امریکہ کی استعماری ذہنیت اور غیر منصفانہ اقدامات ایران تک محدود نہیں، ایرانی وزارت خارجہ
اشاعت کی تاریخ: 13th, February 2025 GMT
بیان میں کہا گیا ہے کہ اسلامی جمہوریہ ایران، عزت، حکمت اور مصلحت کے تین اصولوں پر عمل کرتے ہوئے اپنی خارجہ پالیسی میں یہ یقین رکھتا ہے کہ اس امریکہ کے ساتھ مذاکرات جو آج واضح طور پر ملت ایران کے خلاف جامع دباؤ ڈالنے کا ایجنڈا رکھتا ہے اور کھل کر ایران کو فوجی کارروائی کی دھمکی دیتا ہے، یہ رویہ ایران کے قومی مفادات سے کوسوں دور ہے۔ اسلام ٹائمز۔ اسلامی جمہوریہ ایران کی وزارت خارجہ نے کہا کہ ایرانی قوم کبھی بھی دباؤ میں آکر مذاکرات کو قبول نہیں کرے گی اور ایران نے یکطرفہ شرائط، دھمکیوں اور مرعوب کرنیکی بے تکی حرکات کا کبھی جواب نہیں دیا نہ دیگا۔ بیان میں امریکیوں کے ساتھ مذاکرات، جو آج واضح طور پر ایرانی قوم کے خلاف ہر طرح کا دباؤ ڈالنے کا نسخہ اور ایجنڈا سامنے لائے ہیں، جس کے ذریعے ایران کیخلاف جنگی اقدامات کی دھمکی بھی دی گئی، ایسے میں مذاکرات مکمل طور پر ایران کے قومی مفاد کے منافی ہیں۔ اسلامی جمہوریہ ایران، عزت، حکمت اور مصلحت کے تین اصولوں پر عمل کرتے ہوئے اپنی خارجہ پالیسی میں یہ یقین رکھتا ہے کہ اس امریکہ کے ساتھ مذاکرات جو آج واضح طور پر ملت ایران کے خلاف جامع دباؤ ڈالنے کا ایجنڈا رکھتا ہے اور کھل کر ایران کو فوجی کارروائی کی دھمکی دیتا ہے، یہ رویہ ایران کے قومی مفادات سے کوسوں دور ہے۔
زیادہ سے زیادہ دباؤ کی پہلے سے ہی جاری ہے، اس کی بحالی کا کیا سوال:
فروری 2025 کے آغاز میں امریکی صدر نے قومی سلامتی کی دستاویز پر دستخط کیے اور ایرانی قوم کے خلاف مبینہ طور پرزیادہ سے زیادہ دباؤ کی پالیسی کے بے نتیجہ ہونے کے باوجود اسے بحال اور جاری رکھنے کا حکم دیا۔ امریکی حکومت ہمارے خلاف زیادہ سے زیادہ دباؤ کو بحال کرنے کا دعویٰ کرتی ہے، لیکن یہ دباؤ کبھی رکا ہی نہیں تھا، جو اسے دوبارہ بحال کیے جانے کا سوال پیدا ہو۔امریکی انتظامیہ نے ماضی میں لگائی گئی پابندیوں میں سے ایک بھی نہیں ہٹائی اور خود اعتراف کرتے ہوئے گزشتہ پابندیوں میں سینکڑوں پابندیاں شامل کر دیں۔ لیکن اسلامی جمہوریہ ایران نے ثابت کیا ہے کہ وہ زیادہ سے زیادہ دباؤ کا زیادہ سے زیادہ مزاحمت کے ساتھ جواب دے گا ایران پر پختہ یقین رکھتا ہے کہ کسی بھی قوم کو غیر منصفانہ دباؤ اور غیر قانونی پابندیوں کا نشانہ نہیں بنایا جانا چاہیے۔
ایران کے خلاف ہر ممکن سازش کا استعمال:
