اسرائیل کو غزہ میں مکمل شکست ہوئی ہے، صیہونی جرنیل
اشاعت کی تاریخ: 13th, February 2025 GMT
غزہ جنگ کی منصوبہ بندی کرنے والے ایک صیہونی جرنیل نے نیتن یاہو اور اس کے اتحادیوں پر کڑی تنقید کرتے ہوئے فتح کے اعلان کو بیہودہ قرار دیا اور کہا کہ غزہ سے متعلق مطلوبہ اہداف میں سے کوئی ہدف بھی حاصل نہیں ہوا اور اسرائیل کو مکمل شکست کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ اسلام ٹائمز۔ صیہونی رژیم کی ریزرو فورس کے جنرل گیورا ایلینڈ جو غزہ جنگ کے دوران "جنرلز پلان" نامی منصوبے کا بانی تصور کیا جاتا ہے اور جس نے جنگ بندی سے سو دن پہلے سے اس منصوبے پر عملدرآمد کروانے کی ذمہ داری سنبھال رکھی تھی، غزہ جنگ میں اسرائیل کی مکمل شکست اور ناکامی کا اعتراف کیا ہے۔ اس نے کہا ہے کہ اسرائیل اس جنگ کے مطلوبہ اہداف میں سے کوئی ایک ہدف بھی حاصل نہیں کر پایا لہذا اسے سو فیصد شکست ہوئی ہے۔ جنرل گیورا ایلینڈ نے طنزیہ انداز میں صیہونی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو کی جانب سے "مکمل فتح" کا اعلان کیے جانے کے بارے میں کہا: "غزہ میں مکمل فتح اسرائیل کے لیے مکمل شکست میں تبدیل ہو گئی ہے اور ہم اس جنگ میں فاتح قرار نہیں پائے ہیں۔" اس نے مزید کہا: "اسرائیل آج تک ان چار اہداف میں سے کوئی ایک ہدف بھی حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکا جو غزہ جنگ کے لیے مقرر کیے گئے تھے۔ اسرائیل حماس کی فوجی طاقت ختم نہیں کر پایا، غزہ میں حماس کی حکومت ختم نہیں کر سکا اور اسی طرح غزہ کے اردگرد یہودی بستیوں کی سیکورٹی بھی بحال کرنے میں ناکام رہا ہے۔" گیورا ایلینڈ نے کہا: "اسرائیل غزہ سے اپنے یرغمالی بھی فوجی طاقت کے ذریعے نہیں بلکہ مذاکرات اور قیدیوں کے تبادلے کے ذریعے آزاد کروا پایا ہے۔"
اسرائیلی ریزرو فوج کے جنرل نے کہا: "مکمل فتح کا مطلب یہ ہے کہ مدمقابل غیر مشروط طور پر آپ کے سامنے گھٹنے ٹیک دے اور ایک حد تک فتح بھی اس وقت ہوتی ہے جب مدمقابل اپنی سرزمین کا کچھ حصہ آپ کے سپرد کر دے اور ہتھیار پھینک دے، اس کی حکومت ختم ہو جائے اور وہ جنگ کا تاوان بھی ادا کرے۔ لیکن غزہ میں ان میں سے کچھ بھی نہیں ہوا ہے۔" جنرل گیورا ایلینڈ نے کہا: "نیتن یاہو اور اس کی اندھے اور بہرے مافیا بڑی بڑی باتیں تو کرتے ہیں لیکن ان کی کوئی حیثیت اور فائدہ نہیں ہے۔" دوسری طرف صیہونی فوج کے ریٹائرڈ جنرل اسحاق برک نے بھی صیہونی اخبار معاریو میں ایک مضمون شائع کیا ہے جس میں اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ اسرائیلی فوج روز بروز ٹوٹ پھوٹ اور انتشار کا شکار ہوتی جا رہی ہے۔ یاد رہے جنرل اسحاق برک ماضی میں فوجیوں کی شکایات کا جائزہ لینے کی ذمہ داری ادا کرتا رہا ہے۔ اس نے اپنے مضمون میں لکھا کہ اسرائیل کی بری فوج بہت چھوٹی ہے اور وہ چند محاذوں پر ایک ساتھ جنگ کرنے کی طاقت نہیں رکھتی۔ اس صیہونی جرنیل نے اسرائیل کے وجود کو درپیش خطرے کے بارے میں خبردار کرتے ہوئے لکھا کہ ہم اس وقت شدید سیکورٹی بحران سے روبرو ہیں جو ایک جوہری حملے کی حد تک تباہ کن اور نقصان دہ ہو سکتا ہے۔
ذریعہ: Islam Times
پڑھیں:
یمن میں امریکہ کو بری طرح شکست کا سامنا ہے، رپورٹ
