی، ان کے مسلم لیگ ن کے ساتھ معاملات حل ہو جائیں گے، اس وقت جو کچھ ہورہا ہے یہ صرف ایک پریشر ہے۔

’پیپلزپارٹی حکومتی حمایت سے دستبردار ہوگئی تو مرکز میں انتخابات دوبارہ ہوں گے‘

انہوں نے مزید کہاکہ اگر پیپلز پارٹی حکومت سے علیحدگی اختیار کرتی ہے تو وفاق کی یہی صورتحال ہوگی کہ انتخابات دوبارہ ہوں گے، اور ایسی صورت میں مسائل مزید بڑھ سکتے ہیں کیوں کہ اس وقت ملک درست سمت میں گامزن ہو چکا ہے، اور معیشت ٹریک پر آگئی ہے۔

انہوں نے کہاکہ پاکستان کی حکومت اور اسٹیبلشمنٹ یہ افورڈ نہیں کر سکتے کہ اس وقت دوبارہ سے سے انتخابات کروائے جائیں، بلاول بھٹو نے جلسے میں جو کہا یہ صرف بیان کی حد تک تھا۔

انہوں نے کہاکہ صدر مملکت آصف زرداری منجھے ہوئے سیاست دان ہیں، وہ جانتے ہیں کہ کیسے آگے بڑھنا ہے، کیسے پریشر ڈالنا ہیں اور مطالبات منوانے کے لیے کیا آپشن استعمال کرنے ہیں۔

نہروں کا معاملہ پیپلزپارٹی کے لیے اہمیت کا حامل ہے، رانا عثمان

سیاسی تجزیہ کار رانا عثمان نے بتایا کہ نہروں کا مسئلہ پیپلزپارٹی کے لیے نہایت اہمیت کا حامل ہے، چونکہ اس کا سارا ووٹ بینک سندھ میں ہے، اور وہاں پر ان کی حکومت بھی ہے۔

انہوں نے کہاکہ پانی کے معاملے پر سندھ کے عوام بہت جذباتی ہیں، کالا باغ ڈیم کے معاملے پر یہ چیز واضح بھی ہو چکی ہے، کچھ بھی ہو جائے پیپلزپارٹی نہریں نکالنے کے معاملے پر راضی نہیں ہو سکتی۔

رانا عثمان نے کہاکہ بلاول بھٹو کی جانب سے حکومت کا ساتھ چھوڑنے کی دھمکی ایک سیاسی پریشر ہے، وہ بخوبی جانتے ہیں کہ اگر وہ ایسا کرتے ہیں تو جمہوریت کے لیے کیا خطرات ہوں گے۔

یہ بھی پڑھیں حکومت متنازع نہری منصوبہ روکے ورنہ ساتھ نہیں چل سکتے، بلاول بھٹو نے شہباز شریف کو خبردار کردیا

انہوں نے کہاکہ پیپلزپارٹی سمجھتی ہے کہ ملک اس وقت نئے انتخابات کا متحمل نہیں ہو سکتا، کیونکہ پاکستان کی معاشی صورتحال ہی ایسی ہے، اس لیے پیپلزپارٹی حکومت کی حمایت سے دستبردار نہیں ہوگی۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

wenews آصف زرداری بلاول بھٹو پی ٹی آئی پی پی پی اتحاد پیپلزپارٹی شہباز شریف عمران خان کینالز معاملہ مسلم لیگ ن نواز شریف وی نیوز

متعلقہ مضامین

  • لائن آف کنٹرول پر بھارتی فوج کی جارحیت، شہریوں کی تشویش میں اضافہ
  • پیپلز پارٹی کھیل بگاڑنا چاہتی ہے؟
  •  خیبر پختونخوا کی بے اختیار بلدیاتی حکومتیں اور نمائندے 3 سال گزرنے کے باوجود فنڈز سے محروم
  • پارٹی کا سوشل میڈیا علیمہ خان کنٹرول کرتی ہیں،حیدر مہدی،عادل راجا انہی کی ایما پر پراپیگنڈا کرتے ہیں‘ شیر افضل مروت
  • بھارتی حکومت نے مزید دو کشمیریوں کی جائیدادیں ضبط کر لیں
  • وفاقی حکومت کسی وقت بھی گرسکتی: پیپلز پارٹی رہنما شازیہ مری
  • کینالز تنازع پر ن لیگ پیپلزپارٹی آمنے سامنے، کیا پی ٹی آئی کا پی پی پی سے اتحاد ہو سکتا ہے؟
  • خرم شیر زمان کا سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی میں کی گئی ترمیم واپس لینے کا مطالبہ
  • پیپلز پارٹی سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی میں کی گئی ترمیم واپس لے: خرم شیر زمان
  • مقبوضہ کشمیر میں امن و ترقی کے بھارتی حکومت کے دعوے جھوٹے ہیں، کانگریس رہنما