مذکورہ دستاویز پر دستخط کرتے ہوئے، امریکی صدر نے جوہری معاملے پر ایران کے ساتھ مذاکرات اور معاہدے تک پہنچنے کی خواہش کا اظہار کیا، جب کہ یہ دستاویز "زیادہ سے زیادہ دباؤ" کی پالیسی پر مبنی ہے، جس میں اسلامی جمہوریہ ایران کے صدر کے الفاظ میں، ایران کا مقابلہ کرنے اور ایرانی عوام پر دباؤ بڑھانے کی "تمام ممکنہ سازشیں" شامل ہیں۔ اسلامی جمہوریہ ایران نے اپنے اصولی نقطہ نظر کو جاری رکھتے ہوئے ہمیشہ ایٹمی مسئلے سمیت مختلف مسائل کے سفارتی حل تلاش کرنے کی حمایت کی ہے اور گزشتہ دو دہائیوں کے دوران سفارت کاری اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والے حل کے لیے اپنے عزم کو ثابت کیا ہے۔
ایران کیخلاف دھمکیوں کا کوئی نتیجہ نہیں نکلے گا:
اس کے ساتھ ساتھ تاریخی نظیر یہ ثابت کرتی ہے کہ ایرانی قوم کبھی بھی دباؤ میں آکر مذاکرات کو قبول نہیں کرے گی اور اسلامی جمہوریہ کے خلاف یکطرفہ مطالبات ، دھمکیاں اور ہتھکنڈے نہ پہلے کارگر ثابت ہوئے نہ اب ہونگے۔ایک ہی وقت میں ایرانی قوم پر دباؤ بڑھانے کا حکم جاری کرنا اور بات چیت کی خواہش کا اظہار بھی،صرف اس منافقانہ روش کو جاری رکھنے کی نشاندہی کرتا ہے جو ایران کے بارے میں امریکی حکومتوں کے ایجنڈے پر طویل عرصے سے جاری ہے۔اس دوہری روش پر واشنگٹن کا اصرار نہ صرف مسائل کے حل کے لئے ساز گار نہیں بلکہ امریکہ کی بدنیتی اور ناقابل اعتماد ہونے کو زیادہ واضح کرتا ہے۔
امریکہ کے معاہدوں کی پاسداری نہیں کرتا:
بیان میں کہا گیا ہے: "امریکی حکومت ایران کے ساتھ بات چیت اور معاہدے تک پہنچنے کے لیے اپنی رضامندی کا اظہار ایسی صورت حال میں کر رہی ہے جب یہ ملک اپنے معاہدوں کو پورا کرنے میں بار بار ناکام رہا ہے، خاص طور پر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل سے منظور شدہ ایٹمی معاہدہ کو۔ آج امریکی صدر بات چیت اور مذاکرات کی بات کرتے ہیں جس سے انہوں نے خود یکطرفہ طور پر امریکہ کو 2018 میں انخلاء کا حکم دیا اور ایرانی قوم پر شدید ترین دباؤ ڈالا۔ یہ فیصلہ بین الاقوامی ایٹمی توانائی ایجنسی کی تصدیق کے باوجود کیا گیا کہ ایران اپنے تمام تر وعدوں اور معاہدوں کی مکمل پاسداری کر رہا ہے۔
ایرانی عوام اور حکومت کے ساتھ امریکی برتاو کی تاریخ:
ایران کی عظیم قوم اور حکومتوں کے ساتھ امریکی انتظامیہ کے رویے کی تاریخ عدم اعتماد سے بھری پڑی ہے، جس کی وجہ متکبرانہ رویہ، دھمکیاں، اندرونی معاملات میں بار بار مداخلت، مختلف انداز میں ایرانی وسائل اور دولت پر قبضے کی کوشش، ایرانی قوم کو تجارتی مواقع سے محروم کرنا، دہشت گردی اوربالخصوص اقتصادی دہشت گردی جیسے حربوں کو استعمال کرتے ہوئے مکمل جنگ کے ذریعےبے ہودہ اعمال، غیر انسانی اور ظالمانہ روش کا جاری رکھنا ہے۔
یہ اقدامات کسی بھی انسانی معیار یا بین الاقوامی قوانین اور ضوابط سے مطابقت نہیں رکھتے:
19 اگست 1953 کو ایران کی قانونی حکومت کے خلاف بغاوت، اسلامی انقلاب کے ابتدائی دنوں میں تمام ایرانی اثاثوں کا منجمد کرنا، آٹھ سالہ مسلط کردہ جنگ کے دوران صدام کی بعثی حکومت کے لیے انٹیلی جنس، سیکورٹی اور لاجسٹک سپورٹ، تیل کی تنصیبات پر حملے، ایرانی مسافر طیاروں پر حملے، منافقیں کو دہشت گرد گروپوں کی فہرست سے نکالنا، ڈرانے دھمکانے کے لئےایرانی شہریوں کی گرفتاریاں اور دباو، ایٹمی معاہدے سے دستبرداری، دہشت گردی کے خلاف جنگ کے عظیم ہیرو شہید جنرل سلیمانی کا ہدفی قتل، بیرونی پابندیوں کا نفاذ اور ان پابندیوں کے ذریعے بڑے پیمانے پر ایرانی شہریوں کو نشانہ بنانا، اور صیہونی رجیم کے ذریعےایرانی ایٹمی سائنسدانوں کے قتل میں واضح امریکی ہاتھ، ان ظالمانہ کارروائیوں کی مثالیں ہیں۔
واشنگٹن ایران پر الزام لگا کر تاریخی حقائق کو تبدیل نہیں کر سکتا:
جیسا کہ تاریخ سے پتہ چلتا ہے، امریکہ اور ایران کے تعلقات کی موجودہ صورت حال ان معاندانہ اقدامات کا نتیجہ ہے جو واشنگٹن نے تقریباً ایک صدی سے ایرانی قوم کے خلاف جاری رکھے ہوئے ہے۔ واشنگٹن ایران پر الزام لگا کر تاریخی حقائق کو تبدیل نہیں کر سکتا اور ایران کو ذمہ دار ٹھہرا نہیں سکتا۔ اسلامی جمہوریہ ایران پر دہشت گردی کی حمایت کا الزام لگایا جاتا ہے، حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ ایران خود دہشت گردی کا سب سے بڑا شکار ہے اور مغربی ایشیائی خطے میں اس مذموم برائی کے ظہور کے خلاف ایرانی قوم اور اس کی مسلح افواج جتنی سخت مقاومت کسی اور قوم یا ملک نے دکھائی۔
ایران نے پرتشدد اور بے لگام دہشت گردی کے خلاف خطے کی اقوام کی حمایت اور دفاع کے لیے کئی قیمتی جانوں کا نذرانہ پیش کیا ہے اور اس نے ہمیشہ خطے میں امن و سکون کو اپنی علاقائی پالیسیوں میں اولین ترجیح دی ہے۔دوسری طرف ایران کے اندر امریکہ اور اس جیسے دیگر ممالک کی حمایت سے وجود میں آنیوالے مختلف دہشت گرد گروہوں نے 23 ہزار سے زائد بے گناہ لوگوں کی جانیں لی ہیں۔
امریکہ کو بطور ملزم جواب دینا چاہیے:
دہشت گردی کے خلاف جنگ کا دعویٰ کرنے کے باوجود، امریکہ درحقیقت مغربی ایشیائی خطے میں دہشت گردی اور عدم استحکام کو پھیلانے کا موجد، حامی اور ایجنٹ رہا ہے۔ جیسا کہ موجودہ امریکی صدر نے بارہا اعتراف کیا ہے، خطے میں دہشت گردی کے خلاف جنگ کے بہانے امریکی فوجی مہمات، چاہے عراق ہو یا افغانستان، سے عدم استحکام اور دہشت گرد گروہوں کی افزائش کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوا۔ اس لئے امریکہ کو ایک مدعی کی حیثیت سے نہیں بلکہ مدعا علیہ کے طور پر اس سوال کا جواب دینا چاہیے: دہشت گرد گروہوں کی تشکیل اور القاعدہ، داعش اور النصرہ جیسے خطرناک گروہوں کو گزشتہ دہائیوں میں مالی وسائل اور ہتھیار فراہم کرنے کا ذمہ دار کون تھا؟ یہ ثابت اور واضح ہے کہ امریکہ دہشت گرد گروہوں کو خطے سمیت دنیا کے ممالک کے خلاف اپنے مقاصد اور پالیسیوں کو آگے بڑھانے کا آلہ کار سمجھتا ہے۔