اسلام ٹائمز: ایران کو تزویراتی گہرائی اور معاشی وسائل کی فراوانی اور ہتھیاروں کی مقدار اور معیار کے لحاظ سے حوثیوں پر برتری حاصل ہے اور اس کے پاس تیز رفتار اینٹی شپ میزائل ہیں جو امریکی طیارہ بردار بحری جہازوں کو ہلاکت خیز دھمکی دینے اور تباہ کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ بدلتے وقت کے ساتھ جیسے جیسے امریکہ کی سپر پاور کی حیثیت بتدریج ختم ہوتی جارہی ہے، ایسا لگتا ہے کہ وہ اب اپنے عالمی مفادات کو پہلے جیسی آسانی کے ساتھ برقرار رکھنے کے قابل نہیں رہا۔ خصوصی رپورٹ:
چینی ویب سائٹ SOHO کی رپورٹ کے مطابق امریکہ کو فوجی طاقت اور وسیع فوجی سہولیات کے باوجود یمن کے انصار اللہ کے مقابلے میں بری شکست کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ جیسا کہ کہاوت ہے کہ کاٹنے والا کتا کبھی نہیں بھونکتا اور حقیقی طاقتور اوچنا نہیں بولتا۔ امریکہ کی موجودہ فوجی طاقت کو دیکھتے ہوئے، اصولی طور پر یہ کہنا ممکن ہے کہ ایران کے ساتھ امریکہ کے تصادم پر یہ مقولہ صادق آتا ہے، جیسا کہ ابتدائی طور پر ہی ڈونلڈ ٹرمپ نے طاقت کے استعمال کی بات کی، حوثیوں پر تابڑ توڑ حملے ایک ایسی ہی گھن گرج پر مبنی حکمت عملی ہے، جو امریکیوں کو معقول محسوس ہو رہی ہے، لیکن اس کے پیچھے مذکورہ مقولہ ہی سچ لگتا ہے۔
فی الحال، ریاستہائے متحدہ کے پاس دو طیارہ بردار بحری جہاز اور ان کے ساتھ بحیرہ احمر کے علاقے میں اسٹرائیک گروپس موجود ہیں، جن کے چاروں طرف تباہ کن کشتیوں اور اسکارٹ جہازوں کے بیڑے ہیں۔ اس کے علاوہ، واشنگٹن نے بڑی تعداد میں B-2 سٹیلتھ بمبار طیاروں کو اپنی سرزمین سے منتقل کر دیا ہے اور انہیں بحر ہند میں ایک اڈے پر تعینات کر دیا ہے۔ اتنے بڑے پیمانے پر یہ فوجی تعیناتی واضح طور پر حوثیوں کے خلاف ہی ہے۔ لیکن حقیقت میں اس سے امریکہ کو بہت بڑا دھچکا لگا ہے۔ ایک ماہ سے زیادہ کی مسلسل فضائی بمباری کے باوجود حوثیوں نے ہتھیار نہیں ڈالے ہیں۔
وہ پہلے کی طرح (غزہ کی حمایت میں) وقتاً فوقتاً جوابی حملے کرتے رہتے ہیں۔ تہران کے ساتھ مذاکرات کے وقت، واشنگٹن نے حوثیوں کے خلاف اپنی جنگ شروع کرنے کو ترجیح دی۔ اگرچہ یہ ایران کو مذاکرات کی شرائط ماننے اور براہ راست جنگ سے بچنے کے لیے مجبور کرنے کے لیے طاقت کا مظاہرہ لگتا ہے، لیکن یہ احتیاط سے تیار کی گئی امریکی چال کارگر ثابت نہیں ہوئی اور بالآخر ایک فسانہ اور جعلی شو میں بدل گئی۔ واشنگٹن کی اعلیٰ فوجی طاقت محدود صلاحیتوں کے ساتھ "یمن کی عوامی فوج" کے خلاف غالب آنے میں ناکام رہی۔ اگر حوثی ایسے ہیں، تو امریکہ ایران سے لڑنے کا فیصلہ کریگا تو حالات کیا ہوں گے؟
ایران کو تزویراتی گہرائی اور معاشی وسائل کی فراوانی سمیت کئی حوالوں سے ہتھیاروں کی مقدار اور معیار کے لحاظ سے حوثیوں پر برتری حاصل ہے اور اس کے پاس تیز رفتار اینٹی شپ میزائل ہیں جو امریکی طیارہ بردار بحری جہازوں کو ہلاکت خیز دھمکی دینے اور تباہ کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ بدلتے وقت کے ساتھ جیسے جیسے امریکہ کی سپر پاور کی حیثیت بتدریج ختم ہوتی جارہی ہے، ایسا لگتا ہے کہ وہ اب اپنے عالمی مفادات کو پہلے جیسی آسانی کے ساتھ برقرار رکھنے کے قابل نہیں رہا۔ امریکہ نے یوکرین کے بحران میں روس کا سر توڑ مقابلہ کرنے کی ہمت نہیں اور وہ مشرق وسطیٰ میں یمن کی دلدل میں پھنس گیا۔
"واشنگٹن نے خطے میں اپنے سلسلہ وار اقدامات سے ایک مضبوط قوت کا مظاہرہ کرنے کا ارادہ کیا تھا، لیکن اس کے بالکل برعکس ہوا، اور آج ایسا لگتا ہے کہ مشرق وسطیٰ میں امریکہ کی مشکلات میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے اور سب کی نظریں اس طرف لگی ہوئی ہیں کہ کیا واشنگٹن اپنا کام جاری رکھے گا یا ذلت اور مایوسی میں پیچھے ہٹ جائے گا۔"