آئی ایم ایف کی ایک اور شرط پوری، سرکاری ملازمین کے اثاثے ظاہر کرنے کا قانون منظور
اشاعت کی تاریخ: 13th, February 2025 GMT
آئی ایم ایف کی ایک اور شرط پوری، سرکاری ملازمین کے اثاثے ظاہر کرنے کا قانون منظور WhatsAppFacebookTwitter 0 13 February, 2025 سب نیوز
اسلام آباد(سب نیوز ) وفاقی حکومت نے آئی ایم ایف کی ایک اور شرط پوری کر دی، کابینہ نے سرکاری ملازمین کے اثاثے ظاہر کرنے کا قانون منظور کر لیا۔سول سرونٹس ایکٹ 1973 کے سیکشن میں نئی دفعہ 15-A کا اضافہ کر دیا گیا، وفاقی کابینہ نے سول سرونٹ ایکٹ 1973 کے سیکشن 15 اے کی ترمیم کی توثیق کر دی، سرکاری ملازم کے طرز عمل کو قواعد میں تبدیلی کے ذریعے منظم کیا جائے گا۔
حکومت سرکاری ملازم کے مالی طرز عمل کو ریگولیٹری اور مانیٹر کرے گی، معلومات تک رسائی کے قانون کے تحت سرکاری افسران کے اثاثوں کی تفصیل ویب سائٹ پر بھی دستیاب ہوگی، گریڈ 17 سے 22 تک کے سرکاری افسران اثاثے پبلک کرنے کے پابند ہوں گے۔
سرکاری افسر اپنے اہل خانہ کے اثاثوں کی تفصیل بھی دینے کے پابند ہوں گے، سرکاری افسر ملکی اور غیر ملکی اثاثے اور مالی حیثیت سے آگاہ کرے گا، سرکاری افسران کو ایف بی آر کے ذریعے اپنے اثاثے ظاہر کرنا ہوں گے۔
اسٹیبلیشمنٹ ڈویژن کو بھی افسران کے اثاثوں کی تفصیلات تک رسائی حاصل ہو گی، افسر کی رازداری اور سلامتی کے لیے عوامی مفاد کے درمیان توازن کو مدنظر رکھا جائے گا، عوامی طور پر قابل رسائی ڈیٹا کا تحفظ یقینی بنایا جائے گا۔کسی بھی افسر کی ذاتی معلومات کو خفیہ رکھا جائے گا، شناختی نمبر، رہائشی پتے، بینک اکانٹ یا بانڈ نمبرز کی رازداری کی جائے گی، ذاتی معلومات کو خفیہ رکھنے کے لئے ایف بی آر ڈیٹا سکیورٹی بھی کرے گا۔
.ذریعہ: Daily Sub News
کلیدی لفظ: اثاثے ظاہر
پڑھیں:
چیف جسٹس نے ججز کے تبادلوں پر رضامندی ظاہر کی تھی: رجسٹرار سپریم کورٹ
اسلام آباد (ڈیلی پاکستان آن لائن )اسلام آباد ہائیکورٹ ججز ٹرانسفر اور سنیارٹی کیس میں آئینی بینچ کے روبرو رجسٹرار سپریم کورٹ کی جانب سے جواب جمع کروادیا گیا۔
ڈان نیوز کے مطابق جواب میں کہا گیا کہ آئین کے آرٹیکل 200 کی شق ایک کے تحت صدر مملکت جج کا تبادلہ کرسکتا ہے۔رجسٹرار سپریم کورٹ کے جواب میں آئینی بینچ کو آگاہ کیا گیا ہے کہ وزارت قانون کی جانب سے ٹرانسفر سے پہلے یکم فروری کو چیف جسٹس سے رائے طلب کی گئی تھی، چیف جسٹس نے اسلام آباد ہائیکورٹ کے لئے ججز ٹرانسفر پر رضامندی ظاہر کی تھی۔
رجسٹرار سپریم کورٹ کے جمع کرائے گئے جواب میں کہا گیا ہے کہ وزارت قانون نے یکم فروری کو چیف جسٹس کی رضامندی طلب کی تھی، چیف جسٹس نے اسی روز ججز ٹرانسفر پر رضامندی کا جواب بھیجا۔
اسلام آباد ہائیکورٹ میں ججز کے تبادلے اور سنیارٹی کیس میں جوڈیشل کمیشن نے بھی اپنا جواب سپریم میں جمع کروا دیا۔
جواب میں کہا گیا ہے کہ جوڈیشل کمیشن کا مینڈیٹ آئین کے آرٹیکل 175 اے میں دیا گیا ہے، جوڈیشل کمیشن کی بنیادی ذمہ داری سپریم کورٹ، ہائیکورٹ اور فیڈرل شریعت عدالتوں میں ججز کی تقرری ہے۔
جوڈیشل کمیشن کے جواب میں کہا گیا ہے کہ موجودہ کیس ججز کے تبادلے سے متعلق ہے، ججز کے تبادلوں میں آئین کے مطابق جوڈیشل کمیشن کا کوئی کردار نہیں۔
سیکرٹری جوڈیشل کمیشن نیاز محمد کی جانب سے جواب جمع کروایا گیا ہے۔
گندم کی فصل میں حصہ کم ملنے پر بیوی نے تشدد کر کے شوہر کو قتل کردیا
مزید :