ایران پر الزام لگانا صیہونی جرائم چپھانے کی بے سود کوشش ہے:
ایرانی قوم کی مزاحمتی گروہوں اور خطے کی مسلمان قوموں کی حمایت کو جو ایک غاصب حکومت کے خلاف اپنی سرزمین اور انسانی وقار کی آزادی کے لیے لڑ رہی ہیں، کو "دہشت گردی کی حمایت" کا نام دینا حقیقت کو تبدیل نہیں کرتا۔ اسلامی جمہوریہ ایران پر الزام لگانا صیہونی حکومت کو ذمہ داری سے بری کرنے اور امریکہ کو اس حکومت کے جرائم کی جامع اور مکمل حمایت میں اپنی ذمہ داری سے بچنے کی بے سود کوشش ہے۔
غزہ میں ہونے والی نسل کشی سے امریکہ کی چشم پوشی:
امریکہ نے اسلامی جمہوریہ ایران پر انسانی حقوق کی خلاف ورزی کا الزام لگایا ہے اور نہ صرف غزہ میں صیہونی حکومت کی نسل کشی اور صیہونی جنگی جرائم سے آنکھیں چرائی ہیں، بلکہ اس نے ان اقدامات کی بھرپور حمایت کی ہے، اور اب صیہونی حکومت کی طرف سے تباہی اور فلسطینیوں کی اپنی زمینوں سے بے دخلی جیسے مجرمانہ اقدامات کی حمایت بھی کی ہے۔
ایرانی عوام اور ان کے انسانی حقوق کی حمایت کا دعویٰ ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب واشنگٹن برسوں سے سخت ترین پابندیاں لگا کر ایرانی عوام کی معیشت اور فلاح و بہبود کو براہ راست نشانہ بنا رہا ہے اور ایرانی عوام پر اقتصادی دباؤ کو "زیادہ سے زیادہ دباؤ کی مہم" کے پہلے دور کی کامیابی قرار دیتا ہے۔ یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ جب ایرانی عوام کورونا وائرس کی وباء سے نبرد آزما تھے، امریکی حکومت پابندیوں کے انسانی نتائج کی پرواہ کیے بغیر، ایرانی قوم پر معاشی دباؤ بڑھانے کی سخت سے سخت کوشش کر رہی تھی۔
امریکہ خود کو انسانی حقوق کا محافظ نہیں بنا سکتا:
جیسا کہ بین الاقوامی رپورٹوں کی صورت میں کئی ثبوت موجود ہیں، امریکی پابندیوں نے نہ صرف معیشت بلکہ ایرانیوں کے زندگی کے بنیادی حق کو بھی نشانہ بنایا ہے، جابرانہ پابندیوں کے نتیجے میں کئی جانیں ضائع ہو چکی ہیں۔ اس طرح کی تجویز کے ساتھ، امریکہ اپنے آپ کو انسانی حقوق کے معاملے پر دعویدار اور ناقد کے مقام پر نہیں رکھ سکتا۔ یہ کوئی راز نہیں ہے کہ انسانی حقوق کے دعوے کرنے میں واشنگٹن کا مقصد ایرانی قوم پر دباؤ بڑھانا ہے جس کے لیے وہ تشویش کا اظہار کر رہا ہے اور یہ ایران کے بارے میں امریکہ کے منافقانہ رویے کی ایک اور علامت ہے۔
امریکہ عالمی قانون شکن ہے:
امریکہ نے خود کو نام نہاد قوانین پر مبنی بین الاقوامی نظام کا حامی بتایا ہے اور ہمیشہ بین الاقوامی قوانین کی پاسداری کی ضرورت کی بات کی ہے، جبکہ امریکہ نے مختلف اوقات میں بین الاقوامی قوانین کے خلاف اور دنیا بھر میں عدم استحکام کو فروغ دینے کے لیے اقدامات کیے ہیں۔ اگرچہ امریکہ نے ہمیشہ بین الاقوامی قوانین اور ضوابط کی خلاف ورزی کو بظاہر انسانی حقوق اور دہشت گردی کے خلاف جنگ جیسے نعروں کے ذریعےچھپایا ہے، لیکن آج یہ ملک ان چاپلوسیوں کو چھوڑ کر سامراجی اور نوآبادیاتی زبان استعمال کر رہا ہے اور دوسری اقوام کی زمینوں پر قبضہ کرنے کے اپنے ارادوں کو نہیں چھپاتا، خواہ وہ یورپ میں ہوں ،مغربی ایشیا میں یا لاطینی امریکہ میں۔ درحقیقت،اس وقت امریکہ پہلے سے زیادہ قانون شکن بن چکاہے اور تسلیم شدہ بین الاقوامی اصولوں اور قوانین، بشمول علاقائی سالمیت اور قومی خودمختاری کے احترام سے انکار کرتا ہے۔ اسلامی جمہوریہ ایران کے بارے میں امریکی نقطہ نظر کو اس استعماری ذہنیت اور پالیسی سے الگ نہیں کیا جا سکتا۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: اسلامی جمہوریہ ایران دہشت گردی کے خلاف جنگ بین الاقوامی قوانین زیادہ سے زیادہ دباؤ دہشت گرد گروہوں کے ساتھ مذاکرات ایران پر الزام ایرانی قوم پر امریکی حکومت ایرانی عوام یہ ایران کے امریکی صدر اقدامات کی اور ایرانی امریکہ نے امریکہ کو کرتے ہوئے امریکہ کے اور ایران ایران کی کی حکومت ایران نے پر ایران حکومت کے کہ ایران کی حمایت کا اظہار نہیں کر اور اس کے لیے ہے اور رہا ہے جنگ کے کیا ہے
پڑھیں:
ایران میں اقتصادی بحران سے سب سے زیادہ متاثر متوسط طبقہ
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 20 اپریل 2025ء) ایرانی ریال ایک سال کے اندر اندر اپنی نصدف سے زیادہ قدر کھو چکا ہے۔ مارچ 2024 میں ایک امریکی ڈالر چھ لاکھ ایرانی ریال کے برابر تھا۔ لیکن گزشتہ ماہ یہ شرح تبادلہ ایک ملین ریال فی ڈالر سے بھی زیادہ ہو گئی۔ ایرانی کرنسی کی قدر میں اتنی زیادہ کمی نے ملک میں مہنگائی کو مزید ہوا دی اور درآمدی اشیاء کا حصول اور بھی مشکل ہو گیا۔
یہ شدید مہنگائی ایران میں کم آمدنی والے شہریوں اور متوسط طبقے پر بہت زیادہ اضافی بوجھ کی وجہ بنی ہے۔وسطی جرمنی کے شہر ماربرگ کی یونیورسٹی کے مشرق قریب اور مشرق وسطیٰ کے علوم کے مرکز سے منسلک ماہر اقتصادیات محمد رضا فرزانگان نے ڈی ڈبلیو کے ساتھ ایک انٹرویو میں بتایا، ''معاشی بے یقینی کی صورت حال کا مطلب یہ ہے کہ اخراجات زندگی کے بارے میں خدشات زیادہ سامنے آ رہے ہیں اور سماجی سطح پر سیاسی اشتراک عمل کم ہوتا جا رہا ہے۔
(جاری ہے)
اقتصادی حوالے سے لیکن یہ بات مشکوک ہے کہ بین الاقوامی سیاسی دباؤ کے ذریعے جن مقاصد کے حصول کی کوشش کی جاتی ہے، انہیں مڈل کلاس کو کمزور کر کے حاصل یا آسانی سے حاصل کیا جا سکتا ہے۔‘‘ایران: کرنسی اصلاحات سے مہنگائی روکنے کی کوشش کیا ہے؟
محمد رضا فرزانگان نے حال ہی میں ایک نئی تحقیق بھی مکمل کی، جس کے لیے انہوں نے امریکہ میں برینڈیز یونیورسٹی کے ایک ماہر تعلیم نادر حبیبی کے ساتھ مل کر کام کیا۔
انہوں نے ڈی ڈؓبلیو کو بتایا کہ یہ نئی تحقیق ثابت کرتی ہے کہ ایران کے خلاف 2012 سے عائد بین الاقوامی اقتصادی پابندیوں نے وہاں مڈل کلاس کی ترقی کی راہ میں بہت زیادہ رکاوٹیں ڈالی ہیں۔ تہران کے خلاف یہ پابندیاں ایران کے متنازعہ جوہری پروگرام کی وجہ سے لگائی گئی تھیں۔ ان کے ذریعے ایران پر اقتصادی اور سیاسی دباؤ بڑھانے کی کوشش کی گئی اور ایران کو ان پابندیوں کا سامنا آج بھی ہے۔ماہرین اقتصادیات کا کہنا ہے کہ اگر ایران پر یہ بیرونی پابندیاں نہ لگائی جاتیں، تو اس ملک کی آبادی میں متوسط طبقے کا حجم ہر سال اوسطاﹰ گیارہ فیصد کی شرح سے بڑھتا رہتا۔
پابندیوں سے فائدہ ریاست سے جڑے اداروں کوفرزانگان کا کہنا ہے کہ ایران میں متوسط طبقے کے سکڑتے جانے سے ریاست سے وابستہ اداروں پر معاشی انحصار بہت بڑھ چکا ہے۔
ایران کی کئی نجی کمپنیوں کو بھی پابندیوں کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ ایسے میں ریاست سے وابستہ ادارے، خاص طور پر وہ جو پاسداران انقلاب سے تعلق رکھتے ہیں، ہمیشہ فائدہ اٹھانے میں کامیاب رہتے ہیں۔ایسے پیداواری اور تجارتی اداروں نے اپنے لیے متبادل تجارتی نیٹ ورکس کو وسعت دینے کے طریقے تلاش کر لیے ہیں اور مارکیٹ میں اپنی پوزیشن بھی مضبوط بنا لی ہے۔ اس طرح ان پابندیوں کے نتیجے میں ایرانی نجی شعبے کے مقابلے میں ریاست کی اقتصادی طاقت میں مزید اضافہ ہوا ہے۔
ایرانی تیل کی اسمگلنگ پاکستانی معیشت کے لیے کتنی مضر ہے؟
امریکہ کی الینوئے یونیورسٹی کے ماہر اقتصادیات ہادی صالحی اصفہانی کے مطابق ایرانی خواتین مردوں کے مقابلے میں زیادہ دباؤ میں ہیں۔ ان کے لیے معاشی چیلنجوں کا سامنا کرنا، خاص کر ملازمتوں کی تلاش اور روزی کمانا اب بہت مشکل مرحلہ بنتا جا رہا ہے۔
ایرانی لیبر مارکیٹ کے بارے میں محمد رضا فرزانگان کی تازہ ریسرچ سے پتہ چلتا ہے کہ کم اقتصادی ترقی اور کساد بازاری کے ساتھ ساتھ کئی ثقافتی عوامل اور روایتی رول ماڈل بھی ایرانی خواتین کے لیے ملازمتوں کے حصول کو مشکل بنا رہے ہیں۔ مثلاﹰ یہ روایتی سوچ بھی کہ کسی بھی خاندان کی آمدنی کا بنیادی ذریعہ مردوں کو ہی ہونا چاہیے۔ یہ سب عوامل مل کر خواتین کو ایرانی لیبر مارکیٹ سے باہر دھکیلتے جا رہے ہیں۔
فرزانگان کے مطابق آئندہ مہینوں میں صورتحال میں بہتری کے امکانات کم اور خرابی کے خدشات زیادہ ہیں۔ اس لیے بھی کہ امریکی صدر ٹرمپ تہران حکومت پر زیادہ سے زیادہ دباؤ کی بحالی کے لیے قومی سلامتی کے ایک ایسے صدارتی میمورنڈم پر دستخط کر چکے ہیں، جس کا مقصد ایرانی تیل کی برآمدات کو مزید کم کرنا ہے، جو ایرانی ریاست کے لیے آمدنی کا بنیادی ذریعہ ہیں۔
ایران نے ابھرتی ہوئی معیشتوں کی تنظیم 'برکس' میں شمولیت کی درخواست دی دے
تہران توانائی کے شعبے میں مالی اعانتوں میں کمی کی تیاری میںایرانی حکومت نے اس اضافی دباؤ کے باعث توانائی کے شعبے میں مالی اعانتوں میں کمی کے ذریعے ریاستی اخراجات کم کرنے کا منصوبہ بنایا ہے۔ ایرانی بزنس رپورٹر مہتاب قلی زادہ نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ اس اقدام سے بھی اقتصادی صورتحال میں بہتری کا کوئی حقیقی امکان نہیں۔
قلی زادہ کے مطابق، ''21 مارچ کو شروع ہونے والے نئے فارسی سال کے بجٹ میں حکومت نے تیل کی برآمدات کا ہدف دو ملین بیرل روزانہ رکھا ہے۔ تاہم ٹرمپ کے دور صدارت میں ایسا ہونا تقریباﹰ ناممکن ہے۔‘‘
ایران امریکا کشیدگی: بھارت کو کونسے خطرات لاحق ہیں؟
مہتاب قلی زادہ نے کہا کہ ایرانی بجٹ میں خسارہ بڑھنے کے امکان اور سبسڈی میں کمی کے خاتمے کا مطلب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ملک میں مہنگائی کی ایک نئی بڑی لہر دیکھنے میں آئے۔
حالیہ برسوں میں ایرانی عوام میں ملکی سیاسی نظام کے خلاف عدم اطمینان میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔ اسی لیے وہاں 2019 اور 2022 میں بڑے پیمانے پر عوامی اجتجاجی مظاہرے دیکھنے میں آئے، جنہیں سختی سے دبا دیا گیا تھا۔
ماہر اقتصادیات فرزانگان کے الفاظ میں، ''لازمی نہیں کہ عوامی عدم اطمینان میں اضافہ حکومت پر منظم سیاسی دباؤ کی وجہ بھی بنے۔
اس لیے کہ جو گھرانے معاشی طور پر کمزور ہو چکے ہیں، ان کے پاس تو سیاسی سطح پر متحرک ہونے کے لیے مالی وسال بہت ہی کم ہیں۔‘‘امریکی پابندیوں کے باوجود ایران تیل بیچ رہا ہے، ایرانی نائب صدر
انہوں نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ متوسط طبقے کو کمزور کر دینے والی بین الاقوامی پابندیاں حکومت پر خود بخود ہی مزید دباؤ کی وجہ نہیں بنیں گی۔ ''اس کے برعکس ایسی پابندیاں سیاسی طور پر سرگرم سماجی طبقات کی معاشی بنیادیں کمزور کرتی اور سیاسی نظام کی طاقت میں نسبتاﹰ اضافہ کر دیتی ہیں۔‘‘
شبنم فان ہائن (عصمت جبیں)